بسم اللہ الرحمن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِفَتٰہُ لَآ اَبْرَحُ حَتّٰٓی اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا(۶۰) فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَیْنِھِمَا نَسِیَا حُوْتَھُمَا فَاتَّخَذَ سَبِیْلَہٗ فِی الْبَحْرِ سَرَبًا(۶۱) فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتٰہُ اٰتِنَا غَدَآءَ نَا لَقَدْ لَقِیْنَا مِنْ سَفَرِنَا ھٰذَا نَصَبًا(۶۲) قَالَ اَرَءَ یْتَ اِذْ اَوَیْنَآ اِلَی الصَّخْرَۃِ فَاِنِّیْ نَسِیْتُ الْحُوْتَ وَمَآ اَنْسٰنِیْہُ اِلَّا الشَّیْطٰنُ اَنْ اَذْکُرَہٗ وَاتَّخَذَ سَبِیْلَہٗ فِی الْبَحْرِ عَجَبًا(۶۳) قَالَ ذٰلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلٰٓی اٰثَارِھِمَا قَصَصًا(۶۴) فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ اٰتَیْنٰہُ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا(۶۵)
قَالَ لَہٗ مُوْسٰی ھَلْ اَتَّبِعُکَ عَلٰٓی اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا(۶۶) قَالَ اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا(۶۷) وَکَیْفَ تَصْبِرُ عَلٰی مَا لَمْ تُحِطْ بِہٖ خُبْرًا(۶۸) قَالَ سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ صَابِرًا وَّلَآ اَعْصِیْ لَکَ اَمْرًا(۶۹)
قَالَ فَاِنِ اتَّبَعْتَنِیْ فَلَا تَسْءَلْنِیْ عَنْ شَیْءٍ حَتّٰٓی اُحْدِثَ لَکَ مِنْہُ ذِکْرًا(۷۰) فَانْطَلَقَا حَتّٰٓی اِذَا رَکِبَا فِی السَّفِیْنَۃِ خَرَقَھَا قَالَ اَخَرَقْتَھَا لِتُغْرِقَ اَھْلَہَا لَقَدْ جِءْتَ شَیْءًا اِمْرًا(۷۱) قَالَ اَلَمْ اَقُلْ اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا(۷۲) قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِیْ بِمَا نَسِیْتُ وَلَا تُرْھِقْنِیْ مِنْ اَمْرِیْ عُسْرًا(۷۳)
فَانْطَلَقَا حَتّٰٓی اِذَا لَقِیَا غُلٰمًا فَقَتَلَہٗ قَالَ اَقَتَلْتَ نَفْسًا زَکِیَّۃً م بِغَیْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِءْتَ شَیْءًا نُّکْرًا(۷۴) قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّکَ اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا(۷۵) قَالَ اِنْ سَاَلْتُکَ عَنْ شَیْءٍ م بَعْدَھَا فَلَا تُصٰحِبْنِیْ قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَّدُنِّیْ عُذْرًا(۷۶) فَانْطَلَقَا حَتّٰٓی اِذَآ اَتَیَآ اَھْلَ قَرْیَۃِ نِ اسْتَطْعَمَآ اَھْلَھَا فَاَبَوْا اَنْ یُّضَیِّفُوْھُمَا فَوَجَدَا فِیْھَا جِدَارًا یُّرِیْدُ اَنْ یَّنْقَضَّ فَاَقَامَہٗ قَالَ لَوْ شِءْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَیْہِ اَجْرًا(۷۷) قَالَ ھٰذَا فِرَاقُ بَیْنِیْ وَبَیْنِکَ سَاُنَبِّءُکَ بِتَاْوِیْلِ مَالَمْ تَسْتَطِعْ عَّلَیْہِ صَبْرًا(۸۷)
