بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الٓرٰ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ{۱} اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ قُرْئٰ نًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ{۲}
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ وَاِنْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ{۳} اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْہِ یٰٓاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَیْتُھُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ{۴} قَالَ یٰبُنَیَّ لَا تَقْصُصْ رُئْ یَاکَ عَلٰٓی اِخْوَتِکَ فَیَکِیْدُوْا لَکَ کَیْدًا اِنَّ الشَّیْطٰنَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ{۵} وَکَذٰلِکَ یَجْتَبِیْکَ رَبُّکَ وَیُعَلِّمُکَ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ وَیُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَ عَلٰٓی اٰلِ یَعْقُوْبَ کَمَآ اَتَمَّھَا عَلٰٓی اَبَوَیْکَ مِنْ قَبْلُ اِبْرٰٰھِیْمَ وَاِسْحٰٰقَ اِنَّ رَبَّکَ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ{۶}
لَقَدْ کَانَ فِیْ یُوْسُفَ وَاِخْوَتِہٖٓ اٰیٰتٌ لِّلسَّآئِلِیْنَ{۷} اِذْ قَالُوْا لَیُوْسُفُ وَاَخُوْہُ اَحَبُّ اِلٰٓی اَبِیْنَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَۃٌ اِنَّ اَبَانَا لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنِنِ{۸} اقْتُلُوْا یُوْسُفَ اَوِاطْرَحُوْہُ اَرْضًا یَّخْلُ لَکُمْ وَجْہُ اَبِیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا مِنْم بَعْدِہٖ قَوْمًا صٰلِحِیْنَ{۹} قَالَ قَآئِلٌ مِّنْھُمْ لَا تَقْتُلُوْا یُوْسُفَ وَاَلْقُوْہُ فِیْ غَیٰبَتِ الْجُبِّ یَلْتَقِطْہُ بَعْضُ السَّیَّارَۃِ اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ{۱۰}
قَالُوْا یٰٓاَبَانَا مَا لَکَ لَا تَاْمَنَّا عَلٰی یُوْسُفَ وَاِنَّا لَہٗ لَنٰصِحُوْنَ{۱۱} اَرْسِلْہُ مَعَنَا غَدًا یَّرْتَعْ وَیَلْعَبْ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰٰفِظُوْنَ{۱۲} قَالَ اِنِّیْ لَیَحْزُنُنِیْٓ اَنْ تَذْھَبُوْا بِہٖ وَاَخَافُ اَنْ یَّاْکُلَہُ الذِّئْبُ وَاَنْتُمْ عَنْہُ غٰفِلُوْنَ{۱۳} قَالُوْا لَئِنْ اَکَلَہُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَۃٌ اِنَّآ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ{۱۴}
