HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الکہف ۱۸: ۸۳ - ۹۸ (۶)

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْکُمْ مِّنْہُ ذِکْرًا(۸۳) اِنَّا مَکَّنَّا لَہٗ فِی الْاَرْضِ وَاٰتَیْنٰہُ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ سَبَبًا(۸۴) فَاَتْبَعَ سَبَبًا(۸۵) حَتّٰٓی اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَھَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِءَۃٍ وَّوَجَدَ عِنْدَھَا قَوْمًا قُلْنَا یٰذَا الْقَرْنَیْنِ اِمَّآ اَنْ تُعَذِّبَ وَاِمَّآ اَنْ تَتَّخِذَ فِیْہِمْ حُسْنًا(۸۶) قَالَ اَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبُہٗ ثُمَّ یُرَدُّ اِلٰی رَبِّہٖ فَیُعَذِّبُہٗ عَذَابًا نُّکْرًا(۸۷) وَاَمَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَہٗ جَزَآءَ نِ الْحُسْنٰی وَسَنَقُوْلُ لَہٗ مِنْ اَمْرِنَا یُسْرًا(۸۸)
ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا(۸۹) حَتّٰٓی اِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَھَا تَطْلُعُ عَلٰی قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَلْ لَّہُمْ مِّنْ دُوْنِھَا سِتْرًا(۹۰)کَذٰلِکَ وَقَدْ اَحَطْنَا بِمَا لَدَیْہِ خُبْرًا(۹۱)
ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا(۹۲) حَتّٰٓی اِذَا بَلَغَ بَیْنَ السَّدَّیْنِ وَجَدَ مِنْ دُوْنِھِمَا قَوْمًا لَّا یَکَادُوْنَ یَفْقَھُوْنَ قَوْلًا(۹۳) قَالُوْا یٰذَا الْقَرْنَیْنِ اِنَّ یَاْجُوْجَ وَمَاْجُوْجَ مُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ فَھَلْ نَجْعَلُ لَکَ خَرْجًا عَلٰٓی اَنْ تَجْعَلَ بَیْنَنَا وَبَیْنَھُمْ سَدًّا(۹۴) قَالَ مَا مَکَّنِّیْ فِیْہِ رَبِّیْ خَیْرٌ فَاَعِیْنُوْنِیْ بِقُوَّۃٍ اَجْعَلْ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَھُمْ رَدْمًا(۹۵) اٰتُوْنِیْ زُبَرَ الْحَدِیْدِ حَتّٰٓی اِذَا سَاوٰی بَیْنَ الصَّدَفَیْنِ قَالَ انْفُخُوْا حَتّٰٓی اِذَا جَعَلَہٗ نَارًا قَالَ اٰتُوْنِیْٓ اُفْرِغْ عَلَیْہِ قِطْرًا(۹۶) فَمَا اسْطَاعُوْٓا اَنْ یَّظْھَرُوْہُ وَمَا اسْتَطَاعُوْا لَہٗ نَقْبًا(۹۷) قَالَ ھٰذَا رَحْمَۃٌ مِّنْ رَّبِّیْ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ رَبِّیْ جَعَلَہٗ دَکَّآءَ وَکَانَ وَعْدُ رَبِّیْ حَقًّا(۹۸)
