بسم اللہ الرحمن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
وَمَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّکَ لَہٗ مَا بَےْنَ اَےْدِےْنَا وَمَاخَلْفَنَا وَمَا بَےْنَ ذٰلِکَ وَمَا کَانَ رَبُّکَ نَسِےًّا(۶۴) رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَےْنَھُمَا فَاعْبُدْہُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِہٖ ھَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِےًّا(۶۵)
وَےَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَ اِذَا مَامِتُّ لَسَوْفَ اُخْرََجُ حَےًّا(۶۶) اَوَلَا ےَذْکُرُ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ ےَکُ شَےْءًا(۶۷) فَوَرَبِّکَ لَنَحْشُرَنَّھُمْ وَالشَّےٰطِےْنَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّھُمْ حَوْلَ جَہَنَّمَ جِثِےًّا(۶۸) ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ کُلِّ شِےْعَۃٍ اَےُّھُمْ اَشَدُّ عَلَی الرَّحْمٰنِ عِتِےًّا(۶۹) ثُمَّ لَنَحْنُ اَعْلَمُ بِالَّذِےْنَ ھُمْ اَوْلٰی بِھَا صِلِےًّا(۷۰) وَاِنْ مِّنْکُمْ اِلَّا وَارِدُھَا کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتْمًا مَّقْضِےًّا(۷۱)
ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِےْنَ اتَّقَوْا وَّنَذَرُ الظّٰلِمِےْنَ فِےْھَا جِثِےًّا(۷۲)
وَاِذَا تُتْلٰی عَلَےْھِمْ اٰےٰتُنَا بَےِّنٰتٍ قَالَ الَّذِےْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِےْنَ اٰمَنُوْٓا اَیُّ الْفَرِےْقَےْنِ خَےْرٌ مَّقَامًا وَّاَحْسَنُ نَدِےًّا(۷۳) وَکَمْ اَھْلَکْنَا قَبْلَہُمْ مِّنْ قَرْنٍ ھُمْ اَحْسَنُ اَثَاثًا وَّرِءْ ےًا(۷۴) قُلْ مَنْ کَانَ فِی الضَّلٰلَۃِ فَلْےَمْدُدْ لَہُ الرَّحْمٰنُ مَدًّا حَتّٰٓی اِذَا رَاَوْا مَا ےُوْعَدُوْنَ اِمَّا الْعَذَابَ وَاِمَّا السَّاعَۃَ فَسَےَعْلَمُوْنَ مَنْ ھُوَ شَرٌّ مَّکَانًا وَّاَضْعَفُ جُنْدًا(۷۵)
وَےَزِےْدُ اللّٰہُ الَّذِےْنَ اھْتَدَوْا ھُدًی وَالْبٰقِےٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَےْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّخَےْرٌ مَّرَدًّا(۷۶)
اَفَرَءَ ےْتَ الَّذِیْ کَفَرَ بِاٰےٰتِنَا وَقَالَ لَاُوْتَےَنَّ مَالًا وَّوَلَدًا(۷۷) اَطَّلَعَ الْغَےْبَ اَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَھْدًا(۷۸) کَلَّا سَنَکْتُبُ مَا یَقُوْلُ وَنَمُدُّلَہٗ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّا(۷۹) وَّنَرِثُہٗ مَاےَقُوْلُ وَےَاْتِےْنَا فَرْدًا(۸۰)
وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اٰلِھَۃً لِّےَکُوْنُوْا لَھُمْ عِزًّا(۸۱)کَلَّا سَےَکْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِھِمْ وَےَکُوْنُوْنَ عَلَےْھِمْ ضِدًّا(۸۲)
اَلَمْ تَرَ اَنَّآ اَرْسَلْنَا الشَّےٰطِےْنَ عَلَی الْکٰفِرِےْنَ تَؤُزُّھُمْ اَزًّا(۸۳) فَلَا تَعْجَلْ عَلَےْھِمْ اِنَّمَا نَعُدُّلَھُمْ عَدًّا(۸۴)
ےَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِےْنَ اِلَی الرَّحْمٰنِ وَفْدًا(۸۵) وَّنَسُوْقُ الْمُجْرِمِےْنَ اِلٰی جَھَنَّمَ وِرْدًا(۸۶) لَاےَمْلِکُوْنَ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَھْدًا(۸۷)
وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا(۸۸) لَقَدْ جِءْتُمْ شَےْءًا اِدًّا(۸۹) تَکَادُ السَّمٰوٰتُ ےَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ ھَدًّا(۹۰) اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا(۹۱) وَمَا ےَنْبَغِیْم لِلرَّحْمٰنِ اَنْ ےَّتَّخِذَ وَلَدًا(۹۲) اِنْ کُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا(۹۳) لَقَدْ اَحْصٰھُمْ وَعَدَّھُمْ عَدًّا(۹۴) وَکُلُّھُمْ اٰتِےْہِ ےَوْمَ الْقِےٰمَۃِ فَرْدًا(۹۵) اِنَّ الَّذِےْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ سَےَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا(۹۶)
فَاِنَّمَا ےَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِےْنَ وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لُّدًّا(۹۷) وَکَمْ اَھْلَکْنَا قَبْلَھُمْ مِّنْ قَرْنٍ ھَلْ تُحِسُّ مِنْھُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَوْ تَسْمَعُ لَھُمْ رِکْزًا(۹۸)
(ہم کو۱۷۲؎ معلوم ہے، اے محمد کہ تم ہمارے لیے منتظر رہتے ہو، لیکن ہمارا معاملہ یہ ہے کہ) ہم تمھارے پروردگار کے حکم ہی سے اترتے ہیں۔ ہمارے آگے اور پیچھے جو کچھ ہے، سب اُسی کے اختیار میں ہے اور وہ بھی جو اُس کے درمیان ہے۔ (تم مطمئن رہو)، تمھارا پروردگار(کسی چیز کو) بھولنے والا نہیں ہے۱۷۳؎۔ وہ زمین اور آسمانوں اور اُن کے درمیان کی ہر چیز کا مالک ہے، سو اُسی کی بندگی کرو اور اُس کی بندگی پر جمے رہو۱۷۴؎۔ کیا تمھارے علم میں اُس جیسا کوئی اور بھی ہے۱۷۵؎؟ ۶۴-۶۵
انسا۱۷۶؎ن کہتا ہے، کیا جب میں مر جاؤں گا تو پھر زندہ کرکے نکالا جاؤں گا؟کیا انسان کو یاد نہیں آتا کہ ہم اِس سے پہلے اُس کو پیدا کر چکے ہیں، جب کہ وہ کچھ بھی نہیں تھا۔۱۷۷؎ سوتیرے پروردگار کی قسم، ہم اِن کو بھی ضرور اکٹھا کریں گے اور اِن کے شیطانوں کو بھی،۱۷۸؎ پھر اِن سب کو جہنم کے گرد اِس طرح حاضر کریں گے کہ (مجرموں کی طرح) یہ گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوئے ہوں گے۔ پھر ہرگروہ میں سے ہم اُن لوگوں کو چھانٹ کر الگ کر دیں گے جو خداے رحمن کے مقابل میں سب سے زیادہ سرکشی کرنے والے بنے رہے۱۷۹؎۔ پھر اُن لوگوں کو سب سے بڑھ کر جاننے والے بھی ہم ہی ہوں گے جو سب سے زیادہ مستحق ہوں گے کہ جہنم میں جا پڑیں ۱۸۰؎۔ (خداے رحمن کے مقابل میں اکڑنے والو)، تم میں سے ہر ایک کو اُس میں لازماً داخل ہونا ہے۱۸۱؎۔ یہ ایک طے شدہ بات ہے،(اے پیغمبر)، جس کو پورا کرنا تیرے رب کا ذمہ ہے۔۶۶-۷۱
پھر ہم اُن کو نجات دیں گے ۱۸۲؎جو خدا سے ڈرتے رہے اور اُن کو جو اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے تھے، اُسی میں گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوئے چھوڑ دیں گے۔۱۸۳؎۷۲