فَلَمَّا ذَھَبُوْا بِہٖ وَاَجْمَعُوْٓا اَنْ یَّجْعَلُوْہُ فِیْ غَیٰبَتِ الْجُبِّ وَاَوْحَیْنَآ اِلَیْہِ لَتُنَبِّئَنَّھُمْ بِاَمْرِھِمْ ھٰذَا وَھُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ{۱۵} وَجَآئُ وْٓ اَبَاھُمْ عِشَآئً یَّبْکُوْنَ{۱۶} قَالُوْا یٰٓاَبَانَآ اِنَّا ذَھَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَکْنَا یُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَاَکَلَہُ الذِّئْبُ وَمَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ کُنَّا صٰدِقِیْنَ{۱۷} وَجَآئُ وْ عَلٰی قَمِیْصِہٖ بِدَمٍ کَذِبٍ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اَنْفُسُکُمْ اَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ{۱۸}
وَجَآئَ تْ سَیَّارَۃٌ فَاَرْسَلُوْا وَارِدَھُمْ فَاَدْلٰی دَلْوَہٗ قَالَ یٰـبُشْرٰٰی ھٰذَا غُلٰمٌ وَاَسَرُّوْہُ بِضَاعَۃً وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِمَا یَعْمَلُوْنَ{۱۹} وَشَرَوْہُ بِثَمَنٍم بَخْسٍ دَرَاھِمَ مَعْدُوْدَۃٍ وَکَانُوْا فِیْہِ مِنَ الزَّاھِدِیْنَ{۲۰}
وَقَالَ الَّذِی اشْتٰرہُ مِنْ مِّصْرَ لِامْرَاَتِہٖٓ اَکْرِمِیْ مَثْوٰہُ عَسٰٓی اَنْ یَّنْفَعَنَآ اَوْنَتَّخِذَہٗ وَلَدًا وَکَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ وَلِنُعَلِّمَہٗ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ{۲۱} وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗٓ اٰتَیْنٰہُ حُکْمًا وَّ عِلْمًا وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ{۲۲}
اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے، جس کی شفقت ابدی ہے۔
یہ سورہ ’الٓرٰ‘ ہے۱؎۔یہ اُس کتاب کی آیتیں ہیں جو اپنا مدعا پوری وضاحت کے ساتھ بیان کرتی ہے۔ ہم نے اِس کو عربی زبان میں قرآن بنا کر اتارا ہے تاکہ، (اے قریش مکہ)، تم اِس کو اچھی طرح سمجھ سکو۔۲؎۱-۲
(اے پیغمبر)، اِس قرآن کی بدولت جو ہم نے تمھاری طرف وحی کیا ہے، ہم تمھیں ایک بہترین سرگذشت ۳؎سناتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ (اِس طرح کی چیزوں سے) تم اِس سے پہلے بالکل بے خبر تھے۔۴؎ یہ اُس وقت کا قصہ ہے، جب یوسف نے اپنے باپ سے۵؎ کہا: ابا جان، میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے ہیں اور سورج اورچاند ہیں۔ میں نے اُن کو دیکھا کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۶؎۔ جواب میں اُس کے باپ نے کہا: بیٹا، اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا، ایسا نہ ہو کہ وہ تمھارے خلاف کوئی سازش کرنے لگیں۷؎۔ اِس میں شبہ نہیں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ (تمھارا یہ خواب بتا رہا ہے کہ)تمھارا پروردگار تمھیں اِسی طرح برگزیدہ کرے گا ۸؎اور تمھیں باتوں کی حقیقت تک پہنچنا سکھائے گا ۹؎اور تم پر اور آل یعقوب پر اپنی نعمت تمام کرے گا۱۰؎، جس طرح وہ اِس سے پہلے تمھارے بزرگوں ابراہیم اور اسحق پر کر چکا ہے۔ یقینا تیرا پروردگار علیم و حکیم ہے۔ ۳-۶
