بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الٓرٰ کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْرٍ{۱} اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰہَ اِنَّنِیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌ{۲} وَّاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ یُمَتِّعْکُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی وَّیُؤْتِ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَہٗ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ کَبِیْرٍ{۳} اِلَی اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ{۴}
اَلَآ اِنَّہُمْ یَثْنُوْنَ صُدُوْرَھُمْ لِیَسْتَخْفُوْا مِنْہُ اَلَا حِیْنَ یَسْتَغْشُوْنَ ثِیَابَہُمْ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ اِنَّہٗ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ{۵} وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّھَا وَمُسْتَوْدَعَھَا کُلٌّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ{۶}
وَھُوَالَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ وَّکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَآئِ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا وَلَئِنْ قُلْتَ اِنَّکُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ مِنْم بَعْدِ الْمَوْتِ لَیَقُوْلَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ{۷} وَلَئِنْ اَخَّرْنَا عَنْھُمُ الْعَذَابَ اِلٰٓی اُمَّۃٍ مَّعْدُوْدَۃٍ لَّیَقُوْلُنَّ مَا یَحْبِسُہٗ اَلَا یَوْمَ یَاْتِیْھِمْ لَیْسَ مَصْرُوْفًا عَنْھُمْ وَحَاقَ بِھِمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِئُ وْنَ{۸} وَلَئِنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَۃً ثُمَّ نَزَعْنٰھَا مِنْہُ اِنَّہٗ لَیَئُوْسٌ کَفُوْرٌ{۹} وَلَئِنْ اَذَقْنٰہُ نَعْمَآئَ بَعْدَ ضَرَّآئَ مَسَّتْہُ لَیَقُوْلَنَّ ذَھَبَ السَّیِّاٰتُ عَنِّیْ اِنَّہٗ لَفَرِحٌ فَخُورٌ {۱۰} اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓئِکَ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ کَبِیْرٌ{۱۱}
فَلَعَلَّکَ تَارِکٌم بَعْضَ مَایُوْحٰٓی اِلَیْکَ وَ ضَآئِقٌم بِہٖ صَدْرُکَ اَنْ یَّقُوْلُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ کَنْزٌ اَوْجَآئَ مَعَہٗ مَلَکٌ اِنَّمَآ اَنْتَ نَذِیْرٌ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ وَّکِیْلٌ{۱۲} اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰہُ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ مُفْتَرَیٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ{۱۳} فَاِلَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَکُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اُنْزِلَ بِعِلْمِ اللّٰہِ وَاَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ{۱۴}
مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَھَا نُوَفِّ اِلَیْھِمْ اَعْمَالَھُمْ فِیْھَا وَھُمْ فِیْھَا لَا یُبْخَسُوْنَ{۱۵} اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْھَا وَبٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ{۱۶}
اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ وَیَتْلُوْہُ شَاھِدٌ مِّنْہُ وَمِنْ قَبْلِہٖ کِتٰبُ مُوْسٰٓی اِمَامًا وَّرَحْمَۃً اُولٰٓئِکَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُہٗ فَلَا تَکُ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْہُ اِنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ{۱۷} وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اُولٰٓئِکَ یُعْرَضُوْنَ عَلٰی رَبِّھِمْ وَیَقُوْلُ الْاَشْھَادُ ھٰٓؤُلَآئِ الَّذِیْنَ کَذَبُوْا عَلٰی رَبِّہِمْ اَلَا لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ{۱۸} الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَیَبْغُوْنَھَا عِوَجًا وَھُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ کٰفِرُوْنَ{۱۹} اُولٰٓئِکَ لَمْ یَکُوْنُوْا مُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ وَمَا کَانَ لَہُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ اَوْلِیَآئَ یُضٰعَفُ لَھُمُ الْعَذَابُ مَاکَانُوْا یَسْتَطِیْعُوْنَ السَّمْعَ وَمَاکَانُوْا یُبْصِرُوْنَ{۲۰} اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ وَضَلَّ عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ{۲۱} لَا جَرَمَ اَنَّھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ ھُمُ الْاَخْسَرُوْنَ{۲۲} اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَخْبَتُوْٓا اِلٰی رَبِّہِمْ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ{۲۳} مَثَلُ الْفَرِیْقَیْنِ کَالْاَعْمٰی وَالْاَصَمِّ وَالْبَصِیْرِ وَالسَّمِیْعِ ھَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًا اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ{۲۴}
یہ سورہ ’الر‘ ہے۱۲۰؎۔ یہ کتاب ہے جس کی آیتیں پہلے محکم کی گئیں، پھر خداے حکیم و خبیر کی طرف سے اُن کی تفصیل کی گئی ہے۱۲۱؎ کہ تم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۱۲۲؎۔ میں اُس کی طرف سے تمھیں خبردار کرنے والا اور خوش خبری دینے والا ہوں۔ اور یہ کہ تم اپنے پروردگار سے معافی چاہو، پھر اُس کی طرف رجوع کرو، وہ تمھیں ایک متعین مدت تک اچھی طرح بہرہ مند کرے گا اور ہر اُس شخص کو جو اُس کے فضل کا مستحق ہے، اپنے فضل سے نوازے گا۔ لیکن اگر منہ پھیرو گے تو میں تمھارے اوپر ایک بڑے ہول ناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۱۲۳؎۔ تم سب کو اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۱۲۴؎۔ ۱-۴
اِنھیں دیکھتے ہو، یہ اپنے سینے موڑتے ہیں کہ خدا سے چھپ جائیں۔ خبردار، جب (اِسی مقصد سے) اپنے اوپر چادریں لپیٹتے ہیں، (یہ اُس وقت بھی اُس کی نظر میں ہوتے ہیں)۔۱۲۵؎ وہ جانتا ہے جو کچھ یہ چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں۔ وہ اُن بھیدوں سے بھی واقف ہے جو سینوں میں ہوتے ہیں۔ زمین پر چلنے والا کوئی جان دار نہیں ہے، جس کی روزی اللہ کے ذمے نہ ہو۔ وہ اُس کے ٹھکانے کو بھی جانتا ہے اور اُس جگہ کو بھی جہاں وہ (مرنے کے بعد زمین کے) سپرد کیا جائے گا۔ یہ سب ایک کھلی کتاب میں درج ہے۱۲۶؎۔ ۵-۶
اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا ہے۱۲۷؎ اور (تمھاری پیدایش سے پہلے) اُس کا عرش پانی پر تھا۱۲۸؎ ـــــاِس لیے (پیدا کیا ہے) کہ تم کو آزما کر دیکھے کہ تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۱۲۹؎۔ اب (اے پیغمبر)،اگر تم اِن سے کہتے ہو کہ (لوگو)، مرنے کے بعد تم دوبارہ اٹھائے جائو گے تو یہ منکرین فوراً بول اٹھیںگے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۱۳۰؎۔ اور اگر کچھ مدت کے لیے ہم اِن سے عذاب کو ٹال دیں گے۱۳۱؎ تو ضرور پوچھیں گے کہ اِسے کیا چیز روکے ہوئے ہے؟سنو، جس دن وہ اِن کے اوپر آ پڑے گا تو اِن سے پھیرا نہ جاسکے گا اور وہی چیز اِن کو آ گھیرے گی جس کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ ہم اُس کو اپنے کسی فضل سے نوازتے ہیں، پھر اُس سے اُسے محروم کر دیتے ہیں تو وہ مایوس ہو جاتا ہے اور نا شکری کرنے لگتا ہے اور اگر کسی تکلیف کے بعد جو اُس کو پہنچی تھی، ہم اُسے نعمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو کہتا ہے کہ میری مصیبتیں مجھ سے دور ہوئیں۔ (پھر) وہ پھولا نہیں سماتا اور اکڑنے والا بن جاتا ہے۱۳۲؎۔ اِس سے وہی مستثنیٰ ہیں جو صبر کرنے والے اور اچھے عمل کرنے والے ہیں۔ اُنھی کے لیے مغفرت بھی ہے اور بڑا اجر بھی ۔۷-۱۱
سو (اے پیغمبر)، تم پر جو وحی کی جا رہی ہے ، تم (اِن کے اِس رویے کی وجہ سے) اُس میں سے شاید کچھ چھوڑنا چاہتے ہو۱۳۳؎ اور اِس بات پر تنگ دل ہو رہے ہو کہ یہ لوگ کہیں گے کہ اِس پر کوئی خزانہ کیوں نہیں اتارا گیا یا اِس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا۔ (حقیقت یہ ہے کہ) تم تو صرف خبردار کرنے والے ہو اور (آگے) ہر چیز اللہ کے حوالے ہے۔ کیا یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اِسے خود گھڑ لیا ہے۱۳۴؎؟ اِن سے کہو، پھر تم بھی اِسی طرح کی گھڑی ہوئی دس سورتیں بنا کر لے آئو اور اللہ کے سوا جن کو بلا سکتے ہو، بلا لو، اگر تم سچے ہو۱۳۵؎۔سو اگر وہ تمھاری مدد کو نہ پہنچیں تو جان لو کہ یہ اللہ کے علم سے نازل ہوا ہے اور یہ بھی کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۱۳۶؎۔ پھر کیا تم مانتے ہو؟۱۲-۱۴
(یہ اِس لیے منکر ہو رہے ہیں کہ دنیا کی زندگی نے اِنھیں دھوکے میں ڈال دیا ہے ۔اِنھیں بتا دو کہ) جو دنیا کی زندگی اور اُس کی زینت چاہتے ہیں، ہم اُن کے اعمال کا بدلہ اُن کو یہیں چکا دیتے ہیں اور اُس میں اُن کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۱۳۷؎۔ دنیا میں جو کچھ اُنھوں نے بنایا، وہ سب ملیا میٹ ہوا اور اُن کا کیا دھرا اب باطل ہے۔ ۱۵-۱۶