اِنھیں جب ہماری کھلی کھلی آیتیں سنائی جاتی ہیں تو یہ منکرین ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں کہ بتاؤ، ہم دونوں گروہوں میں سے کون اپنے مرتبے کے لحاظ سے بہتر ہے اور کس کی مجلسیں زیادہ شاندار ہیں ۱۸۴؎؟ اِن سے پہلے ہم نے کتنی ہی قومیں ہلاک کر چھوڑی ہیں جو سازوسامان اور ظاہری شان و شوکت میں اِن سے کہیں بڑھی ہوئی تھیں۔ اِن سے کہہ دو کہ جو لوگ گمراہی میں پڑے رہتے ہیں، (اُن کے معاملے میں) خداے رحمن کی شان یہی ہے۱۸۵؎ کہ اُن کی رسی اچھی طرح دراز کرے، یہاں تک کہ جب وہ اُس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا اُن سے وعدہ کیا جا رہا ہے خواہ وہ عذاب الہٰی ہو۱۸۶؎ یا قیامت کی گھڑی تو اُس وقت خوب جان لیں گے کہ کس کا درجہ برا اور کس کا جتھا کمزور ہے۱۸۷؎۔ ۷۳-۷۵
اِس کے برخلاف جو لوگ ہدایت کی راہ اختیار کرتے ہیں، اللہ اُن کی ہدایت میں اضافہ کرتا ہے اور باقی رہنے والے اچھے اعمال ۱۸۸؎تیرے پروردگار کے نزدیک اجر کے لحاظ سے بھی بہتر ہیں اور مآل کار کے لحاظ سے بھی۔ ۱۸۹؎۷۶
پھر تم نے اُس شخص کو دیکھا ہے۱۹۰؎ جس نے ہماری آیتوں کو ماننے سے انکار کر دیا ہے اور جس کا دعویٰ ہے کہ میں (آخرت میں بھی اِسی طرح) مال و اولاد سے ضرورنوازا جاؤں گا۱۹۱؎؟ کیا اُس نے غیب میں جھانک کر دیکھا ہے یا خداے رحمن سے کوئی عہد لے لیا ہے؟ ہرگز نہیں، وہ جو کچھ کہتا ہے، اُسے ہم لکھ رکھیں گے اور (اُس کے اِس ادعا کے باعث) اُس کے حق میں عذاب بڑھاتے چلے جائیں گے اور وہ جن چیزوں کا مدعی ہے، اُس کے وارث ہم ہو جائیں گے اور وہ ہمارے سامنے اکیلا حاضر ہو گا۱۹۲؎۔۷۷-۸۰
اِن لوگوں نے اللہ کے سوا معبود بنا رکھے ہیں تاکہ وہ اُن کے پشت پناہ ہوں ۱۹۳؎۔ ہرگز نہیں، (وہاں کوئی پشت پناہ نہ ہوگا)۔ وہ سب اِن کی عبادت کا انکار کر دیں گے اور الٹے اِن کے مخالف بن جائیں گے۔ ۸۱-۸۲
تم نے دیکھا نہیں کہ اِن منکروں پر ہم نے شیطانوں کو چھوڑ دیا ہے۱۹۴؎۔ وہ اِنھیں خوب خوب اکسا رہے ہیں۔ سو اِن کے خلاف فیصلے کے لیے جلدی نہ کرو۔ ہم تو بس اِن کی گنتی پوری کر رہے ہیں ۱۹۵؎۔۸۳-۸۴
اِنھیں یاد دلاؤ، جس دن ہم پرہیزگاروں کو خداے رحمن کی طرف مہمان بنا کر اکٹھا کر لائیں گے اور مجرموں کو جہنم کی طرف پیاسا ہانکیں گے۔ اُس دن اُنھیں کوئی سفارش لانے کا اختیار نہ ہو گا، مگر جس نے خداے رحمن سے کوئی عہد لے رکھا ہو۱۹۶؎۔ ۸۵-۸۷
کہتے ہیں کہ خداے رحمن نے اولاد بنا رکھی ہے۱۹۷؎۔ یہ تم نے بڑی ہی سنگین بات کہی ہے۱۹۸؎۔ قریب ہے کہ اِس سے آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ڈھے کر گر پڑیں کہ لوگوں نے خداے رحمن کی طرف اولاد کی نسبت کی ہے۱۹۹؎۔ رحمن کو شایاں نہیں کہ وہ کسی کو اولاد بنائے۔ زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہیں، سب رحمن کے حضور بندوں ہی کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں ۲۰۰؎۔ وہ اُن کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور اُس نے اُنھیں اچھی طرح گن رکھا ہے۲۰۱؎۔ اُن میں سے ہر ایک قیامت کے دن اُس کے سامنے اکیلا حاضر ہو گا۔ البتہ جو لوگ ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، عنقریب خداے رحمن اُن کے لیے (اپنے حضور میں) مہر و محبت (کی فضا) پیدا کر دے گا۔۲۰۲؎۸۸-۹۶