حقیقت یہ ہے کہ یوسف اور اُس کے بھائیوں ( کی اِس سرگذشت) میں پوچھنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۱۱؎۔ جب اُس کے بھائیوں نے آپس میں کہا کہ یوسف اور اُس کا بھائی،۱۲؎ ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ محبوب ہیں، حالاں کہ ہم ایک پورا جتھا ہیں۱۳؎۔یقیناہمارا باپ ایک کھلی ہوئی غلطی میں مبتلا ہے۔ (اِس کا علاج یہی ہے کہ) یوسف کو قتل کر دو یا اُس کو کہیں پھینک دو، تمھارے باپ کی توجہ (اِس سے) صرف تمھاری طرف ہو جائے گی اور اِس کے بعد تم لوگ بالکل ٹھیک ہو جائو گے۔۱۴؎ (اِس پر) اُن میں سے ایک کہنے والے نے کہا: یوسف کو قتل نہ کرو ، اگر کچھ کرنا ہی ہے تو اُس کو کسی اندھے کنویں کی تہ میں پھینک دو، کوئی راہ چلتا قافلہ اُسے نکال لے جائے گا۔۱۵؎ ۷-۱۰
(اِس کے بعد وہ گئے اور) اُنھوں نے اپنے باپ سے کہا: ابا جان، کیا بات ہے کہ یوسف کے معاملے میں آپ ہم پر بھروسا نہیں کرتے، دراں حالیکہ ہم اُس کے سچے خیرخواہ ہیں۔ اُسے کل ہمارے ساتھ جانے دیجیے، ذرا کچھ چر چگ لے اور کھیلے کودے ،۱۶؎ ہم اُس کی حفاظت کے ذمہ دار ہوں گے۔باپ نے کہا: مجھے یہ چیز افسردہ کر دیتی ہے کہ تم اُسے لے جائو اور ڈرتا ہوں کہ تم اُس سے غافل ہو اور اُسے بھیڑیا کھا جائے۱۷؎۔ اُنھوں نے جواب دیا: اگر اُسے بھیڑیے نے کھا لیا، جبکہ ہم ایک جتھا ہیں تو ہم بڑے ہی نامراد ہوں گے۔۱۱-۱۴
اِس طرح (اصرار کرکے) جب وہ یوسف کو لے گئے اور بالآخر طے کر لیا کہ اُس کو کنویں کی تہ میں پھینک دیں۱۸؎ اور (اُدھر)ہم نے اُس کو وحی کر دی کہ تم (ایک دن) اِن کی اِس حرکت سے اِنھیں آگاہ کرو گے، جب اِنھیں کچھ خیال بھی نہ ہو گا۱۹؎ اور وہ روتے پیٹتے کچھ رات گئے اپنے باپ کے پاس پہنچ گئے۲۰؎ تو اُنھوں نے (آ کر) کہا:ابا جان، ہم دوڑ کا مقابلہ کرنے میں لگ گئے تھے اور یوسف کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا کہ اتنے میں بھیڑیا (آیا اور) اُس کو کھا گیا۲۱؎۔ آپ تو ہماری بات کا یقین نہ کریں گے، اگر چہ ہم سچے ہوں۲۲؎۔ وہ (اِس بات کو ثابت کرنے کے لیے) یوسف کے قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون بھی لگا کر لے آئے تھے۔ باپ نے کہا: (نہیں)، بلکہ یہ تو تمھارے دل نے تمھارے لیے ایک بات گھڑ لی ہے۔ سو اب صبر جمیل (کی توفیق ملے)۲۳؎ اور جو کچھ تم بیان کررہے ہو، اُس پر خدا ہی سہارا ہے۲۴؎۔ ۱۵-۱۸
(اُدھر) ایک قافلہ آیا اور اُنھوں نے اپنا پانی بھرنے والا بھیجا۲۵؎۔ سو اُس نے اپنا ڈول (کنویں میں) ڈالا، (پھر یوسف کو دیکھ کر) پکار اٹھا:خوش خبری ہو، یہ تو ایک لڑکا ہے۔ (چنانچہ) اُنھوں نے (اُس کو نکالا اور) اُس کو پونجی سمجھ کر چھپا لیا ۲۶؎اور جو کچھ وہ کر رہے تھے، اللہ اُس سے خوب واقف تھا۔ (پھر لے کر مصر پہنچ گئے) اور اُس کو تھوڑی سی قیمت ، چند درہموں کے عوض بیچ دیا اور وہ اُس کے معاملے میں کوئی رغبت نہیں رکھتے تھے۲۷؎۔ ۱۹-۲۰
