HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: مریم ۱۹: ۱- ۱۵ (۱)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
کٓھٰیٰعٓصٓ(۱) ذِکْرُ رَحْمَتِ رَبِّکَ عَبْدَہٗ زَکَرِےَّا(۲) اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآءً خَفِےًّا(۳) قَالَ رَبِّ اِنِّیْ وَھَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَاشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَےْبًا وَّلَمْ اَکُنْ م بِدُعَآءِکَ رَبِّ شَقِےًّا(۴) وَاِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّرَآءِ یْ وَکَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا فَھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ وَلِےًّا(۵) ےَّرِثُنِیْ وَےَرِثُ مِنْ اٰلِ ےَعْقُوْبَ وَاجْعَلْہُ رَبِّ رَضِےًّا(۶)
ےٰزَکَرِےَّآ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمِ نِ اسْمُہٗ ےَحْےٰی لَمْ نَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ قَبْلُ سَمِےًّا(۷) قَالَ رَبِّ اَ نّٰی ےَکُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّکَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا وَّقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْکِبَرِ عِتِےًّا(۸) قَالَ کَذٰلِکَ قَالَ رَبُّکَ ھُوَ عَلَیَّ ھَےِّنٌ وَّقَدْ خَلَقْتُکَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَکُ شَےْءًا(۹) قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّیْٓ اٰےَۃً قَالَ اٰےَتُکَ اَلَّا تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَ لَےَالٍ سَوِےًّا(۱۰) فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِہٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰٓی اِلَےْھِمْ اَنْ سَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّعَشِےًّا(۱۱)
ےٰےَحْےٰی خُذِ الْکِتٰبَ بِقُوَّۃٍ وَاٰتَےْنٰہُ الْحُکْمَ صَبِےًّا(۱۲) وَّحَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَزَکٰوۃً وَکَانَ تَقِےًّا(۱۳) وَّبَرًّام بِوَالِدَےْہِ وَلَمْ ےَکُنْ جَبَّارًا عَصِےًّا(۱۴) وَسَلٰمٌ عَلَےْہِ ےَوْمَ وُلِدَ وَےَوْمَ ےَمُوْتُ وَےَوْمَ ےُبْعَثُ حَےًّا(۱۵)

اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے، جس کی شفقت ابدی ہے۔
یہ سورہ ’کٓھٰیٰعٓصٓ۱۱۱؎‘ ہے۔ یہ تیرے پروردگار کے (فضل و) رحمت کا ذکر ۱۱۲؎ہے جو اُس نے اپنے بندے۱۱۳؎ زکریا پر کیا تھا،جب اُس نے اپنے پروردگار کو چپکے چپکے پکارا۱۱۴؎۔ اُس نے عرض کیا۱۱۵؎: میرے پروردگار، میری ہڈیاں بوڑھی ہو گئی ہیں اور سر بڑھاپے سے بھڑک اٹھا ہے اور اے پروردگار، تجھ سے مانگ کر میں کبھی محروم نہیں رہا۔ مجھے اپنے پیچھے اپنے بھائی بندوں سے اندیشہ ہے۱۱۶؎ اور میری بیوی بانجھ ہے۱۱۷؎۔ سو اپنے پاس سے تو مجھے ایک وارث عطا فرما دے جو میرا بھی وارث ہو اور یعقوب کے خاندان کا بھی۔ اور میرے پروردگار، تو اُس کو ایک پسندیدہ انسان بنا۱۱۸؎۔ ۱-۶
(فرمایا): اے زکریا، ہم تمھیں ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہو گا۱۱۹؎۔ ہم نے اِس سے پہلے اُس کا کوئی نظیر نہیں بنایا ہے۱۲۰؎۔ اُس نے عرض کیا:پروردگار، میرے ہاں لڑکا کیسے ہو گا، جب کہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں خود بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ چکا ہوں۔ فرمایا: ایسا ہی ہو گا۱۲۱؎۔ تیرے پروردگار کا ارشاد ہے کہ یہ میرے لیے بہت آسان ہے۔ میں اِس سے پہلے تجھے پیدا کر چکا ہوں، جب کہ تم کچھ بھی نہیں تھے۔زکریا نے کہا: میرے پروردگار، میرے لیے کوئی نشانی ٹھیرا دیجیے۱۲۲؎۔ فرمایا:تمھارے لیے نشانی یہ ہے کہ تم تین شب و روز لوگوں سے بات نہیں کر سکو گے، جب کہ تم بالکل تندرست ہو گے۔۱۲۳؎ چنانچہ محراب عبادت سے نکل کر وہ اپنے لوگوں کے پاس آیا، پھر اشارے سے اُن کو ہدایت کی کہ صبح و شام خدا کی تسبیح کرتے رہو۱۲۴؎۔۷-۱۱
(یہ بشارت پوری ہوئی۔ چنانچہ وہ بچہ سن رشد کو پہنچا تو فرمایا): اے یحییٰ، ہماری کتاب۱۲۵؎ کو مضبوط تھام لو۔ ہم نے اُس کو بچپن ہی میں (حق و باطل کے درمیان) فیصلہ کر لینے کی صلاحیت سے نوازا اور خاص اپنی طرف سے سوزوگداز ۱۲۶؎اور (ظاہر و باطن کی)پاکیزگی عطا فرمائی اور وہ نہایت پرہیزگار ۱۲۷؎اور اپنے والدین کا فرماں بردار بھی تھا۱۲۸؎، سرکش اور نافرمان نہیں تھا۔ اور اُس پر سلامتی (کی بشارت) تھی، جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن مرے گا اور جس دن زندہ اٹھایا جائے گا۱۲۹؎۔ ۱۲-۱۵

