اگر ہم اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ یہ کائنات خودبخود نہیں بنی ہے، بلکہ کوئی اسے ایک منصوبے کے مطابق عدم سے وجود میں لایا ہے، تو سمجھیے کہ الوہیت کے معاملے میں ہمارا اتفاق راے قائم ہو گیا ہے۔ اگلا مرحلہ توحید کا ہے، یعنی کیا ہماری اور ہماری کائنات کی خالق، مالک اور منتظم ایک ہی ہستی ہے یا ایک سے زیادہ ؟ فرض کیجیے، ہم یہ مان لیتے ہیں کہ دنیا کی تخلیق اور اس کے انتظام کی ذمہ داری ایک سے زیادہ ہستیوں پر ہے تو ہمیں چند دل چسپ سوالات کا سامنا کرنا ہوگا:
۱۔کیا مخلوق کی ہر نوع کا ایک الگ خالق ہے؟
۲۔ کیا ہر نوع کی مخلوق کے ہر جزو کا ایک الگ خالق ہے؟
۳۔ کیا ان خالق ہستیوں کے مابین تعلق اور ربط کا سلسلہ موجود ہے؟
۴۔ کیا اس ربط و تعلق اور پھر اس کے نتیجے میں دنیا میں نظم و نسق برقرار رکھنے کے لیے یہ خالق اور ناظم ہستیاں کسی بالاتر قانون اور قاعدے کی پابند ہیں؟
۵۔ اگر ایسا ہے تو کیا یہ غیر متغیر پابندی یقینی بنانے کے لیے ان ہستیوں سے بالاتر کوئی اور ہستی بھی موجود ہے؟
۶۔ مخلوق کی جو نوع مٹ(extinct) جاتی ہے، مثلاً ڈائنوسار،کیا اس کی خالق ہستی بھی ناپید ہو جاتی ہے؟
۷۔ مخلوق کے وہ معاملات جو آپس میں تعلق کے محتاج ہیں، اور ہمارا یہ خیال ہے کہ تقریباً تمام ہی معاملات ایسے ہیں جن سے کوئی بھی مخلوق، نہ تو مجموعی لحاظ سے اور نہ ہی انفرادی اعتبار سے، دوسروں سے الگ اور بے نیازہوکر، عدم انحصار کے ساتھ نمٹ سکتی ہے، ان کے سلسلے میں ان مخلوقات کے خداؤں کی ذمہ داریوں کا تعین کیسے ہو تا ہے؟
ان سوالوں میں سے مزید سوال نکلتے چلے آئیں گے اور کچھ ہی دیر میں سوچنے والے ایک ذہن کو یہ احساس ہوگا کہ اگر ہم خداؤں کے تعدد کا تصور مان لیں تو اپنی اس بحث کے آغاز میں ہم جن سوالوں سے مخلوق کے سلسلے میں دوچار تھے، بعینہٖ انھی، بلکہ ان سے بھی پیچیدہ سوالات ہمیں خالقوں کے بارے میں درپیش ہوں گے، یعنی مسئلہ سلجھنے کے بجاے مزید الجھ جائے گا۔
دنیا کے نظام پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو ہمیں کہیں بھی عدم تسلسل یا ربط و تعلق کی کمی کا احساس نہیں ہوگا۔ ایٹم سے لے کر ستاروں اور سیاروں تک ہر شے ایک ضابطے کی پابند اور ایک جواز کی مظہر ہے۔ الیکٹرانز کی اپنے مداروں میں گردش مالیکیولز کو وہ چارج فراہم کرتی ہے جو ان کے آپس کے بانڈز کا سبب ہے۔ اس گردش کی رفتار، راستے یا تسلسل میں ذرا سی تبدیلی مادے کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے کافی ہے۔ سورج کی روشنی اس زمین کے اوپر موجود ہر طرح کی زندگی کا براہ راست یا بالواسطہ موجب ہے۔ سورج اور زمین کا آپس میں فاصلہ اس زندگی کو قائم رکھنے کے لیے انتہائی نپا تلا اور موزوں نظر آتا ہے۔ انھی انتہائی موزوں اور نپے تلے فاصلوں پر ہمارا نظام شمسی، اور اس سے بھی بڑھ کرستاروں، سیاروں اور کہکشاؤں کی یہ ساری کائنات قائم ہے۔ اگر زمین کی مثال لے لی جائے تو اس درمیانی فاصلے میں بہت معمولی سی کمی اس سیارے پر پائی جانے والی ہر طرح کی حیات کو جلا دینے کے علاوہ اسے بالآخر سورج کی طرف کھینچ لیے جانے کا باعث ہو سکتی ہے، جبکہ اس فاصلے میں تھوڑی سی زیادتی نہ صرف تمام مخلوق کو منجمد کردے گی، بلکہ زمین کو نظام شمسی سے باہر بھی پھینک سکتی ہے۔ اس کے علاوہ زمین کے گرد اوزون کی تہ ہمیں نقصان دہ تابکاری اور میٹیورائیٹس (meteorites) کی چاندماری سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔
پھر زمین کی سطح پر آجائیں تو گلیشئرز کے جمنے اور پگھلنے سے لے کر دریاؤں اور سمندروں کے بہاؤ، چشموں کی روانی، بادلوں کے برسنے اور زمین کی زرخیزی تک ایک ربط اور تسلسل کی داستان ہے۔ ایکو سسٹم کی زنجیر دیکھ لیجیے، جس کی ہر ایک کڑی پورے نظام کی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔یوں تو یہ ہر علاقے کا ایک مکمل نظام ہے، لیکن جس طرح ایک ایکوسسٹم کے سب کردار، جان دار اور بے جان عوامل ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں، کم وبیش اسی طرح مختلف نظام بھی باہمی ربط و تعلق اور ہم انحصاریت کے ساتھ اس سیارے اور اس پر پائی جانے والی زندگی کی بقا کے لیے روبہ عمل ہیں۔ ناپید ہوجانے والی نسلوں اور مخلوقات کا خوراک کے توازن اور معدنی ذخائر کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔
اس دنیا میں ہر لمحہ وقوع پذیر ہونے والے قدرتی عوامل خواہ بظاہر وہ کتنے ہی معمولی یا کیسے ہی عظیم الشان کیوں نہ ہوں، سب ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ان کے اس آپس کے رشتے پر تفصیلی بحث ہمارے اس مختصر سے مضمون کے دامن سے متجاوز ہے، لیکن ہم اپنے نکتے کو راسخ کرنے کے لیے ایک چھوٹی سی مثال بیان کرتے ہیں اور پھر آگے چلتے ہیں۔ سورج کی روشنی ، زندگی کے لیے اس کا بنیادی کردار اور غذائی زنجیر کا سرسری سا تذکرہ تو ہم کر ہی چکے ہیں، لیکن شاید بہت زیادہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ نائیٹروجن بھی زندگی کے لیے بہت ضروری ہے، کیونکہ یہ پروٹین، جینیاتی مادے اور توانائی کے پیکٹس(ATP) سب کا لازمی جزو ہے۔ ہماری فضا میں ۷۸فیصد نائیٹروجن ہے، لیکن اپنی اس حالت میں یہ اگرچہ سانس کے ساتھ ہمارے جسم میں آتی جاتی رہتی ہے، لیکن استعمال نہیں ہوسکتی۔ قابل استعمال ہونے کے لیے اسے اپنی مالیکیولر حالت سے ٹوٹ کر آکسیجن یا ہائیڈروجن کے ساتھ ملنا پڑتا ہے۔ یہ عمل فضا میں سب سے زیادہ آسمانی بجلی کی بدولت ممکن ہوتا ہے۔ پھر بارش اس قابل استعمال نائیٹروجن کو زمین کے حوالے کردیتی ہے۔ یہاں اس پر وہ جراثیم عمل کرتے ہیں جو یا تو زمین میں آزاد حالت میں یا پھر مختلف پودوں کی جڑوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ بیکٹیریاایک خاص اینزائیم (enzyme) کے حامل ہوتے ہیں جو اس نائیٹروجن کو امونیم آئینز میں تبدیل کرتا ہے۔ پودے اس کو پروٹین میں بدلتے ہیں اور جانور ان پودوں کو کھا کر اس پروٹین کو اپنا جزو بدن بناتے ہیں۔ پھر جب جانور مر جاتے ہیں تو کچھ ایسے بھی بیکٹیریا ہیں جو ان جسموں کی تحلیل اور decomposition کرتے ہیں اور اس دوران نائیٹریٹ آئینز کو اپنی مطلوبہ توانائی حاصل کرنے کے لیے دوبارہ نائیٹروجن گیس میں بدل دیتے ہیں جو کہ واپس فضا میں پہنچ جاتی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ سرسری سا تذکرہ ہمارے پڑھنے والوں کو اس کائنات میں قائم اور مسلسل رو بہ عملharmony اور ہم انحصاریت (interdependence) کا احساس دلانے کے لیے کافی ہوگا۔
اگر ہم ایک سے زیادہ خالق ہستیوں کے تصور کے قائل ہیں تو ہمیں ان کے درمیان ایک انتہائی مضبوط اور کبھی خطا نہ کرنے والے ربط پر بھی ایمان لانا ہوگا۔ اور اس ربط اور نظم و ضبط کا کھوج لگاتے لگاتے اور تخلیق کی ابتدا کے زینے چڑھتے چڑھتے بالآخر ہماری سوچ کسی ایک خالق ، ایک coordinator کے خیال کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہی ہوگا۔ یوں بھی جب ہمیں یہ ماننا ہی ہے کہ یہ دنیا خود بخود نہیں بن گئی ہے، بلکہ اسے بنایا گیا ہے تو پھر ہم اس مضمون کے پہلے مرحلے کی تمام الجھنیں اٹھا کردوسرے مرحلے میں کیوں لے جائیں اور کیوں نہ چیزوں کو سادہ رکھیں۔ خالق کو مان ہی لیا ہے تو اسے ایک ہی کیوں نہ مانیں کہ integration اور coordination کے تمام معاملات طے پاجائیں اور تخلیق کا سوال سلجھنے کے بجاے مزید پیچیدہ نہ ہونے پائے۔
اس مضمون کے تیسرے مرحلے میں ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ کیا کائنات کے خالق نے اپنی اس ذی شعور مخلوق کے لیے کوئی پیغام ہدایت بھی بھیجا ہے۔ اس کے لیے پہلے ہمیں انسان کی حیثیت کا فیصلہ کرنا پڑے گا۔
خدا کا تصور رکھنے والے مذاہب اور عقیدے خدا کی حیثیت کے بارے میں مختلف طرز فکر کے حامل ہوسکتے ہیں، لیکن ایک خیال سب میں مشترک ہے اور وہ ہے: روز آخرت کا خیال، یعنی انسان سے ایک دن اس کے اعمال کے بارے میں پوچھ گچھ ضرور ہوگی۔ اس خیال کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ انسان کوئی معمولی اور غیر اہم چیز نہیں ہے ۔ اس کائنات کا حصہ ہونے اور اس کا نظام چلانے میں اپنا کردار نبھانے کے حوالے سے دنیا کا کوئی ایک ذرہ بھی غیر اہم نہیں ہے، لیکن انسان پر اپنے شعور کے باعث ، اور اس کی مناسبت سے کچھ اضافی ذمہ داریاں اور فرائض بھی عائد ہوتے ہیں۔ وہ اپنے شعوری اعمال کے علاوہ کسی نہ کسی حد تک اپنے جبلی افعال میں بھی انتخاب کا حق رکھتا ہے۔ اس کے ارادے اور اس کے عمل سے اور اس کی کوشش سے اس نسل کی اجتماعی زندگی میں دیرپا تبدیلیاں آسکتی ہیں اور آتی ہیں۔ دنیا کی کسی اور ذی روح مخلوق نے اپنے دائرۂ معمول سے نکل کر اپنے ماحول اور اس سے فزوں کو کھوجنے ، دریافت کرنے اور اپنے کام میں لانے کی ایسی کوشش نہیں کی ہے یا اگر ایسی کوئی کوشش کی بھی ہے تو اس کا کوئی نشان نہیں چھوڑا ہے۔ انسان کے علاوہ کوئی اور مخلوق دوسری جان دار اور بے جان اشیا کے اوپر اتنا اثروتصرف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ حضرت انسان ہی کے حرکت وعمل کے نتیجے میں دنیا کا قدرتی ماحول تبدیل ہوتا ہے اور ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس گفتگو سے ہمارا مقصد صرف اتنا ہے کہ اپنے قاری کو مذہبی پہلو میں الجھائے بغیرایک مخلوق اور کائنات کا ایک ذی شعور حصہ ہونے کے لحاظ سے انسان کی باقی تمام مخلوقات پر فوقیت اور اہمیت اجاگر کر سکیں۔ یہاں اچھے اور برے کی بات نہیں ہے۔ ہمارا نکتہ یہ ہے کہ انسان کے افعال اور اس کا کردار اس کائنات میں اہم ہے، significant ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ کچھ ایسا مشکل سے سمجھ میں آنے والا عقدہ نہیں ہے کہ ہم اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کے لیے باقی جان داروں کے مقابلے میں انسان کی خصوصیات کا مزید ذکر کریں اور سائنس و فلسفے، صنعت و حرفت، ایجادو دریافت، جنگ و قتال، طب وجراحی، سیروسفر، کھیل، تفریح یا فن و ادب کے میدانوں سے اس کے لیے مثالیں دیں۔ یہاں ہم اس مضمون کے پہلے دو حصوں کے نتائج کو اپنے مذکورہ بالا خیال کے ساتھ منطبق کریں گے۔ ابھی تک کے سفر میں ہم نے اتفاق کیا کہ کائنات خود بخود نہیں بنی ہے، بلکہ اسے ایک سوچے سمجھے ارادے کے تحت بنایا گیا ہے، اور یہ کہ اس کو بنانے چلانے والی ایک ہی ہستی ہے۔ مضمون کے تیسرے حصے میں ابھی تک ہمارا اتفاق راے اس بات پر ہوا کہ انسان کا کردار اس کائنات کے ایک حصے کے طور پر انتہائی اہم ہے۔ ان تینوں نکات پر اتفاق کر لینے کے بعد یہ اخذ کرنا کچھ دشوار نہیں، بلکہ عین منطقی ہے کہ خالق ہستی کی طرف سے اپنی اس ذی شعور مخلوق کے لیے، جسے اس نے ارادے کی آزادی بھی دے رکھی ہو، ہدایت و رہنمائی کا انتظام ہونا چاہیے۔
ہدایت و رہنمائی کی ضرورت اور اہمیت سمجھ لینے کے بعد ہم اس کے طریقۂ کار پر بات کر لیتے ہیں۔ اگر ہم انسان کو فقط ایک مخلوق ہی تصور کریں تو ایک تواتر کے ساتھ آنے والی ہدایات کے بجاے اس کی جبلت میں موجود، اس کی تخلیق کے ساتھ ہی تخلیق کردہ، by default ہدایات کافی سمجھی جانی چاہییں، لیکن جب ہم اسے باقی کی تمام مخلوق سے ممتاز گردانتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ انسان اپنے ارادے، شعور اور صلاحیت کی بنا پر اس کائنات کو تسخیر کرنے، اپنے تصرف میں لانے اور اس میں تبدیلی لانے پر کسی حد تک قدرت رکھتا ہے تو ہم اسے ایک مخلوق کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹے سے خدا کی حیثیت بھی دیتے ہیں، یعنی اگر ہم مذہبی اصطلاح مستعار لیں تو آسانی کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ انسان اس زمین پر بڑے اور اکیلے خدا کے نائب یا viceroy کے منصب کا بھی حامل ہے۔ چنانچہ اپنے نائب کے لیے اس کی جبلی اور in-built ہدایات کے علاوہ کائنات میں تصرف اور نفوذ کے حوالے سے ، اور اپنی ذات اور برادری کے معاملات میں اپنے رویے اور عمل میں انتخاب کے اعتبار سے خصوصی رہنمائی ضروری قرار پاتی ہے۔
ہم اس جملے کو زیادہ قابل فہم بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک جان دار ہونے کے لحاظ سے خوراک حاصل کرنا، نسل بڑھانا، خطرے سے بچنا اور پناہ گاہ کی تلاش ، انفرادی طور پر، اور ایک پیچیدہ اور منظم مخلوق ہونے کی وجہ سے اکٹھے ہونے کا احساس، اور نظم و ضبط کا کچھ نہ کچھ بنیادی تصور مجموعی حیثیت سے انسان کے اندر جبلی اور by default طور پر موجود ہے، لیکن اپنی زندگی اور بقا کی یہ فکر باقی جانوروں سے الگ ، انسان میں بالکل عریاں نہیں ہے۔ یہاں ان جبلتوں نے ذائقوں، انسیت، تعلقات، خواہشوں، آرزوؤں اور احساسات کے مختلف لبادے اوڑھ رکھے ہیں۔ یہی لبادے جہاں ایک طرف حضرت انسان کو تہذیب بخشتے ہیں اور علم و فن، تعمیروترقی، اصول و قوانین اور تخلیقیت کی جانے کن کن دنیاؤں سے روشناس کراتے ہیں تو دوسری طرف ظلم و فساد، جنگ و جبر اور تباہی و بربادی کے بھی بازار گرم کرتے ہیں۔ چنانچہ لازم ٹھہرا کہ جب کسی کو بنانے اور سنوارنے کی صلاحیت دی گئی ہے تو اس صلاحیت سے کام لینے کے لیے بنیادی ہدایات بھی فراہم کی جائیں۔ رہا یہ سوال کہ خالق نے اگر اپنی ایک مخلوق کو ارادے کے ساتھ ساتھ شعور دے دیا ہے تو پھر بار بار کی ہدایات کی کیا ضرورت ہے؟ وہ مخلوق اسی شعور کی بنا پر اپنے اچھے برے کا فیصلہ کرسکتی ہے، تجربات سے سیکھ سکتی ہے اور قدم بہ قدم ایک اجتماعی ترقی اور خوش حالی کی منزل کی طرف بڑھ سکتی ہے، تو یہ سوال خاصا متعلق ہے۔ درحقیقت، بات کچھ ایسی ہی ہے۔ خالق نے جب اپنی ایک لڑتی بھڑتی، خون خرابا کرتی مخلوق کو، جو شاید اس وقت کہیں غاروں میں رہتی تھی اور لباس کے تصور سے ناآشنا تھی، زمین پر اپنی نیابت دینے کا فیصلہ کیا تواس کے جینیٹک میک اپ(genetic make-up) میں تبدیلی کی وہ پہلی کڑی راہ پاگئی جس نے اسے دو پیروں پر کھڑا کیا اور دوسرے تمام چوپایوں سے ممتاز کر کے homosapien بنا دیا۔ یہی ارتقائی عمل (evolution process) میں شعور کے باب کا آغاز تھا۔ جنت میں اس منظر کی کیا simulation تھی، وہ ہماری سمجھ سے باہر ہے، کیونکہ وہ غیب کی دنیا سے متعلق ہے اور اس کے لیے ہم صرف انھی معلومات پر اکتفا اور یقین کرتے ہیں جو آسمانی کتابوں نے بہم پہنچائی ہیں،لیکن ظہور کے پردے پر واقعات بظاہر ایسے ہی وقوع پاتے معلوم ہوتے ہیں۔
انسان کو جب نیابت کی ذمہ داری کے لیے منتخب کیا گیا تو اسے ضروری معلومات اور شعور فراہم کردیا گیاجو اس مقام کا تقاضا تھا۔ اور یہی وہ ابتداءً دیا گیا علم اور احساس ہے جو انسان کو اخلاقی، سماجی، اور علمی اعتبار سے ارتقا کی اس منزل کی طرف لیے جاتا ہے جہاں انصاف ہو، خوش حالی ہو، صحت اور خوشی ہو، جہاں اکٹھے رہنا برداشت کا مظاہرہ نہیں، بلکہ لطف کا باعث ہو، جہاں صفائی، پاکیزگی اور امن ہو، جہاں محبت ہو اور عافیت ہو، یعنی وہ منزل جو جنت ہے۔ انسانی حقوق کے چارٹر، امن کے بین الاقوامی معاہدے، جنگ اور خوں ریزی کے خلاف قانون سازی، ماحولیاتی تحفظ کی کوششیں، تعلیم کی اہمیت کا احساس، اور سائنسی تحقیقات، دریافت کی دنیا کے نئے افق، ایجاد و آلات کی کرشمہ سازیاں، یہ سب اسی شعور کی مثالیں ہیں،لیکن چونکہ انسان کو ساتھ ہی ساتھ ارادے اور اس پر عمل کی کوشش میں آزادی بھی حاصل ہے، لہٰذا انھی سب مثالوں کے مضمرات بھی ہم سے مخفی نہیں ہیں، گویا اس ابدی شعور اور احساس کے ساتھ ارتقا کا یہ سفر کئی بار ارادے اور اختیار کے ہاتھوں گمراہی کا شکار بھی ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ارادہ اور اختیار کچھ ایسی برائیاں ہیں کہ جو اپنے حامل کو ہمیشہ بے راہ ہی کریں گی اور نقصان پہنچائیں گی۔ اسی نیت اور انتخاب کی بدولت عزم و کوشش کے ہتھیاروں سے انسان نے وہ کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں جو بظاہر ناممکن دکھائی دیتی ہیں، لیکن چونکہ دونوں طرح کے امکانات برابر ہیں، لہٰذا اس ابدی شعور کی روشنی کے ساتھ وقتاً فوقتاً ہدایات اور ہدایت کا نقشہ بھی فراہم کیا جاتا رہا۔
اسی بات کو میرے اس کمپیوٹر دور کے قارئین ایک اورمثال سے زیادہ اچھی طرح سمجھ پائیں گے۔ آپ گھر سے ایک سفر پر نکلے ہیں۔آپ کو معلوم ہے کہ آپ کی منزل کیا ہے۔ آپ کی گاڑی چلنے کے لیے ٹھیک حالت میں ہے۔ اس میں ایندھن بھی کافی ہے اور اس کی لائٹس اور گیجز بھی درست کام کررہی ہیں۔ پھر آپ اس کا GPRS بھی آن کر لیتے ہیں، اور اس پر منزل کی نشان دہی کر کے اسے activate کر لیتے ہیں۔ آپ کی ڈیوائس کی اسکرین پر آپ کے شہر کا نقشہ، آپ کی اپنی location، اور منزل تک کے مناسب ترین راستے کی نشان دہی ہوتی ہے اور آپ بڑی سہولت اور اعتماد سے اس اسکرین پر اپنی گاڑی کے نشان کی حرکت کے مطابق اپنے سفر کی درستگی کا اندازہ کرتے ہوئے روانہ ہوتے ہیں، لیکن راستے میں جہاں کہیں آپ غلطی سے یا جان بوجھ کر، کسی رکاوٹ کی وجہ سے یا صرف ایک نیا راستہ دیکھنے کی خاطر غلط موڑ مڑتے ہیں تو GPRS اسکرین پر آپ کو نئی ہدایات دینے لگتا ہے۔ وہ چاہے کچھ دیر کا کوئی متبادل راستہ ہو یا پورے کے پورے روٹ کی تبدیلی ہو۔
