ڈاکٹر عدیل احمد
’’ایک ذرے کا عدم سے وجود میں آنا اسی قدر وضاحت طلب ہے جتنا کہ اس پوری کائنات کا۔‘‘
کچھ لوگ خدا کو مانتے ہیں اور کچھ لوگ خدا کو نہیں بھی مانتے، لیکن ایسے لوگ تعداد میں زیادہ نہیں ہیں۔ عام طور پر جن لوگوں کے بارے میں یہ تاثر قائم کرلیا جاتا ہے کہ وہ دہر یے ہیں، ان میں سے زیادہ تر کسی نہ کسی شکل میں خالق کے وجود کے کسی نہ کسی نظریے پر ضرور یقین رکھتے ہیں، چاہے وہ ہمارے عقائد سے کتنا ہی متصادم کیوں نہ ہو۔ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کی اپنی اپنی وجوہات ہیں، لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ جانتے ہی نہیں کہ وہ ماننے والوں میں سے ہیں یا نہ ماننے والوں میں سے یا یوں کہہ لیجیے کہ انھوں نے اپنے لیے ایمان یا تکفیر کا فیصلہ کرنے کی کوئی شعوری کوشش کبھی کی ہی نہیں۔ زیر نظر مضمون خاص طور پر ایسے ہی لوگوں سے مخاطب ہے، لیکن عمومی لحاظ سے یہ سب ہی کو خطاب کرتا ہے۔ ایمان رکھنے والوں کے لیے ہم اپنا نقطۂ نظر اور الوہیت، توحید، رسالت اور آخر میں اسلام کے حوالے سے خالص منطقی معروضات پیش کریں گے، جبکہ ایمان نہ رکھنے والوں کے لیے ان کے اس رویے کی عمومی وجوہات سے بحث کی جائے گی۔ اتفاق یا اختلاف کرنا آپ کا حق ہے، لیکن ہمارا مقصد فقط اتنا ہے کہ اس موضوع کا، جو زاویۂ فکر کی ایک ذرا سی تبدیلی سے زندگی کا سب سے اہم موضوع بن جاتاہے، پوری سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیا جائے اور اس کے بارے میں اپنی راے ٹھوس بنیاد پر اٹھائی جائے۔ اس گفتگو میں ہم تکنیکی اصطلاحات اور مذہبی حوالوں سے گریز کریں گے تاکہ بات نہ صرف یہ کہ عام فہم ہو، بلکہ حتی الامکان اس میں کسی قسم کی جانب داری کا تاثر بھی نہ آنے پائے۔ہمارا خیال ہے کہ اپنی اس گفتگو کو سہل اور رواں بنانے کے لیے ہم دین ،فلسفے اور سائنس کی ادق کتابوں کو اپنا ماخذبنانے اور جا بجا ان کے حوالوں سے قاری کے تسلسل کو توڑنے کے بجاے اپنے قاری کی عمومی سمجھ بوجھ (common sense) پر زیادہ انحصار کریں اور اپنی معروضات کے حتمی فیصلے اسی پر چھوڑدیں۔ اس کے باوجود کہیں کہیں ایسے حوالے ناگزیر ہوں گے۔
اس مضمون کے چار حصے ہیں۔ ہر حصہ ایک سوال کو خطاب کرتا ہے۔ پہلے حصے میں اس سوال سے بحث کی گئی ہے کہ کیا ہمارا اور اس کائنات کا کوئی خالق ہے یا یہ خودبخود بن گئی ہے؟ ہماری کوشش ہے کہ ہم بہت لمبی اورمشکل بحثوں میں الجھے بغیرسہل اور عام فہم انداز میں ایسی منطقی دلیلوں کے سہارے، جو کسی عالم اور ایک متجسس ذہن کے مالک عام آدمی کو ایک سا متاثر کرتی ہوں، اپنے پڑھنے والوں کی عمومی سمجھ بوجھ کو اپیل کریں اور اس سوال کے جواب میں اپنا نقطۂ نظر قائم کریں۔ اگر قاری اس پہلے حصے کے اختتام پر ہم سے متفق نہیں ہوتا تو ضروری نہیں ہے کہ وہ مضمون کے دوسرے حصے کی طرف بڑھے۔ ہاں، اگر یہاں ہم ایک اتفاق راے حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اگلا سوال ہوگا: کیا ہمارے اور ہماری اس کائنات کے کئی خالق ہیں یا ہر طرح کی مخلوق کا ایک ہی خالق ہے؟ یعنی الوہیت کے بعد ہم توحید پر بات کریں گے۔ اگر یہاں بھی ہم اپنے قارئین کو اپنے زاویۂ فکر پر قائل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو اگلا سوال رسالت سے متعلق ہے کہ کیا خالق اپنی ذی شعور مخلوق کے لیے کوئی پیغام ہدایت بھیجتا ہے یا نہیں؟ اس مختصر سی بحث سے گزرنے کے بعد ہم آخری سوال پہ پہنچیں گے کہ کیا خالق کا آخری پیغام محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) لے کر آئے ہیں؟ یہاں آخری سے مراد ابھی تک کا آخری بھی ہے اور حتمی اور خاتم بھی۔ مضمون کے اس حصے میں سوال کے یہ دونوں ہی رخ زیر بحث آئیں گے۔ ان چار بنیادی نکات کے طے کرنے کے لیے ہمیں چند ذیلی امور پر بھی بحث کرنا ہوگی۔ یہ تمام موضوعات ایک دوسرے سے اس طرح منسلک ہیں کہ ایک کی وضاحت کے بغیر دوسرے پر بات مناسب نہیں اور دوسرے پر اتفاق کیے بغیر تیسرے موضوع کو کھولنا صحیح نہیں ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ سلسلہ وار گفتگو کریں اور اپنی بات میں تسلسل اور روانی قائم رکھنے کے لیے بحث کے ہر زینے پر پہنچتے ہوئے گذشتہ مرحلوں کا اعادہ کریں۔ اسی باعث آپ کو کچھ باتوں کی تکرار بھی ملے گی جو مرحلہ وار ترتیب اور موضوعات کے تعلق کو نبھانے کے لیے ناگزیر ہے۔