مصر کے لوگوں میں سے جس نے اُسے خریدا۲۸؎، اُس نے اپنی بیوی ۲۹؎سے کہا: اِس کو خاطر سے رکھنا، امید ہے کہ ہم کو نفع پہنچائے یا ہم اِسے بیٹا ہی بنا لیں۳۰؎۔ اِس طرح یوسف کو ہم نے اُس ملک میں جگہ دی، (اِس لیے کہ اُسے برگزیدہ کریں)۳۱؎ اور اِس لیے کہ اُسے باتوں کی حقیقت تک پہنچنا سکھائیں۳۲؎۔ (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ اپنے ارادے کو نافذ کرکے رہتا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ (چنانچہ اِسی طرح ہوا) اور جب وہ پختگی کو پہنچ گیا تو ہم نے اُس کو حکم اور علم عطا فرمایا۳۳؎۔ اُن کو جو خوبی والے ہوں، ہم اِسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں۔۲۱-۲۲
۱؎ سورۂ یونس اور سورئہ ہود کی طرح اِس سورہ کا نام بھی ’الٓرٰ‘ ہے۔ اِس سے یہ اشارہ مقصود ہے کہ اِس کا مضمون بھی اصلاً وہی ہے جو پچھلی سورتوں میں زیر بحث رہا ہے۔ اِس نام کے معنی کیا ہیں؟ اِس کے متعلق اپنا نقطۂ نظر ہم سورۂ قرہ (۲)کی آیت ۱کے تحت تفصیل کے ساتھ بیان کر چکے ہیں۔
۲؎ سورہ کے مخاطب قریش ہیں۔ یہ اُنھی پر امتنان و احسان کا اظہار ہے جس میں یہ تنبیہ بھی چھپی ہوئی ہے کہ نہیں سمجھو گے تو یاد رکھو، اِس کے بعد تمھارے پاس کوئی عذر نہیں ہو گا جسے خدا کے حضور میں پیش کر سکو۔
۳؎ یہ کس لحاظ سے بہترین سرگذشت ہے؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کے جن پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی ہے، اُن کا خلاصہ درج ذیل ہے:
۱۔ اِس میں حسن و عشق کی چاشنی ہے، مگر یوسف علیہ السلام جو اِس قصے کا مرکزی کردار ہیں، اُن کی شخصیت اِسے پاکیزگیِ سیرت و کردار کا ایک ایسا مرقع بنا دیتی ہے کہ پڑھنے والا اِس کے اندر اپنے ایمان کے لیے غذا اور اپنی روح کے لیے لذت و حلاوت محسوس کرتا ہے۔
۲- یوسف علیہ السلام کی فطرت کے جو جوہر اِس قصے میں نمایاں ہوتے ہیں، وہ ایسے شان دار ہیں کہ ہر پڑھنے والے کے اندر اُن کی تقلید کا جذبہ ابھرتا ہے اور خاص بات یہ ہے کہ یہ تقلید ناممکن نہیں ، بلکہ ممکن محسوس ہوتی ہے۔
۳۔ یہ سرگذشت بتاتی ہے کہ انسان کا ظاہری حسن تو زنان مصر کی آنکھیں بھی دیکھ لیتی ہیں، لیکن اُس کے باطن کا حسن اُس وقت نمایاں ہوتا ہے، جب وہ زندگی کے مختلف مراحل میں اُس کی آزمایشوں سے گزرتا ہے۔ سیدنا یوسف کی شخصیت کا یہ حسن بھی اِسی طرح نمایاں ہوا ہے اور اِس سرگذشت میں وہ ذہانت، صداقت، پاکیزگی، پاک دامنی اور انتقام کی قدرت کے باوجود عفو و درگذر کی ایک زندہ جاوید مثال بن کر ابھرے ہیں۔