بالکل اسی طرح انسان کو جب نیابت کے منصب پر فائز کیا گیا تو اسے زندگی کے اس سفر کے لیے بنیادی ہدایات دے دی گئیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس سے وعدہ بھی لے لیا گیا کہ جب ضرورت کے وقتوں میں خالق کی طرف سے مزید ہدایات اس تک پہنچیں گی تو وہ ان پر عمل کرے گا۔ پھر اسے ارادے اور اختیار کے ہتھیاروں سے لیس کر کے، شعور کی روشنی میں اس سفر پر روانہ کردیا گیا۔ بنی نوع انسان کے اس تاریخی سفر میں جہاں کہیں اس کی غلطی کی وجہ سے، اس کے ارادے اور عمل کے غلط استعمال کی پاداش میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر، بگاڑ پیدا ہونے کی صورت میں حالات میں تبدیلی آنے کی وجہ سے اس کی راہ کھوٹی ہوئی ہے، الوہی رہنمائی اس کی مدد کو پہنچتی رہی ہے۔
چنانچہ دیکھ لیجیے انسان نے جہاں کہیں بھی خود، کسی بھی سطح پر کوئی نظریہ، ازم یا مذہب دیا ہے یا آسمانی ادیان میں اپنی عقل سے تبدیلی کی ہے، خامیاں رہ گئی ہیں۔ مثال کے طور پر دور حاضر کے سب سے بڑے clichet ، انسانی حقوق ہی کو لے لیجیے، ایک شخص کے حقوق کا دوسرے شخص کے حقوق کے ساتھ تصادم اور فرد اور معاشرے کے حقوق میں ٹکراؤکا معاملہ ایسا نہیں ہے کہ جس کو جاننے کے لیے زیادہ غوروخوض کی ضرورت ہو۔ کیاآپ اس کرۂ ارض پر کسی جگہ کو صحیح معنوں میںsmokin zone قرار دے سکتے ہیں؟اظہار راے کی آزادی کے حق کے ساتھ دوسروں کی دل آزاری کی حدبندی ایک تو انتہائی subjective اور judgmental معاملہ ہے، دوسرے ذرا سوچ کر بتائیں کہ ایسی کتنی آرا ہیں جن کے اظہار سے کسی نہ کسی کی دل آزار ی نہ ہوتی ہو۔ ہم نے یہ دو مثالیں اختصار کی خاطر اٹھائی ہیں، ورنہ آپ ذرا سا غور کریں توایسے بے شمار سقم مل جائیں گے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ انسانی حقوق تک کا معاملہ ایسا نازک ہے کہ اسے مکمل طور پر انسانی ہاتھوں میں نہیں دیا جاسکتا۔
تاریخ کے مختلف ادوار میں انسان کی رہنمائی کے لیے آنے والے اس الوہی پیغام کے بنیادی نکات میں توحید اور عبادات کے علاوہ فرد اور معاشرے سے تعلق رکھنے والے معاملات اور روز حساب کا تصور شامل ہے۔ ان چار باتوں کی ہمہ گیر اہمیت اور ارتقا کے اس سفر میں ان کی افادیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ یہی چار باتیں انسانی اصلاح اور فلاح کے نسخے کے اجزاے ترکیبی ہیں۔ توحید ہمیں وہم وگمان سے، خوف اور جبر سے آزاد کرتی ہے کہ وہی ایک ہستی ہماری خالق اور مالک ہے اور اس کے علاوہ کسی کی بھی ہیبت یا قوت ہمیں کسی طرح کا فائدہ یا نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ عبادات ہمیں ایک نظم میں کستی ہیں اور ہماری اخلاقی نشوونما کے علاوہ ایمان میں اضافہ کرتی ہیں۔ معاملات کی درستگی ہمارے خاندان اور معاشروں کو بہتر بناتی ہے اور روز جزا کا خیال ہمیں اپنے اعمال کے لیے ذمہ دار اور جواب دہ ٹھہراتا ہے۔
اس پیغام کا انکار کرنے والوں کو ہمیشہ اسی آخری جزو پر اعتراض رہا ہے۔ خدا کو کسی نہ کسی صورت میں لوگ ہمیشہ سے مانتے ہی رہے ہیں۔مختلف قوموں کے مشرکین بھی بہرطور ایک خدا کی برتری کو تسلیم کیا کرتے تھے۔ عبادات بھی کسی نہ کسی شکل میں رائج رہی ہیں۔ معاملات میں راستی اور انصاف کی اہمیت سے بھی کبھی کھل کر انکار کرنا ممکن نہیں ہوا، لیکن حیات بعد از موت کا معاملہ ایسا ہے کہ جس پر آسمانی ادیان کے مخالف ہمیشہ شک میں رہے، بلکہ اس تصور کا مذاق بھی اڑاتے رہے۔ آخری دین اسلام کے منکر بھی اس پر سب سے بڑا اعتراض یہی کرتے تھے کہ آخر جب ہم مرکر مٹی ہو جائیں گے تو دوبارہ کیسے زندہ کیے جائیں گے؟
اس سوال کا جواب اس دور میں آگیا ہے۔ قرآن میں آتا ہے کہ’’ہم انھیں آفاق میں اور خود ان کے نفوس میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے، یہاں تک کہ سچ ان پر واضح ہو جائے گا۔‘‘* چنانچہ اب تو کلوننگ بھی ایک پرانی خبر ہے، لیکن اس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ مردہ میں سے زندہ کھڑا کردینے کے لیے تو بس ایک خلیے ہی کی ضرورت ہے، اور یہ ضرورت بھی انسان کے ابھی تک کے اخذ کیے ہوئے طریقے کے مطابق ہے۔ عین ممکن ہے کہ کچھ اور سال ادھر کلوننگ کاطریقۂ کاراور بھی سادہ ہوجائے۔ پھر یہ کمال تو مخلوق کو حاصل ہوگیا ہے، اگر خالق مردہ کو زندہ کرنا چاہے تو کائنات کا کون سا حصہ اس کی باقیات حاضر نہیں کر دے گا اور سیل کی تقسیم اور بڑھوتری کی وہ کون سی کڑی ہے جو اس مالک کل کے فرمان کی تعمیل میں جڑ نہیں جائے گی۔
