لفظ ’دیت‘ ’وَدٰی یَدِیْ‘ کا مصدر ہے۔ جیسے ’عِدَۃ‘، ’وَعَدَ یَعِدُ‘ کا مصدر ہے۔ اس کے معنی بہنے کے ہیں۔ اکثر مفعول کی وہی شکل ہوتی ہے جو مصدر کی۔ چنانچہ ’مؤَدّی‘ کو ’دِیّۃ‘ کہا جاتا ہے۔ ’وَدْی‘ کے لغوی معنی ہیں: بہنا۔ چنانچہ پیشاب کے بعد جو پانی انسان سے نکلتا ہے، اسے ’وَدِی‘ کہا جاتا ہے۔ (وادی اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں پانی بہتا ہو)۔
’’تاج العروس‘‘ (۴۰/ ۱۷۸) میں ہے کہ دیت اس مال کو کہتے ہیں جو مقتول کی جان کے عوض قاتل کی طرف سے مقتول کے ولی کو دیا جاتا ہے۔ وہ خون جو بہتا ہے اور جس کے بدلہ میں جو مال دیا جاتا ہے، اسے دیت کہتے ہیں۔
ابن حزم کے الفاظ میں، لغت میں لفظ ’دیت‘ کا تعلق نہ تو محدود مقدار سے ہے نہ محدود جنس سے ہے اور نہ محدود مدت سے ۔ ۱ لفظ ’دیت‘ قرآن حکیم میں نکرہ استعمال ہوا ہے ،جیسا کہ علامہ جاوید احمد غامدی نے کہا ہے کہ اسم نکرہ اپنے معنی کے تعین، لغت، عرف اور سیاق کلام کا محتاج ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن کے مخاطب کے عرف میں جو شے دیت کے نام سے مشہور ہے، وہ مقتول کے ورثا کے سپرد کی جائے گی۔ اسلام نے نہ تو دیت کی کسی خاص مقدار کا ہمیشہ کے لیے تعین کیا ہے اور نہ ہی مرد اور عورت، غلام اور آزاد اور کافر و مومن کی دیتوں میں کسی فرق کی پابندی ہمارے لیے لازم ٹھہرائی ہے۔
لغوی لحاظ سے قتل عمد اور قتل خطا میں جو خون بہتا ہے، اس کے بدلے میں جو مال دیا جاتا ہے وہ دیت کہلاتا ہے۔ اردو میں اس کا ترجمہ خون بہنا اور انگریزی میں blood wit ہے ۔ اس سلسلہ میں معاشی نفع و نقصان قطعی طور پر درخور اعتنا نہیں۔ جب دیت کو مرنے والے کی جان کا بدل قرار دیں گے تو مالی نفع ہو یا نقصان، وہ ہر صورت میں ایک ہی رہے گی۔
’’مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ‘‘ (۱۴/ ۷۰) میں ہے کہ لفظ ’قصاص‘ عدل اور مساوات پر دلالت کرتا ہے۔ جب سب مقتول خون میں مساوی ہیں تو خون ہی کا بدل دیت ہے۔ شیخ ابوزہرہ اپنی کتاب ’’الجریمۃ والعقوبۃ فی الفقہ الاسلامی: العقوبۃ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ دیت خون کی سزا ہے اور ’الدیۃ ھی القصاص بالمعنی دون الصورۃ‘، یعنی دیت معناً قصاص ہی ہے، اگرچہ لفظ مختلف ہے۔
قرآن کے اکثر و بیش تر مفسرین، مترجمین اور فقہا نے دیت کا ترجمہ خون بہا (blood wit) ہی کیا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے حنفی فقہ کی تین جغادری کتابوں کا حوالہ دیا ہے۔ امام ابوبکر جصاص کی ’’احکام القرآن‘‘ (۲/ ۲۳۷) میں ہے: ’الدّیۃ قیمۃ النفس‘، یعنی دیت جان کی قیمت ہے۔ امام سرخسی ’’المبسوط‘‘ (۲۷/ ۶۳) میں فرماتے ہیں کہ دیت جان کی حرمت کی حفاظت کی خاطر خون کے بدلے کا نام ہے۔ امام کاسانی ’’البدائع الصنائع‘‘ (۷/۲۵۷) میں فرماتے ہیں: ’الدیۃ ضمان الدم‘ (دیت خون کی ضمانت ہے)، یعنی اگر کوئی کسی کا خون بہا دے تو جرمانے (غرام مغرمۃ) کی صورت میں جو مال ادا کیا جائے، وہ دیت کہلائے گا۔