۴۔ اِس میں جو حالات و واقعات پیش آئے ہیں، وہ نہایت حیرت انگیز ہیں، مگر کسی جگہ محسوس نہیں ہوتا کہ اُن میں کوئی چیز بے جوڑ اور بے ربط ہو گئی ہے یا حالات کی فطری رفتار کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی۔
۵۔ اِس کے اولین مخاطبین قریش تھے۔ اُن کے لیے تو گویا اِسے ایک آئینہ بنا دیا گیا ہے، جس میں وہ اپنی عاقبت بھی دیکھ سکتے تھے اور اسلام اور مسلمانوں کا مستقبل بھی۔ اِس لحاظ سے یہ ایک صریح پیشین گوئی تھی جسے آیندہ دس سال کے واقعات نے حرف بہ حرف صحیح ثابت کرکے دکھادیا۔ چنانچہ اِس کے نزول پر ڈیڑھ دو سال ہی گزرے تھے کہ قریش نے برادران یوسف کی طرح دارالندوہ میں رسول اللہ کے قتل کی سازش کی، مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اُن کے شر سے محفوظ رکھا۔ آپ مکہ سے نکلے اور غار ثور میں جا چھپے ۔ اِس کے بعد وہاں سے نکل کر مدینہ پہنچ گئے۔ پھر قریش کی توقعات کے بالکل خلاف آپ کو وہاں ایسا وقار اور اقتدار حاصل ہوا کہ چشم فلک نے اُس کی نظیر نہیں دیکھی۔ اہل مکہ کو طوعاً و کرہاً آپ کی اطاعت میں داخل ہونا پڑا، یہاں تک کہ فتح مکہ کے موقع پر ٹھیک وہی صورت پیدا ہو گئی جو مصر کے پایۂ تخت میں یوسف علیہ السلام کے سامنے اُن کے بھائیوں کی حاضری کے موقع پر پیدا ہوئی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کے لوگوں سے پوچھا: بتائو، میں تمھارے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟ اُنھوں نے عرض کیا: ’أخ کریم و إبن أخ کریم‘،آپ ایک عالی ظرف بھائی اور عالی ظرف بھائی کے بیٹے ہیں۔اِس پر آپ نے فرمایا: میں تم سے وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی: ’لا تثریب علیکم الیوم، إذھبوا فأنتم الطلقائ‘ جائو، تم آزاد ہو، آج تم پر کوئی گرفت نہیں۔
۴؎ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ قرآن کے مخاطبین اِس قصے پر اِس پہلو سے بھی غور کریں کہ اگر آپ وحی الہٰی سے مشرف نہیں ہوئے تو آپ کے لیے یہ کس طرح ممکن ہوا کہ اِس استقصا اور اِس صحت و صداقت کے ساتھ یہ قصہ سنا سکیں؟ آخر اِس قرآن کے نزول سے پہلے بھی آپ کم و بیش چالیس سال اپنی قوم میں گزار چکے تھے۔ آپ کو اِس سرگذشت سے کچھ بھی واقفیت ہوتی تو اِس طرح کی کوئی بات اِس مدت میں بھی کبھی تو آپ کی زبان پر آتی۔ آپ کے مخاطبین جانتے تھے کہ جس وضاحت اور جس یقین و اذعان کے ساتھ آپ یہ قصہ سنا رہے ہیں، اُس کے کوئی آثار اِس سے پہلے کبھی آپ کی کسی گفتگو میں نہیں دیکھے گئے۔ چنانچہ قرآن نے توجہ دلائی ہے کہ سننے والے اِس پر بھی غور کریں۔