۱۱۱؎؎ یہ سورہ کا نام ہے۔ اِس طرح کے جو نام قرآن میں آئے ہیں، اُن کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر ہم سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۱ کے تحت بیان کر چکے ہیں۔

۱۱۲؎ لفظ ’ذِکْر‘یہاں اُسی مفہوم میں ہے جس میں آگے ’اُذْکُرْ‘کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔

۱۱۳؎ آیت میں لفظ ’عَبْد‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ حضرت زکریا کے اختصاص کو بیان کرتا ہے۔ استاذ امام کے الفاظ میں، جس کو اللہ تعالیٰ خود اپنا بندہ کہہ کر یاد فرمائے، اُس کے لیے اِس سے بڑا اعزاز کیا ہو سکتا ہے۔ یہ زکریا کون تھے؟ ہم سورۂ آل عمران (۳) کی آیت ۳۷ کی تفسیر میں بیان کر چکے ہیں کہ یہ سیدنا ہارون علیہ السلام کے خاندان سے اور سیدہ مریم کے خالو تھے۔ بنی اسرائیل میں کہانت کا  جو نظام قائم کیا گیا تھا، اُس کی رو سے لاوی بن یعقوب کا گھرانا مذہبی خدمات کے لیے خاص تھا۔ پھر بنی لاوی میں سے بھی مقدس میں خدا وند کے آگے بخور جلانے اور پاک ترین چیزوں کی تقدیس کی خدمت سیدنا ہارون کے خاندان کے سپرد تھی۔ دوسرے بنی لاوی مقدس کے اندر نہیں جا سکتے تھے، بلکہ صحنوں اور کوٹھڑیوں میں کام کرتے تھے۔ سبت کے دن اور عیدوں کے موقع پر سوختنی قربانیاں چڑھاتے تھے اور مقدس کی نگرانی میں بنی ہارون کی مدد کرتے تھے۔ زکریا بنی ہارون کے خاندان میں سے ابیاہ کے سربراہ تھے۔ چنانچہ اپنے خاندان کی طرف سے یہی معبد کی خدمت انجام دیتے تھے۔

۱۱۴؎ یعنی راز و نیاز کے انداز میں۔ یہ دعا کے آداب میں سے ہے، اِس لیے کہ اِسی میں بندہ اپنے پروردگار کے لیے خاص ہو کر اپنی درخواست اُس کے حضور پیش کرتا ہے۔

۱۱۵؎ آگے کی آیتوں میں اشارہ ہے کہ اُنھوں نے یہ درخواست ہیکل میں غالباً اعتکاف کی حالت میں پیش کی ہے۔

