رضوان اللہ
دنیاے مذاہب میں تناسخ کے مقابل میں ایک ایسانظریہ پایاجاتاہے جس کولوگوں کی بہت بڑی تعداد دینی عقیدے کے طورپرمانتی اورپھراسی کی روشنی میں اپنے دنیوی معاملات اورمذہبی رسومات کوانجام دیتی ہے۔اس عقیدے کے مطابق بھی انسانی روح دوبارہ سے زندگی پائے گی،مگراسی دنیامیں اور یہیں کے کسی مادی جسم میں نہیں، بلکہ اس کے لیے ایک نئی دنیااورنیاجسم بنایاجائے گاجونباتاتی اور حیواناتی کے بجاے انسانی خصائص ہی کاحامل ایک جسم ہو گا۔مزیدیہ کہ جسم دیے جانے کایہ عمل بارباربھی نہیں ہوگا، بلکہ صرف ایک مرتبہ اوروہ بھی اس دنیاکے خاتمے کے بعدہوگا۔اس عقیدے کواِحیا (Resurrection) کا عقیدہ کہتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ احیاکاتفصیلی مطالعہ کریں،ہم ایک ضمنی بات عرض کرنا چاہتے ہیں۔اس عقیدے کے مطابق نئی زندگی دیے جانے کا عمل اپنی کامل صورت میں توایک مرتبہ اوروہ بھی اُس وقت ہوگاجب اس دنیاکی جگہ نئی دنیا آباد کی جائے گی،مگربعض اوقات یہ عمل اپنی کم تر سطح پر اِس دنیامیں بھی ہواکرتاہے۔ مرنے والے کوپھرسے زندگی ملتی ہے ،وہ مردوں میں سے جی اٹھتا ہے اور پھرباقی ماندہ وقت اپنی سابق حیثیت ہی میں گزارکرچلاجاتاہے۔احیا کی اس محدود اور ناقص شکل کوہم ’’Resuscitation‘‘ کہہ سکتے ہیں ۔یہ نظریہ بھی کسی نہ کسی رنگ میں مذہبی لوگوں کے ہاں موجود رہا ہے اور اس کی تاریخی حیثیت بیان کرنے کے لیے کتاب مقدس اورقرآن مجید میں بیان کردہ کئی واقعات کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پرعہدنامہ عتیق میں ہے:
’’اور اس (ایلیاہ)نے خداوند سے فریاد کی اور کہا:اے خداوند میرے خدا ،کیا تو نے اس بیوہ پر بھی جس کے ہاں میں ٹکا ہواہوں، اس کے بیٹے کو مارڈالنے سے بلا نازل کی؟اور اس نے اپنے آپ کو تین بار اس لڑکے پر پسار کر خداوند سے فریاد کی اور کہا: اے خداوند میرے خدا ،میں تیری منت کرتا ہوں کہ اس لڑکے کی جان اس میں پھر آجائے۔اور خداوند نے ایلیاہ کی فریاد سنی اور لڑکے کی جان اس میں پھر آگئی اور وہ جی اٹھا۔‘‘ (۱۔سلاطین۱۷: ۲۰۔۲۲)
دوبارہ زندہ ہوجانے کاایک واقعہ انجیل میں اس طرح بیان ہواہے:
’’جب وہ (یسوع) شہر کے پھاٹک کے نزدیک پہنچاتو دیکھو ایک مردہ کو باہر لیے جاتے تھے ۔ وہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹاتھا،اور وہ بیوہ تھی۔اور شہر کے بہتیرے لوگ اس کے ساتھ تھے۔ اسے دیکھ کر خداوند کو ترس آیا،اور اس سے کہا کہ مت رو۔پھر اس کے پاس آکر جنازہ کو چھوا،اور اٹھانے والے کھڑے ہو گئے ،اور اس نے کہا :’’اے جوان میں تجھ سے کہتا ہوں اٹھ!‘‘تو وہ مردہ اٹھ بیٹھا،اور بولنے لگا،اور اس نے اسے اس کی ماں کو سونپ دیا۔‘‘(لوقا ۷: ۱۲۔۱۵)
سیدنامسیح علیہ السلام کامردوں کوزندہ کردینے کاذکرقرآن میں بھی موجودہے ۔فرق بس اتنا ہے کہ انجیل کے مذکورہ بیان سے ان کی بندگی کے بارے میں جوغلط فہمی پیداہوسکتی تھی، قرآن نے چند الفاظ کے بروقت استعمال سے اسے بالکل صاف کردیاہے۔ ارشاد ہوا ہے:
وَاُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللّٰہِ.(اٰل عمرٰن ۳: ۴۹)
’’اور میں مردوں کو اٹھا کھڑا کرتا ہوں، اللہ کے اذن سے۔‘‘
مردے کویوں زندہ کیاجانا،بذات خودکوئی عقیدہ یامستقل نظریہ نہیں کہ جس پراس حیثیت سے ایمان لانا ضروری قراردیاگیاہو،بلکہ یہ آیندہ ہونے والے اِحیاہی کی ،جیساکہ قرآن نے مزید وضاحت کی ہے، ایک عملی شہادت ہے۔ اس کے ذریعے سے لوگوں کو تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ متنبہ رہیں ،کسی روز اسی طرح سب مردوں میں جان ڈال دی جائے گی اوران کواپنے پروردگار کے سامنے جواب دہ ہوناہوگا ۔
اس سلسلے میں قرآن نے بنی اسرائیل کی تاریخ کاایک واقعہ بیان کیاہے۔قتل کے کسی معاملے میں جب ان سے کہا گیاکہ وہ ایک گائے کوذبح کریں اورپھراس پرقسمیں کھائیں تو انھوں نے جھوٹی قسمیں کھائیں اور ایک دوسرے پر الزام دھرنے لگے۔ ۱ اس پراللہ نے فیصلہ کیا کہ وہ حقیقت کوظاہرکرکے رہے گا۔چنانچہ اس نے حکم دیاکہ مردے کو اُسی گائے کاایک ٹکڑا مارا جائے جوقسمیں کھانے کے لیے ذبح کی گئی ہے۔جب یہ عمل کیاگیا تو وہ مردہ پھر سے زندہ ہو گیا۔ مردے کویوں زندہ کردینے کاایک مقصدقاتل کاپتادیناتھا،اس کادوسرا مقصد لوگوں کو آخرت میں دی جانے والی زندگی کی شہادت دینابھی تھا۔چنانچہ فرمایا: ’کَذٰلِکَ یُحْیِ اللّٰہُ الْمَوْتٰی وَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ‘، ’’اللہ اسی طرح مردوں کو زندہ کرے گا اوروہ تمھیں اپنی نشانیاں دکھاتاہے تاکہ تم سمجھ سے کام لو۔‘‘۲
قرآن میں سیدناابراہیم علیہ السلام کے ایک مشاہدے کابھی ذکر ہواہے جو قلبی اطمینان کے لیے انھیں کرایا گیا۔ اللہ نے حکم دیاکہ تم چارپرندے لے کرانھیں اپنے ساتھ ہلالو۔پھر ان کوذبح کرکے ہرپہاڑی پران میں سے ایک حصہ رکھ دو۔اس کے بعد ان کوبلاؤ تووہ دوڑتے ہوئے تمھارے پاس آجائیں گے۔پھر اس سارے عمل کودکھانے کی اصل غایت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’وَاعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ‘، ’’اور(آیندہ کے لیے) یہ بات خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ بہت زبردست ہے ،(اس لیے وہ مردوں کو زندہ کر لے گا)،وہ بڑاحکمت والا ہے، (اس لیے وہ ان کو ضرور زندہ کرے گا)۔۳
قرآن نے اسی طرح کاایک اورواقعہ بیان کیاہے جوہے توعالم رؤیا کا ایک مشاہدہ ،مگراس سے مذکورہ غایت پر روشنی ضرورپڑتی ہے۔ایک صاحب جوغالباًحزقی ایل نبی تھے،کسی تباہ حال بستی پرسے گزرے۔ وہاں کی ویرانی کو دیکھا تو دل میں استعجاب پیدا ہوا کہ یہاں کے باسیوں کو خدا کس طرح زندہ کر لے گا۔ اس پرخدا نے انھیں سو سال کی موت دے کرپھرزندہ کیااوران سے پوچھا:تم کتنی مدت ایسے ہی پڑے رہے ؟انھوں نے اندازہ کیا کہ ایک دن یا اس سے کچھ کم، فرمایا:بلکہ تم پر سو سال اسی حالت میں گزر چکے ۔ اس کے بعدان کو کھانے پینے کے سامان اور گدھے کی طرف متوجہ کیا ۔