وہ تم سے ذوالقرنین۸۶؎ کے بارے میں بھی پوچھ رہے ہیں۔ اِن سے کہو، میں اُس کا کچھ تذکرہ ابھی تمھیں سناتا ہوں ۸۷؎۔ ہم نے اُس کو زمین میں اقتدار عطا فرمایا تھا اور اُس کو ہر قسم کے اسباب و وسائل بخشے تھے۔ پھر اُس نے (ایک مرتبہ) ایک مہم کا سامان کیا، یہاں تک کہ جب وہ سورج کے غروب ہونے کی جگہ تک پہنچا تو اُس نے سورج کو دیکھا کہ ایک سیاہ کیچڑ کے چشمے میں ڈوب رہا ہے۸۸؎ اور اُس کے پاس اُسے ایک قوم ملی۔ ہم نے کہا: اے ذوالقرنین، (یہ تیرے اختیار میں ہیں کہ) چاہو تو اِنھیں سزا دو اور چاہو تو اِن کے ساتھ اچھا سلوک کرو۸۹؎۔ اُس نے کہا: جو اِن میں سے ظلم کرے گا، ہم اُس کو سزا ہی دیں گے، پھر وہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا جائے گا تو وہ بھی اُس کو سخت سزا دے گا۔ اِس کے برخلاف جو ایمان لائے گا اور اچھا عمل کرے گا، اُس کے لیے (اُس کے پروردگار کے پاس بھی)اچھی جزا ہے اور ہم بھی اُس کے ساتھ اپنا معاملہ آسان کریں گے۔۹۰؎ ۸۳-۸۸ 
پھر اُس نے ایک دوسری مہم کا سامان کیا، یہاں تک کہ جب وہ طلوع آفتاب کی جگہ تک پہنچا ۹۱؎تو اُس کو دیکھا کہ وہ ایک ایسی قوم پر طلوع ہو رہا ہے جن کے لیے ہم نے آفتاب کے اِدھر کوئی آڑ نہیں رکھی تھی۔ ۹۲؎یہ اِسی طرح ہوا ۹۳؎اور جو کچھ ذوالقرنین کے پاس تھا، اُسے ہم خوب جانتے تھے۔۹۴؎۸۹-۹۱
اُس نے پھر ایک اور مہم کا سامان کیا،۹۵؎ یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے درمیان (ایک درے تک) پہنچا۹۶؎ تو اُن کے اِس طرف اُس کو ایسے لوگ ملے جو کوئی بات سمجھ نہیں پاتے تھے۔۹۷؎ اُنھوں نے درخواست کی کہ اے ذوالقرنین، یاجوج اور ماجوج۹۸؎ اِس سرزمین میں فساد پھیلاتے ہیں ۹۹؎۔ تو کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ہم آپ کے لیے اخراجات کا بندوبست کریں اور آپ ہمارے اور اُن کے درمیان کوئی روک بنا دیں۔ اُس نے جواب دیا کہ جو کچھ میرے پروردگار نے میرے اختیار میں دے رکھا ہے، وہ بہتر ہے۱۰۰؎۔ تم البتہ ہاتھ پاؤں سے میری مدد کرو، میں تمھارے اور اُن کے درمیان ایک دیوار کھڑی کیے دیتا ہوں ۱۰۱؎۔ مجھے لوہے کی سلیں لا دو۔ (چنانچہ وہ فراہم کر دی گئیں)، یہاں تک کہ جب اُس نے دونوں پہاڑوں کے درمیان خلا۱۰۲؎ کو پاٹ دیا تو کہا کہ دھونکو، حتیٰ کہ جب اُس کو آگ کر دیا تو حکم دیا کہ لاؤ، اب میں اِس پر پگھلا ہوا تانبا انڈیل دوں۔ سو (یہ ایسی دیوار بن گئی کہ)یاجوج وماجوج اب نہ اُس پر چڑھ سکتے تھے، نہ اُس میں نقب لگا سکتے تھے۔ ذوالقرنین نے کہا: یہ میرے پروردگار کی رحمت ہے۔ پھر جب میرے پروردگار کے وعدے کا ظہور ہو گا تو وہ اِس کو ڈھا کر برابر کر دے گا اور میرے پروردگار کا وعدہ برحق ہے۱۰۳؎۔۹۲-۹۸