سو کیا وہ شخص جو اپنے پروردگار کی طرف سے ایک برہان۱۳۸؎ پر ہے، پھر (اُس کی تائید میں)اُس کے بعد ایک گواہ بھی اُس کے پروردگار کی طرف سے آجاتا ہے۱۳۹؎ اور اُس سے پہلے موسیٰ کی کتاب بھی رہنما اور رحمت۱۴۰؎ کے طور پر آئی ہوئی موجود ہے، (اِس قرآن کا انکار کر سکتا ہے۱۴۱؎؟ ہرگز نہیں)۔اِ س طرح کے لوگ تو اِس پر ایمان ہی لائیں گے۔ اور (تمھارے مخاطبین کے)اِن گروہوں میں جو شخص بھی اِس کا منکر ہو گا، اُس کے لیے وعدے کی جگہ دوزخ ہے۔ اِس لیے، (اے پیغمبر) تم اِس کے بارے میں کسی شک میں نہ پڑو۱۴۲؎۔ یہ حق ہے تمھارے پروردگار کی طرف سے، مگر اکثر لوگ نہیںمانتے۔ (اِنھیں بتا دو کہ ) اُن سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ گھڑیں۱۴۳؎؟ وہ اپنے پروردگار کے حضور پیش کیے جائیں اور گواہی دینے والے۱۴۴؎ گواہی دیں گے کہ یہی ہیں جنھوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ گھڑا تھا۔ سنو، اللہ کی لعنت ہے اُن ظالموں پر جو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اُس میں کجی پیدا کرنا چاہتے ہیں۱۴۵؎ اور وہی آخرت کے منکر ہیں۔وہ زمین میں خدا کی گرفت سے باہر نہیں تھے اور نہ خدا کے سوا اُن کا (وہاں) کوئی ـحمایتی تھا۔ (تاہم جو ڈھیل ہم نے اُنھیں دے رکھی تھی، اُس کی بنا پر وہ یہی سمجھتے رہے)۔ اُنھیں اب دہرا عذاب۱۴۶؎ دیا جائے گا۔(اِس لیے کہ) نہ سن سکتے تھے اور نہ دیکھتے تھے۱۴۷؎۔ وہی ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا اور جو کچھ گھڑتے تھے، وہ سب اُن سے کھویا گیا۔ اِس میں شک نہیں کہ آخرت میں وہی سب سے زیادہ گھاٹے میں ہوں گے۔ (اِس کے برخلاف) جو ایمان لائے اور اُنھوں نے اچھے عمل کیے اور اپنے پروردگار کی طرف جھکے رہے، وہی جنت کے لوگ ہیں، وہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اِن دونوں فریقوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اندھا اور بہرا ہو اور ایک دیکھنے والا اور سننے والا۱۴۸؎۔ کیا دونوں یکساں ہو جائیں گے؟ پھر کیا سوچتے نہیں ہو۔۱۷-۲۴
۱۲۰؎ یہ سورہ کا نام ہے۔ اِس کے معنی کیا ہیں؟ اِس کے متعلق ہم نے اپنا نقطۂ نظر سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔
۱۲۱؎ یعنی پہلے ایجاز، جامعیت اور اختصار کا طریقہ اختیار کیا گیا، پھر اُنھی گٹھے ہوئے، جامع اور مختصر گویا دریا بہ کوزہ جملوں کی تفصیل کر دی گئی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ اِس چیز کا حوالہ دینے سے مقصود اُس اہتمام خاص کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنا ہے جو اُن کی تعلیم و تربیت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اِس کتاب میں ملحوظ رکھا ہے۔۔۔ آخر میںحکیم و خبیر کی صفات کا حوالہ ہے، اِس لیے کہ خداے حکیم ہی جان سکتا تھا کہ وہ حکمت کے خزانوں کوکس طرح مختصر لفظوں میں بند کرے اور پھر خداے خبیر ہی کی یہ شان تھی کہ وہ کھول کر دکھائے کہ ایک کوزے میں کتنے دریا اور کتنے سمندر بند ہیں۔‘‘(تدبرقرآن۴/ ۱۰۷)
۱۲۲؎ یہ قرآن کا بنیادی پیغام ہے جو انبیا علیہم السلام کی دعوت میںہر جگہ کم و بیش اِنھی الفاظ میں بیان ہوا ہے۔
۱۲۳؎ یہ اُس انذار و بشارت کی تفصیل کر دی ہے جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے۔ بڑے ہول ناک دن کے عذاب سے مراد وہی عذاب ہے جو رسولوں کے منکرین پر اِسی دنیا میں آجاتا ہے اور وہ یک قلم ختم کر دیے جاتے ہیں۔
۱۲۴؎ اِس ابہام کے اندر جو تخویف ہے، وہ اگر غور کیجیے تو ہر صراحت سے بڑھ گئی ہے۔