۱۱۶؎ یعنی وہ دینی اور اخلاقی لحاظ سے اچھے لوگ نہیں ہیں۔ چنانچہ اندیشہ ہے کہ میرے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد میری اور میرے خاندان کی اُن روایات کو قائم نہ رکھ سکیں گے جو ہمارا اصل سرمایۂ امتیاز ہیں۔

۱۱۷؎ یہاں تک اُس درخواست کی تمہید ہے جو اُنھوں نے آگے پیش فرمائی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”... حضرت زکریا نے عرض مدعا سے پہلے اُس کے لیے تمہید استوار کی ہے اور اِس میں شبہ نہیں کہ ایسی مؤثر تمہید استوار کی ہے کہ اگر سوء ادب پر محمول نہ کیجیے تو عرض کروں کہ یہ خدا کی رحمت پر کمند ڈال دینے والی تمہید ہے۔ حضرت زکریا نے ایک تو اپنے ضعف و ناتوانی کو سفارش میں پیش کیا، دوسرے اپنے ساتھ زندگی بھر اپنے رب کے معاملے کو۔ فرماتے ہیں کہ اے رب، میں کبھی تجھے پکار کے محروم نہیں رہا۔ غور کیجیے کہ جو سائل جس در سے کبھی محروم نہیں لوٹا ہے، وہ اِس پیری و ناتوانی میں، جب کہ اُس کی ہڈیوں تک کی گود خشک ہو چکی ہے، اُس دروازے سے کس طرح محروم لوٹایا جائے گا۔“(تدبرقرآن۴/ ۶۳۵)

۱۱۸؎ یعنی پسندیدہ اخلاق کا حامل اور اُن کمزوریوں سے پاک جو اِس وقت خاندان میں در آئی ہیں۔

۱۱۹؎ حضرت زکریا نے بالکل صحیح وقت پر، صحیح مقصد کے لیے اور نہایت سچے جذبے کے ساتھ دعا کی تھی۔ چنانچہ زبان سے نکلی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے قبول فرمالیا۔ بندے کی دعا اگراِس یقین کا بے تابانہ اظہار ہو کہ میرے لیے ایک ہی دروازہ ہے، اِس سے پہلے بھی یہیں سے پایا ہے اور اب بھی یہیں سے پاؤں گا تو اُس کے لیے خدا کی رحمت اُن گوشوں سے نمودار ہو جاتی ہے، جہاں سے اُس کو وہم و گمان بھی نہ ہو۔

۱۲۰؎ یعنی اِس سے پہلے کوئی بچہ اِس طرح کے بوڑھے باپ اور بانجھ ماں کو نہیں دیا ہے، اِس لیے عام قانون سے ہٹ کر یہ ہر لحاظ سے بے نظیر فرزند ہے۔

۱۲۱؎ قرینہ دلیل ہے کہ یہ جواب ہاتف غیب کی زبان سے ہے۔ آیت میں ’کَذٰلِکَ‘کی خبر محذوف ہے۔ یہ زور اور تاکید کے لیے حذف کر دی گئی ہے۔

۱۲۲؎ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ زکریا کا گمان تو اگرچہ یہی تھا کہ یہ بشارت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، لیکن دل کے کسی گوشے میں یہ کھٹک ضرور تھی کہ ممکن ہے کہ یہ اپنے ہی گنبددل کی صدا اور اپنی ہی آرزوؤں کے ہجوم میں شیطان کا کوئی القا ہو جسے وہ فرشتوں کا الہام سمجھ بیٹھے ہیں۔ چنانچہ یہ درخواست اُنھوں نے اپنے اطمینان کے لیے کی۔

۱۲۳؎ یعنی یہ حالت کسی مرض یا خرابی کی وجہ سے نہیں ہو گی، بلکہ خدا کی ایک نشانی ہو گی کہ تم خدا کی تسبیح و تہلیل تو کرو گے، لیکن لوگوں سے کوئی بات نہیں کر سکو گے۔ سورۂ آل عمران (۳) کی آیت ۴۱ میں اِس کی تصریح ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”... ظاہر ہے کہ ایک آدمی پر ایسی حالت کا طاری ہو جانا کہ وہ ذکر الہٰی تو کر سکے، لیکن کوئی اور کلمہ زبان سے نہ نکال سکے، کوئی شیطانی حالت نہیں ہو سکتی۔ یہ ہو سکتی ہے تو رحمانی حالت ہی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ یہ حالت حضرت زکریا پر طاری ہو گئی۔ وہ محراب عبادت سے نکل کر لوگوں میں آئے تو وہ کچھ بول نہیں سکتے تھے۔ صرف اشارے سے اُنھوں نے لوگوں کو تسبیح و تہلیل میں مشغول رہنے کی ہدایت کی۔“(تدبرقرآن۴/ ۶۳۸)