یوں بھی ہم اگر اس کائنات کو کسی حادثے کا نتیجہ نہیں سمجھتے اور اس بات پر متفق ہوچکے ہیں کہ کسی مقتدر ہستی نے ایک منصوبے کے مطابق اپنے ارادے سے اسے پیدا کیا ہے تو یہ سوچنا بالکل بعید از عقل ہوگا کہ وہ اس زندگی میں ہونے والے تمام معاملات کو کسی جواب دہی کے بغیر اور ان ساری ادھوری کہانیوں کو کسی انجام کے بغیر چھوڑ دے گا، دنیا جن سے بھری پڑی ہے۔ انسان کو اگر ارادے کی آزادی، انتخاب کا اختیار اور عمل کی صلاحیت دی گئی ہے تو ضرور ہے کہ اس سے پوچھ گچھ بھی ہو۔ اور اگر پوچھ گچھ ہونا لازمی ٹھہرا ہے تو پھر یہ عین انصاف ہے کہ ایسی ہدایات ضرور دی گئی ہوں کہ جن پر عمل کرنے نہ کرنے کے بارے میں یہ پوچھ گچھ ہو۔ ان ہدایات سے ارادے اور عمل کی آزادی پر کوئی حرف اس لیے نہیں آتاکہ ان ہدایات کو ماننا نہ ماننامکمل طور پر آزاد ارادے کے تابع ہے۔ انسان اگر اپنی مرضی اور اختیار سے ان ہدایات کے مطابق زندگی گزارتا ہے تو انعام کا مستحق ہے اور اگر اس مرضی اور اختیار کو ان ہدایات کے رد کرنے میں استعمال کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ اسے اس کا نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ یہاں ہم پھر ایک مثال کا سہارا لیں گے کہ جب کوئی اچھی کمپنی کوئی چیز، جیسے کہ ٹیلی فون سیٹ بناتی ہے تو سب سے پہلے اس کا خیال تخلیق ہوتا ہے۔ یعنی وہ پراڈکٹ conceive ہوتی ہے۔ پھر وہ اس خیال کے مطابق درست طریقے سے بنائی جاتی ہے، ایجاد ہوتی ہے۔ اس کے بعد اس کے لیے اندازہ مقرر ہوتا ہے کہ وہ کیا کچھ کرے گی اور کتنا عرصہ چل پائے گی۔ آخر میں اس کے درست استعمال سے متعلق ہدایات تیار ہوتی ہیں جن کا کتابچہ خریدار کو اس سیٹ کے ساتھ دیا جاتا ہے، (اور جو بہت کم لوگ پڑھتے ہیں)اس ہدایت نامے پر اس سیٹ سے متعلق تمام معلومات اور رہنمائی درج ہوتی ہے۔ اسی میں ساری احتیاطیں بھی لکھی ہوتی ہیں۔ اس پراڈکٹ کا بہترین استعمال اور لمبی زندگی کا امکان، ان ہدایات پر عمل کرنے اور ان احتیاطوں کو بروے کار لانے کی صورت میں بڑھ جاتا ہے۔ یہی چار مراحل خالق اپنی پراڈکٹ کے بارے میں بھی بتاتا ہے:
’’ وہ جس نے پیدا کیا، پھر درست کر دیا،پھر اس کے لیے تقدیرکو(ایک اندازہ) مقرر کیا، پھر ہدایت دی۔‘‘ ( الاعلیٰ ۸۷: ۲۔ ۳)
اس مضمون کے اس مختصر سے سفر میں ابھی تک ہم جن منزلوں سے گزرے ہیں، وہ کچھ اس طرح سے ہیں: ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ اس کائنات کو خلق کیا گیا ہے اور یہ کسی حادثے کی وجہ سے خودبخود نہیں بن گئی ہے۔ پھر ہم نے اس پر اتفاق کیا کہ اس دنیا کو بنانے اور چلانے والی ایک ہی ہستی ہے اور اس کام میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔ اس کے بعد ہم نے یہ سمجھا کہ اس زمین پر بسنے والی مخلوقات میں سے انسان سب سے زیادہ باشعور اور ارادے اور عمل کے ساتھ ساتھ اختیار کی طاقتوں سے مالامال مخلوق ہے اور اسی بنا پر خود اپنی نسل، اپنے ساتھ جینے والی دوسری مخلوقات اور اپنے ماحول پر بہت زیادہ اثرانداز ہے، لہٰذا یہ خالق اور مالک ہستی انسان کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے پیغامات بھیجتی رہی ہے۔
مضمون کے اس آخری حصے میں ہم ایک بہت بڑے موضوع کو چند صفحات میں سمیٹنے کی کوشش کریں گے۔ کیا ہدایت ورہنمائی کے لیے آنے والے ان پیغامات کے سلسلے کا آخری پیغام آچکا ہے؟ کیا اسلام اس پیغام کی حتمی اور مکمل ترین شکل ہے؟
اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ہمیں اس سوال ہی کے چند نکات قائم کرنے پڑیں گے۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ چلیے صاحب، ہم نے مان لیا کہ ہماری اور ہماری کائنات کی خالق اور مالک ایک ہستی ہے،اور پھر یہ بھی تسلیم کہ وہ ہستی انسان ہی کو اس لائق سمجھتی ہے کہ اس کی رہنمائی کی جائے۔ نیز اس رہنمائی اور ہدایت کی خاطر وہ ایک تسلسل سے انسان کو پیغام بھی بھیجتی رہی ہے، لیکن یہ کیا ضروری ہے کہ ہم یہ بھی مان لیں کہ یہ پیغام اسی شکل میں آتے رہے ہیں جس میں عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ وہ آتے رہے ہیں، یعنی انبیا اور آسمانی کتابیں۔