۱۲۵؎ سینہ موڑنا اور چادر لپیٹ کر چل دینا، یہ دونوں تعبیریں اُن کے گریز و فرار کی تصویر کے لیے ہیں، جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انذار سے بچنے کے لیے آپ کی بات کو نظر انداز کرتے اور جہاں آپ بیٹھے ہوتے، وہاں سے متکبرانہ نکل جانے کی کوشش کرتے تھے۔ فرمایا کہ اِنھیں دیکھو، یہ اُس سے چھپنا چاہتے ہیں جو اِن کے سینوں میں چھپے ہوئے بھیدوں سے بھی واقف ہے۔ اِس سے بڑھ کر حماقت کیا ہو سکتی ہے۔ جس میں یہ تمھارے انذار کے بعد مبتلا ہو گئے ہیں۔
۱۲۶؎ اِن آیتوں میں انذار کے جو تہ در تہ پہلو ہیں، اُنھیں کھول دیجیے تو جو مضمون سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے کہ خدا سے کیا چھپانا چاہتے ہو؟ اُس کا علم تو ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ جو ہر جان دار کو جہاں کہیں بھی وہ ہو، اُس کی روزی پہنچا سکتا ہے، اُس سے تمھاری کوئی چیز کس طرح مخفی ہو سکتی ہے؟ تم بھی اُسی کے رزق پر پلتے ، مگر اُس کی دعوت سے گریز کرتے ہو۔ یاد رکھو، خدا تمھارے ٹھکانوں سے بھی واقف ہے اور مرنے کے بعد جس زمین کے سپرد کیے جاؤ گے، اُسے بھی جانتا ہے۔ ایک دن آئے گا، جب زمین یہ امانت اپنے پروردگار کے حوالے کرے گی اور تم جواب دہی کے لیے پیش کر دیے جائو گے۔ اُس کے لیے ہر چیز ایک کھلی کتاب میں درج کرکے محفوظ کر لی گئی ہے۔
۱۲۷؎ یہ اللہ کے ایام ہیں جن کے بارے میں قرآن نے صراحت فرمائی ہے کہ ہمارے حساب سے ہزار سال کے برابر بھی ہوتے ہیں اور پچاس ہزار سال کے برابر بھی۔ مدعا یہ ہے کہ دنیا کا ظہور کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے، بلکہ یہ خدا کے ارادے سے، اُس کی اسکیم کے مطابق اور ایک ترتیب و حکمت کے ساتھ وجود میں آئی ہے۔ چنانچہ یہ بے مقصد نہیں ہو سکتی، اِس کے پیچھے لازماً ایک غایت ہے جو جلد یا بدیر ظہور میں آ کر رہے گی۔
۱۲۸؎ یعنی اِس سے پہلے یہ کرئہ ارض پانی ہی پانی تھا اور خدا کی حکومت بھی اِسی پانی پر قائم تھی۔ زمانۂ رسالت میں لوگ قرآن کے اِس بیان پر اظہار تعجب کر سکتے تھے، مگر دور حاضر کی تحقیقات نے ثابت کردیا ہے کہ دنیا کے بارے میں یہی حقیقت ہے جو قرآن نے صدیوں پہلے بیان کر دی تھی۔
۱۲۹؎ یہ اُس غایت کا بیان ہے جس کے لیے دنیا اہتمام کے ساتھ اور چھ دن میںپیدا کی گئی ہے جو ہمارے حساب سے ہزاروں لاکھوں سال کے برابر ہو سکتے ہیں۔ انسان کو ارادے کی آزادی اور خیر و شر میں امتیاز کی صلاحیت اِسی مقصد سے دی گئی ہے۔ اُس کا خالق دیکھ رہا ہے کہ وہ خیر کا راستہ اختیار کرتا ہے یا شر کا۔ اُسے بتا دیا گیا ہے کہ اپنے اِس انتخاب کے لیے وہ ایک دن جواب دہ ٹھیرایا جائے گا اور اِس کی جزا یا سزا پائے گا۔
۱۳۰؎ یعنی زبان و بیان کی جادوگری ہے، اِس سے زیادہ اِس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
۱۳۱؎ یعنی اُس عذاب کو جو رسولوں کی تکذیب کے نتیجے میں لازماً آتا ہے۔
۱۳۲؎ یہ بات اگرچہ لفظ ’انسان‘ کے ساتھ کہی گئی ہے، لیکن مراد وہی لوگ ہیں جن کا ذکر اوپر سے آ رہا ہے۔ اُن سے منہ پھیر کر ایک کلیے کے انداز میں بتایا ہے کہ یہ معاملہ اِنھی کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ انسان کی بد قسمتی ہے کہ عام طور پر وہ یہی کرتا ہے۔