۱۲۴؎ لفظ ’مِحْرَاب‘یہاں معبد کے اُن حجروں کے لیے آیا ہے جن میں بیٹھ کر لوگ عبادت کرتے تھے۔ اِس سے معلوم ہواکہ دعا اور بشارت کے وقت حضرت زکریا ہیکل ہی کے کسی گوشے میں مصروف عبادت تھے۔ سورۂ آل عمران (۳) کی آیت ۳۹ میں وضاحت ہے کہ جب یہ بشارت نازل ہوئی تو وہ نماز میں کھڑے تھے۔ اِسی طرح یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ باہر لوگ کسی وجہ سے اُن کا انتظار کر رہے تھے۔ انجیل میں ہے کہ لوگوں کا خیال تھا کہ اُنھوں نے مقدس میں کوئی رؤیا دیکھا ہے*۔ چنانچہ وہ باہر آئے تو اُنھوں نے اشارہ کیا کہ تسبیح و تہلیل کرو۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”... اِس اشارے کے اندر یہ بات مضمر تھی کہ وہ قدرت کے کسی بہت بڑے راز کے امین ہیں جس کے اظہار کا وقت ابھی نہیں آیا ہے۔ لوگ خدا کی حمد و تسبیح میں مشغول رہ کر اُس کا انتظار کریں اور دیکھیں کہ پردہئ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔“(تدبرقرآن۴/ ۶۳۸)

۱۲۵؎ یعنی تورات کو۔ یہ ہدایت اِس لیے ہوئی کہ شیاطین جن و انس کو سب سے بڑھ کر دشمنی کتاب الہٰی ہی سے ہوتی ہے۔ چنانچہ اُس کے حاملین کو وہ اُس سے برگشتہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔

۱۲۶؎ اصل میں لفظ ’حَنَان‘آیا ہے۔ اِس کے معنی محبت، ذوق و شوق اور سوزوگداز کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی بندے پر خاص کرم فرماتا ہے تو اُسے اِن چیزوں سے بھی حصۂ وافر عطا کر دیتا ہے۔ اِس لیے کہ انسان کے قلب و روح کی زندگی اِنھی چیزوں سے عبارت ہے۔ حضرت یحییٰ پر یہ عنایت کس درجے میں تھی؟ اِس کا کچھ اندازہ انجیل میں اُن کے ارشادات سے کیا جا سکتا ہے۔ اُن کی دعوت کا ایک خاص رنگ تھا۔ وہ لوگوں سے گناہوں کی توبہ کراتے اور توبہ کرنے والوں کو روح و جسم، دونوں کی پاکیزگی کے لیے غسل کراتے تھے۔ اِسی بنا پر اُنھیں یوحنا بپتسمہ دینے والا (John the Baptist) کہا جاتا ہے۔ اُنھیں مسیح علیہ السلام کا ارہاص بھی کہتے ہیں۔ چنانچہ وہ اُن کی منادی کرتے تھے کہ توبہ کرو، اِس لیے کہ خدا کی بادشاہی قریب آگئی ہے**۔اِسی طرح کہتے تھے کہ میں بیابان میں ایک پکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی راہ کو سیدھا کرو***۔