سو، (اے پیغمبر)، ہم نے اِس قرآن۲۰۳؎ کو تمھاری زبان میں اِسی لیے سہل اور موزوں بنا دیا ہے کہ تم اُن لوگوں کو اِس کے ذریعے سے بشارت دو جو خدا سے ڈرنے والے ہیں اور اِن ہٹ دھرم لوگوں کو اِس کے ذریعے سے خبردار کردو۲۰۴؎۔ اِن سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہم نے ہلاک کر چھوڑا ہے۔ کیا تم اُن میں سے کسی کی آہٹ پاتے ہو یا کسی کی بھنک کہیں سنتے ہو۲۰۵؎؟۹۷-۹۸
۱۷۲؎ یہاں سے آگے یہ پورا پیرا درحقیقت ایک جملہئ معترضہ ہے جس میں جبریل امین کی زبان سے اُن کے دیر سے آنے پر معذرت بھی ہے اور وحی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شوق و اضطراب اور عجلت و بے قراری پر صبر و انتظار کی تلقین بھی۔ یہ معلوم ہے کہ اپنی قوم پر اتمام حجت آپ کا فریضۂ منصبی تھا۔ اِس طرح کی غیر معمولی ذمہ داری کو جلد سے جلد اور سرخ روئی کے ساتھ پورا کر دینے کی خواہش ایک فطری خواہش تھی۔ پھر قریش بھی بار بار تقاضا کرتے تھے کہ قرآن اگر خدا کی طرف سے نازل کیا جا رہا ہے تو ایک ہی مرتبہ پورا کیوں نازل نہیں کر دیا جاتا۔ قرآن جیسی بے نظیر کتاب کسی شخص کو کائنات کے بادشاہ اور جہانوں کے پروردگار کی طرف سے دی جا رہی ہو اور اُس کے اندر یہ خواہش پیدا ہو جائے کہ پوری کتاب جلد اُسے مل جائے تو اِس پر تعجب نہ ہونا چاہیے۔آپ کے قلب کو تمام قوت، روح کو زندگی، عقل کو رہنمائی اور ارادے کو ثبات و استحکام قرآن ہی سے حاصل ہوتا تھا، یہ چیز بھی اُس کو جلد پا لینے کے لیے شوق وا ضطراب کا باعث بن جاتی تھی۔ اِن آیتوں میں اِسی بے قراری اور عجلت پر صبر و انتظار کی تلقین کی گئی ہے جس کا اظہار آپ کی طرف سے بعض ایسے موقعوں پر ہوا ہوگا، جب وحی کے آنے میں کچھ زیادہ وقفہ ہو گیا ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کے بعض پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”اِس میں پہلی قابل توجہ چیز تو یہ ہے کہ یہ حضرت جبریل امین کی طرف سے آں حضرت کی خدمت میں ایک نوع کی معذرت ہے کہ اگر ہم جلدی جلدی، آپ کے شوق و انتظار کی تسکین کے لیے، وحی لے کر نہیں اترتے تو اِس میں ہماری کسی کوتاہی کو دخل نہیں ہے،بلکہ ہمارا اترنا تمام تر اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت ہے۔ جب تک اُس کا حکم نہ ہو، نہ ہم اتر سکتے ہیں اور نہ ہم آپ کے پاس کوئی وحی لا سکتے ہیں۔ اِس معاملے میں ہمیں کوئی دخل نہیں ہے۔ ہم صرف اُس کے احکام کی بجا آوری پرمامور ہیں۔
دوسری چیز قابل توجہ یہ ہے کہ اِس سے حضرت جبریل امین اور پورے زمرہئ ملائکہ کی حیثیت واضح ہو گئی کہ اُن کے تمام پیش و عقب اور جو کچھ اُن کے مابین ہے،سب پر اللہ تعالیٰ کی نگرانی اور اُس کا مکمل کنٹرول ہے۔ مجال نہیں کہ کوئی سرمو اپنے دائرے سے تجاوز کر سکے یا کوئی اقدام اپنے ارادے سے کر سکے۔ اللہ تعالیٰ کسی چیز کو فراموش کرنے والا بھی نہیں ہے کہ کوئی اُس کی بھول چوک سے فائدہ اٹھا کر کسی معاملے میں اپنی آزادیئ راے استعمال کر کے اُس کی پکڑ سے محفوظ رہ سکے ـــــــــ فرشتوں کی اِس حیثیت کا واضح ہونا اُن مشرکین عرب کی حماقت پر ضرب لگانے کے لیے ضروری تھا جو فرشتوں کی پوجا کر کے یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ اگر قیامت ہوئی تو یہ خدا کی بیٹیاں اپنے باپ سے کہہ سن کے اُن کو بخشوا ہی لیں گی۔ اِن بے وقوف لوگوں کو حضرت جبریل کا یہ بیان سنا کر آگاہ کر دیا گیا کہ جب رب ذوالجلال کی بارگاہ میں جبریل امین کی، جو تمام زمرہئ ملائکہ کے گل سرسبد ہیں، بے بسی کا یہ حال ہے تو تابہ دیگراں چہ رسد!“(تدبرقرآن۴/ ۶۷۵)
۱۷۳؎ مطلب یہ ہے کہ اگر دیر ہوئی ہے تو کسی حکمت و مصلحت کے پیش نظر ہوئی ہے، تمھارا پروردگار تمھیں بھول نہیں گیا ہے۔
۱۷۴؎ اصل الفاظ ہیں:’وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِہٖ‘۔اِن میں لفظ ’عِبَادَۃ‘ اپنے وسیع مفہوم میں استعمال ہوا ہے، یعنی عبادت اور اطاعت، دونوں کو شامل ہے۔ اِسی طرح ’صَبْر‘ کی جگہ ’إِصْطِبَار‘ ہے جس میں صبر کے مقابلے میں زیادہ زور ہے۔ پھر اُس کے بعد ’ل‘کا صلہ ہے۔ یہ اِس طریقے سے آئے تو انتظار کے مفہوم پر متضمن ہوتا ہے۔ آیت کے یہ مضمرات اردو ترجمے میں منتقل کرنا آسان نہیں ہے۔ مدعا یہ ہے کہ اپنی قوم کے معاملے میں صبر کے ساتھ خدا کے فیصلے کا انتظار کرو اور جو کچھ بھی حکم دیا جائے، پوری استقامت کے ساتھ اُس کی تعمیل کرتے رہو۔ یہی تمھارے منصب کا تقاضا ہے۔
۱۷۵؎ یعنی جب اُ س کا کوئی ہم پایہ، نظیر و مثیل اور ثانی نہیں ہے تو مطمئن رہو، اُس کے ارادوں میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں بن سکے گا۔
۱۷۶؎ جبریل علیہ السلام کا کلام اوپر ختم ہوا۔ یہاں سے اب براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہو رہاہے۔ آیت میں ’اِنْسَان‘ کا لفظ اگرچہ عام ہے، لیکن قرینہ دلیل ہے کہ اِس سے مراد مشرکین عرب ہی ہیں جو قیامت کے بارے میں ہر طرح کی متناقض باتیں کہتے رہتے تھے۔
۱۷۷؎ استاذ امام کے الفاظ میں، مطلب یہ ہے کہ جب ’کچھ نہیں‘سے پیدا کر چکے ہیں تو ’کچھ ہے‘ سے پیدا کرنے میں کیا مشکل پیش آئے گی؟
۱۷۸؎ یعنی اُن شیطانوں کو، جن کی یہ جنوں اور انسانوں میں سے پیروی کرتے رہے۔
۱۷۹؎ تاکہ اب جہنم میں جھونکے جانے والوں میں سب سے آگے ہوں۔
۱۸۰؎ یعنی کسی اور کے بتانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”...یہ مشرکین کے غلط عقیدہئ شفاعت پر ایک لطیف تعریض ہے کہ خدا کے ہاں کسی کے لیے سفارش تو وہ کر سکے جو کسی کے بارے میں خدا سے زیادہ واقف ہونے کا دعویٰ کر سکے۔ آخر ایسا برخود غلط کون ہو سکتاہے جو اللہ تعالیٰ سے یہ کہہ سکے کہ فلاں کو آپ نہیں جانتے، میں جانتا ہوں۔ وہ بڑا نیک آدمی ہے، اِس وجہ سے اُس کو کچھ نہ کہیے، بلکہ سیدھے جنت میں بھیج دیجیے۔“(تدبرقرآن۴/ ۶۷۸)
۱۸۱؎ یہاں شدت غضب کا اظہار مقصود ہے، اِس لیے غائب کا اسلوب خطاب کے اسلوب میں بدل گیا ہے۔
۱۸۲؎ یعنی اُس جہنم سے نجات دیں گے جو اگر وہ خدا کے مقابل میں اکڑتے اور تقویٰ اختیار نہ کرتے تو اُسی طرح اُن کا ٹھکانا بن جاتی، جس طرح اُن مجرموں کا ٹھکانا بنی ہے جن کا ذکر یہاں ہو رہا ہے۔ یہ لفظ بالکل اِسی طریقے سے رسول اور اُس کے ساتھیوں کے لیے اُس عذاب سے نجات کے لیے قرآن میں جگہ جگہ استعمال ہوا ہے جو اتمام حجت کے بعد اِسی دنیا میں آتا رہا ہے۔