انھوں نے دیکھاکہ کھانے پینے کا سامان ویسے ہی پڑا ہے اورگدھا ہڈیوں کے ڈھانچے میں بدل گیا ہے۔وہ اس بات پر ابھی حیران تھے کہ خدانے ان کے سامنے گدھے کو زندہ کر کے بھی دکھادیا۔ موت کے بعد زندہ کیے جانے کایہ منظر دیکھنا ہی تھا کہ وہ پکار اٹھے: ’اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ‘، ’’(کہ میرا تردد دور ہو گیا اور) میں نے جان لیا کہ اللہ واقعی سب کچھ کردینے پر قادر ہے۔‘‘۴
معلوم ہواکہ مردوں کو اس طرح زندہ کردیناخالص ایک خدائی فعل تھااوراس کامقصد بھی بالکل واضح تھا۔نیزیہ بھی واضح تھا کہ اس طرح دی جانے والی زندگی ابدی نہیں ہوتی،بلکہ دوبارہ سے جی اٹھنے والے اِن مردوں کوبھی کچھ مدت کے بعدعام لوگوں کی طرح مر جانا ہوتا ہے۔ لیکن تاریخ شاہدہے کہ لوگوں نے جس طرح اس فعل کے مقصد سے یک سراعراض کیا،اسی طرح اس کو الگ سے ایک عقیدے کی شکل بھی دے دی۔چنانچہ اس سے خداکی قدرت پر استدلال کیاہوتا، الٹا بعض مردوں کوخدامان لیاگیااوراس بنیادپرمذہبی رہنماؤں نے پوری پوری رام لیلائیں لکھ ماریں۔ اب کسی کے کرشنانظروں سے اوجھل ہوکرامرہوگئے ہیں توکسی کے ہاں یسوع مسیح مردوں میں سے جی کر زندہ وجاوید ہوگئے ہیں۔اوراگرکسی کے ’’خدا‘‘ابھی تک زندہ نہیں ہوسکے توکچھ حرج نہیں،مستقبل میں ان کے واپس آجانے کی امیدضرورباقی ہے۔ایک کنواری اس جھیل میں نہاکر حاملہ ہو گی جس میں ان کے پیشوا کابیج رکھا گیا ہے۔ اس طرح وہ اس کے بیٹوں کوجنم دے گی جو دنیا میں آ جائیں گے توسب دکھوں کودورکردیں گے۔ نظروں سے اوجھل ہو جانے والی طلسماتی روایت اورمستقبل کی سہانی امیدیں ،جب دونوں گڈمڈ ہوئیں توکچھ حضرات وہ بھی ہوئے جن کو اُس مسیحاکاشدت سے انتظاررہنے لگاجومرے نہیں ،بلکہ روپوش ہوگئے ہیں۔قیامت سے پہلے وہ بھی ظاہر ہو جائیں گے ،خدائی علم کوبلندکریں گے اورظلم کی ہرروایت کو توڑکررکھ دیں گے۔گویامذہبی داستانوں کاایک سلسلہ ہے جو مردوں کوزندہ کرنے کے خدائی فعل اوراس کے مقصدسے انحراف کرتے ہوئے گھڑلیاگیاہے۔
بہرحال،اِحیاکی اس ضمنی گفتگو کے بعدہم سلسلۂ کلام وہیں سے جوڑتے ہیں جہاں سے یہ ٹوٹا تھا۔ہم نے دیکھ لیا تھا کہ عقیدۂ اِحیا کیا ہے اور تناسخ سے یہ کس طرح مختلف ہے ۔ اب ہم اس کی تاریخ اورمختلف ادیان میں اس کے بارے میں پائی جانے والی تعلیمات کاذکر کرتے ہیں۔
احیاکے بارے میں اگر کہاجائے کہ انسانی تاریخ کایہ قدیم ترین عقیدہ ہے تو یہ کہنابے جانہیں ہوگا،اس لیے کہ جس طرح معلوم تاریخ اس کی اطلاع دیتی اورآج کی مذہبی روایتیں اس کی شہادت دیتی ہیں،اسی طرح سینہ بہ سینہ علم، گردمیں اَٹی ہوئی آڑھی ترچھی لکیریں اورصدیوں پرانے کتبات بھی اس کے قدیم ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ اس عقیدے کی ابتدااس طرح نہیں ہوئی کہ کسی پنڈت اورسوامی ،کسی ربی اورپادری یاکسی فقیہ اورصوفی نے اس کو بنایا اور پھرگردوپیش میں رواج دے دیا ہو، بلکہ یہ انسان کی عقل کاابتدائی تجزیہ اوراس کے شعور کی اولین دریافت ہے۔ نیز یہ عقیدہ چندادیان تک محدود،کسی خاص نسل اور مقام سے متعلق رہاہو، ایسابھی نہیں ہے، بلکہ یافث کی نسل ہو یا پھر حام وسام کی اولاد،دجلہ وفرات کے باسی ہوں یانیل و ہمالا کے رہایشی، حتیٰ کہ دین ابراہیمی کی ہرشاخ ،ان سب میں یہ عقیدہ کسی نہ کسی رنگ میں موجودرہا ہے۔چنانچہ ان حقائق کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس عقیدے کی تاریخ اتنی ہی پرانی اورمسلسل ہے، جتنی خود انسان کی اپنی تاریخ۔
اگریہ بات طے شدہ مان لی جائے کہ احیاکاعقیدہ شروع سے چلاآتاہے توتناسخ پراس کی پیدایش کے حوالے سے ہونے والے تمام اعتراضات ،کم سے کم اس عقیدے پروارد نہیں ہوتے۔اس لیے اب ہمیں صرف یہ دیکھناہے کہ اس کی تفصیلات کیاہیں اورمختلف مذاہب میں اس کے بارے میں پائی جانے والی تعلیمات کیاکچھ ہیں۔اس سلسلے میں بھی تمام ادیان کااستقصا کرنے کے بجاے ہمیں صرف ابراہیمی ادیان تک اپنی بحث کو محدودرکھناہے۔
یہودکی روایتی سرکشی ،سیدناموسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات سے کھلاانحراف اوراپنے چنیدہ قوم ہونے کابے جا زعم، یہ وہ بنیادی عامل تھے جن کی وجہ سے ان کامذہب بہت جلداپنی حقیقت کھوبیٹھااورمحض ایک قوم اوراس کی عصبیت کا ترجمان بن کررہ گیا۔ان کے ہاں مذہبی اعمال اوررسومات کامقصداب صرف یہ تھاکہ کسی طرح دنیا میں کامیابی مل سکے اور قومی حیثیت میں ایک برترمقام حاصل کیاجاسکے۔جہاں تک فردکی ذاتی نجات کامعاملہ ہے ،اس کی حیثیت ان کے نزدیک ثانوی یااس سے بھی کچھ کم رہ گئی تھی۔یہی وجہ ہوئی کہ ان کے ابتدائی دورکے لٹریچرمیں حیات بعد از موت کی تفصیلات ناپید، مگران کے برگزیدہ اورچنیدہ ہونے کازعم کافی پھیلاہوانظرآتا ہے۔ تورات میں جو پانچ کتابوں کا مجموعہ ہے، احیاے موتیٰ کاذکرڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ بس موت کے بعدایک طرح کی زندگی کاتصور ہے، جواس میں پایاجاتاہے۔کتاب پیدایش میں ہے:
’’تب ابرہام(علیہ السلام)نے دم چھوڑدیااور خوب بڑھاپے میں نہایت ضعیف اور پوری عمر کا ہو کر وفات پائی اور اپنے بزرگوں میں جاملا۔‘‘ (۲۵: ۸)
’’اپنے بزرگوں میں جا ملا‘‘، یہ الفاظ صرف یہ بتارہے ہیں کہ موت کے بعدمعاملہ بالکل ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ ایک نوعیت کی زندگی ،بہرحال مردوں کو حاصل رہتی ہے۔۵
البتہ، تورات کے بجاے کتاب مقدس کے دوسرے مقامات پراس بارے میں کچھ زیادہ وضاحت پائی جاتی ہے۔ ایک جگہ یوں بیان ہواہے:
’’وہ کون ساآدمی ہے جوجیتاہی رہے گا اورموت کونہ دیکھے گا اوراپنی جان کوپاتال کے ہاتھ سے بچالے گا؟‘‘(زبور ۸۹: ۴۸)
کتاب مقدس میں اس طرح کے مواقع پرایک عبرانی لفظ ’’Sheol‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ عام طور پر مترجمین اس کا ترجمہ ’پاتال ‘یاپھر’قبر‘سے کرتے ہیں۔یہ مردوں کے رہنے کے لیے انڈر ورلڈقسم کی ایک جگہ ہے، جہاں انھیں احیا سے پہلے رکھاجاتاہے۔
