خیال وخامہ
o
لایا ہوں پھر صبوحی پیمانۂ سخن میں
رندوں نے بڑھ کے لی ہے ہر بزم و انجمن میں
کیا کیا ہوئی ہے ظاہر ہر شے میں تیری قدرت
پھولوں کے رنگ و بو میں ، تتلی کے پیرہن میں
سبزے میں ، ندیوں میں ، ہر کوہ ، ہر دمن میں
صحرا کی وسعتوں میں ، ہرنوں کے بانکپن میں
تیرا جمال دیکھا ، تیرا کمال دیکھا
چڑیوں کے چہچہوں میں ، انساں کے علم و فن میں
میرا وجود کیا ہے ؟ مٹی کا ایک ذرہ
دہقاں نے بو دیا ہے خورشید کی کرن میں
دیکھیں اگر تو اب بھی اپنی تلاش میں ہے
وہ شے کہ پھونک دی ہے تو نے ہر اک بدن میں
تہمت کی عمر کیا ہے ، چھٹ جائیں گے یہ بادل
رہتا ہے دو گھڑی تک مہتاب بھی گہن میں
اے عندلیب ، پھر وہ نغمے کہ پے بہ پے ہوں
فصل بہار آئی کاشانۂ چمن میں
____________