اَمَّا السَّفِیْنَۃُ فَکَانَتْ لِمَسٰکِیْنَ یَعْمَلُوْنَ فِی الْبَحْرِ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَھَا وَکَانَ وَرَآءَ ھُمْ مَّلِکٌ یَّاْخُذُ کُلَّ سَفِیْنَۃٍ غَصْبًا(۷۹)
وَاَمَّا الْغُلٰمُ فَکَانَ اَبَوٰہُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَآ اَنْ یُّرْھِقَھُمَا طُغْیَانًا وَّکُفْرًا(۸۰) فَاَرَدْنَآ اَنْ یُّبْدِلَھُمَا رَبُّھُمَا خَیْرًا مِّنْہُ زَکٰوۃً وَّاَقْرَبَ رُحْمًا(۸۱)
وَاَمَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلٰمَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِی الْمَدِیْنَۃِ وَکَانَ تَحْتَہٗ کَنْزٌلَّھُمَا وَکَانَ اَبُوْھُمَا صَالِحًا فَاَرَادَ رَبُّکَ اَنْ یَّبْلُغَآ اَشُدَّھُمَا وَیَسْتَخْرِجَا کَنْزَھُمَا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ وَمَا فَعَلْتُہٗ عَنْ اَمْرِیْ ذٰلِکَ تَاْوِیْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَیْہِ صَبْرًا(۸۲)
(اِن کے مقابل میں صبر کرو، اے پیغمبر، اور اِس کے لیے وہ واقعہ سامنے رکھو)، جب موسیٰ نے اپنے شاگرد۶۸؎ سے کہا کہ میں چلتا رہوں گا، یہاں تک کہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پر پہنچ جاؤں ۶۹؎ یا اِسی طرح سال ہا سال چلتا رہوں ۷۰؎۔ سو جب وہ دریاؤں کے ملنے کی جگہ پر پہنچے تو اپنی (ناشتے کی بھنی ہوئی) مچھلی۷۱؎ بھول گئے اور اُس نے دریا میں سرنگ لگا کر اپنی راہ لی۔پھر جب آگے بڑھے تو موسیٰ نے اپنے شاگرد سے کہا کہ اب ہمارا کھانا لاؤ۔ ہمارے اِس سفر سے تو ہم کو بڑی تکان ہو گئی۔ شاگرد نے کہا: کیا عرض کروں ۷۲؎، جب ہم اُس چٹان کے پاس ٹھیرے ہوئے تھے تو اُس وقت مجھے مچھلی کا خیال نہیں رہا اور یہ شیطان ہی تھا جس نے مجھے غافل کر دیا کہ میں اُسے یاد رکھوں ۷۳؎ اور اُس نے عجیب طریقے سے دریا میں اپنی راہ تلاش کر لی۔۷۴؎ موسیٰ نے کہا: یہی تو وہ جگہ ہے جو ہم ڈھونڈ رہے تھے۷۵؎۔ چنانچہ وہ اپنے نقش قدم دیکھتے ہوئے لوٹے تو ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو وہاں پایا جسے ہم نے خاص اپنی رحمت سے نوازا تھا اور اپنے پاس سے اُس کو ایک خاص علم عطا فرمایا تھا۷۶؎۔۶۰-۶۵
موسیٰ نے اُس سے درخواست کی کہ آپ مجھے اجازت دیں تو میں اِس شرط پر آپ کے ساتھ رہوں کہ جو علم۷۷؎ آپ کو عطا ہوا ہے، آپ اُس میں سے کچھ مجھے بھی سکھائیں گے؟اُس نے جواب دیا: تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے اور جو چیز تمھارے دائرۂ علم سے باہر ہو گی، آخر تم اُس پر صبر کر بھی کس طرح سکتے ہو۔ موسیٰ نے کہا: اِن شاء اللہ، آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں کسی معاملے میں آپ کی نافرمانی نہ کروں گا۔ ۶۶-۶۹