یہ موت کے متصل بعدزندگی کاتصورہوا،اب دیکھتے ہیں کہ مردوں کوباقاعدہ طور پر نئی زندگی دیے جانے کے بارے میں پراناعہدنامہ کیاکہتاہے۔ارشاد ہواہے:
’’خداوند مارتاہے اور جِلاتاہے۔وہی قبر میں اتارتااور اس سے نکالتا ہے۔‘‘(۱۔ سموئیل ۲: ۶)
مردوں کایہ اِحیا،ایک اورمقام پریوں بیان ہواہے:
’’تیرے مردے جی اٹھیں گے۔میری لاشیں اٹھ کھڑی ہوں گی۔تم جو خاک میں جابسے ہو، جاگو اورگاؤ، کیونکہ تیری اوس اُس اوس کی مانند ہے جونباتات پرپڑتی ہے ،اورزمین مردوں کو اگل دے گی۔‘‘(یسعیاہ ۲۶: ۱۹)
مردوں میں دوبارہ روح پھونکنے کا مقصد،کیاان کی جزا اورسزا ہے،اس کی وضاحت ذیل کی عبارت سے بہ خوبی ہو جاتی ہے:
’’اورجو خاک میں سورہے ہیں،ان میں سے بہتیرے جاگ اٹھیں گے۔بعض حیات ابدی کے لیے اوربعض رسوائی اور ذلّتِ ابدی کے لیے۔‘‘(دانیال ۱۲: ۲)
مذکورہ حوالہ جات اس بات کا کافی ثبوت ہیں کہ یہودی لٹریچرمیں بہت کچھ گھپلا ہو جانے کے باوجوداِحیاکاعقیدہ اس قدر واضح ہے کہ یہودیت کے حوالے سے اس کاانکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں، اورکچھ لوگوں کا یہ دعویٰ سراسرغلط ہے کہ یہ عقیدہ کتاب مقدس کانہیں ،بلکہ یہودیت کے اندر بعد میں پیداہوجانے والا عقیدہ ہے۔
جہاں تک مسیحی دنیاکامعاملہ ہے ،وہ یہودکے برعکس احیاے موتیٰ کاایک واضح تصوررکھتی اور ان کی کتابیں اس کے بارے میں اپنے اندربہت سے شواہدرکھتی ہیں۔مسیحی حضرات چونکہ پرانا عہدنامہ بھی عام طورپرمانتے ہیں ،اس لیے احیاکے جودلائل یہودیت کے حوالے سے بیان ہوئے،وہ ان کے ہاں بھی حجت ٹھیرتے ہیں،تاہم مزید وضاحت کے لیے ہم یہاں عہدنامہ جدیدسے بھی کچھ حوالہ جات نقل کیے دیتے ہیں۔انجیل مقدس میں بیان ہواہے:
’’اس سے تعجب نہ کرو،کیونکہ وہ وقت آتاہے کہ جتنے قبروں میں ہیں،اس کی آواز سن کرنکلیں گے ۔ جنھوں نے نیکی کی ہے ،زندگی کی قیامت کے واسطے اور جنہوں نے بدی کی ہے، سزا کی قیامت کے واسطے۔‘‘۶
اناجیل کے علاوہ دوسرے مقامات پر یہ عقیدہ اس طرح بیان ہوا ہے:
’’...اور خدا سے اسی بات کی امید رکھتا ہوں جس کے وہ خود بھی منتظر ہیں کہ راست بازوں اور ناراستوں، دونوں کی قیامت ہوگی۔‘‘۷
[باقی]
______
۱ یہ اصل میں قسامہ کاایک واقعہ تھا۔بنی اسرائیل میں اندھے قتل کاسراغ لگانے کے لیے عام طورپریہ طریقہ مقرر تھاکہ کسی گائے کوذبح کیاجاتااورپھراس کے خون پرقسمیں کھائی جاتیں۔
۲ البقرہ ۲:۷۳۔
۳ البقرہ ۲: ۲۶۰۔
۴ البقرہ ۲: ۲۵۹۔
۵ انھی سے ملتے جلتے الفاظ تورات کے دوسرے مقامات پربھی بہ آسانی دیکھ لیے جاسکتے ہیں۔مثال کے طور پر، کتاب پیدائش کا باب ۲۵ آیت۱۷ اورباب۴۹ آیت۳۳۔
۶ یوحنا ۵: ۲۸۔۲۹۔لوقا کی انجیل باب۱۴کی آیت۱۴ اورانجیل متّی باب۲۵کی آیت ۳۱سے ۴۶ تک میں بھی اس مضمون کو دیکھ لیاجاسکتاہے۔
۷ اعمال۲۴:۱۵۔اس کے علاوہ ۲۔کرنتھیوں باب۵ آیت۱۰ اورعبرانیوں باب۹آیت ۲۷ میں بھی مردوں کے جی اٹھنے اور ان کی جزا وسزا کا ذکر موجود ہے۔
________