۸۶؎ اِس کے لفظی معنی ہیں: دو سینگوں والا۔ یہاں اِس سے مراد غالباً قدیم ایرانی بادشاہ خسرو(Cyrus) ہے۔ اُس کا اصل نام کورش تھا۔ وہ چھٹی صدی قبل مسیح میں اپنے والد کمبوچیہ کی چھوٹی سی ریاست اَنشان کا والی مقرر ہوا۔ برسراقتدار آتے ہی اُس کو مادا کے حکمران کے حملے کا مقابلہ کرنا پڑا جس میں اُس کو فتح حاصل ہوئی۔ اُس کے بعد فتوحات کا سلسلہ شروع ہو گیا اور چند ہی برسوں میں اُس نے وقت کی تمام بڑی ریاستوں کو زیرنگیں کر لیا اور اُس کی سلطنت بتدریج دنیا کے دونوں کناروں (مشرق و مغرب) تک پھیل گئی۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ اُس وقت کی پوری مہذب دنیا عملاً اُس کی تابع فرمان تھی۔ اِس سے پہلے اِس سے زیادہ وسیع اور پرشکوہ سلطنت کوئی اور قائم نہیں ہوئی تھی۔

وہ ایک صاحب ایمان اور عادل بادشاہ تھا۔ یسعیاہ نبی کی پیشین گوئی میں اُس کا نام خورس بیان کیا گیا ہے۔ یہ سائرس ہی کی ذرا سی بدلی ہوئی شکل ہے جو خسرو کے نام کا یونانی تلفظ ہے۔ ارشاد ہوا ہے:

”خداوند اپنے ممسوح خورس کے حق میں یوں فرماتا ہے کہ میں نے اُس کا دہنا ہاتھ پکڑا کہ امتوں کو اُس کے سامنے زیر کروں اور بادشاہوں کی کمریں کھلوا ڈالوں۔“(یسعیاہ۴۵: ۱)

بائیبل میں دانیال نبی کا ایک مکاشفہ نقل کیاگیا ہے، اُس میں وہ کہتے ہیں:

”تب میں نے آنکھ اٹھا کر نظر کی اور کیا دیکھتا ہوں کہ دریا کے پاس ایک مینڈھا کھڑا ہے جس کے دو سینگ ہیں۔ دونوں سینگ اونچے تھے، لیکن ایک دوسرے سے بڑا تھا اور بڑا دوسرے کے بعد نکلا تھا۔ میں نے اُس مینڈھے کو دیکھا کہ مغرب و شمال و جنوب کی طرف سینگ مارتا ہے، یہاں تک کہ نہ کوئی جانور اُس کے سامنے کھڑا ہو سکا اور نہ کوئی اُس سے چھڑا سکا۔“ (دانی ایل ۸: ۳-۴)

اِس مکاشفے کی تعبیر جبریل علیہ السلام نے حضرت دانیال کو یہ بتائی کہ دو سینگوں سے مراد مادا اور فارس کی دو سلطنتیں ہیں جنھیں موعود بادشاہ زیرنگیں کرے گا۔ عرب کے یہود غالباً اِسی بنا پر خورس کو ذوالقرنین کہتے تھے، اِس لیے کہ یہ دونوں سلطنتیں اُس نے زیر نگیں کر لی تھیں۔ یہودیوں میں اِس ”دوسینگوں والے“ کا بڑا چرچا تھا، کیونکہ اِسی کی ٹکر نے بالآخر بابل کی سلطنت کو بھی پاش پاش کیا اور بنی اسرائیل کو اسیری سے نجات دلائی جس کے نتیجے میں یہود کے لیے ممکن ہوا کہ وہ بیت المقدس اور ہیکل کو ازسرنو تعمیر کریں۔ اُس کا ایک مجسمہ ماضی قریب میں اصطخر کے نزدیک دریافت ہوا ہے جو اردشیراول کے زمانے کا نصب کردہ ہے۔ اُس میں اُس کے تاج میں دو سینگ بھی ابھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بھی اُسی چیز کی علامت ہوں جس کی بنا پر یہود اُسے ذوالقرنین کہتے تھے۔