یہاں پھر ہم ایک مثال کا سہارا لیتے ہیں۔ فرض کیجیے کہ کسی شہر میں آپ کو ایک خاص مقام پر پہنچنا ہو۔ آپ جانتے ہوں کہ اس مقام تک آپ کی رہنمائی صرف ایک گائیڈ ہی کرسکتا ہے۔ اب اگر ایک شخص یہ دعویٰ کرے کہ وہ گائیڈ ہے، اور شہر کے بیش تر لوگ بھی اسے گائیڈ ہی گردانتے ہوں۔ پھر اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ آپ کو اس مطلوبہ مقام تک کا راستہ بھی ٹھیک ٹھیک بتادے۔ اس کے بعد بھی اگر آپ اسی شک میں مبتلا رہیں کہ آیا وہ گائیڈ ہے بھی یا نہیں؟ تو پھر اس شک کا کوئی علاج نہیں۔ زیادہ سے زیادہ آپ یہ سوال کرسکتے ہیں کہ ہم کیسے یقین کر لیں کہ جس مقام تک ہمارا یہ گائیڈ ہماری رہنمائی کررہا ہے، وہی ہمارا مطلوبہ مقام ہے، جبکہ آپ پہلے وہاں کبھی گئے نہیں، اسے پہچانتے نہیں اور نہ ہی آپ کے پاس اس جگہ کی کوئی خاص نشانی ہے؟ اس مشکل کو سلجھانے کے لیے ہم اس مثال سے نکل کر اصل معاملے کی طرف آتے ہیں اور ایک بار پھر عمومی سمجھ بوجھ(common sense) سے کام لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
صورت حال یہ ہے کہ تاریخ انسانی کے مختلف ادوار میں چند لوگوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انھیں خدا کی طرف سے پیغام موصول ہوا ہے۔ جلد یا بدیردنیا میں بسنے والے زیادہ تر لوگوں نے ان کے اس دعوے کو سچ تسلیم کر لیا ہے، لیکن ان دعوے داروں کے لائے ہوئے پیغامات، ان آسمانی کتابوں پرخدا کے دستخط یا سیل موجود نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس طرح کتابی صورت میں آسمان سے اتری ہیں کہ ہم اس بات کو بے چون و چرا مان لیں۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ وقت کے بڑے بڑے وقفوں کے ساتھ یہ پیغامات جو ہماری رہنمائی کے لیے آئے ہیں ، ان میں یا ان کی موجودہ حالت میں، جو بھی بچی کھچی یا تحریف شدہ حالت وہ ہے، کیا کچھ ایسا ہے کہ ہم باور کر لیں کہ یہ ایک ہی ہستی کی طرف سے آئے ہیں۔ یہاں ہمیں دو باتیں بڑی وضاحت سے نظر آتی ہیں:
ایک یہ کہ ان سب پیغامات میں، یہاں تک کہ جو کتابی صورت میں باقی نہیں رہے، ان میں بھی بنیادی نکات ایک ہی ہیں، یعنی توحید، عبادات کا کچھ ملتا جلتا سا نظام، معاملات کے بارے میں رہنمائی اورآخرت کا تصور جہاں اپنے کیے کا حساب دینا ہوگا۔
دوسرے یہ کہ یہ تمام پیغامات نیکی اور بھلائی کا درس دیتے ہیں اور ان کی ہدایات پر عمل کرنے سے انسان کی انفرادی اور اجتماعی فلاح کے دروازے کھلتے ہیں۔
اگر ذہن انسانی سے پھوٹتے ہوئے ادھورے اور پیچیدہ افسانوں اور کسی منصوبے کے تحت یا کسی نفسیاتی بیماری کے زیر اثر کیے گئے نبوت کے جھوٹے دعووں کو علیحدہ رکھ دیں اور اپنے پیغام کے متن کے، تمام حقیقی پیغامات سے الگ ہونے کی بنا پروہ ہیں بھی علیحدہ رکھ دینے کے لائق، تو صاف نظر آتا ہے کہ تمام انبیا کے لائے ہوئے ہدایت نامے اور شریعتیں ایک ہی ماخذ رکھتی ہیں، گو انسان کی اپنی مصلحتوں، نکتہ آفرینیوں اور جولانیوں نے ان میں سے بیش تر پیغامات میں کچھ نہ کچھ تحریف و تبدیلی کردی ہے۔
چنانچہ الوہیت، توحید اور رسالت کے بنیادی خیال پر اتفاق راے تعمیر کرنے کے بعد اگر ہم یہ واضح کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ وہ تمام انبیا اور شریعتیں جو تاریخ کی نظر سے اوجھل ہیں اور وہ مشہور انبیا اور کتابیں بھی جن کو عام طور پر ساری دنیا میں مذاہب کا بانی سمجھا جاتا ہے، درحقیقت سچے پیغمبر اور سچے پیغامات ہیں اور کائنات کے خالق کی طرف سے اپنی سب سے زیادہ باشعور مخلوق اور زمین پر اپنے نائب انسان کے لیے ہدایت ورہنمائی ہیں، تو چونکہ قرآن بھی اسی سلسلے کی ایک کتاب ہے اور اس کے پیغام کا متن پہلی کتابوں سے چنداں مختلف نہیں ہے، لہٰذا ہمیں قرآن کو بھی ایک سچی آسمانی کتاب ماننا ہوگا۔رہا یہ سوال کہ یہ آخری اور حتمی کتاب ہے یا نہیں؟ تو اس کے لیے پہلے ایک عقلی اور پھر نقلی دلیل دیں گے، اور نقلی دلیل کو بھی عقل اور سمجھ بوجھ کے عمومی انداز سے سمجھیں گے۔