۱۸۳؎ پیچھے اِنھی الفاظ میں اُس وقت کی حالت بیان ہوئی ہے، جب فیصلہ سننے کے منتظر ہوں گے اور یہاں اُس وقت کی، جب فیصلۂ الہٰی کے بعد جہنم کے داروغوں کے حوالے کر دیے جائیں گے اور وہاں اپنے اپنے درجات کے لحاظ سے عذاب کی جگہ پر جانے کے منتظر ہوں گے۔ مدعا یہ ہے کہ ہم اُن کو اِسی حالت میں چھوڑ کر بے التفات ہو جائیں گے کہ تمام رسوائی اور فضیحت کے بعد اب وہ اُن لوگوں کی گرفت میں ہیں جو اُنھیں اُن کے ٹھکانوں تک پہنچا دیں گے۔ اِس لحاظ سے دیکھیے تو آیت میں لفظ ’
جِثِیًّا‘،دونوں جگہ نہایت موزوں استعمال ہوا ہے، اِس لیے کہ انتظار کے مراحل میں مجرم بالعموم اِسی طرح بٹھائے جاتے تھے۔
۱۸۴؎ یعنی صاف واضح ہے کہ ہم بہتر ہیں تو آگے کم تر کیوں ہو جائیں گے؟ جب خدا نے یہ سب یہاں ہمیں دیا ہے اور تم محروم رہے ہو تو آگے بھی ہمیں ہی ملے گا۔
۱۸۵؎ اصل الفاظ ہیں:’فَلْیَمْدُدْ لَہُ الرَّحْمٰنُ مَدًّا‘۔ یہ اسلوب اِس لیے اختیار فرمایا ہے کہ اِس سے خدا کی سنت اور اُس کے شایان شان طریقے کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا کی قدرت و حکمت اور اُس کے حسن تدبیر کا تقاضا یہی ہے کہ اُس نے دنیا امتحان کے لیے بنائی ہے تو وہ لوگوں کو فوراً نہ پکڑے، بلکہ زیادہ سے زیادہ ڈھیل دے کہ اپنا پیمانہ اچھی طرح بھر لیں اور پکڑنے سے پہلے اُس کی حجت ہر لحاظ سے اُن پر پوری ہو جائے۔
۱۸۶؎ یہ اُس عذاب کا ذکر ہے جو رسولوں کی تکذیب کے نتیجے میں لازماً آتا ہے۔
۱۸۷؎ آیت میں تفضیل کے صیغے استعمال ہوئے ہیں۔ عربیت کی رو سے ضروری نہیں ہے کہ اِنھیں تقابل کے مفہوم میں لیا جائے۔ یہ اُس سے مجرد ہو کر بھی آجاتے ہیں۔
۱۸۸؎ اصل میں ’الْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ‘کے الفاظ آئے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”... اِس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ درحقیقت وہی اعمال صالحہ ہیں جو پایدار اور غیرفانی ہیں۔ جو اعمال چند روزہ اور فانی ہیں، وہ غیر صالح ہیں۔ رہا یہ سوال کہ باقی اعمال کون ہیں اور فانی کون ہیں تواُس کا جواب یہ ہے کہ جو اعمال صرف دنیا کو مطلو ب و مقصود بنا کر کیے جاتے ہیں، وہ فانی ہیں، اِس لیے کہ یہ دنیا خود فانی ہے۔ باقی رہنے والے اعمال صرف وہ ہیں جو خدا اور آخرت کو مقصود بنا کر کیے جائیں، اِس لیے کہ خدا بھی غیر فانی ہے اور آخرت بھی۔“ (تدبرقرآن۴/ ۶۸۱)
۱۸۹؎ یہ اہل ایمان کے لیے تسلی ہے کہ نفع عاجل کے بجاے اُن چیزوں پر نگاہ رکھو گے جو آخرت میں کام آنے والی ہیں تو اطمینان رکھو، خدا کی ابدی بادشاہی تمھارے لیے منتظر ہے۔
۱۹۰؎ اصل میں ’اَفَرَءَ یْتَ‘کا لفظ آیا ہے۔ یہ اسلوب اُس وقت اختیار کیا جاتا ہے، جب آگے کسی برخود غلط شخص یا کسی انتہائی احمقانہ بات کا حوالہ دینا پیش نظر ہو۔