اُس کی جن مہمات کا ذکر آگے ہوا ہے، اُن میں سے دو مہمیں    مشرقی اور مغربی    تو تاریخ کی روشنی میں ثابت ہیں، اِس لیے کہ اُس کی فتوحات یقینا مغرب میں ایشیاے کوچک اور شام کے سواحل تک اور مشرق میں باختر (بلخ) تک وسیع ہو گئی تھیں۔ مگر شمال یا جنوب میں اُس کی کسی بڑی مہم کا سراغ تاریخ میں نہیں ملتا، جب کہ قرآن اُس کا ذکر بڑی صراحت کے ساتھ کرتا ہے۔ تاہم شواہد و قرائن اِس کے بھی موجود ہیں، کیونکہ تاریخ کی رو سے خورس کی سلطنت شمال میں قفقاز تک وسیع ہو گئی تھی۔

۸۷؎ آیت کی ابتدا ’سَاَتْلُوْا‘سے ہوئی ہے اور تذکرے کے لیے اُس میں لفظ ’ذِکْر‘ آیا ہے۔ اِس میں، اگر غور کیجیے تو ایک قسم کی اپیل مضمر ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”... مطلب یہ ہے کہ پوچھتے ہو تو میں اُن کی سرگذشت کا کچھ سبق آموز حصہ سناؤں گا۔ امید ہے گوش دل سے سنو گے اور اُس سے فائدہ اٹھاؤ گے۔ لفظ ’ذِکْر‘ میں یاددہانی، تذکیر اور سبق آموزی کا جو مفہوم مضمر ہے، وہ اہل نظر سے مخفی نہیں ہے۔“(تدبرقرآن۴/ ۶۱۶)

۸۸؎ اِس سے واضح ہے کہ پچھلے جملے میں سورج کے ڈوبنے کی جگہ تک پہنچنا درحقیقت مغرب کی جانب خشکی کے آخری سرے تک پہنچنے کی تعبیر ہے جس کے آگے سمندر تھا اور جہاں غروب آفتاب کے وقت ایسا نظر آتا تھا کہ گویا وہ کسی سیاہ کیچڑ کے چشمے میں ڈوب رہا ہے۔اِسے چشمہ غالباً اِس لیے کہا ہے کہ ایشیاے کوچک کے مغربی ساحل پر بحر ایجین چھوٹی چھوٹی خلیجوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ مغرب کی طرف اُس وقت کی تمام معلوم دنیا ذوالقرنین نے اِس مہم میں زیر نگیں کر لی تھی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”یہ کیخسرو کی پہلی مہم کی طرف اشارہ ہے جو اِس کے دارالسلطنت ہک متانہ (موجودہ ہمدان) سے مغرب کے لیے ہوئی۔ اِس مہم میں اُس نے مادا (موجودہ عراق و شام) اور لیڈیا (موجودہ ترکی) کو زیرنگین کیا۔ لیڈیا کے دارالحکومت سارڈیس (نزد سمرنا) میں وہاں کے حکمران کروسس کو اُس نے شکست دی جس کو بابل، مصر اور اسپارٹا کی حکومتوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ اِس مہم میں کیخسرو کے قدم بحیرہئ روم کے ساحل ہی پر جا کے رکے۔“(تدبرقرآن۴/ ۶۱۷)    

۹۸؎ یہ صورت حال کی زبان سے ذوالقرنین کے اختیارو اقتدار کا بیان ہے۔ اِس کے لیے اُس کا مخاطبۂ الہٰی سے مشرف ہونا ضروری نہیں ہے۔ عربی زبان میں لفظ ’قَوْل‘اِس طرح کی تعبیرات کے لیے بھی آتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اِس فتح کے نتیجے میں ہم نے ایسا اختیار اِن لوگوں پر تمھیں دے دیا ہے کہ اب تم اِن کے ساتھ کچھ بھی کر سکتے ہو۔ تمھارے اختیار و اقتدار میں کوئی مداخلت کرنے والا نہیں ہے۔ یہ اُسی طرح کی تعبیر ہے جو سورۂ صٓ (۳۸) کی آیت ۳۹ میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے ’فَامْنُنْ اَوْ اَمْسِکْ بِغَیْرِ حِسَابٍ‘ کے الفاظ میں آئی ہے۔ اِس کے ہرگز یہ معنی نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے اجازت دے دی تھی کہ وہ چاہے ظلم کرے، چاہے انصاف سے کام لے۔