دیت کا مقصد یہ ہے کہ جان کی حرمت برقرار رہے اور کوئی غلطی سے بھی یہ کام نہ کرنے پائے اور وارثوں کی دل جوئی ہو۔ جیسا کہ شاعر کا مصرع ہے:
نأسو بأموالنا آثار أیدیْنا
’’ہم اپنے ہاتھوں کے کیے پر اپنے مال سے دل جوئی کرتے ہیں۔‘‘
دیت اسلام سے پہلے عرب میں رائج تھی۔ بعض قبائل اپنے شرف کی بنیاد پر دہری دیت لینے اور محض فضل و عنایت کے طور پر دہری دیت دینے کے عادی تھے۔ ’’المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام‘‘ (۵/ ۵۹۲) کے مطابق لونڈی کے بیٹے کی دیت آزاد سے آدھی اور عورت کی دیت مرد کی دیت سے آدھی ہوتی تھی۔ ان کے یہاں مولیٰ، یعنی حلیف کی دیت پانچ اونٹ اور صریح، یعنی جس کا نسبی تعلق کسی قبیلے کے ساتھ قطعی ہو، دس اونٹ تھی۔
عبدالمطلب نے قرعہ اندازی کی وجہ سے عبداللہ کی دیت ۱۰۰ اونٹ مقرر کی۔ چنانچہ قریش اور عرب میں دیت سو اونٹ رواج پا گئی۔ نبی کریم نے اسی دیت کو برقرار رکھا۔
زمانۂ جاہلیت میں مرد اور عورت کی دیت میں مالی منفعت کے پیش نظر فرق روا رکھا گیا۔ ان کا فلسفہ یہ تھا کہ چونکہ عورت کمائی، یعنی لوٹ مار میں شریک نہیں ہوتی، اس لیے اس کی دیت بھی آدھی ہونی چاہیے۔ اسی فلسفہ کے تحت عورت کو وراثت سے بھی محروم رکھا جاتا تھا۔ اسلام نے دیت کو جان کا بدلہ قرار دیا۔ جس طرح قصاص میں عورت اور مرد کی جان میں کوئی فرق نہیں، اسی طرح خون بہا (دیت) میں بھی فرق نہیں۔ اسلام کے پیش نظر انسانی پہلو ہے، نہ کہ مالی پہلو۔
’’مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ‘‘ (۱۴/ ۷۹) میں ہے:
’’پس ایک کی دیت دوسرے کی دیت جیسی مقرر کی گئی، کیونکہ ایک کا خون دوسرے کے مانند ہے، جس کی وجہ سے خون اور دیتوں میں ضمنی طور پر مساوات کے معنی نکلتے ہیں اور یہ مساوات اس قصاص کا تقاضا ہے جو لوگوں کو اس زندگی کا پیغام دیتا ہے جو مہلک فتنوں سے بچاتی ہے۔‘‘
سورۂ بقرہ میں اللہ کا ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْْءٌ فَاتِّبَاعٌم بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآءٌ اِلَیْْہِ بِاِحْسَانٍ. (۲: ۱۷۸)
’’اے ایمان والو، جو لوگ قتل کر دیے جائیں، ان کے بارے میں تم پر قصاص فرض کیا گیا ہے۔ اگر آزاد آدمی نے آزاد آدمی کو قتل کیا ہے تو اس کے بدلہ میں وہی قتل کیا جائے گا۔ اگر غلام قاتل ہے تو غلام ہی قتل کیا جائے گا۔ عورت نے قتل کیا ہے تو عورت ہی قتل کی جائے گی اور پھر اگر ایسا ہو کہ قاتل کو مقتول کے وارث سے کہ (رشتہ انسانی میں) اس کا بھائی ہے، معافی مل جائے تو (مقتول کے) وارث کے لیے دستور کے مطابق (خون بہا کا) مطالبہ ہے اور (قاتل کے لیے) خوش معاملگی کے ساتھ ادا کرنا ہے۔‘‘
یہاں ایک ایسے معاملے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جس میں ایک بری رسم کی بیخ کنی مقصود ہے۔ عرب میں رواج تھا کہ بعض قبائل اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا سمجھتے تھے۔ چنانچہ جب ان کا غلام قتل ہو جاتا تو وہ کہتے کہ ہم اس کی جگہ آزاد کو قتل کریں گے۔ ایسے ہی اگر آزاد غلام کو قتل کر دیتا تو اس آزاد کو قتل نہ کیا جاتا تھا۔ جب اسلام نے قصاص کا حکم دیا تو سب امتیازات کو مٹا دیا اور فرمایا کہ قاتل آزاد ہو تو وہی قتل کیا جائے۔ غلام قاتل ہو تو وہی قتل کیا جائے۔ عورت قاتل ہے تو وہی قتل کی جائے۔ قاتل خواہ کوئی ہو، یہ عذر پیش نہیں کر سکتا کہ اس کا خون مقتول سے زیادہ قیمتی ہے:
خون شہ رنگین تر از مزدور نیست
قرآن حکیم کا مسلک ہے: ’اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ‘ ۲ (جان کے بدلے جان)۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
’’قصاص کے حکم میں انسانی مساوات کا اعلان اور نسل و شرف کے تمام امتیازات سے انکار ہے جن کی وجہ سے انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ آزاد ہو یا غلام، مرد ہو یا عورت، بڑا ہو یا چھوٹا، وضیع ہو یا شریف، انسان ہونے کے لحاظ سے سب برابر ہیں۔ اس لیے قصاص میں کوئی امتیاز تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
’’معانی القرآن‘‘ (۲/۴۱) میں معروف لغوی یحییٰ الفرّاء (م ۲۰۷ھ) فرماتے ہیں:
’’قصاص کا مقصد جان کا بچاؤ ہے۔ اس میں آزاد اور غلام دونوں برابر ہیں۔ جانوں کے بارے میں ایک دوسرے پر فضیلت غیرمعتبر ہے دلیل اس کی یہ ہے کہ اگر ایک جماعت کسی ایک شخص کو قتل کر دے تو اس کے بدلہ میں ان سب کو قتل کیا جائے گا، کیونکہ اللہ کا قول ہے: ’اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ‘ (جان کے بدلے جان)۔‘‘
اس آیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اگر کوئی مرد آزاد قتل کیا گیا ہے تو اس کے بدلے کسی مرد آزاد کو قتل کیا جائے خواہ قاتل غلام ہو اور اگر مقتول غلام ہے تو کسی غلام کو قتل کیا جائے خواہ قاتل مرد آزاد ہی کیوں نہ ہو۔ قرآن کریم عام اصول مساوات پر زور دیتا ہے اور مقتول کی پوزیشن کا کوئی خیال نہیں رکھتا۔
امام ابن حزم ’’المحلٰی‘‘ (۱۰/ ۳۵۰) میں آیت: ’اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ‘ کے تحت فرماتے ہیں:
’’مسلمان کو ذمّی کے بدلے قتل کیا جائے گا۔ذمّی اگرچہ کافر ہے اگر وہ ناحق قتل ہوا تو مظلوم ہے ’ومن قتل لہ قتیل فھو بخیر النظرین: إما یؤدی وإما یقاد‘ (جس کا کوئی آدمی قتل ہو جائے تو اسے دو چیزوں کا اختیار ہے یا وہ دیت لے لے یا انتقام)۔ اس حدیث میں لفظ ’مَن‘ مطلق ہے جس میں مومن اور کافر، مرد اور عورت چھوٹے اور بڑے سب شامل ہیں۔‘‘
’’المحلّی‘‘ (۱۰/ ۳۵۲۔ ۳۵۳) میں وہ فرماتے ہیں:
’’احناف کی رسوا کن راے ہے کہ وہ کافر کے ہاتھ کے بدلے مسلمان کے ہاتھ کو کاٹنے کا حکم تو دیتے ہیں اور مسلمان آزاد عورت کے ہاتھ کے بدلے مسلمان کا ہاتھ کاٹنے سے روکتے ہیں، حالاں کہ اللہ کا قول ہے ’اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ‘ ۳ (مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں)، سب کے سب، فاسق بھی، صالح بھی، آزاد بھی اور غلام بھی۔‘‘
آیت مذکور میں سب سے خوب صورت تبصرہ امام ابن تیمیہ نے کیا ہے۔ ’’مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ‘‘ (۱۴/ ۷۳) میں ہے:
’’کسی قبیلے کے پاس اگر افراد کی کثرت ہوتی اور ساز و سامان بھی ہوتا اور اس کے ایک غلام کو کسی قبیلے کا غلام قتل کر دیتا تو وہ اس کے بدلے دوسرے قبیلے کے آزاد مرد کو قتل کرنے پر زور دیتے اور اگر ان کے قبیلے کی کسی عورت کو دوسرے قبیلے کی عورت قتل کر دیتی تو وہ اس کے بدلے ان کے مرد کو قتل کرنے پر زور دیتے۔ تو اس پر اس آیت کا نزول ہوا۔‘‘
اگلے صفحہ ۷۴ پر وہ فرماتے ہیں:
’’مقتول کا قصاص عصبیت اور جہالت کی بنیاد پر دو باہم دست و گریبان قبیلوں کے درمیان واقع ہوتا۔ اور ان دونوں کے درمیان آزادوں، غلاموں اور عورتوں کا قتل ہوتا۔ چنانچہ اللہ نے دونوں قبیلوں کے درمیان عدل کا حکم دیا، وہ اس طرح کہ آزاد کے بدلے آزاد اور عورت کے بدلے عورت کی دیت ادا کی جائے۔ ایک دستور کے مطابق مطالبہ کرے اور دوسرا خوش معاملگی سے اسے ادا کرے۔ یہی اس آیت کا مدلول اور تقاضا ہے...۔‘‘
وہ صفحہ ۷۹ پر فرماتے ہیں:
’’اللہ نے ایک کی دیت دوسرے کے برابر اور ایک کا خون دوسرے کے برابر قرار دے کر ضمنی طور پر خون اور دیت میں مساوات کا حکم دیا ہے اور یہی مساوات ان کے لیے حیات نو کا سندیسہ ہے۔‘‘
جب خون برابر ہے تو دیت بھی برابر ہے، کیونکہ یہ خون کا بدلہ ہے۔ قتل میں قصاص اور قصاص میں مساوات تمدن کی ضروریات میں سے ہے۔ سورۂ نساء میں اللہ کا ارشاد ہے:
وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلاَّ خَطَءًا وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَءًا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَّدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلآی اَہْلِہٖٓ اِلَّآ اَنْ یَّصَّدَّقُوْا فَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّکُمْ وَہُوَ مْؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ بَیْْنَکُمْ وَبَیْْنَہُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلآی اَہْلِہٖ وَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ.(۴: ۹۲)
’’کسی مومن کو سزاوار نہیں کہ کسی مسلمان کو قتل کر ڈالے، مگر یہ کہ غلطی سے اور جس کسی نے ایک مومن کو غلطی سے قتل کر دیا ہو تو ایک مومن غلام آزاد کرے اور خون بہا ادا کرے جو اس کے وارثوں کے سپرد کیا جائے، سوائے اس کے کہ وہ معاف کر دیں۔ اگر مقتول ایسے لوگوں میں سے ہو جو تمھارے دشمن ہیں اور وہ مومن ہو تو ایک مومن غلام آزاد کرنا چاہیے اور اگر مقتول ایسے لوگوں میں سے ہو کہ تم میں اور ان میں معاہدۂ صلح ہے تو خون بہا دینا چاہیے جو اس کے وارثوں کے سپرد کیا جائے اور ایک مومن غلام آزاد کرنا چاہیے۔‘‘