اُس نے کہا: پھر اگر میرے ساتھ رہنا ہے تو مجھ سے کوئی بات نہ پوچھنا، جب تک میں خود تم سے اُس کا ذکر نہ کروں۔ بالآخر وہ دونوں چل پڑے، یہاں تک کہ جب (ایک جگہ) کشتی میں سوار ہوئے تو اُس شخص نے کشتی میں چھید کر دیا۔ موسیٰ نے کہا: آپ نے اِس میں چھید کر دیا تاکہ سب کشتی والوں کو ڈبو دیں؟ یہ تو آپ نے بڑی ہی عجیب حرکت کر ڈالی ہے۔ اُس نے کہا: میں نے کہا نہیں تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے؟ موسیٰ نے کہا: میں جس چیز کو بھول گیا، اُس پر میری گرفت نہ کیجیے اور میرے معاملے میں مجھ پر زیادہ سختی نہ فرمائیے۔۷۰-۷۳
پھر دونوں چلے، یہاں تک کہ جب (راستے میں) ایک لڑکے سے ملاقات ہوئی تو اُس نے لڑکے کو قتل کر ڈالا۔ موسیٰ نے کہا: آپ نے ایک بے گناہ کی جان لے لی، حالاں کہ اُس نے کسی کا خون نہیں کیا تھا؟ یہ تو آپ نے بہت برا کام کیا ہے۔ اُس نے کہا: میں نے تم سے کہا نہیں تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے؟ موسیٰ نے کہا: اِس کے بعد اگر میں آپ سے کچھ پوچھوں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھیں۔ آپ میری طرف سے حد عذر کو پہنچ گئے۔ اِس پر دونوں آگے بڑھے، یہاں تک کہ جب ایک بستی والوں کے پاس پہنچے تو وہاں کے لوگوں سے کھانا کھلانے کو کہا،مگر اُنھوں نے اُن کی میزبانی سے انکار کر دیا۔ پھر اُنھوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو گرا چاہتی تھی تو اُس نے وہ دیوار کھڑی کر دی۔ موسیٰ نے کہا: اگر آپ چاہتے تو اِس پر مزدوری لے سکتے تھے۷۸؎۔ اُس نے کہا: اب یہ میرے اور تمھارے درمیان جدائی ہے۔ میں ابھی اُن باتوں کی حقیقت تمھیں بتاتا ہوں جن پر تم صبر نہیں کر سکے ہو۷۹؎۔۷۴-۷۸
اُس کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند مسکینوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے۔ سو میں نے چاہا۸۰؎ کہ اُسے عیب دار کر دوں، (اِس لیے کہ) اُن کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر کشتی کو زبردستی چھین رہا تھا۸۱؎۔ ۷۹
رہا لڑکا تو اُس کے ماں باپ، دونوں ایمان والے تھے۔ سوہمیں اندیشہ ہوا۸۲؎ کہ کہیں وہ بڑا ہو کر اپنی سرکشی اور کفر سے اُن کو تنگ نہ کرے۔ سو ہم نے چاہا کہ اُن کا پروردگار اُنھیں اِس کی جگہ ایسی اولاد دے جو پاکیزگی میں اِس سے بہتر اور شفقت و محبت میں اِس سے بڑھ کر ہو۔۸۰-۸۱
اور دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی۔ اُس کے نیچے اُن کا دفینہ تھا اور اُن کا باپ ایک نیک آدمی تھا۔ (یہ دفینہ اُسی نے رکھا تھا) سو تیرے پروردگار نے چاہا۸۳؎ کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچیں اور اپنا دفینہ خود نکالیں ۸۴؎۔ یہ تیرے پروردگار کی عنایت سے ہوا۔ میں نے یہ سب اپنی راے سے نہیں کیا۔ یہ ہے اُن باتوں کی حقیقت جن پر تم صبر نہیں کر سکے ہو۸۵؎۔۸۲
۶۸؎ اصل میں لفظ ’فَتٰی‘ استعمال ہوا ہے جس کے معنی نوجوان لڑکے کے ہیں۔ لیکن حضرت موسیٰ نے جس انداز سے اُس کے ساتھ گفتگو کی ہے، اُس سے واضح ہے کہ اُس کی حیثیت محض ایک خادم کی نہیں، بلکہ ایک نوجوان صحابی اور شاگرد کی ہے۔ اِس لحاظ سے دیکھیے تو اِ س کا ترجمہ لفظ ’شاگرد‘ سے نہایت موزوں ہو گا۔