انسانی شعور کے ارتقا اور سماجی ترقی کا ایسی منزل پر پہنچ جانا کہ جہاں ہدایت ورہنمائی کے سلسلے کے پہلے کی طرح باقی رہنے کی ضرورت نہ رہے، ایک ایسی دلیل ہے جو اس سوال کے جواب میں اکثر دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اجتہاد کی گنجایش اسلام کو ایک دین کے طور پر ہر طرح کے حالات اور صورت حال سے خطاب کرنے کی آزادی دیتی ہے۔ انفرادی طور پر ان تمام معاملات کے لیے جن کا ذکر دین کے اساسی پیغام میں نہ ہو یا جس کا علم ایک فرد کو نہ ہوسکتا ہو، اسلام اس کے لیے ذاتی سمجھ بوجھ کے ساتھ دیانت داری سے کیے گئے فیصلے کو درست قرار دیتا ہے۔یوں یہ دین وقت کے امتحان میں کامیاب اترتا ہے۔ پھر چودہ صدیوں کا عرصہ گزرنے کے بعد کہ جس سے نصف سے بھی کم وقت میں آسمانی کتابیں تصرف اور تحریف کا شکار ہوئی ہیں، قرآن ایسی کسی بھی دست برد سے مکمل محفوظ ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ صاحب قرآن کی زندگی کا احوال جس کمال اور احتیاط کے ساتھ اپنے ایک ایک جزو کے ساتھ محفوظ ہے، تاریخ انسانی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ قدیم زمانوں کے انبیا تو ایک طرف، جدید دور کے بھی کسی بھی مصلح، فاتح، سیاسی رہنما یا کسی بھی اور شخصیت کی زندگی اتنی تفصیل اور احتیاط کے ساتھ تاریخ کے اوراق کی زینت نہیں بنی۔
اسلام کی آمد کا زمانہ دیکھیں تو جیسے یہاں انسان کا طالب علمی اور تربیت کا دور ختم ہورہا ہے اور ایک لحاظ سے عملی زندگی کا وہ دور شروع ہورہا ہے کہ جہاں یہ تعلیم و تربیت اور یہ آخری ہدایات اور اصول قدم قدم پر اس کے کام آنے والے ہیں۔ اب نہ وہ حد کو چھوتی ہوئی سختیاں ہیں، نہ جلاوطنی اور سفر کی صعوبتوں میں تمام ہوتی زندگی کے سبق ہیں، نہ نظم و ضبط کے کڑے اصول سکھاتی پابندیاں ہیں، نہ دلوں کو نرم کردینے والی ایسی اخلاقیات ہیں جو عدل وانصاف سے ماورا ہوں کہ جیسے ایک گال پر تھپڑ کھانے کے بعد دوسرا گال پیش کردینا۔ اب تو فطرت کی تربیت کے بعد اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی زندگی ہے۔ ایک تھپڑ کا بدلہ ایک تھپڑ سے لے لینا بالکل جائز ہے، ہاں معاف کردینا اس سے بہتر ہے۔
اس عقلی بحث کے بعد اب ہم آتے ہیں نقلی دلیل کی طرف اور دیکھتے ہیں قرآن خود اس بارے میں کیا کہتا ہے، کیونکہ ہمیں لامحالہ ان آسمانی کتابوں میں سے کسی کے آخری ہونے یا نہ ہونے سے متعلق اسی (کتاب)کے فیصلے پہ بھروسا کرنا پڑے گا۔
۱۔ ’’ہم نے آج تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی ہے۔‘‘(المائدہ۵: ۳)
چنانچہ دین کی تکمیل کے بعد اب اس میں مزید کسی اضافے یا ترمیم کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ باقی آسمانی کتابوں میں جہاں آنے والے نبی کی بشارت جابجانظر آتی ہے، قرآن میں وہاں پچھلے انبیا کا تو بہت تذکرہ ہے، لیکن کسی ایک جگہ بھی آنے والے کسی اور نبی کی خبر نہیں دی گئی ہے۔
۲۔ ’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، لیکن اللہ کے رسول ہیں اور نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں۔‘‘ (الاحزاب۳۳:۴۰)
ایک جماعت یہاں ’خَاتَم‘ کو مہر سے تعبیر کرتی ہے۔ اس معانی کی موافقت اور مخالفت میں بہت کچھ کہاسنا گیا ہے۔ ہمارے اس مضمون کے دامن میں اس بحث کی گنجایش نہیں ہے اور نہ ہی یہ موضوع یہاں براہ راست متعلق ہے، لیکن اتنا کہنا یہاں بہت مناسب اور امید ہے کہ کافی بھی ہوگا کہ ’ختم‘ کا مطلب اگر مہر یا زیادہ درستگی سے انگریزی لفظ seal بھی لیا جائے تو وہ بھی دراصل کسی دستاویز کا خاتمہ یا خط کے لفافے کو بند کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ سیل یا ’ختم‘ کا لفظ جہاں کہیں بھی ، اپنے معنوں کی جن شقوں میں بھی آئے، اس سے یہی مراد ہوتی ہے کہ سلسلہ یہاں تمام ہوتا ہے۔
اگر آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہیں تو ابتدائیے میں کی گئی گزارش کے مطابق ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ آپ اور ہم اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ:
۱۔کائنات خود بخود نہیں بن گئی، بلکہ بنائی گئی ہے۔
۲۔ کائنات کا خالق، مالک اور منتظم ایک ہی ہے۔
۳۔ انسان کی حیثیت زمین پر پائی جانے والی باقی کی تمام مخلوق سے جدا ایک ذمہ دار اور باشعور ہستی کی ہے۔
۴۔ کائنات کے مالک نے زمین پر اپنے اس نائب کے لیے ہدایت و رہنمائی کے لیے پیغام بھیجے ہیں۔
۵۔ وہ لوگ جنھیں عام طور پر خدا کا رسول سمجھا جاتا ہے اور وہ شریعت یا دین لے کر آئے ہیں، واقعی خدا کے پیغمبر ہیں، کیونکہ ان سب کی شخصیات کے اجزاے ترکیبی اور ان کے لائے ہوئے پیغامات کے بنیادی نکات ایک سے ہیں اور ایک ہی ماخذ سے پھوٹے ہوئے ہدایت کے ان چشموں میں ایک تسلسل اور ترتیب موجود ہے۔
۶۔ قرآن خدا کی بھیجی ہوئی آخری کتاب اور اسلام اس الوہی دین کی آخری اور حتمی شکل ہے۔
_____
* حٰم ٓ السجدہ ۴۱: ۵۳۔
________