۱۹۱؎ یہ کسی ایک شخص کا حوالہ نہیں ہے، بلکہ ایک خاص گروہ کی ذہنیت کی تصویر ہے جو دنیا کی نعمتوں کو اپنے پروردگار کا عطیہ نہیں، بلکہ اپنے ذاتی استحقاق اور اپنی قابلیت کا کرشمہ سمجھتا ہے۔ قرآن میں ’اَلَّذِیْ‘یا’اَلَّتِیْ‘کے ساتھ تمثیل و تصویر کا یہ اسلوب کئی جگہ اختیار کیا گیا ہے۔ یہاں،اگر غور کیجیے تو یہ بالکل مطابق واقعہ بھی ہے، اِس لیے کہ قریش مکہ کے تمام سادات و شیوخ اِسی خبط میں مبتلا تھے۔
۱۹۲؎ یعنی اُس کے سروسامان، اعوان و انصار، خدم وحشم اور اُس کے معبودوں سمیت، ہر چیز یہیں رہ جائے گی۔ وہ خالی ہاتھ ہماری بارگاہ میں حاضر ہو جائے گا۔
۱۹۳؎ تمام مشرکین یہی عقیدہ رکھتے تھے۔ قریش مکہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دے کر اُن کی پرستش کرتے تھے، چنانچہ امید رکھتے تھے کہ خدا کی یہ چہیتی بیٹیاں اپنے باپ سے سفارش کرکے اُن کو بچا لیں گی۔
۱۹۴؎ یہ اُس سنت الہٰی کے مطابق فرمایا ہے جو سورۂ زخرف (۴۳) کی آیت ۳۶ میں بیان ہوئی ہے کہ جو لوگ خداے رحمن کی یاددہانی سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں، اُن پر شیاطین مسلط کر دیے جاتے ہیں۔
۱۹۵؎ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ مخالفین کی مخالفت اب اِس حد تک پہنچ گئی تھی کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی فیصلۂ الہٰی کا انتظار کر رہے تھے۔
۱۹۶؎ اِس طرح کا کوئی عہد، ظاہر ہے کہ کسی نے نہیں لے رکھا ہے، اِس لیے اِن مجرموں کے لیے شفاعت کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ اُسی طرح کا جملہ ہے، جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ قیامت کب آئے گی، کوئی نہیں جان سکتا، سواے اُس کے جسے خدا بتا دے۔
۱۹۷؎ اوپر شفاعت باطل کی تردید کے بعد اب آگے شرک کی اُس بدترین قسم کی تردید فرمائی ہے جو شفاعت باطل کے اِس تصور ہی سے پیدا ہوتی ہے۔ قرآن کے مخاطبین میں سے یہود و نصاریٰ اور مشرکین عرب، تینوں کسی نہ کسی صورت میں اِس کے مرتکب ہوئے اور تینوں کے ہاں اِس کا محرک یہی تھا کہ کچھ ہستیاں ایسی ہونی چاہییں جو اپنی شفاعت سے ہم کو خدا کی گرفت سے بچا لیں۔
۱۹۸؎ یہ غائب سے مخاطب کی طرف التفات ہے اور شدت غضب کے اظہار کے لیے ہوا ہے، جس طرح ہم پیچھے آیت ۷۱ میں دیکھ چکے ہیں۔
۱۹۹؎ یعنی یہ ایسی بات ہے کہ نہ خدا کی غیرت اِس کو گوارا کرتی ہے اور نہ اُس کی مخلوقات میں سے کوئی اپنے پروردگار کے بارے میں اِسے گوارا کر سکتا ہے۔ زمین و آسمان اور سربہ فلک پہاڑوں کو اگر خدا روک کر نہ رکھے تو وہ ایک لمحے کے لیے بھی اِس بات کو برداشت نہ کریں اور غضب سے پھٹ پڑیں۔
۲۰۰؎ یعنی بیٹوں اور بیٹیوں کی حیثیت سے نہیں، بلکہ اُس کے عاجز بندوں ہی کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں۔
۲۰۱؎ مطلب یہ ہے کہ نہ گنتی میں کسی غلطی کا امکان ہے اور نہ اِس کا کہ کوئی اُس کے قابوسے باہر ہو جائے۔
۲۰۲؎ یعنی قیامت کے دن، جب اُن کا خیر مقدم فرشتے بھی سلام و تحیت کے ساتھ کریں گے، وہ خود بھی ایک دوسرے کو مبارک سلامت کہہ رہے ہوں گے اور اُن کا پروردگار بھی سلام و رحمت سے اُن کے لیے اپنی خوش نودی کا اظہار کرے گا۔ گویا خداے رحمن کی طرف سے اُن کے لیے ہر طرف مہر و محبت کی فضا پیدا کر دی جائے گی۔