۶۹؎ یہ واقعہ عالم رؤیا کا بھی ہو سکتا ہے۔ انبیا علیہم السلام کے رؤیا چونکہ ’بالحق‘ ہوتے ہیں، اِس لیے قرآن اور بائیبل، دونوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات بالکل اُسی طریقے سے بیان کیے جاتے ہیں، جس طرح عالم بیداری کے واقعات بیان ہوتے ہیں۔ سورۂ بنی اسرائیل کی ابتدا میں دیکھیے تو واقعۂ اسرا اِسی طرح بیان ہوا ہے، مگر آگے اِسی سورہ میں قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ یہ ایک رؤیا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا گیا۔ تاہم اِسے اگر عالم بیداری ہی کا واقعہ مانا جائے تو دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پھر وہی ہو سکتی ہے جہاں موجودہ شہر خرطوم کے قریب دریاے نیل کی دو بڑی شاخیں البحر الابیض اور البحر الازرق آ کر ملتی ہیں۔ صاحب ”تفہیم القرآن“ نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ نے اپنی پوری زندگی جن علاقوں میں گزاری ہے، اُن میں اِس ایک مقام کے سوا کوئی مجمع البحرین نہیں پایا جاتا۔
۷۰؎ یہ اِس سفر کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عزم و جزم اور ذوق و شوق کا اظہار ہے اور اِس کے لفظ لفظ سے ٹپک رہا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”... فرماتے ہیں کہ میں یا تو مجمع البحرین میں اُس مقام تک پہنچ جاؤں گا، جہاں پہنچنے کے لیے مجھے ہدایت ہوئی ہے یا پھر اِسی منزل مقصود کی تلاش میں سال ہا سال گزار دوں گا۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ہمت ہے تو اِس سفر میں ساتھ دو، ورنہ یہ بندہ تو بہرحال اِس محبوب سفر پر روانہ ہو رہا ہے اور اِس عزم کے ساتھ روانہ ہو رہا ہے کہ یاتن رسد بجاناں یا جاں زتن برآید۔“(تدبرقرآن۴/ ۶۰۵)
۷۱؎ اِس کے لیے آگے لفظ ’غَدَآء‘ استعمال ہوا ہے۔ بے بھنی یا زندہ مچھلی کے لیے یہ لفظ کسی طرح موزوں نہیں ہے۔ اِس لیے یہ اِس بات کا واضح قرینہ ہے کہ مچھلی بھنی ہوئی تھی۔
۷۲؎ اصل میں لفظ ’اَرَءَ یْتَ‘ آیا ہے۔ یہ اِس جملے میں قائل کی جھجک کو ظاہر کر رہا ہے۔ ہم نے ترجمہ اِسی رعایت سے کیا ہے۔
۷۳؎ نہایت شستہ الفاظ میں یہ اپنی کوتاہی کی معذرت ہے۔
۷۴؎ یعنی واقعہ کچھ اس طرح ہوا کہ جب دونوں مجمع البحرین پہنچے تو ذرا دم لینے کے لیے کسی چٹان کے پاس ٹھیرے۔ پھر وہاں سے چلے تو شاگرد مچھلی ساتھ لینا بھول گیا۔ تھوڑا آگے چل کر اُسے یاد آیا تو اُس کو لینے کے لیے لوٹا، لیکن وہاں پہنچا تو دیکھا کہ ناشتے کی بھنی ہوئی مچھلی تڑپ کر پانی میں جا رہی ہے۔ یہ واقعہ اتنا عجیب تھا کہ شاگرد نے غالباً اِس اندیشے سے اِسے حضرت موسیٰ کو نہیں بتایا کہ باور نہیں کریں گے اور شاید ناراض بھی ہوں۔
۷۵؎ اِس سے معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ کو یہی بتایا گیا تھا کہ جس مقام پر اُن کے ناشتے کی مچھلی زندہ ہو کر دریا کی راہ لے گی، وہی اُن کی منزل مقصود ہے۔ چنانچہ وہ شاگرد کی بات سن کر پھڑک اٹھے اور فرمایا کہ اِسی کی تو تلاش تھی۔