یعنی مومن تو مومن کو قتل ہی نہیں کر سکتا، ہاں غلطی سے بعض اوقات ایسا ہو جاتا ہے۔ مثلاً ایک قوم مسلمانوں کے ساتھ برسرپیکار تھی، مگر ان میں سے ایک شخص مسلمان ہو گیا۔ مسلمانوں نے اسے مسلمان نہیں سمجھا یا کسی اور کو مارنے کا ارادہ تھا، مگر غلطی سے اسے مار دیا گیا۔ اسے خون بہا اس لیے دینا ضروری نہیں کہ اس کے ساتھیوں اور وارثوں سے مسلمانوں کی جنگ ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ قتل خطا کی سزا موت نہیں، صرف دیت کی ادائیگی ہے۔ مقتول کے وارث خون بہا کا تعین نہیں کریں گے، بلکہ عدالت کرے گی۔ یہ آیۂ کریمہ ہر مومن انسان، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، کے قتل کے بارے میں عام ہے اور قاتل کے لیے حرف ’مَنْ‘ عام ہے جس میں مرد اور عورت، دونوں شامل ہیں۔ امام رازی ’’تفسیر کبیر‘‘ (۱۰/ ۲۳۳) میں لکھتے ہیں کہ ابوبکر الاصم اس آیت کو دلیل بنا کر کہتے ہیں کہ عورت اور مرد کی دیت برابر ہے، کیونکہ اس بات پر اجماع ہے کہ اس آیت کے حکم میں مرد اور عورت، دونوں شریک ہیں قتل خطا کے حکم میں بھی اور ’دِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلآی اَھْلِہٖ‘ کے حکم میں بھی۔
علامہ رشید رضا ’’تفسیر المنار‘‘ (۴/۳۳۳) میں لکھتے ہیں کہ ’’ظاہر آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ۔‘‘ علامہ یوسف القرضاوی ’’دیۃ المرأۃ فی الشریعۃ الإسلامیۃ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’رہی بات سورۂ نساء کی آیت ۹۲ کے معانی کی یہ آیت ہر مومن کے قتل کے بارے میں عام آیت ہے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ اسی طرح وہ حدیث ’إن فی النفس مأۃ من الإبل‘ بھی عام ہے۔ شریعت قتل کی سزا کے بارے میں نفس انسانی اور اس پر اعتدا کو دیکھتی ہے، خواہ عمداً ہو یا خطأً اور ان دوسرے اعتبارات کو درخور اعتنا نہیں سمجھتی جو لوگوں کے درمیان فرق ملحوظ رکھتے ہیں اور اسی طرح عورت کے قاتل سے قصاص اور مرد کے قاتل کے قصاص میں کوئی فرق نہیں۔ دیت کے بارے میں جو عورت کی وراثت اور شہادت پر قیاس کیا جاتا ہے، وہ قطعی غلط قیاس ہے۔ دیت میں انسانی پہلو غالب ہوتا ہے نہ کہ منفعت کا پہلو۔ دیت کی رقم کا تعین اور اس کا لین دین حکومت کی معرفت ہو گا۔ ورثا کو ازخود معاف کرنے کا اختیار نہیں، کیونکہ ورثا اس کے ترکہ کے وارث ہوتے ہیں، نہ کہ اس کی جان کے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اس سلسلہ میں ایک عمدہ نکتہ بیان کیا ہے کہ ’’قرآن میں قصاص کی بات کی گئی ہے تو جمع مذکر کی ضمیر ’لکم‘ کی بات کی گئی ہے اور دیت کی بات کی گئی ہے تو مومن کی بات کی گئی ہے اور اگر عورت لفظ ’مومن‘ سے خارج ہے تو سرے سے بحث ہی ختم ہو گئی۔ وہ دیت سے خارج ہے، کیونکہ وہ قصاص سے خارج ہے اور اگر وہ ’لکم‘ کی ضمیر میں داخل نہیں تو قصاص کا حکم صرف مردوں کے لیے ہو گا اور اگر عورت قتل ہو تو اس پر نہ قصاص ہو گا اور نہ دیت۔ قرآن حکیم میں حکم ہے: ’اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ‘، یعنی جان کے بدلے جان ہے۔ آیۂ مبارکہ سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ عورت کے نفس کے بدلے مرد کا نفس قتل کیا جائے اور مرد کے نفس کے بدلے عورت کا نفس قتل کیا جائے۔ چنانچہ قرآن کی رو سے قصاص بدنی بھی ہے اور مالی بھی۔ قرآن نے جس طرح بدنی قصاص میں شریف اور رذیل، مرد و عورت کے درمیان جاہلانہ امتیازات کو مٹا کر مساوات قائم کی ہے، بالکل اسی طرح اس نے مالی قصاص میں عورت اور مرد کے درمیان جاہلانہ امتیازات کو مٹا کر مساوات قائم کی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے جصّاص کی ’’احکام القرآن‘‘ (۲/ ۳۴) کے حوالہ سے کہا ہے کہ جب ’دیۃ‘ کا لفظ مطلق لکھا ہوا ہو تو اس سے مراد ۱۰۰ اونٹ ہوں گے۔ اس سے کبھی بھی کم تصور نہیں کیے جائیں گے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ عربی اور اردو کی اکثر و بیش تر تفاسیر جو میری نظر سے گزری ہیں، ان میں سے کسی نے عورت کی دیت کا ذکر تک نہیں کیا۔ امام طبری نے ’’جامع البیان‘‘ (۴/ ۲۰۹) میں یہ تو کہا ہے کہ ذمی اور مسلمان کی دیت برابر ہے، کیونکہ اس بات پر اجماع ہے کہ ان کے کافر غلاموں اور مومنوں کے غلاموں کی دیت ایک جیسی ہے۔ اسی طرح ان کے آزاد مردوں کی دیت کا بھی حکم ہے، مگر عورت کی دیت کا قطعی کوئی ذکر نہیں کیا۔
سب سے پہلے صحاح ستہ کی صحیح احادیث پیش کی جائیں گی:
۱۔ ’أن فی النفس الدیۃ ماءۃ من الإبل‘، ’’جو نفس قتل ہو جائے اس کی دیت سو اونٹ ہے‘‘ (نسائی، رقم ۴۸۵۳۔ سنن دارمی، رقم ۲۳۶۵۔ موطا، رقم ۱۵۴۷)۔
لفظ ’نفس‘ میں عورت بھی داخل ہے، جیسا کہ قرآن میں ہے: ’اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ‘ ’’جان کے بدلے جان‘‘ (المائدہ ۵: ۴۵)۔ ’کل نفس ذائقۃ الموت‘ (ہر نفس نے موت کا مزہ چکھنا ہے)، اس لیے دیت مذکور میں بھی لفظ ’نفس‘ مرد اور عورت، دونوں کو شامل ہے اور دونوں کی دیت سو اونٹ ہے۔ ’’المغنی‘‘ (۷/ ۷۵۹) میں اس حدیث کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ’فی النفس المؤمنۃ الدیۃ ماءۃ من الإبل‘ (مومن نفس کی دیت سو اونٹ ہے)۔ صاحب ’’المغنی‘‘ ابن قدامہ کا قول ہے: یہ حدیث مطلق ہے اور ’دیۃ المرأۃ علی النصف من دیۃ الرجل‘ (عورت کی دیت مرد کی دیت سے آدھی ہے)۴ اس حدیث نے پہلی حدیث کو مقید کر دیا ہے۔ ابن المنذر اور ابن عبدالبر کا قول ہے کہ اس بات پر صحابہ کا اجماع ہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت سے آدھی ہے۔ ان دونوں کے علاوہ دوسرے علما نے ابوبکر الاصم اور ابن عُلَیّہ سے روایت کیا ہے کہ مرد اور عورت کی دیت برابر ہے اور انھوں نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے کہ ’فی النفس المؤمنۃ ماءۃ من الإبل‘، جبکہ امام رازی نے ’’تفسیر کبیر‘‘ (۹/ ۲۳۳) میں کہا ہے کہ ابوبکر الاصم اور ابن عطیہ (یہ کتابت کی غلطی ہے صحیح ابن علیہ ہے) نے قرآن کی آیت ’وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَءًا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَّدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلآی اَہْلِہٖٓ‘ (النساء ۴: ۹۲) سے دلیل لی ہے اور اس پر اجماع ہے کہ اس آیت کا حکم مرد اور عورت، دونوں کے لیے ہے۔ چنانچہ لازمی ہے کہ حکم کا اطلاق مساویانہ ہو گا۔ یہ امام رازی کی راے ہے۔