ہم اپنے پڑھنے والوں سے درخواست کریں گے کہ اس مضمون کے مطالعے سے پہلے کوشش کریں کہ نظر کی عینک کے علاوہ اور ہر طرح کی عینک اتار کر رکھ دیں۔ ہماری گزارشات کھلے دل اور بے تعصب ذہن کے ساتھ پڑھیں۔ ہمارا کوئی نکتہ اگر آپ کی مطالعاتی تربیت، نظریات یا عقیدوں سے کہیں متصادم ہو تو فیصلہ اپنی غیر جانب دار سمجھ بوجھ اور انصاف کے تقاضوں کے ماتحت کریں اور اس پر اپنی پہلے سے قائم شدہ سوچ کو اثر انداز مت ہونے دیں۔
ہمارے انداز تحریر سے اگر کسی قاری کے جذبۂ عقیدت کو یا کسی کے مذہبی (یا غیر مذہبی) احساسات کو ٹھیس پہنچتی ہوتو ہم ان سے معذرت کے طلب گار ہیں۔ ہمارا مدعا فقط یہ ہے کہ اپنی معروضات کو نہایت بے لاگ طریقے سے پیش کریں اور اپنی تحریرپر عقیدت و احترام یا نفرت و حقارت کے وہ رنگ نہ چڑھنے دیں جن سے اس کا غیر جانب دارانہ انداز متاثر ہواور متذکرہ بالا سوالات سے متعلق مروجہ نظریات کو منطق اور عمومی سوجھ بوجھ کی کسوٹی پر پرکھنے کے عمل کو نقصان پہنچے۔ اس مقدمے کے لیے چونکہ ہم نے دلیل کو اور اپنے پڑھنے والوں کی عمومی سمجھ بوجھ کو خطاب کیا ہے، لہٰذا اپنی بات سمجھانے کے لیے متعدد مثالوں سے فائدہ اٹھایا ہے۔ ممکن ہے، ان مثالوں کے انتخاب میں یا گفتگو کو مذہبی رنگ سے بچا کر ایک عام فہم انداز دینے کے لیے الفاظ اور جملوں کے استعمال میں ہم سے کوتاہی ہوئی ہو، اس کے لیے بھی ہم معذرت خواہ ہیں۔
غیر مذہبی لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان افراد پر مشتمل ہے جو دنیا میں ہر طرف ظلم اور بے انصافی دیکھ کر ایک عادل اور قادر خدا کے وجود سے منکر ہوجاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسی ہستی کے ہوتے ہوئے جو ہر شے اور ہر واقعے کی مکمل خبر رکھتی ہو، اور پھر کچھ بھی اس کے دائرۂ قدرت سے باہر نہ ہو، دنیا میں وسائل کی ایسی غیر منصفانہ تقسیم ہو ، ظالم ترین لوگ مکافات عمل سے بچ نکلتے ہوں اور بے شمار لوگ کسی فریاد رسی کے بغیر ظلم اور جبر کی چکی میں پستے پستے عمر گزار دیں۔ ایسے حضرات (وخواتین) کی انسان دوستی قابل تحسین ہے، لیکن انکار کی یہی وجوہات زاویۂ فکر کے ایک ذرا سے فرق کے ساتھ اقرار کی دلیل بن سکتی ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ اگر اس دنیا میں ہر معاملہ انصاف و مساوات پر قائم ہو جائے تو کسی منصف یا حاکم کی کیا ضرورت باقی رہے ، خالق کے وعدے کے مطابق حساب کا دن کس لیے سجے اور جزا اور سزا کیوں عمل میں آئے۔
انکار کی وجہ اگر ضد ہو تو اس کا علاج بہت مشکل ہے، ورنہ علم کے ساتھ اگر فکر کا ایسا درست زاویہ میسر آجائے جو کسی سبب یا اثر کے بوجھ سے کسی بھی طرف جھک نہ رہا ہو تو خالق کے وجود سے انکار کی باقی تمام وجوہات کا جواب ممکن ہے، خواہ وہ احساس کم تری پر بنیاد رکھتی ہوں، لاعلمی پر مبنی ہوں، دنیا میں پائی جانے والی معاشی اور معاشرتی نا ہمواریوں سے پھوٹتی ہوں، تاریخ کی ادھوری کہانیوں کے انجام تلاش کرتی ہوں یا وسائل اور مواقع کے عدم توازن سے ابھرتی ہوں۔
ان تمام وجوہات میں سے احساس کم تری باقی سب سے الگ ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے تمام عوامل تو اس دنیا میں چلنے والی فلم کے انٹرول (interval) سے پہلے کے حصے سے مماثل قرار دیے جا سکتے ہیں جس میں سارے کام غلط ہورہے ہوتے ہیں اور چیزوں کا ٹھیک ہوجانا بظاہر ناممکن سا لگتا ہے، لیکن وقفے کے بعد کی کہانی میں سب کچھ درست ہوجاتا ہے۔ ہمیں صرف یہ سمجھنا ہے کہ دنیا کی اس فلم کا انجام موت نہیں ہے، بلکہ موت صرف وہ انٹرول ہے جس کے بعد باقی کا حصہ چلنا ہے۔ پیچھے رہی مرعوبیت یا کم تری کا احساس، تو یہ ان لوگوں کے لیے انکار یا تشکیک کا باعث بنتا ہے جو غیروں کی فلاسفی اور تحقیق سے ازحد متاثر ہو کر اپنے دین اور اپنی ثقافت کو سمجھے بوجھے بغیر ان کے خلاف فیصلہ دے دیتے ہیں۔ مشورہ ان کے لیے بھی وہی ہے، علم اور بے تعصب انداز فکر!