۹۰؎ اوپر کی بات جس طرح زبان حال سے ہے، اُسی طرح یہ زبان عمل سے ہے، یعنی اُس نے اپنے رویے اور طرزعمل سے اِس بات کی شہادت دی۔ آیت میں دیکھیے تو ’سَنَقُوْلُ لَہٗ مِنْ اَمْرِنَا یُسْرًا‘کے ٹکڑے میں بھی لفظ ’قَوْل‘ اِسی مفہوم میں ہے۔ ذوالقرنین کا ایمان و عقیدہ کیا تھا؟ یہ آیات اُس کا پتا دیتی ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”اِن آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین ایک مومن، موحد اور آخرت پر یقین رکھنے والا بادشاہ تھا۔ تاریخوں سے بھی اِس بات کی تائید و تصدیق ہوتی ہے۔ سائرس زردشت کا ہم عصر اور اُس کا پیرو تھا۔ زردشت کی اصل تعلیمات میں ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ کا صحیح تصور ملتا ہے۔ اگرچہ بعد میں دوسرے مذاہب کی طرح یہ مذہب بھی تحریفات کی دست برد سے محفوظ نہیں رہا،بلکہ ثنویت کے تصورات اُس پر غالب آگئے۔ دارا اپنے کتبوں میں اہور مزدا (اللہ) کا شکر ادا کرتا ہے۔ اپنی سلطنت کو اُس کے فضل و کرم سے منسوب کرتا ہے اور اُس سے راہ راست پر قائم رہنے کی توفیق مانگتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ دین داری اُس کو ذوالقرنین ہی سے وراثت میں ملی۔ ذوالقرنین کو انبیاے بنی اسرائیل سے بھی بڑی عقیدت تھی۔ یہ چیز بھی اُس کے اندر دینی رجحانات کی تقویت کا باعث ہوئی۔“(تدبرقرآن۴/ ۶۱۹)

۹۱؎ یعنی جس طرح مغرب میں خشکی کے آخری سرے تک پہنچ گیا تھا، اُسی طرح مشرق میں بھی پہنچ گیا۔

۹۲؎ مطلب یہ ہے کہ وہ بالکل وحشی اور غیر متمدن تھے۔ عمارتیں بنانا تو درکنار، اپنے لیے خیمے بھی نہیں بنا سکتے تھے۔ چنانچہ خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتے اور کھلے میدانوں میں رہتے تھے، جہاں اُن کے اور سورج کے مابین کوئی آڑ نہیں تھی۔ مورخین کا بیان ہے کہ اِس سے مکران، قندھار اور بلخ کے وحشی اور صحرا گرد قبائل مراد ہیں جنھوں نے فارس کی مشرقی سرحد پر اُس زمانے میں بدامنی پھیلا رکھی تھی۔ ذوالقرنین کو بالآخر اُن کی سرکوبی کے لیے اٹھنا پڑا جس کے نتیجے میں یہ علاقے بھی اُس نے فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کر لیے۔

۹۳؎ یعنی فی الواقع یہی ہوا کہ وہ علاقے فتح کرتا ہوا اُس وقت کی متمدن دنیا کے آخری کنارے تک پہنچ گیا اور اپنی سلطنت مغرب سے مشرق تک وسیع کر لی۔