اِس مجموعۂ آیات میں اللہ تعالیٰ کا ذکر بار بار اسم رحمن سے ہوا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کی یہی صفت ہے جس کے بارے میں غلط تصورات بہت سی گمراہیوں کا باعث بنے ہیں۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”سورہ میں سب سے پہلے نصاریٰ کا ذکر ہے، اِس وجہ سے پہلے اُنھی کی گمراہی کو لیجیے۔ اُن کی گمراہی میں بڑا دخل اُن کے اِس واہمہ کو تھا کہ انسان چونکہ ازلی و ابدی گنہ گار ہے، اُس کی نجات کی کوئی شکل ہی نہیں ہے، اِس وجہ سے خداے رحمان نے اپنی رحمت سے اپنے بیٹے کو بھیجا جو قربان ہو کر اپنے تمام ماننے والوں کے گناہوں کا کفارہ بن گیا۔
یہودکی گمراہی اِس سورہ میں اگرچہ براہ راست زیربحث نہیں آئی ہے، لیکن قرآن سے یہ بات واضح ہے کہ اُنھوں نے بھی اپنے جرائم کی پردہ پوشی کے لیے خدا کی رحمانیت ہی کی آڑ لی تھی۔ اُن کا تصور یہ تھا کہ ہم نبیوں اور ولیوں کی اولاد ہیں، اِس وجہ سے اول تو ہم دوزخ میں ڈالے ہی نہیں جائیں گے اور اگر ڈالے بھی گئے تو بس چند دن کے بعد کچھ تنبیہ کرکے خداے رحمان ہم کو بخش دے گا۔
مشرکین عرب فرشتوں کو خد اکی بیٹیاں بنا کر اُن کی پوجا کرتے تھے۔ اُن کا تصور یہ تھا کہ اول تو حشر نشر کی باتیں محض خیالی ہیں، لیکن اگراُ ن کے اندر کچھ حقیقت ہے تو خداے رحمان کی یہ بیٹیاں سفارش کر کے اُن کو اپنے باپ سے بخشوا ہی لیں گی۔“(تدبرقرآن۴/ ۶۸۸)
یہ گمراہیاں اور غلط فہمیاں ہیں جن کے پیش نظر اسم رحمن کا حوالہ بار بار آیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا ہے کہ رحمت اور عدل لازم و ملزوم ہیں۔ خدا کی رحمت اُس کے عدل کو باطل نہیں کرتی، بلکہ یہ عدل رحمت ہی کے تقاضے سے ظہور پذیر ہوتا ہے۔
۲۰۳؎ اصل میں ضمیر آئی ہے، لیکن اُس کا مرجع اِس قدر واضح ہے کہ سننے والا بغیر کسی تردد کے سمجھ لیتا ہے۔ استاذ امام کے الفاظ میں، یہ اسلوب مرجع کی شان پر دلیل ہوتا ہے کہ ہر چند وہ مذکورنہیں ہے، لیکن بغیرذکر کے بھی ہر شخص اُس کو جانتا ہے۔
۲۰۴؎ سورہ کے مخاطبین قریش مکہ ہیں۔ یہ اُنھی کی طرف اشارہ ہے۔ قبائلی تمدن کے لوگ جو علمی روایات سے بے خبر ہوں، اُن میں بالعموم ایک طرح کا جمود، اکھڑ پن اور تعصب پیدا ہو جاتا ہے۔ آیت میں لفظ ’لُدّ‘ سے اُسی کو بیان کیا ہے۔
۲۰۵؎ مطلب یہ ہے کہ جس طرح یہ قومیں بے نام و نشان ہوئی ہیں، تمھاری تکذیب کے نتیجے میں یہ لوگ بھی ایک دن اُسی انجام کو پہنچیں گے۔ اِس لیے مطمئن رہو، تمھارا کام انذار وبشارت ہے اور اِس کے لیے جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے، وہ نہایت موزوں، مدلل اور قائل کر دینے والی ہے۔پھر وہ تمھاری اور تمھاری قوم کی زبان میں ہے۔ تمھارے مخاطبین سمجھنا چاہیں تو اُن کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ چنانچہ اب کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ یہی کافی ہے کہ اِس کے ذریعے سے تذکیر و نصیحت اور اتمام حجت کے بعد خدا اپنا فیصلہ سنا دے۔
کوالالمپور
۳۱/دسمبر۲۰۱۲ء
____________