کچھ احباب ایسے بھی ہیں جو کسی الہامی دین کو ماننے پراس لیے تیار نہیں ہیں، کہ ان کی دانست میں مذہب سوچ پر پہرے بٹھاتا ہے، انسان پر پابندیاں عائد کرتا ہے اور اسے غلام بنادیتا ہے۔ اگر اس سلسلے میں بھی بے لاگ سوچ سے کام لیا جائے تو حقیقتاً معاملہ بالکل الٹ ہے۔ عرب کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ ایک ایسا نام نہاد معاشرہ جو اپنے ہر فعل اور ہر فیصلے کے لیے الگ الگ خداؤں کا محتاج تھا، جب دین میں داخل ہوا تو دین کے انھی پہروں اور پابندیوں نے اپنے نظم میں کس کر اس کی سوچ کو ایسی آزادی اور شعور بخشا کہ وہ ذلت و جہالت کے اندھیروں سے نکل کر دنیا کے لیے علم و عرفان کی مشعلیں روشن کرنے لگا۔ مذہب تو دراصل ہمیں ان پابندیوں سے آزاد کرتا ہے جو ہمارے اپنے توہمات ہم پر عائد کرتے ہیں۔ آخری دین(اور پہلے اور واحد دین بھی) کی تو ابتدا ہی ہر قسم کے وہم و گمان اور بدعقیدگی کی نفی سے ہوتی ہے۔ ہاں، اگر اپنے حقیقی خالق کو بھی نہ پہچان پائے تو ہم اسے سوچ کی آزادی نہیں، بلکہ کجی قرار دیں گے۔
خدا کے وجود کے لیے ایسے ثبوت فراہم نہیں کیے جا سکتے کہ جو ہماری حسیات کے دائرۂ عمل میں آسکتے ہوں۔ معلوم الوہی ادیان کے مطابق خدا کی ذات کا علم غیب سے تعلق رکھنے والے ان تمام امور میں سب سے اولیٰ ہے جو کسی بھی طرح حیطۂ حس و ادراک میں نہیں سما سکتے۔ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خدا کے عدم وجود کے لیے بھی کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا جاسکتا، بلکہ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ موخرالذکر، اول الذکر سے محال تر ہے۔ چنانچہ ہمیں اس بحث کا فیصلہ انسانی شعور اور فہم کی طاقت کے بلاامتیاز استعمال پر چھوڑنا ہوگا۔
خدا کے تصور سے انکار کی سب سے بڑی وجہ عام طور پر علم کو سمجھا جاتا ہے، حالاں کہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے اور اس اندازفکر کی وجہ علم نہیں، بلکہ لاعلمی ہے۔ ممکن ہے، میرے کچھ پڑھنے والے یہاں مجھ سے اختلاف کریں، لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میرے اس بیان کے پیچھے کوئی تعصب یا طنز پوشیدہ نہیں ۔ یہ درست ہے کہ الحاد پسندوں کی ایک بڑی تعداد ان لوگوں پر مشتمل ہے جو بظاہر خاصے تعلیم یافتہ اور مطالعے کے شوقین ہوتے ہیں اور دوسری طرف ایمان رکھنے والوں میں جہاں بہت سے لوگ بے حد پڑھے لکھے اور ذہین ہوتے ہیں، وہیں جہلا کی بھی ایک کثیر تعداد ان کے ساتھ عقیدوں کا اشتراک رکھتی ہے۔ لیکن یہاں دو نکات کی وضاحت ضروری ہے: ایک تو یہ کہ اگر ہمیں اجازت دیں تو ایک جاہل شخص کے ایمان کوہم تقلید کہنا زیادہ درست خیال کریں گے، کیونکہ اس کا عقیدہ کسی علم، منطق، تعلیم یا سمجھ بوجھ کی ایسی کسی مشق کا نتیجہ نہیں ہوتا، بلکہ زیادہ تر دیکھا دیکھی اور سنی سنائی کا تسلسل ہوتا ہے۔ یہاں ہمارا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ایمان بالغیب کے لیے آپ کا ان چیزوں کوسمجھنا ضروری ہے جن پر ایمان لارہے ہیں، بلکہ ہمارے نزدیک تو غیب کا لفظ ہی ان امور کا احاطہ کرتا ہے جنھیں آپ کسی بھی طور سمجھ نہیں سکتے، لیکن آپ کو بہرحال یہ ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کون سی باتیں ہیں جنھیں آپ سمجھ سکتے، اور کیوں نہیں سمجھ سکتے، اور جن پر ایمان لاناآپ کے ایمان والا ہونے کے لیے لازمی ہے۔
دوسرے زیادہ معلومات رکھنے کا مطلب زیادہ علم کا ہونا نہیں ہے۔ اعدادوشمار اور شماریات جب کسی مقصد کا ارتکاز بھی رکھتے ہوں تو انھیں معلومات کہا جاتا ہے، اور معلومات کے ساتھ جب سمجھ بوجھ شامل ہوجائے تو یہ علم کے درجے پر فائز ہوجاتی ہیں۔ علم تعصب کے دروازے سے کم ہی گزرتا ہے۔ سیکھنے کی خاطر مطالعے، مشاہدے یا تجربے کے اوزاروں کو جب تک صاف دلی اور عدم امتیازکے ساتھ استعمال نہ کیا جائے، وہ ہمیں درست سبق دینے کے بجاے صرف وہ نتائج فراہم کرتے ہیں جو کسی نہ کسی طور ، اور کسی نہ کسی حد تک ہمیں مطلوب ہوتے ہیں۔ لوگ مذہبی کتابوں اور انبیا کے اقوال سے ہی نہیں، بلکہ سائنسی مشاہدات سے بھی اپنی مرضی کے مطالب اخذ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جدید دور میں تحقیقی عمل کے لیے بے لاگ ہونا ایک کڑی اور لازمی شرط ہے۔ یہ اور بات ہے کہ زیادہ تر تحقیقات کسی نہ کسی مفاد کے زیرسایہ یا پہلے سے قائم کیے گئے کسی ادھ پکے نظریے کے ہم قدم تکمیل کو پہنچتی ہیں۔ یہ تو خیر ایک ضمنی بحث ہے، ورنہ جو نکتہ ہم قائم کرنا چاہ رہے ہیں، وہ اس قدر ہے کہ تعصب اور شدت کا جو الزام انتہائی آسانی کے ساتھ مذہبی لوگوں یا ایمان بالغیب کا عقیدہ رکھنے والوں پر جا چپکتا ہے، وہ اصل میں الحاد پسندوں کے لیے بھی اگر زیادہ نہیں تو کم از کم اتنا ہی موزوں ضرور ہے۔