۲۔ ’أن من قتل خطأ فدیتہ ماءۃ من الإبل‘، ’’جو بھی غلطی سے قتل ہو جائے، اس کی دیت سو اونٹ ہے‘‘ (ابوداؤد، رقم ۴۵۴۱۔ نسائی، رقم ۴۸۰۱۔ احمد، رقم ۶۶۶۳)۔
عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ جب مکہ فتح ہوا تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ارشاد فرمایا: ’من قتل خطأ‘ (۱۸۶، ۲۱۷، ۲۲۴) جو بھی غلطی سے قتل ہو جائے، اس کی دیت سو اونٹ ہے۔ نسائی کی اس روایت میں حرف تنبیہ ’ألا‘ آیا ہے، یعنی زمانۂ جاہلیت میں مرد اور عورت کی دیت میں فرق کی طرف توجہ دلاتے ہوئے خبردار کیا گیا ہے کہ یہ غلط ہے۔ اگرمرد غلطی سے قتل ہو جائے تو اس کے قتل کو قتل خطا کہیں گے۔ کیا عورت غلطی سے قتل ہو جائے تو اس کے قتل کو قتل خطا نہ کہا جائے گا؟ اس حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مرد اور عورت کی دیت سو اونٹ ہے۔ اس حدیث کا تعلق عہد نبوت کے آخری ایام، یعنی ۸ھ سے ہے۔
۳۔ ’المؤمنون تتکافَأ دِمَاءُ ھُمْ‘ (مومنوں کے خون برابر ہیں)۔
’’المحلٰی‘‘ (۱۰/ ۳۵۲۔۳۵۳) میں اس حدیث کی روایت یوں بیان کی گئی ہے:
’’قتادہ نے حسن البصری سے، انھوں نے قیس بن عباد سے روایت کی کہ میں اور ایک اور شخص علی بن ابی طالب کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ کیا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کوئی ایسی وصیت کی ہے جو عام لوگوں کو نہیں کی؟ انھوں نے کہا: کوئی نہیں سواے اس تحریر کے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ اس میں یہ حدیث تھی: ’’مومنوں کے خون برابر ہیں، یعنی قصاص اور حرمات میں ان کے خون برابر ہیں۔ کسی شریف کو رذیل پر کوئی فضیلت نہیں۔ سب مقام و مرتبہ میں یکساں ہیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ ہم مرد اور عورت میں کوئی تفریق نہ کریں، کیونکہ عورت کا خون مرد سے ارزاں نہیں ہو تاکہ اس پر اعتدا (زیادتی) کی سزا مرد سے کم تر ہو۔‘‘
اگر یہ بات درست ہو تو پھر یہ حدیث کیسے درست قرار پائے گی؟ کیونکہ اس صورت میں مومنوں کے خون غیر مساوی ہوں گے۔ مسلمان سب کے سب کیا آزاد، کیا غلام اور کیا مرد اور کیا عورت، سب کا نسب ایک ہے۔ سب پر ایمان کا رنگ چڑھا ہوا ہے اور ایمان کے نسب کے سوا وہ ہر نسب سے عاری ہیں۔ یہ مطلب ہے خون کے برابر ہونے کا۔
امام نسائی کے شارح جلال الدین السیوطی نے اس حدیث کے ضمن میں لکھا ہے کہ یہ خون قصاص میں بھی اور دیت میں بھی برابر ہو گا۔ محمد فواد عبدالباقی ابن ماجہ کی شرح میں فرماتے ہیں: ’التکافؤ أی التماثل والتوافی‘، یعنی ’تکافؤ‘ سے مراد پوری مماثلت ہے۔ ان کا قول ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قصاص و دیت میں مرد اور عورت برابر ہیں۔ ’’جامع الاصول من احادیث الرسول‘‘ میں ابن اثیر کا قول ہے کہ حضور نے فرمایا کہ قصاص و دیت میں مرد اور عورت، امیر اور غریب اور اعلیٰ و ادنیٰ سب برابر ہیں۔ علامہ یوسف القرضاوی اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’علما کا قول ہے کہ مسلمانوں کے خون قصاص و حرمات میں ایک ہیں۔ شریف کو رذیل پر کوئی فضیلت نہیں، کیونکہ حرمت، تحریم اور حقوق میں ان کا مرتبہ و مقام ایک جیسا ہے۔ یہ بات تقاضا کرتی ہے کہ ہم مرد اور عورت کے درمیان فرق روا نہ رکھیں، کیونکہ عورت کا خون مرد کے خون سے ارزاں نہیں ہوتا، اس پر زیادتی کی سزا مرد پر زیادتی کی سزا سے کم نہ ہو گی۔ اگر یہ درست ہو تو حدیث کے معنی غلط ہوں گے، کیونکہ اس صورت میں مسلمانوں کے خون غیر مساوی ہوں گے۔‘‘
اگر بدنی قصاص میں مساوات ہو گی تو مالی قصاص، یعنی دیت میں بھی مساوات ہو گی۔ اس حدیث کو دلیل بنا کر امام ابوحنیفہ نے کہا ہے کہ اگر آزاد غلام کو قتل کر دے تو اس کے بدلہ میں آزاد کو قتل کیا جائے گا۔ احناف نے تو اس حدیث کے مفہوم کو وسعت دے کر ساری انسانیت کو اس مساوات میں شامل کر لیا ہے۔ وھبہ الزحیلی نے ’’الفقہ الاسلامی وادلتہ‘‘ (۷/۵۷۱) میں کہا ہے کہ احناف کاقول ہے کہ اسلام اور کفر کی وجہ سے دیت میں کچھ اختلاف نہ ہو گا، کیونکہ خون تو سب کے برابر ہیں۔
۴۔ ’إن الرجل یقتل بالمرأۃ‘، ’’عورت کے قتل کے بدلے مرد قتل کیا جائے گا‘‘ (سنن البیہقی الکبریٰ، رقم ۱۵۶۸۲۔ سنن الدارمی، رقم ۲۳۵۴۔ نسائی، رقم ۴۸۵۳)۔
یہ حدیث، حدیث کی متعدد کتابوں میں بیان کی گئی ہے اور اگر دیت دینے والے درہم یا دینار میں دیت ادا کرنا چاہتے ہیں تو ایک ہزار دینار دیت ہو گی۔ مرد کے قصاص اور ایک ہزار دینار کا ذکر ایک ساتھ ان احادیث کی روشنی میں کیا جا سکتا ہے کہ عہد رسالت میں مرد اور عورت کی دیت برابر تھی۔ اور دونوں کے لیے دیت سو اونٹ ہی تھی۔ اس سلسلہ میں امام ابن حزم نے ’’المحلٰی‘‘ (۱۰/ ۳۹) میں عبدالرزاق کے حوالہ سے روایت کی ہے کہ ان کو جریج نے خبر دی، ان کو ابن طاؤس نے اور اس نے اپنے باپ سے روایت کی کہ وہ کہا کرتے کہ سب لوگوں (’الناس‘ کا لفظ غور طلب ہے) کے لیے، خواہ وہ بستی والے ہوں، خواہ صحرا نشین، دیت سو اونٹ ہے اور جن کے پاس اونٹ نہ ہو تو چاندی والوں کے لیے چاندی گائے والوں کے لیے گائے اور بکری والوں کے لیے بکری اور روئی کے پارچہ والوں کے لیے روئی، ہر قسم والا اس کے مارکیٹ کے نرخ کے مطابق اونٹ کی قیمت ادا کرے گا۔ یہ دیت ’الناس أجمعین‘ (سب انسانوں) کے لیے ہے۔ لفظ ’الناس‘ میں عورت اور مرد، دونوں شامل ہیں۔ ’’تفسیر ابن عطیہ‘‘ (۴/ ۷۷ا) میں ہے کہ دیت سو اونٹ سب لوگوں کے لیے تھی، ہاں اگر سونے اور چاندی والوں کے پاس اونٹ نہ ہوں تو دیت سونے اور چاندی میں ادا کی جاتی تھی، وہ اونٹ کی قیمت کے برا بر سونا یا چاندی دیتے تھے، خوا ہ ہر اونٹ کی قیمت اس وقت کتنی ہی کیوں نہ ہو۔
’’تفسیر المنار‘‘ (۴/ ۳۳۳) میں ہے کہ عہد رسالت میں دیت کی قیمت ۸۰۰ دینار اور ۸ ہزار درہم تھی اور اہل کتاب کی دیت ان دنوں مسلمانوں کی دیت سے نصف تھی۔ حضرت عمر کے عہد خلافت تک یہی قیمت رہی۔ عہد فاروقی تک مسلمانوں کی دیت برابر تھی، صرف اہل کتاب کی دیت مسلمانوں سے نصف تھی۔
[باقی]
_____
۱ المحلٰی ۱۰/ ۳۸۸۔
۲ المائدہ ۵: ۴۵۔
۳ الحجرات ۴۹: ۱۰۔
۴ اس حدیث پر بعد میں بات ہو گی۔
________