بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
طٰہٰ(۱) مَآ اَنْزَلْنَا عَلَےْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓی(۲) اِلَّا تَذْکِرَۃً لِّمَنْ ےَّخْشٰی(۳) تَنْزِےْلًا مِّمَّنْ خَلَقَ الْاَرْضَ وَالسَّمٰوٰتِ الْعُلٰی(۴) اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی(۵) لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَمَا بَےْنَھُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرٰی(۶)
وَاِنْ تَجْھَرْ بِالْقَوْلِ فَاِنَّہٗ ےَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی(۷) اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ لَہُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی(۸)
اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے، جس کی شفقت ابدی ہے۔
یہ سورۂ ’طٰہٰ‘ ہے۔ ہم نے یہ قرآن تم پر اِس لیے نازل نہیں کیا ہے کہ تم مصیبت میں پڑ جاؤ۱؎۔ یہ تو صرف ایک یاددہانی ہے۲؎ اُن کے لیے جو (بن دیکھے) اپنے پروردگار سے ڈریں ۳؎۔ یہ نہایت اہتمام کے ساتھ اُس ہستی کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جس نے زمین کو اور (تمھارے اوپر) اِن اونچے آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔ وہی رحمن، وہ (اِس کائنات کے) تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہے۔ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے اور جو کچھ زمین کے نیچے ہے، سب اُسی کے اختیار میں ہے۴؎۔ ۱-۶
تم چاہے اپنی بات علانیہ کہو یا چپکے سے کہو، اُس سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے۵؎، اِس لیے کہ وہ تو چپکے سے کہی ہوئی بات، بلکہ اُس سے زیادہ مخفی باتوں کو بھی جانتا ہے۶؎۔ وہ اللہ ہے، اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۷؎۔ تمام اچھے نام اُسی کے ہیں ۸؎۔ ۷-۸
۱؎ یہ نہایت دل نواز اور محبت بھرے انداز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے کہ آپ دوسروں کے ایمان کی فکر میں اپنی زندگی اجیرن نہ کریں۔ خدا نے آپ سے یہ مطالبہ نہیں کیا ہے کہ آپ ایمان و اسلام کی اِس دعوت کو ہر حال میں اپنے مخاطبین کے اندر اتار دیں۔ یہ آپ کی قدر نہیں پہچان رہے تو آپ کو بھی اِن کے پیچھے جان ہلکان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کے پروردگار نے آپ کو اِس کا مکلف نہیں ٹھیرایا ہے۔
۲؎ یعنی اُن حقائق کی یاددہانی ہے جو انسان کی فطرت میں ودیعت ہیں، جن کے دلائل خود اُس کی عقل کے خزینوں میں موجود اور اُس کی تاریخ میں محفوظ ہیں۔
۳؎ اِس سے یہ بات واضح ہوئی کہ خدا کے پیغمبر تذکیر و نصیحت کے لیے آتے ہیں، اُنھیں لوگوں کے لیے داروغہ بنا کر نہیں بھیجا جاتا۔ اُن کی ذمہ داری اِس کے سوا کچھ نہیں ہوتی کہ وہ لوگوں کو اُن کا بھولا ہوا سبق یاد دلا دیں۔ پھر یہ لوگوں کا کام ہے کہ اُس سے یاددہانی حاصل کرکے فوز و فلاح سے ہم کنار ہوں یا اُسے جھٹلا کر جہنم کا ایندھن بن جائیں۔
۴؎ یہ قرآن کی عظمت واضح فرمائی ہے کہ یہ کسی سائل کی درخواست نہیں ہے، بلکہ زمین و آسمان کے خالق کا فرمان واجب الاذعان ہے۔ اُس کی رحمت کا تقاضا تھا کہ لوگوں کی ہدایت کا سامان کرے۔ چنانچہ اُس نے یہ کتاب اتاری۔ وہ اِس کائنات کو پیدا کرکے اِس سے الگ نہیں ہو بیٹھا ہے، بلکہ اِس کے تخت سلطنت پر متمکن ہے اور اپنی مخلوقات پر فرماں روائی کر رہا ہے۔ اِس کتاب کے ذریعے سے اُس نے لوگوں کو اپنے احکام و قوانین سے آگاہ کر دیا ہے۔ اب اگر اُنھوں نے اِس کی قدر نہیں پہچانی اور اِسی طرح اِس کو رد کرتے رہے تو اِس کی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے۔ وہ اِس کے نتائج خود بھگتیں گے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”اِس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ اشارہ بھی ہے کہ اِس کو اُسی طرح لوگوں کے سامنے پیش کیجیے، جس طرح آسمان و زمین کے خالق و مالک کا کلام پیش کیا جانا چاہیے۔ اِس کے لیے نہ زیادہ استمالت کی ضرورت ہے، نہ کسی الحاح و اصرار کی۔ اِس کے قبول کرنے میں لوگوں کا اپنا نفع ہے نہ کہ خدا کا۔ یہ کوئی ملتجیانہ درخواست نہیں ہے، بلکہ خلق کے لیے صحیفہئ ہدایت ہے۔ اِس کو رد کرنے والے خود اپنی شامت بلائیں گے، آپ کا کچھ نہیں بگاڑیں گے۔“(تدبرقرآن۵/ ۱۶)
۵؎ جملے کا یہ حصہ عربیت کے اسلوب پر اصل میں حذف ہے۔
۶؎ یہ ایک دوسرے پہلو سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دل و دماغ کے مخفی گوشوں میں چھپے ہوئے سوالات اور پریشانیاں ہوں یا آپ کی دعا و مناجات میں ظاہر ہونے والی مشکلات اور تمنائیں، اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔ آپ مطمئن رہیں، وہ آپ کی ہر مشکل کو آسان کرے گا اور اِس دعوت کے کسی مرحلے میں بھی آپ اُس کی رہنمائی سے محروم نہیں رہیں گے۔
۷؎ یہ کامل تفویض کی ہدایت ہے کہ آپ اپنا معاملہ اُسی کے حوالے کیجیے۔ وہ تنہا معبود ہے۔ اُس کے ہوتے ہوئے آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
۸؎ استاذ امام کے الفاظ میں، یہ ٹکڑا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تسلی اور طمانیت کا خزانہ اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”... اوپر کی آیات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو تسلی دی گئی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے اُس کی عظمت، اُس کی رحمت، اُس کی حاکمیت،اُس کی یکتائی اور اُس کے علم کے مقتضیات کی روشنی میں دی گئی ہے، لیکن خدا کی صفات اتنی ہی تو نہیں ہیں۔ وہ تو تمام اچھی اور اعلیٰ صفتوں سے متصف ہے تو ظاہر ہے کہ اُن صفات کے مقتضیات بھی حضور کے لیے حالات کے اعتبار سے ظاہر ہوں گے۔ گویا اِس ٹکڑے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بشارت دی گئی ہے کہ تمام اچھی صفتیں خدا ہی کے لیے ہیں اور وہ سب آپ کے اوپر سایہ فگن ہیں۔ آپ اُن میں سے جس کا سہارا بھی لیں گے، اُس کی برکتوں سے متمتع ہوں گے۔ اُن کے سوا آپ کسی اور سہارے کے محتاج نہیں ہیں۔“ (تدبرقرآن۵/ ۱۷)
[باقی]
____________