اِن پڑھے لکھے لوگوں کی الحاد پسندی کا، جن کے بارے میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ زیادہ علم نے انھیں دین سے دور کردیا ہے، ایک پہلو تو ان کا یک رخا مطالعہ یا حصول علم ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ان میں سے بہت کم تعداد ایسے افراد کی ہے جو ایمان اور الحاد کے مقدمے میں اپنا فیصلہ فریقین کا بیان سننے کے بعد دیتے ہوں، ورنہ عام طور پر ان لوگوں نے اول تو ایمان سے متعلق کچھ پڑھنے، سمجھنے یا جاننے کا تکلف کیا ہی نہیں ہوتا یا پھر ان کی یہ کوشش چند ایسے کتابچوں، روایتوں اور کہانیوں پر مشتمل ہوتی ہے جن سے دین اور ایمان کی اصل کا دور کا واسطہ بھی نہیں ہوتا۔ یہ لوگ ایک طرف اگر پلیٹو اور ایرسٹوٹل کے ملفوظات کے تراجم کی درستگی اور ایڈیشن کی تاریخ کے بارے میں انتہائی محتاط ہوتے ہیں تو دوسری جانب کسی بھی ڈاڑھی والے کی بتائی ہوئی بات کو یا قصے کہانیوں کی سی اسرائیلی روایات اور تشہیری کتابچوں میں لکھی ہوئی بے سند اور بلا حوالہ تحریروں کو ازحد آسانی سے دین وایمان کی نمائندگی کا درجہ دے دیتے ہیں۔
دوسرا پہلو زاویۂ نظر کی وہ عینک ہے جو صرف انھی نے نہیں، بلکہ ایسے تقریباً تمام ہی لوگوں نے لگارکھی ہے جو کسی نظریے کے ماننے والے ہیں۔ یہی عینک ہے جو اکثر مذہبی لوگوں کو دین کا دائرہ اتنا تنگ اور چھوٹا دکھاتی ہے کہ انھیں ہر دوسرا مسلمان اس دائرے سے باہر کھڑا نظر آتا ہے۔انسان شاید اپنے عقیدے اور اپنی perception سے مطلقاً علیحدہ ہو کر اپنے مطالعے، مشاہدے یا تجربات کا تجزیہ نہیں کرسکتا۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ ایک سلیم الفطرت اور صاحب ایمان شخص کی عینک اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس کا دائرۂ نظر نسبتاً وسیع ضرور ہوتا ہے، وہ اس لیے کہ اس کے ارتکاز کا مرکزی نکتہ اپنے مقام کے طفیل دیگر تمام نقطہ ہاے نظر کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ بیان ہمارے کچھ پڑھنے والوں کی پیشانیوں پر بل ضرور ڈالے گا، لیکن زیرنظر مضمون ایک اعتبار سے اس بیان کی ایک بالواسطہ وضاحت بھی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس کے مطالعے سے کسی نہ کسی حد تک ضرور یہ تاثر دھل جائے گا کہ ’’مذہبی لوگ‘‘بہت تنگ نظر ہوتے ہیں اور شاید غیر مذہبیت اور وسیع الخیالی کو جو عام طور پر ہم معانی سمجھا جانے لگا ہے، اس خیال کی بھی کچھ اصلاح ہوسکے۔
جن عوامل کو ہم آنکھ کھولتے ہی دیکھتے چلے آتے ہیں،ان کے لیے انگریزی میں عام طور پر ’’نارمل‘‘ (normal) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ انھیں (زیادہ درست طور پر )کسٹم (custom) بھی کہا جاتا ہے، لیکن نارمل زیادہ وسیع معنوں میں اور زیادہ کثرت سے مستعمل ہے۔ نارمل کو اردو میں عمومی، حسب معمول، حسب دستور یا حسب عادت کہا جا سکتا ہے، جو دراصل ایسے عوامل کے لیے زیادہ مناسب الفاظ ہیں۔ عربی میں نارمل کو عادی کہا جاتا ہے۔ ان معنوں کے لیے، عادی سب سے زیادہ درست لفظ ہے۔
اگر یہ گفتگو آپ کو لا تعلق محسوس ہورہی ہے تو بس تھوڑا سا تحمل کریں،ابھی اس بحث کا رشتہ اس مضمون کے مرکزی خیال سے جڑ جائے گا۔ جو نکتہ ہم قائم کرنا چاہتے ہیں، وہ معمولی اور غیر معمولی کے اس فرق سے متعلق ہے جو عام طور پر گردانا جاتا ہے۔ عموماً، سمجھ میں آنے والی، اپنے پیچھے اسباب ووجوہ کا ایک تسلسل رکھنے والی باتوں کو نارمل کہا جاتا ہے، لیکن اگر کسی بھی حرکت یا عمل کا سبب سمجھنے کے لیے کیے جانے والے سوالات کا سلسلہ کچھ اور دراز کیا جائے تو ایک مقام آئے گاجہاں کوئی بھی چیز نارمل نہیں رہ جائے گی۔ اس اعتبار سے عادی یا حسب معمول کی اصطلاحات زیادہ درست معلوم ہوتی ہیں کہ صدیوں سے جو کام جس طرح انجام پاتے آرہے ہیں،انھیں اسی طرح ہوتے دیکھنے کی عادت نے ان کا غیر معمولی پن اور اچنبھا ختم کردیا ہے، ورنہ دنیا میں ہونے والا کوئی بھی فعل پوری طرح سمجھ میں آنے والا اور معمولی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر آگ لکڑی کو جلاتی ہے اور جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں حرارت پیدا ہوتی ہے۔ یہ ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے۔ ہمیں اس سارے عمل میں کوئی حیرت انگیز، ناقابل فہم یا غیر معمولی چیز نظر نہیں آتی، لیکن کیا واقعی یہ سارا عمل ایسا ہی سادہ اور قابل فہم ہے یا ہم نے اس کے پیچھے کارفرما امور کو سمجھنے کے بجاے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرلینے پر اکتفا کرلیا ہے، ورنہ لکڑی کے جلنے کے میکانزم میں تکسیدی عمل تک پہنچ جانے کے بعد ایک آدھ’’ کیوں ‘‘اور ہو تو ہمارے علم اور فہم کی بے بسی کے لیے کافی ہوجائے گا۔ سادہ الفاظ میں یوں کہیے کہ آگ کا جلانے کا عمل اپنی اصل کے اعتبار سے آج بھی ایسا ہی چونکا دینے والااور غیر معمولی ہے، جیسا کہ اس پہلے انسان کے لیے رہا ہوگا جس نے اس کا اولیں مشاہدہ کیا تھا،لیکن قرن ہا قرن سے اسے دیکھتے چلے آنے، اس کے پیچھے کارفرما عوامل کو دریافت کر لینے(خیال رکھیے گا کہ یہاں ہم نے دریافت کا لفظ استعمال کیا ہے سمجھ کا نہیں)، اور ان عوامل کو اپنے بہت سے دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بعد ہم اس کو معمولی اور نارمل سمجھنے لگے ہیں۔