۹۴؎ یہ اُسی طرح کا جملہ ہے، جیسے سورۂ انبیاء (۲۱) کی آیت ۵۱ میں ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے کہ ’وَلَقَدْ اٰتَیْنَا اِبْرٰھِیْمَ رُشْدَہٗ مِنْ قَبْلُ وَکُنَّابِہٖ عٰلِمِیْنَ‘۔ مطلب یہ ہے کہ ذوالقرنین کو یہ سرفرازی یوں ہی حاصل نہیں ہو گئی، بلکہ وہ اِس کی اہلیت رکھتا تھا۔ یہ ایک عظیم سلطنت تھی اور وہ بدرجۂ کمال اُن صلاحیتوں سے بہرہ مند تھا جو اِس کو سنبھالنے اور اِس کا نظم و نسق چلانے کے لیے ضروری تھیں۔ اِس کے ساتھ وہ اُن اخلاقی اوصاف سے بھی پوری طرح متصف تھا جو خدا ترس بادشاہوں میں ہونے چاہییں اور ہم اُس کی اِن تمام صلاحیتوں اور تمام اوصاف حمیدہ سے واقف تھے۔

۹۵؎ یہ تیسری مہم کا ذکر ہے۔ اِس میں ذوالقرنین کو کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ غالباً اِسی بنا پر مورخین اِس کا کوئی ذکر نہیں کرتے۔ تاہم اتنا بتاتے ہیں کہ بابل کی فتح کے بعد وہ شمال مشرق کی سمت ایک سفر پر روانہ ہوا تھا۔ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اُس کی منزل غالباً بحرخزر(کیسپین) کے مشرق میں ترکستان کی جانب رہی ہو گی۔

۹۶؎ آگے ذکر ہوا ہے کہ اِن دونوں پہاڑوں کے اُس طرف یاجوج و ماجوج کا علاقہ تھا۔ اِس لیے لامحالہ اِن سے مراد وہ پہاڑی سلسلے ہی ہو سکتے ہیں جو بحر خزر اور بحر اسود کے درمیان واقع ہیں۔

۹۷؎ یعنی اُن کی زبان ذوالقرنین اور اُس کے ساتھیوں کے لیے قریب قریب بالکل اجنبی تھی۔ اِس کی وجہ غالباً یہ رہی ہو گی کہ وہ اپنے علاقے کے اندر محدود اور دوسروں سے بالکل بے تعلق زندگی بسر کرتے تھے۔ اپنے علاقے کے باہر کے لوگوں کے ساتھ اُن کا کوئی میل جول نہیں تھا۔

۹۸؎ یہ دونوں نوح علیہ السلام کے بیٹے یافث کی اولاد میں سے ہیں اور جو ایشیاکے شمالی علاقوں میں آباد ہوئی۔ صحیفۂ حزقی ایل میں اِن کا تعارف روس، ماسکو اور توبالسک کے فرماں روا کی حیثیت سے کرایا گیا ہے۔ حزقی ایل فرماتے ہیں:

”اور خداوند کا کلام مجھ پر نازل ہوا کہ اے آدم زاد، جوج کی طرف جو ماجوج کی سرزمین کا ہے اور روش اور مسک اور توبل کا فرماں روا ہے متوجہ ہو اور اُس کے خلاف نبوت کر۔“ (حزقی ایل۳۸: ۱-۲)
”پس اے آدم زاد،تو جوج کے خلاف نبوت کر اور کہہ، خداوندخدا یوں فرماتا ہے: دیکھ اے جوج، روش، مسک اور توبل کے فرماں روا، میں تیرا مخالف ہوں اور میں تجھے پھرا دوں گا اور تجھے لیے پھروں گا اور شمال کے دور اطراف سے چڑھا لاؤں گا۔ (حزقی ایل ۳۹: ۱-۲)

۹۹؎ یہ اُس زمانے کے وحشی قبائل تھے اور قدیم زمانے سے متمدن علاقے پر غارت گرانہ حملے کرتے رہتے تھے۔ ایران پر اِن کی تاخت ترکستان کے راستے سے بھی ہوتی تھی اور قفقاز پہاڑوں کے اُس درے سے بھی جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔

۱۰۰؎ اصل میں لفظ ’خَیْر‘استعمال ہوا ہے۔ اِس میں دو باتوں کی طرف اشارہ ہے: ایک یہ کہ یہ کافی ہے اور دوسرے یہ کہ یہ نہایت پاکیزہ مال ہے، اِس میں لوٹ مار اور تعدی کی کوئی آلایش نہیں ہے۔

۱۰۱؎ اِس طرح کی ایک قدیم دیوار کے آثار کوہ قفقاز کے درۂ داریال میں موجود ہیں۔ سیاح اپنے سفرناموں میں اِس کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ دیوار ۵۰ میل لمبی، ۲۹۰ فٹ اونچی اور ۱۰ فٹ چوڑی تھی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”... روایات میں ہے کہ عباسی خلیفہ واثق نے اِس دیوار کی تحقیقات پر پچاس افراد کی ایک ٹیم مقرر کی جس نے اِس کے موقع و محل کا سراغ لگایا۔ اِس دیوار کو لوگ دارا یا نوشیرواں کی طرف منسوب کرتے ہیں، لیکن زیادہ شواہد اِس بات کے حق میں ہیں کہ یہ کیخسرونے تعمیر کرائی ہو گی۔ مثلاً یہ بات پایۂ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ کیخسرو کی سلطنت کی شمالی حد کوہ قفقاز تک تھی۔ اتنا وسیع علاقہ زیرنگین کر لینا صرف اُس صورت میں ممکن ہے، جب اُس نے اِس علاقہ کو فتح کرنے کے لیے کوئی اقدام کیا ہو۔ کورش نام کا ایک شہر اور ایک دریا کوہ قفقاز کے علاقے میں اب تک موجود ہے۔ آہنی دیوار کو گورا کا نام دیا جاتا ہے جو کورش ہی کی بگڑی ہوئی شکل معلوم ہوتی ہے۔ یہ دیوار دھات سے دو پہاڑیوں کے درمیان بنی ہوئی ہے اور اِس کے نچلے حصے میں برسات کے پانی کے نکلنے کے لیے کچھ جگہ چھوڑ دی گئی ہے۔“(تدبرقرآن۴/ ۶۲۱) 

۱۰۲؎ اصل میں ’سَاوٰی بَیْنَ الصَّدَفَیْنِ‘کے الفاظ آئے ہیں۔ ’صَدَف‘ خول اور خلا کو کہتے ہیں۔ یہاں اِس کے مثنیٰ استعمال کرنے میں اِس کے دونوں طرفوں کا لحاظ ہے۔

۱۰۳؎ یہ قرآن نے نہایت خوبی کے ساتھ قصۂ ذوالقرنین کو سورہ کے مضمون سے متعلق کر دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اُس نے تنگ ظرفوں کی طرح یہ نہیں کہا کہ یہ میں وہ کارنامہ کیے جا رہا ہوں جس پر کبھی زوال نہ آئے گا، بلکہ نہایت عاجزی کے ساتھ اُسے اپنے پروردگار کی رحمت و عنایت اور اُس کے فضل و کرم کا کرشمہ قرار دیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”پیچھے دو شخصوں کی تمثیل کے ذیل میں مغرورین دنیا کی یہ ذہنیت آپ پڑھ چکے ہیں کہ جب وہ اپنی کامیابی کے ہرے بھرے باغ میں داخل ہوتے ہیں تو غرور کے نشے میں کہتے ہیں کہ ’مَآ اَظُنُّ اَنْ تَبِیْدَ ھَذِہٖٓ اَبَدًا‘، ”میں گمان بھی نہیں کرتا کہ یہ باغ کبھی تباہ ہو سکے گا۔“ اِس کے بعد ایک عبد شاکر کی ذہنیت نمایاں فرمائی ہے کہ وہ اپنے بڑے سے بڑے کارنامہ پر بھی اپنے رب کا شکرگزار ہوتا ہے اور اللہ کے شدنی وعدۂ آخرت کو یاد رکھتا ہے۔“(تدبرقرآن۴/ ۶۲۲) 

[باقی]

____________

B