۱۳۳؎ یعنی وہ چیزیں پیش کرنے سے گریز کرنا چاہتے ہو جو تمھارے مخاطبین کو پسند نہیں ہیں۔ اِس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آپ فی الواقع ایسا کرنا چاہتے تھے۔ یہ درحقیقت پیش بندی کا جملہ اور حالات کی سنگینی، مخالفانہ ردعمل کی شدت اور طنزواستہزا کے طوفان میں پامردی اور استقامت کی تلقین ہے جو اِس اسلوب میں کی گئی ہے تاکہ اِس طرح کا کوئی خیال بھی آپ کے دل میں نہ گزرے۔ آیت میں لفظ ’لَعَلَّ‘ اِسی پر دلالت کرتا ہے۔ چنانچہ خطاب میں جو تیزی محسوس ہوتی ہے، اُس کا رخ بھی، اگر غور کیجیے تو اُنھی معاندین کی طرف ہے جو اپنے رویے سے یہ صورت حال پیدا کر رہے تھے۔
۱۳۴؎ یہ استفہام اظہار تعجب کے لیے ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔اوپر کے اعتراضات تو سادہ اسلوب میں نقل کر دیے ہیں، لیکن قرآن کو پیغمبر کی گھڑی ہوئی کتاب قرار دینا ایک نہایت عجیب بات تھی، بالخصوص اُن لوگوں کی زبان سے جو کلام کے حسن و قبح کے نقاد اور اُس کے ایجاز و اعجاز کے قدردان بھی تھے اور موازنے اور مقابلے کے لیے اُن کے پاس اپنے چوٹی کے شاعروں اور خطیبوں کے کلام کاایک دفتر بھی موجود تھا۔ اِس وجہ سے اِس کا ذکر تعجب کے اسلوب میں فرمایا ۔‘‘(تدبرقرآن۴/ ۱۱۲)
۱۳۵؎ یعنی اپنے اِس گمان میں سچے ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ کتاب اپنی طرف سے گھڑ کر پیش کر رہے ہیں تو اِس کا فیصلہ نہایت آسانی کے ساتھ اِسی طرح ہو سکتا ہے کہ اِس شان کی دس سورتیں تم بھی بنا لائو۔ تمھارے گمان کے مطابق یہ کام اگر بغیر کسی علمی اور ادبی پس منظر کے تمھاری قوم کے ایک فرد محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کر سکتے ہیں تو تمھیں بھی اِس میں کوئی دقت نہیں ہونی چاہیے۔ سورئہ طور ۵۲ کی آیات ۳۳-۳۴ میں یہی بات ’بِحَدِیْثٍ مِّثْلِہٖٓ‘ کے الفاظ میں فرمائی ہے۔ یہ سورہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مرحلۂ انذار عام کی ابتدائی سورتوں میں سے ہے۔ اِس سے واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن نے یہ مطالبہ منکرین کے سامنے پہلے بالاجمال پیش کیا، پھر اِسی اجمال کو حسب موقع مختلف الفاظ میں کھول دیا ہے۔ اِس میں کوئی ترتیب و تدریج ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔
۱۳۶؎ اِس آیت میں خطاب براہ راست ہو گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ تمھارے معبود اگر اِس موقع پر بھی تمھاری مدد کو نہ پہنچیں تو مان لو کہ یہ علم الہٰی کا فیضان ہے۔ چنانچہ تم سب مل کر بھی اِس شان کی کوئی چیز پیش نہیں کر سکتے اور اِس کا یہ دعویٰ بھی بالکل سچا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔
۱۳۷؎ یہ ایک سنت الٰہی کے حوالے سے اُن کے مغالطے پر تنبیہ فرمائی ہے کہ جو لوگ دنیا کے طالب ہوتے ہیں، اُسی کے لیے جیتے، اُسی کے لیے مرتے اور آخرت سے بالکل بے پروا ہو کر زندگی بسر کرتے ہیں، اُن کا حساب اللہ تعالیٰ جس کو جتنا دینا چاہتا ہے، دے کر اِسی دنیا میں بے باق کر دیتا ہے اور اُن کی تمام کارگزاریوں کا پھل اُنھیں یہیں مل جاتا ہے۔ اِس سے وہ اِس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ آخرت اگر ہوئی بھی تو اُس میں بھی وہی خدا کے محبوب ہوں گے۔ فرمایا کہ اُنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ آخرت میں اُن کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