آگ کے جلانے کے عمل کے علاوہ کوئی بھی اور مثال لے لیجیے، وہ پانی کے بہنے کی، چیزوں کے اس میں ڈوبنے یا اس پر تیرنے کی عادت ہو، پرندوں کے ہوا میں اڑنے کی صلاحیت ہو یا کوئی اس سے بھی زیادہ معمول کی بات، یعنی اچھالنے پر پتھر کے واپس زمین پر آگرنے کی بات ہو، ذرا سا غور کرنے پر آپ اس کا غیر معمولی پن دریافت کر لیں گے۔ زیادہ سے زیادہ توجیہ جو آپ معلوم کر سکیں گے، وہ کسی بھی طبعی یا طبیعی قانون کا سہارا ہو گا، جیسے کہ کشش ثقل کا قانون، حرکت کے قوانین یا پھر ارشمیدیس یاپاسکل کے قوانین وغیرہ، لیکن یہ قانون اس طرح کیوں ہے؟ اس کی کوئی وضاحت پانا ممکن نہیں ۔
یہاں ایک ضمنی جملہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سائنس شاید صرف ’کیا‘ اور ’کیسے‘ کا جواب پاسکتی ہے، ’کیوں‘ اس کے حیطۂ عمل سے باہر ہے۔ اس ’کیوں‘ سے نمٹنے کے لیے روایتی دینی علما کی طرح سائنسی علما نے بھی تھیوری اور قانون کی دیواریں اٹھائی ہیں اور اصطلاحات کے بند باندھے ہیں۔ وقت کا معما نہیں سلجھا تو زیرو ٹائم، تخلیق کا معاملہ سمجھ میں نہیں آیا تو creativity field یا physical singularity ، کائنات کے توازن اور مادے کی مقدار میں اعتدال کی مساوات ڈگمگائی تو dark matter پیدا کر لیا گیا۔ الغرض، سوالات کی ان پیچیدہ اور تاریک راہوں میں سائنس جہاں تک اپنے تجسس اور طریقۂ کار کی مشعلیں اٹھائے چل سکی ہے، چلی ہے، لیکن جہاں اندھیرا اس قدر گہرا ہو گیا ہے کہ ان مشعلوں کی لو جواب دے جائے، وہاں سائنس نے کسی ایک اصطلاح کا بورڈ ٹھونک دیا ہے اور اس سے آگے کے راستے کو اپنے لیے غیر متعلق قرار دے دیا ہے۔ ہمیں اس روش پر اعتراض نہیں ہے، اور نہ ہی ہم ان جواب طلب سوالوں کے حتمی جواب دینے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ہمارا نکتہ یہ ہے کہ اس حوالے سے سائنس کی نئی روشنی کے علم برداروں اور ہمارے محترم دینی علما کا احوال ایک سا ہے، یعنی ایک طرف اگر منطق و فکر، بلکہ یہاں تک کہ بعض معاملات زندگی کے دینی پہلوؤں سے متعلق استفسارات پر روایت اور تقلید کا، اور اپنی ہی اختراع کی ہوئی اصطلاحات کا پہرا ہے تو دوسری طرف بھی سوچ کے افق پر مفروضات کے بلیک ہولز منڈلارہے ہیں۔
ضمنی جملے کا ضمیمہ کچھ طویل ہوگیا، ورنہ بات ہورہی تھی اس امر کی کہ اس دنیا میں ہونے والا کوئی عمل، کوئی وجود اور کوئی مشاہدہ معمولی نہیں ہے۔ آگ، پانی، ہوا کی خصوصیات، مادے کی ماہیت، روشنی کی تعیین، کشش اور دفع کی قوتیں، ستاروں کی گردش وغیرہ کو تو چھوڑیے، ہم ابھی تک خود سے تعلق رکھنے والی سب سے بنیادی حقیقتوں، یعنی زندگی اور موت کی گتھی نہیں سلجھا سکے ہیں۔ چنانچہ خدا کے وجود کے نظریے کو صرف اس بنا پر رد کردینا کہ وہ ہمارے شعور وادراک سے باہر ہے یا حسی تجربات سے ماورا ہے، قرین انصاف نہیں ہے۔ یا تو ہم کائنات کا ہر راز صرف جان ہی نہیں، بلکہ سمجھ بھی چکے ہوں اور ہر عمل کے پیچھے کارفرما محرکات سے پوری طرح واقف ہو چکے ہوں، اور پھر خدا کا وجود تسلیم کر لینے سے ہماری ہزاروں برس کی محنت شاقہ اور ذہنی ارتقائی سفر کا حاصل خاک میں مل جاتا ہو تو پھر بھی ہم اس نظریے کو مسترد کردینے میں کسی حد تک حق بجانب ہیں، لیکن یہاں تو معاملہ اس کے برعکس یہ ہے کہ ہم ایک ذرے تک کا وجود سمجھنے کی کوشش میں ایک نئی کائنات کے دل میں اتر جاتے ہیں، جس قدر دریافت کرتے چلے جاتے ہیں، اپنی لاعلمی اور بے بسی اسی قدر آشکارا ہوتی چلی جاتی ہے۔ ’کیا‘، ’کب‘، ’کیسے‘ اور ’کیوں‘ کے سبھی راستے گہری دھند میں اٹے ہوئے ہیں، لیکن ہم صرف ’کون‘ کے دروازے کو کھولے، کھٹکھٹائے بغیر اس کے پیچھے کسی کی موجودگی کا انکار اپنی تشفی کے لیے کافی سمجھتے ہیں، جبکہ یقیناً مادے، توانائی اور زندگی کی تخلیق، وقت اور تغیر کے ثبات اور طبعی قوانین کے نفاذ کا ابدی معما ایک خالق اور ایک نافذ و نفاذکے وجود کو تسلیم کرلینے سے سلجھ جاتا ہے۔ ہاں، خود خالق کا وجود، اس کی اساس اور اس کی نوع بہر حال ایک سمجھ میں نہ آنے والا معاملہ ہے، لیکن اگر ہم خالق کو مان ہی لیتے ہیں تو پھر اس معاملے سے نمٹنے کے لیے بھی ہمیں اسی کے بیان کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ اور اس حقیقت کو تسلیم کر لینا پڑتا ہے کہ خالق کی ہستی انسانی حس و ادراک سے ماورا ہے۔
یوں بھی تخلیق کے معاملے میں انسان کو کسی نہ کسی زینے پر اپنے تخیل اور امکانی جدوجہد کی بے بسی ماننا ہی پڑتی ہے، تو کیوں نہ ہم کائنات کی تخلیق سے ایک قدم آگے بڑھ کر خالق کے معاملے میں ہتھیار ڈالیں۔ اور اس کی ایک مثال زندگی کی ابتدا ہے جس سلسلے میں یہی رویہ اپنایا گیا ہے۔ اس جدید دور کے بیالوجسٹس(biologists) کی ایک متفقہ راے ہے کہ زندگی کسی بے جان شے سے جنم نہیں لے سکتی۔ اسے biogenesis یا حیات از حیات کا نظریہ کہا جاتا ہے، لیکن یہ بھی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ پہلی بار حیات کی تخلیق ایسے عوامل کے نتیجے میں ہوئی جو ظاہر ہے کہ خود جان دار نہیں تھے، یعنی abiogenesis اور ہمیں یہ تسلیم کرتے ہوئے کسی سائنسی قانون کی بے حرمتی یا علمی بددیانتی کا احساس نہیں ہوتا کہ ایک بار تو زندگی نے بے جان اشیا سے تخلیق پائی، لیکن اس کے بعد کسی نے یہ حکم نافذ کردیا کہ آیندہ سے ایسا کبھی نہیں ہوگا اور اب زندگی ہمیشہ زندہ چیزوں سے ہی پیدا ہوگی۔