۱۲۷؎ حضرت مسیح نے فرمایا تھا کہ جو عورتوں سے پیدا ہوئے ہیں، اُن میں یوحنا بپتسمہ دینے والے سے بڑا کوئی نہیں ہوا****۔ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ زہد و تقویٰ میں بھی وہ کس مقام پر تھے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”...اُن کی ساری زندگی ترک دنیا کی زندگی تھی۔ اُنھوں نے توبہ کی منادی اِس زور و شور سے کی کہ اُس سے دشت و جبل گونج اٹھے۔ ہیکل میں تقریر کرتے تو لوگوں کے دل دہل جاتے۔ لیکن اِس دنیا سے اُن کا تعلق صرف دینے کے لیے تھا،اِس سے لیا اُنھوں نے کچھ بھی نہیں۔ جنگل کے شہد اور اُس کی ٹڈیوں پر گزارہ کرتے، کمبل کی پوشاک سے بدن ڈھانکتے اور جس سر کو چھپانے کے لیے اِس دنیا میں کوئی چھت نہیں بنائی، اُس کو خدا کی کتاب کی خاطر کٹوا کر اِس دنیا سے رخصت ہو گئے۔“(تدبرقرآن۴/ ۶۳۹)

یہ واقعہ اِس طرح ہوا کہ اُس عہد کے یہودی فرماں روا ہیرود اینٹی پاس کی فاسقانہ حرکات پر حضرت یحییٰ کی تنقیدوں کے جرم میں اُنھیں قید کر دیا گیا۔ وہ جیل ہی میں تھے کہ ہیرود کی سالگرہ کے جشن میں ہیرودیاس کی بیٹی کے رقص سے متاثر ہو کر ہیرود نے اُس سے پوچھا کہ مانگ کیا مانگتی ہے؟ یہ ہیرودیاس ہیرود کے بھائی فلپ کی بیوی تھی جسے اس نے اپنے گھر ڈال رکھا تھا۔ بیٹی نے اپنی فاحشہ ماں سے پوچھا کہ کیا مانگوں؟ ہیرودیاس حضرت یحییٰ کی دعوت کو اپنے جیسی عورتوں کے لیے خطرہ سمجھتی تھی۔ اُس نے بیٹی سے کہا کہ یحییٰ کا سر مانگ لے۔ ہیرود اگرچہ یحییٰ علیہ السلام کو ایک مقدس آدمی سمجھ کر اُن کا احترام کرتا تھا، مگر محبوبہ کی بیٹی کا تقاضا رد نہیں کر سکا۔ اُس نے قیدخانے سے اُن کا سر کٹوا کر منگوایا اور رقاصہ کی فرمایش کے مطابق ایک تھال میں رکھ کر اُس کی نذر کر دیا۔*****

یہاں یہ امر واضح رہے کہ یحییٰ علیہ السلام کی جس فقیرانہ زندگی کا ذکر اوپر ہوا ہے، وہ اُنھوں نے اِس لیے اختیار کی کہ وہ اور مسیح علیہ السلام، دونوں بنی اسرائیل پر اتمام حجت سے پہلے آخری اتمام حجت کے لیے آئے تھے۔ وہ اُس بستی میں گھر کیا بناتے جو سیلاب کی زد میں تھی اور اُس درخت کی بہار کیا دیکھتے جس کی جڑوں پر کلہاڑا رکھا ہوا تھا۔ ایک ایک دروازے پر دستک دے کر لوگوں کو آنے والے طوفان سے خبردار کرنے والے اپنا گھر بسانے اور اپنا کھیت اگانے میں لگ جاتے تو اپنے فرض سے کوتاہی کے مرتکب قرار پاتے۔ چنانچہ دونوں نے تجرد و انقطاع کا طریقہ اختیار کیا، قوت لا یموت پر اکتفا کی، درویشوں کا لباس پہنا اور زمین و آسمان ہی کو چھت اور بچھونا بنا کر زندگی بسر کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئے۔

۱۲۸؎ یعنی اِس کے باوجود نہایت فرماں بردار تھے کہ ولاد ت سے لے کرتعلیم و تربیت تک کسی معاملے میں بھی والدین کے محتاج نہیں رہے، بلکہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں اِن تمام مراحل سے گزرے۔

۱۲۹؎ یہ زندگی کے ہر مرحلے میں اُن کے لیے فرشتوں کی مبارک سلامت کا حوالہ ہے جس سے وہ اُن کا استقبال کریں گے۔

[باقی]

____________

* لوقا ۱: ۲۲۔

** متی ۳: ۲۔

*** یوحنا ۱: ۳۲۔

**** متی ۱۱: ۱۱۔

*****متی ۴۱: ۳-۱۲۔ مرقس ۶: ۱۷-۲۹۔ لوقا ۳: ۱۹-۲۰۔

_____________

B