۵؎ یعنی یعقوب علیہ السلام سے۔ حضرت یوسف اُن کے بیٹے، حضرت اسحاق کے پوتے اور حضرت ابراہیم کے پرپوتے تھے۔ بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب کے بارہ بیٹے اُن کی چار بیویوں سے تھے۔ اُن میں سے حضرت یوسف اور اُن کے چھوٹے بھائی بن یمین ایک بیوی سے تھے اور باقی دس دوسری بیویوں سے۔ یہ لوگ فلسطین کے علاقے حبرون کی وادی میں رہتے تھے۔ اِسے اب الخیل کہا جاتا ہے۔ یہاں جو واقعہ بیان کیا جا رہا ہے، بائیبل کے علما کی تحقیق کے مطابق وہ ۱۸۹۰ قبل مسیح کے قریب زمانے میں کسی وقت پیش آیا تھا۔ حضرت یوسف کی عمر اُس وقت سترہ برس کی تھی۔
۶؎ یوسف علیہ السلام نے یہ خواب جس طرح سنایا ہے، اُس سے اُن کی طبیعت کے اندر جو تواضع تھی، وہ پوری طرح نمایاں ہو گئی ہے۔ اُنھوں نے پہلے صرف اتنی بات کہی کہ میں نے گیارہ ستارے اور سورج اور چاند دیکھے ہیں۔ پھر آگے کی بات سے چونکہ اُن کی بڑائی سامنے آ رہی تھی، اِس لیے کسی قدر رک کر جھجکتے ہوئے بیان کیا ہے کہ میں نے دیکھا کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔ آیت میں فعل ’رَاَیْتُ‘کے اعادے نے یہ جھجک پوری طرح ظاہر کر دی ہے۔
۷؎ اِس سے معلوم ہوا کہ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی پرخاش اُن کے ساتھ واضح تھی۔ اُن کی اعلیٰ صلاحیتوں کو دیکھ کر حضرت یعقوب اُن سے غیر معمولی طور پر محبت کرنے لگے تھے اور یہی چیز اُن کے بھائیوں کے لیے اُن کے ساتھ حسد کا باعث بن گئی تھی۔
۸؎ یعنی نبوت عطا کرے گا۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت یعقوب نے خواب سنتے ہی اندازہ فرما لیا کہ یہ منصب نبوت پر سرفرازی کا اشارہ ہے۔
۹؎ یعنی اِس رویا کی حقیقت بھی تم پر واضح ہو جائے گی اور اِس نوعیت کی دوسری چیزوں کو سمجھنے کا علم بھی عطا ہو گا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔رویا چونکہ علم نبوت کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے اور رویا میں حقائق مجاز کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں جن کو سمجھنا ایک خاص ذہنی مناسبت کا مقتضی ہے، اِس وجہ سے اللہ تعالیٰ حضرات انبیا علیہم السلام کو تعبیر رویا کا ایک خاص ذوق اور ایک خاص علم بھی عطا فرماتاہے۔‘‘(تدبرقرآن۴/ ۱۹۲)
۱۰؎ یہ خاص تعبیر ہے جو دین و شریعت کی نعمت کے لیے قرآن کے دوسرے مقامات میں بھی اختیار کی گئی ہے۔ انسان کی فطرت میں یہ دین بالاجمال ودیعت ہے۔ انبیا علیہم السلام چونکہ اِس کی تمام فروع اور تفصیلات کے ساتھ اِس کو بالکل واضح اور متعین کر دیتے ہیں، اِس لیے قرآن اِسے اتمام نعمت سے تعبیر کرتا ہے۔
۱۱؎ یعنی اُن لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جن کے ذہنوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی دعوت سے متعلق اِس طرح کے سوالات پیدا ہو رہے ہیں کہ آگے کیا ہو گا اور کس طرح ہو گا۔ اِس دعوت کے جن شان دار نتائج کی طرف اشارے کیے جا رہے ہیں، وہ کیسے نمودار ہوں گے، جبکہ اِس وقت تو اِس کے علم بردار وقت کے متمردین کے ہاتھوں ہر قسم کے آلام و مصائب کا ہدف بنے ہوئے ہیں اور ہر طرف اُنھی عقائد و افکار کا غلبہ نظر آتا ہے جنھیں یہ لوگ ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔
۱۲؎ اِس سے یوسف علیہ السلام کے حقیقی بھائی بن یمین مراد ہیں۔ یہ اُن سے کئی سال چھوٹے تھے۔
۱۳؎ بدویانہ زندگی میں آدمی کی قوت کا انحصار جوان بیٹوں ہی پر ہوتا تھا۔ وہی دشمنوں کے مقابلے میں اُس کے کام آتے تھے۔ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اِسی کے پیش نظر کہا ہے کہ والد، معاذ اللہ، ایسے نا عاقبت اندیش ہو گئے ہیں کہ بیٹوں کا جو جتھا مشکل وقت میں اُن کے کام آ سکتا تھا، اُسے تو نظر انداز کر رہے ہیں اور اپنی محبت اُن چھوٹے بچوں پر نچھاور کرتے ہیں جو اُن کے کسی کام نہیں آسکتے، بلکہ خود ہی حفاظت کے محتاج ہیں۔
۱۴؎ اصل الفاظ ہیں: ’تَکُوْنُوْا مِنْم بَعْدِہٖ قَوْمًا صٰلِحِیْنَ‘۔ یہ فقرہ سابق جواب امر پر معطوف ہے، اِس لیے اِس کا حکم اُس سے مختلف نہیں ہو سکتا۔چنانچہ لفظ ’صَالِح‘یہاں نیک کے معنی میں نہیں، بلکہ ٹھیک اپنے لغوی مفہوم میں آیا ہے۔یعنی اِس کے بعد ہم ایسے لوگ ہوں گے جن کا حال بالکل ٹھیک ہو گا، تمام پریشانیاں دور ہو جائیں گی اور یہ کانٹا جو اِس وقت چبھ رہا ہے، نکل جائے گا۔ ہم نے ترجمے میں یہی مدعا ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔
۱۵؎ یہ مشورہ بتا رہا ہے کہ دس بھائیوں میں سے کسی ایک کے دل میں یوسف علیہ السلام کے لیے نرم گوشہ تھا۔ وہ یہ تو ضرور چاہتا تھا کہ پہلو کا یہ کانٹا نکل جائے، مگر اِس حد تک جانے کے لیے تیار نہیں تھا کہ اِس کے لیے اُن کی جان لے لے۔
۱۶؎ بدویانہ زندگی میں دل بہلانے کا یہ طریقہ نہایت مقبول رہا ہے کہ بستی سے باہر جا کر دشت و صحرا یا کسی نخلستان میں کچھ وقت اِس طرح گزارا جائے کہ سب مل کر کھائیں پکائیں اور کھیلیں کودیں۔ یہ وہی چیز ہے جسے ہمارے ہاں پکنک سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
۱۷؎ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ گردوپیش کے علاقے میں بھیڑیوں کی کثرت تھی اور وہ باہر جانے والوں پر وقتاً فوقتاً حملے کرتے رہتے تھے۔
۱۸؎ یعنی لانے کے بعد اگرچہ پھر کچھ اختلاف ہوا، لیکن بالآخر یہی بات طے ہوئی کہ کنویں میں ڈال دینا ہی بہتر ہے۔ بائیبل اور تالمود کی روایات کے مطابق یہ کنواں سکم کے شمال میں دو تن (موجودہ دثان) کے قریب واقع تھا۔
۱۹؎ یعنی اُس وقت آگاہ کرو گے، جب اِن کے تصور میں بھی نہیں ہو گا کہ جس بھائی کو ہم نے اندھے کنویں میں ڈال دیا تھا، وہ اِس مقام بلند پر فائز ہے اور ہم سے بات کر رہا ہے۔
۲۰؎ رات گئے واپس آنے میں غالباً یہ مصلحت رہی ہو گی کہ باپ اگر کسی کو تلاش کے لیے بھیجنا چاہے تو اِس کا بھی امکان باقی نہ رہے۔