وائرس کا حیاتی یا غیر حیاتی مقام، وقت کا خلا کے ساتھ رشتہ، روشنی کی رفتار، اور رفتار سے بڑھ کر اس کی نوعیت، یہ سب تو تسلیم شدہ معمے ہیں، اور ان سے بھی آگے کی چیزیں بلیک ہول اور ورم ہول(black holes and worm holes)، ڈارک میٹر اور اینٹی میٹر(dark matter and anti matter) اور اسی طرح کے معلوم نہیں کتنے ہی دیگر معاملات ہیں۔ انھیں چھوڑیے، ایٹم کے اندر کی دنیا، الیکٹرانز کی گردش، ہگس بوسن (higgs boson)ذرات کی ہےئت، مادے کی بنیادی اکائی اور اس کا توانائی کے ساتھ تعلق۔ ان سب کو بھی جانے دیجیے، ایک خاص درجۂ حرارت سے نیچے پانی کا سکڑنے کے بجاے پھیلنا، حیات کا تنوع، معلومات، تجربے اور احساس و جذبے کی نسلوں میں منتقلی اور ایسی بہت سی دوسری ان بوجھی پہیلیاں بھی رہنے دیں، میرے نزدیک تو ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی اس دنیا کی چھوٹی سے چھوٹی بات سے لے کر بڑی سے بڑی بات، ہر عمل، ہر شے، دیکھنے والی آنکھ اور سوچنے والے دماغ کے لیے ایک معجزہ ہے۔ دیکھنے والی آنکھ اور سوچنے والا دماغ خود معجزہ ہیں۔
ذرا توقف کیجیے، مجھے ان معموں کے ’کیا ‘اور ’کیسے‘ مت بتائیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ آپ پڑھے لکھے لوگ ہیں اور ان میں سے زیادہ تر عوامل کے میکانزم سے اور زیادہ تر اشیا کی ساخت سے واقف ہیں،لیکن میرا سوال وہیں ہے کہ کیا کسی بے حد پیچیدہ مشین کی ساخت اور اس کے کام کرنے کا طریقہ سمجھ لینے سے، اس مشین کی ندرت اور اس کے خالق کا کمال، بلکہ خالق کے وجود کا تصور ختم ہوجاتا ہے؟ یہ سوال تو بہرحال وہیں رہتا ہے کہ یہ مشین جو یوں بنی ہے اور ایسے کام کرتی ہے، وہ ایسے کیوں بنی ہے اور اس طرح کیوں کام کرتی ہے۔ آخر acetylcholine کیوں اعصاب کی ایک تارکے اندر اور باہر موجود چارج کو الٹاتی ہوئی اس میں ایک پیغام کی ترسیل کو ممکن بناتی ہے؟ آخر انسانی جسم کا ایک خلیہ اس نظام کے ساتھ مکمل ہم آہنگی رکھتے ہوئے، جس کا وہ ایک خردبینی حصہ ہے، کس طرح ایک خودمختار یونٹ کے طور پر کام کرتا ہے؟ ایک سیل (cell) کی سطح پر اس شعور کی موجودگی کیوں ممکن ہوئی کہ وہ اپنے مفسد مادوں کے اخراج اور قابل استعمال اجزا کے سنبھالنے کے لیے ایک شعبہ قائم کر سکے؟
اگر ہم اس لامتناہی کائنات میں ایک لائف زون (life zone) کے اندر اپنی موجودگی، پیچیدہ حیاتیاتی نظام، ایکو سسٹم، موسم اور زندگی کے معاون طبعی قوانین کو فقط ایک غیر شعوری اتفاق سمجھنے پر مصر ہیں تو معاف کیجیے گا یہ ایسا ہی اتفاق ہے کہ جیسے مثال کے طور پر کسی چھاپہ خانے میں زلزلہ آنے سے ایک انتہائی شان دار کتاب تیار ہوجائے۔
دنیا میں موجود کوئی بھی چیز اپنی مثل سے پہچانی جاتی ہے یا پھر اپنی ضد سے۔ رنگ، ذائقے، آوازیں، اجسام، یہاں تک کہ احساسات تک اپنے سے ملتے جلتے یا مخالف اور متضاد رنگوں، ذائقوں، آوازوں، جسموں اور احساسات کے ساتھ تقابل کی وجہ سے جانے پہچانے اور سمجھے جاتے ہیں۔ روشنی اندھیرے سے ممیز ہوتی ہے اور اندھیرا روشنی سے، آواز کا احساس خاموشی کا مرہون منت ہے اور خاموشی آواز کے تقابل سے اجاگر ہوتی ہے۔ یہ ایک گھسی پٹی بات ہی سہی، لیکن کوئی باشعور انسان اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتا۔ ہم ایک مثال سے اپنی بات کو کچھ اور واضح کرتے ہیں۔ فرض کیجیے ایک بچہ ایسے ماحول میں پیدا ہوتا ہے جہاں اس کی پیدایش سے پہلے سے کوئی آواز موجود ہے جو مسلسل ایک ہی فریکوئینسی، حجم اور روانی سے آرہی ہے۔ نہ وہ کبھی موقوف ہوتی ہے اور نہ اس میں کوئی تبدیلی آتی ہے۔ تو وہ بچہ ساری زندگی اس آواز کے ہونے کا احساس نہیں کرسکے گا، جب تک کہ اس آواز میں کوئی وقفہ یا تغیر نہیں آتا۔ اس کیفیت کا تجربہ ہم میں سے اکثر کو کسی نہ کسی حد تک ایسے مواقع پر ہوتا ہے، جب کسی جگہ ہمیں کسی مشین کی مستقل آوازیا جنریٹر کے شور کے ساتھ رہنا پڑے۔ کچھ دیر کے بعد ہمیں اس آواز کا احساس ختم ہوجاتا ہے۔ یہ احساس دوبارہ صرف اس وقت ہوتا ہے، جب یہ آواز کسی وجہ سے ختم ہوتی ہے اور ہمیں اچانک معلوم ہوتا ہے کہ ایک مستقل hum یا شور تھا جو ختم ہوگیاہے۔ غور کیجیے اگر اس آواز میں کبھی کسی ایک لمحے کے لیے نہ کوئی تبدیلی واقع ہو اور نہ کبھی کوئی وقفہ آئے، اور یہ معاملہ ہماری پیدایش، ہمارے جہان کی پیدایش سے پہلے سے چل رہا ہو تو اپنے مرتے دم تک ہم کیونکراس آواز کے ہونے سے ہی واقف ہوسکیں گے۔ یہی صورت حال کسی بھی اور امر میں پیش آئے گی۔ کچھ بھی جو یکساں ہو، بلاتغیر ہو، مسلسل، بلکہ مستقل ہو اور دائم ہو، ہمارے حس وادراک سے ماورا ہوگا۔
پال ڈیویز (Paul Davies) یونیورسٹی آف آسٹریلیا میں ریاضی کے پروفیسر اور ایک معروف میٹا فزسسٹ ہیں۔ وہ اپنی کتاب مائینڈ آف گاڈ (Mind of God) میں ایک طویل اور دل چسپ بحث کے بعد فطرت کے قوانین کے بارے میں چند نتائج اخذ کرتے ہیں: یہ قوانین آفاقی ہیں؛ یہ قوانین مطلق ہیں؛ یہ قوانین ہمیشہ سے موجود ہیں؛ یہ ہر جگہ لاگو ہیں؛ ہر چیز اور ہر عمل ان کے تابع ہے۔