۱۳۸؎ اِس سے مراد وہ نور فطرت ہے جو حق و باطل اور خیر و شر کے مبادی میں امتیاز کے لیے اللہ تعالیٰ نے خود انسان کے اندر ودیعت کر دیا ہے۔
۱۳۹؎ یعنی وحی الہٰی جو ’نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ‘(روشنی پر روشنی) ہو کر آتی اور انسانی فطرت کے اندر خدا کے ودیعت کردہ مبادی کی تصدیق کر دیتی ہے۔ لفظ ’یَتْلُوْہُ‘ میں ضمیر مذکر آئی ہے۔ اِس کا مرجع لفظ ’بَیِّنَۃ‘ ہے، لیکن اُس کی تانیث چونکہ غیر حقیقی ہے، اِس لیے یہ معنی کے لحاظ سے آگئی ہے۔
۱۴۰؎ یعنی دنیا میں رہنما اور آخرت میں خدا کی رحمت جو ایمان والوں کو لازماً اپنے دامن میں لے لے گی۔
۱۴۱؎ اِس طرح کے استفہامیہ جملوں میں بعض اوقات کلام کا ایک حصہ حذف کر دیا جاتا ہے۔ ہم نے اُسے کھول دیا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ قرآن کا انکار اِس طرح کے دنیا پرست ہی کر سکتے ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا ہے، اِس لیے کہ اُن کی غلط روی کی وجہ سے اُن کی فطرت کا نور بجھ چکا ہوتا ہے اور جن کی فطرت کا نور بجھ چکا ہو، وہ قرآن پر ایمان لانے والے نہیں بن سکتے۔ اِس سے ، اگر غور کیجیے تو اللہ تعالیٰ نے ایک لطیف اشارہ اُن اہل کتاب کی طرف بھی کر دیا ہے جو اگرچہ ابھی پوری طرح سامنے تو نہیں آئے تھے، لیکن اندر اندر مخالفت کے لیے تیار ہو رہے تھے۔
۱۴۲؎ مطلب یہ ہے کہ اگر یہ شامت زدہ لوگ قرآن کو جھٹلا رہے ہیں تو جھٹلائیں، اِن کے اِس رویے پر تمھیں کسی الجھن میں نہیں پڑنا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے یہ بات درحقیقت اُنھی بدبختوں کو سنائی گئی ہے جو قرآن کی مخالفت کے درپے تھے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ اِس طرح کے جملوں میں جو عتاب ہوتا ہے، اُس کا رخ۔۔۔ مخالفین کی طرف ہوتا ہے، لیکن وہ لائق التفات نہیں رہ جاتے، اِس وجہ سے اُن کو خطاب کر کے بات براہ راست کہنے کی بجاے پیغمبر کو خطاب کر کے کہہ دی جاتی ہے۔ زجر و ملامت کا یہ اسلوب بسا اوقات براہ راست زجر و تنبیہ سے زیادہ موثر ثابت ہوتا ہے۔ قرآن میں اِس کی نہایت دلآویز مثالیں موجود ہیں۔‘‘(تدبر قرآن۴/ ۱۱۸)
۱۴۳؎ یعنی اُس کے شریک ٹھیرائیں۔ قرآن میں یہ تعبیر شرک کے لیے بھی اختیار کی گئی ہے اور اپنی طرف سے تحلیل و تحریم کے لیے بھی، جو شرک ہی کی ایک صورت ہے۔ سیاق و سباق سے واضح ہے کہ یہاں شرک ہی مراد ہے۔
۱۴۴؎ یہ گواہی خدا کے پیغمبر بھی دیں گے جنھیں اتمام حجت کے لیے بھیجا گیا اور اُس کے فرشتے بھی جو لوگوں کے اعمال کا ریکارڈ رکھنے پر مامور ہیں۔
۱۴۵؎ یعنی توحید کی صراط مستقیم سے ہٹا کر لوگوں کو مشرکانہ عقائد کی بھول بھلیاں میں الجھانا چاہتے ہیں۔
۱۴۶؎ دہرا اِس لیے کہ یہ خود بھی خدا کی راہ سے رکے اور دوسروں کو بھی روکے رہے۔
۱۴۷؎ مطلب یہ ہے کہ نہ اللہ و رسول کی بات سننے کے لیے تیار تھے اور نہ انفس و آفاق میں خدا کی نشانیاں دیکھ کر اُن سے کوئی سبق حاصل کرتے تھے۔
۱۴۸؎ یہ اُنھی منکرین کی طرف اشارہ ہے جن کا ذکر اوپر ’مَاکَانُوْا یَسْتَطِیْعُوْنَ السَّمْعَ وَمَاکَانُوْا یُبْصِرُوْنَ‘ کے الفاظ میں ہوا ہے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