۲۱؎ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب نے جو کچھ کہا تھا، اُنھوں نے اُسی سے بات بنا لی کہ باپ کے ذہن میں بھیڑیے کا اندیشہ پہلے سے موجود ہے، اِس لیے جلد باور کر لیں گے۔
۲۲؎ یہ دل کا چور ہے جو زبان پر آگیا ہے۔
۲۳؎ آیت میں ’صَبْرٌ جَمِیْلٌ‘ کا ترجمہ اچھا صبر ہو سکتا ہے، یعنی وہ صبر جس میں فریاد نہ ہو، گلہ شکوہ نہ ہو، جزع فزع اور نوحہ و ماتم نہ ہو۔یہ اصل میں مبتدا کے طور پر آیا ہے جس کی خبر محذوف ہے۔ ہم نے ترجمے میں اُسے کھول دیا ہے۔
۲۴؎ مطلب یہ ہے کہ اب یہ عقدہ اُسی کی مدد سے کھل سکتا ہے کہ تم نے کیا کیا ہے اور کیا بات بنا کر لے آئے ہو۔
۲۵؎ اصل میں لفظ ’وَارِد‘ آیا ہے۔ اِس کے اصل معنی تو کسی گھاٹ یا چشمے پر اترنے والے کے ہیں، لیکن یہاں یہ اُس شخص کے لیے استعمال ہوا ہے جو قافلے والوں کی طرف سے پانی کے انتظام کے لیے مقرر کیے جاتے تھے۔ بائیبل اور تالمود، دونوں کی روایت ہے کہ یہ قافلہ جلعاد (شرق اردن) سے مصر جا رہا تھا جس کا دارالسلطنت اُس زمانے میں ممفس تھا جس کے کھنڈر قاہرہ کے جنوب میں ۲۱ کلومیٹر کے فاصلے پر پائے جاتے ہیں۔
۲۶؎ اِس لیے چھپا لیا کہ گردوپیش سے آ کر کوئی شخص اُس پر اپنا دعویٰ پیش نہ کر دے۔
۲۷؎ اِس لیے بے رغبت تھے کہ جو کچھ ملا تھا، بغیر کسی قیمت کے ملا تھا، لہٰذا جو خریدار بھی سب سے پہلے سامنے آیا اور اُس نے جو کچھ بھی پیش کر دیا، اُسی پر بیچ کر فارغ ہو گئے۔
۲۸؎ بائیبل میں اُس شخص کا نام فوطیفار لکھا ہے۔ یہ شاہی جلو داروں کا کوئی بڑا افسر تھا۔ آگے قرآن نے اِسے ’عزیز‘ کے لقب سے یاد کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانے کے مصر میں یہ کوئی خاص منصب تھا جو سلطنت کے امرا کو دیا جاتا تھا۔
۲۹؎ اِس کا نام تالمود میں زلیخا (Zelicha)لکھا ہے۔
۳۰؎ اِس سے واضح ہے کہ حضرت یوسف کو دیکھتے ہی اُس نے سمجھ لیا کہ یہ کوئی غلام نہیں ہے، بلکہ شریف خاندان کا لڑکا ہے جو کسی وجہ سے اِن بیچنے والوں کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ مزید یہ کہ اُس وقت تک وہ غالباً بے اولاد تھا، اِس لیے اُس نے سوچا کہ یہ لڑکا اُس کی امیدوں پر پورا اترا تو وہ اِسے متبنیٰ کر لے گا۔
۳۱؎ یہ جملہ معللہ کا معطوف علیہ ہے جسے غایت وضاحت کی بنا پر حذف کر دیا ہے۔
۳۲؎ یعنی بدویت سے نکال کر مصر جیسے متمدن اور ترقی یافتہ ملک میں جگہ دی تاکہ باتوں کی تہ تک پہنچ جانے کی جو غیر معمولی صلاحیت اُس کے اندر ودیعت ہے، وہ نمایاں ہو کر مصر کی بادشاہی کے لیے بھی زمین ہموار کر دے اور اُسے ایک متمدن علاقے میں کار نبوت کے لیے بھی پوری طرح تیار کر دے۔
۳۳؎ یعنی وہ علم جو انسان کی رہنمائی کے لیے آسمان سے نازل ہوتا ہے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