ہمارا سوال یہ ہے کہ یہی باتیں ہم قوانین کے بجاے ان کے بنانے والے کے بارے میں کیوں نہیں کہہ سکتے؟
یہاں برطانوی محقق ریوپرٹ شیلڈریک کا حوالہ بھی دل چسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ریوپرٹ شیلڈریک نے کیمبرج یونیورسٹی سے بائیوکیمسٹری میں پی ایچ ڈی کررکھی ہے اور پھر ہارورڈ سے سائنس کے فلسفے اور تاریخ میں ڈگری لی ہے۔ انھوں نے اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد اپنے تحقیقی کام کا اختتام کردیا کہ سارا نظام ایک دائرے میں گھومتا ہے۔ یہ تو اتنا بھی واضح نہیں کرتا کہ تنوع کا آغاز کیسے ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ ۹ سال کی پرخلوص تحقیق و مطالعے کے بعد معلوم یہ ہوا کہ بائیوکیمسٹری کبھی اس مسئلے کا حل نہیں جان سکے گی کہ چیزوں کی بنیادی صورت ایسی کیوں ہے، جیسی کہ وہ ہے؟ ان کی ایک کتاب کا نام ہے: ’’سائنسی توہمات (سائنس ہوئی آزاد)‘‘(The Science Delusions- Science Set Free) ، یعنی سائنس کی خود اپنے ہی توہمات سے آزادی۔ وہ سائنس کے اورسائنسی طریقۂ کار کے معترف ہیں، لیکن ان کے بقول سائینٹزم(scientism) غلط ہے، جس نے سائنسی نظریات کو عقیدوں کی جگہ دے دی ہے اور یوں مذہب کے مقابلے میں ایک اور dogma تخلیق کر دیا ہے۔ وہ اپنے خطبات میں مثال کے طور پر ایسے دس خیالات کا، جنھیں وہ گمان قرار دیتے ہیں، بہت پرلطف پیراے میں ذکر کرتے ہیں جنھیں سائنس دانوں نے مضبوط بنیادوں کے بغیر ایمان کا درجہ دے رکھا ہے۔ اپنے پڑھنے والوں کی دل چسپی کے لیے ہم یہاں ان دس’’ سائنسی عقیدوں ‘‘کی فہرست دے دیتے ہیں:
۱۔ ہر چیز لازمی طور پر میکانیکی (mechanical) ہے۔
۲۔تمام مادہ شعور سے عاری ہے، یہاں تک کہ انسانی شعور بھی مادی دماغ کی کارروائیوں کا پیدا کیا ہواایک واہمہ ہے۔
۳۔مادے اور توانائی کی مجموعی مقدار ہمیشہ ایک ہی رہتی ہے(سواے اس موقعے کے کہ جب تخلیق کائنات کے بگ بینگ (big bang)کے وقت تمام مادہ اور توانائی اچانک عدم سے وجود میں آگئے تھے)۔
۴۔فطرت کے قوانین ہمیشہ سے اور ہمیشہ کے لیے متعین اور غیر متغیر ہیں۔
۵۔فطرت کا کوئی مقصد نہیں ہے اورنہ ارتقا کی کوئی سمت ہے ۔
۶۔حیاتیاتی موروثیت DNA اور اس طرح کے دوسرے مادوں کے ذریعے تکمیل پانے والا ایک خالص کیمیائی اور مادی عمل ہے۔
۷۔ذہن سر کے اندر موجود دماغ کی کارکردگی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
۸۔یادیں کیمیائی مادوں کے طور پر دماغ میں جمع ہوتی ہیں اور موت پر فنا ہوجاتی ہیں۔
۹۔جو باتیں سمجھی نہیں جاسکتیں، وہ واہموں کے سوا کچھ نہیں۔
۱۰۔میکانکی طب ہی علاج کا واحدکارآمد انداز ہے۔
سائنس کسی بھی حقیقت کو سمجھے بغیر تسلیم نہیں کرتی، یہ سمجھ چاہے مشاہدے پر اساس کرتی ہو، تجربے کا حاصل ہو یا منطق اور دلائل کا نتیجہ ہو، لیکن یہاں ایک دل چسپ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ضروری ہے کہ سائنس سمجھ میں نہ آنے والی ہر بات کو رد کردے؟ آج سے کچھ عرصہ پہلے کے سائنسی نظریات اس وقت کی سمجھ کے مطابق تھے۔ ان نظریات سے متصادم کوئی بھی خیال فقط مسترد کردینے کے قابل تھا۔ پھر فہم وادراک نے ترقی کی۔ مشاہدے اور تجربے کے ذرائع بہتر ہوگئے اور نظریات تبدیل ہو گئے۔ کیا ہم آج کے نظریے کو حرف آخر سمجھ لیں گے اور اس کے خلاف کسی اور خیال کو صرف اس لیے رد کر دیں گے کہ موجود ذرائع سے وہ آج ہماری سمجھ میں نہیں آرہا ہے؟ مثال کے طور پر چند دہائیاں قبل یہ سمجھا جاتا تھا کہ کائنات میں مکمل خلا نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور سارا جہان ایتھر نامی ایک مادے سے پر ہے۔ کل کا یہ سائنسی نظریہ آج کی خام خیالی ہے۔ اور کون جانتا ہے کہ آنے والے وقت کے لیے دوبارہ یہ ایک مان لی جانے والی حقیقت ہو۔ اگر آج کے دور کی ایک عام سی ایجاد یا معلوم دریافت کا تذکرہ وقت کی حدود کے پار، آج سے پانچ دس ہزار سال پہلے کے معاشرے میں کیا جائے توکیا آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس کی سب سے زیادہ مخالفت کون کرے گا، یہ اس دور کے جہلا یا عام پڑھے لکھے لوگ نہیں، بلکہ علما اور سائنس دان ہوں گے، اور یہ مخالفت اس وقت کے معلوم سائنسی علم اور مروجہ اصولوں کی بنا پر ہوگی۔ تو پھر کیا عجب ہے کہ جس طرح آج ہمیں یہ قدیم نظریہ انتہائی مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے کہ زمین کسی گاے کے سینگ پہ رکھی ہوئی ہے، اسی طرح کسی زمانے میں لوگوں کو یہ خیال بھی دورازکار لگے کہ ہماری زمین، اس کے ساتھی سیارے اور چاند، سورج کے قریب سے گزرنے والے کسی بڑے ستارے کی کشش کی وجہ سے سورج سے ایک لہر کے اٹھنے اور علیحدہ ہوجانے کا نتیجہ ہیں یا پھر کائنات کے عدم سے وجود میں آنے کی تسلیم شدہ تھیوری ہی دیوانے کا خواب قرار دے دی جائے۔ یوں خالص منطقی انداز میں دیکھا جائے تو تخلیق کائنات کے سبھی مروجہ نظریات کو دیوانے کا خواب قرار نہ دینے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ہے، کیونکہ اول تو یہ مادے یا توانائی کی کسی بھی شکل کو عدم سے وجود میں لانے کی کوئی وجہ یا میکانزم بیان نہیں کرتے، دوسرے اگر اس سب سے بڑے مسئلے کے سامنے اپنے علم و عقل کے گھٹنے عاجزی سے ٹیک کر ، زنجیر کی اس سب سے پہلی کڑی سے صرف نظر بھی کر لیا جائے اور بات یہاں سے آغاز کی جائے کہ ایک دھواں یا نیبولا، بہرحال موجود تھا، تو اس دھوئیں کے اجزا (particles) کا باہم یکجا ہو کر ایک عظیم، بہت عظیم وجود بنادیناتعجب انگیز ہے۔ چلیے مان لیا کہ کشش ثقل (gravity) اس کا باعث بنی۔( ہم یہاں یہ بحث بھی نہیں کرتے کہ یہ کشش آخر تھی ہی کیوں؟) پھر یہ عظیم گولا ٹوٹ کر کہکشاؤں اور ستاروں میں تقسیم ہوجاتا ہے، یعنی آسان الفاظ میں یوں سمجھیے کہ بہت سے چھوٹے چھوٹے، نظر نہ آسکنے والے ذرات آپس میں ملتے ہیں اور پھر بہت بڑے بڑے ستاروں اور سیاروں کے گروہوں کی صورت میں جدا ہوجاتے ہیں۔
یہاں ظاہر ہے کہ سوچنے والے ذہن میں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔اگر بہت باریک اور پیچیدہ الجھنوں کو نظرانداز بھی کردیا جائے تو بھی یہ بہرکیف پوچھا جاسکتا ہے کہ:
ا۔ وہ کون سی قوت تھی جو اس دھوئیں کو، دھوئیں کے ذرات کو عدم سے وجود میں لائی؟(ہم یہاں عدم سے وجود میں آنے کے طریقۂ کار یا میکانزم کی بات نہیں کررہے ہیں)۔
ب۔ان ذرات کو جوڑنے والی طاقت کو اگر gravity کا نام دے کر اس کے ماخذ، وجوب یا جواز سے صرف نظر بھی کر لیا جائے تو وہ کون سی طاقت تھی جس نے اس لمحہ بہ لمحہ بڑھتی ہوئی گریویٹی کے خلاف زور لگا کر باہم جڑے ہوئے اور ہر لمحہ مزید قریب ہوتے ہوئے اجزا کو(کہ جیسے جیسے یہ گولا بڑھ رہا تھا، اس کی گریویٹی کا کھچاؤ بھی بڑھ رہا تھا)ستاروں اور سیاروں کی شکل میں توڑ کر علیحدہ کیا اور اس شدت سے ایک دوسرے سے دور کیا کہ وہ آج تک ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں؟
یہ نہیں کہ ہمارے ذہین فزسسٹ ان معموں سے آگاہ نہیں ہیں، لیکن جیسے ہمارے علماے دین اکثر چند ایسے سوالوں سے بچنے کے لیے، جنھیں خود انھی کے تراشیدہ اوہام نے پیچیدہ بنا دیا ہے، اپنی ہی وضع کردہ اصطلاحات کی آڑ لیتے ہیں، وہ بھی بالکل اسی طرح میدان تخلیق، طبیعی وحدانیت، بگ بینگ، event horizon اور اسی قسم کی دوسری اصطلاحات تراشتے ہیں اور ایسے تمام سوالات اور معموں کوان اصطلاحات کے بلیک ہولز میں ڈال دیتے ہیں۔
ہمارا مقدمہ نہایت آسان ہے۔آپ منطق اور فہم کی بے چارگی کی بنا پر یا یوں کہیے کہ اس وجہ سے خدا کے وجود سے انکاری ہیں کہ آپ تمام چیزوں اورکائنات کے سارے عوامل کو حس وادراک اور عقل سے سمجھنا چاہتے ہیں، تو ٹھیک ہے پھر یک رخے ہو جائیں، ہمیں ان سارے سوالوں کے منطقی جواب دیں۔ اپنی اس کہانی میں ہر موڑ، ہر راستے اور ہر تاریک راہ داری کی وضاحت منطق اور دلیل کے جانے مانے اصولوں سے کیجیے۔ ہمیں سمجھا دیں۔ یہ مت کیجیے کہ جو کچھ سمجھ میں نہیں آتا، اسے کسی قانون اور قاعدے کا نام دے دیں اور جو قانون اور قاعدے سے بھی تجاوز کر جائے، اس کے ماتھے پر خوب صورتی سے گھڑی ہوئی کسی اصطلاح کا جھومر سجادیں۔اور ہمارے اور اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے ہر سوال کے جواب میں کسی قانون یا کسی اصطلاح کا حوالہ پیش کردیں۔ آپ خالق کی ذات کو تسلیم کیے بغیر تخلیق و وجود کے اور ’’کیوں‘‘ کے تمام معمے حل کرسکتے ہیں تو بسم اللہ کیجیے۔
دوسری صورت میں اگر آپ نے اس ادھوری منطق ااور کچھ سمجھ میں آنے والے اور کچھ سمجھ میں نہ آنے والے، بلکہ ہمارے مطابق حقیقتاً کچھ بھی سمجھ میں نہ آنے والے نظریات، کیونکہ آپ کے پاس کسی ایک بھی امر یا عمل کا، کسی بھی قاعدے یا قانون یا اصول کا کیوں، بہرحال جواب کے بغیر رہ جاتا ہے، کے ساتھ گزارا کرنا ہے تو کیوں نہ ان حس و ادراک سے بالاتر طاقتوں کو ماننے کے بجاے حس وادراک سے ماورا طاقت ور کو، اورفہم و شعور سے بالاتر اصولوں اور قوانین سے پہلے ان کے خالق کی فہم و شعور سے بالاتر ذات کو مان لیا جائے۔ اس طرح کم از کم تہ در تہ اسرار کے اندھیرے سے ڈھکے ہوئے اس پیچ در پیچ زینے کے ایک سرے پر تو روشنی ہو جائے گی ، ’کیسے‘ کے رموز جاننے کی جدوجہد جاری رہے گی، لیکن جگہ جگہ ’کیوں ‘کے طاقچوں میں رکھے چراغ تو جل اٹھیں گے۔ رہا خالق کی ہستی کو سمجھنے کا مسئلہ تو جب خالق کو مان لیں تو اس معاملے میں اسی کے فرمان کو رہنما بنانا پڑے گا:’’(شعور اور ادراک کی)آنکھیں اسے پا نہیں سکتی۔‘‘*
کسی کھنڈر کو دیکھ کر دیکھنے والوں کے دلوں میں ضرور یہ خیال آسکتا ہے کہ یہ حوادث زمانہ کا نتیجہ ہے۔ کسی شان دار عمارت کو وقت نے رفتہ رفتہ برباد کردیا ہے، لیکن انتہائی کمال کے ساتھ بنی ہوئی کسی عمارت کو دیکھ کر یہ خیال آنا کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ آہستہ آہستہ خود ہی بنتی چلی گئی ہے، ایک انتہائی عجیب امر ہوگا۔اور اگر کوئی صاحب ایسا سوچتے ہیں کہ یہ کائنات خوب صورت، پیچیدہ اور منظم نہیں ہے، کسی ترتیب یا کسی منصوبے کی آئینہ دار نہیں ہے، تو ان سے میری گزارش ہے کہ وہ کائنات کو دوبارہ دیکھیں، جتنا کچھ بھی دیکھ سکیں۔
_____
* الانعام ۶: ۱۰۳۔
________