۷۶؎ روایتوں میں اِن کا نام خضر آیا ہے۔ اِن کے جو کام آگے بیان ہوئے ہیں، اُن سے واضح ہے کہ یہ غالباً ملائکہ میں سے کوئی ہستی تھے جو انسانی صورت میں موسیٰ علیہ السلام کو ملے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسی نوعیت کے کاموں کے لیے مامور تھے جو آگے مذکور ہیں۔
۷۷؎ اصل میں لفظ ’رُشْد‘آیا ہے۔ اِس کے معنی علم و حکمت کے ہیں، لیکن یہاں اِس سے مراد وہ خاص علم ہے جو اسرا ر کائنات سے متعلق اُس بندے کو دیا گیا تھا۔
۷۸؎ مطلب یہ ہے کہ بستی کے لوگ تو ایسے لئیم تھے کہ اُنھوں نے ہماری درخواست پر ہمیں کھانا کھلانے سے انکار کر دیا، لیکن آپ نے اِس کے باوجود اُن کی دیوار درست کر دی۔ اِن کمینوں کے لیے آپ نے یہ محنت بے مُزد کیوں برداشت کی ہے؟ آپ اِس پر کچھ مزدوری لے سکتے تھے جس سے ہم کھانا ہی خرید لیتے۔
۷۹؎ اِس سے واضح ہے کہ جدائی کا فیصلہ صرف اِس لیے نہیں ہوا کہ حضرت موسیٰ پر حجت تمام ہو گئی، بلکہ جس مقصد کے لیے یہ سفر کیا گیا تھا، وہ مقصد بھی حاصل ہو گیا۔
۸۰؎ آگے وضاحت ہے کہ اُنھوں نے یہ کام اللہ کے حکم سے کیا، لیکن یہاں اُس کی نسبت اپنی طرف اِس لیے کی ہے کہ غالباً حکم صرف یہ تھا کہ کشتی کو بادشاہ کے غصب سے بچا لیا جائے۔ اِس کے لیے تدبیر کیا ہونی چاہیے؟ اِس کا فیصلہ اُنھوں نے خود کیا۔ چنانچہ اُس کو منسوب بھی اپنی طرف کیا ہے۔
۸۱؎ یعنی اپنی کسی جنگی مہم کے لیے زبردستی قبضے میں کر رہا تھا۔
۸۲؎ یہاں بھی وہی صورت ہے جو اوپر بیان ہوئی کہ اُن کو حکم صرف یہ دیا گیا تھا کہ یہ لڑکا کافر ہوگا، اِس لیے اِس کو مار دیا جائے۔ اُنھوں نے اِس سے اندازہ کیا کہ یہ اللہ تعالیٰ نے اُس کے والدین پر عنایت فرمائی ہے کہ بڑا ہو کر وہ اپنی سرکشی اور کفر سے اُن کو ایذا نہ دے۔ چنانچہ اِس کے لیے ’خَشِیْنَا‘کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے تعلق سے نہیں، بلکہ اُن کے اپنے اجتہادکی تعبیر کے لیے استعمال ہوا ہے۔ رہی یہ بات کہ اُنھوں نے اِس کے لیے جمع کا صیغہ کیوں اختیار کیا؟ تو اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہاں اُس پوری جماعت کی نمایندگی کر رہے ہیں جوکارکنان قضا و قدر کی حیثیت سے اِنھی کاموں کے لیے مامور ہے۔ اپنے زمرے کی رعایت سے جمع کے صیغے کا استعمال ہماری زبان میں بھی عام ہے۔
۸۳؎ اصل الفاظ ہیں: ’فَاَرَادَ رَبُّکَ‘۔ یہ حکم جس طرح آگے نقل ہوا ہے، اُسی صورت میں دیا گیا اور اُنھوں نے اُس کی تعمیل کر دی۔ چنانچہ دیکھ لیجیے، یہاں فعل ’اَرَادَ‘ کی نسبت براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے۔
۸۴؎ مطلب یہ ہے کہ یہ عنایت اُن لئیموں پر نہیں کی گئی جو کسی مہمان کو کھانا کھلانے کے لیے بھی تیار نہیں ہوئے، بلکہ دو یتیموں پر کی گئی ہے کہ دیوار کے گرنے سے اُن کا خزانہ کہیں اُن لئیموں کے ہاتھ نہ لگ جائے اور اِس لیے کی گئی ہے کہ اُن کا باپ ایک صالح آدمی تھا۔
۸۵؎ یہ قصہ علم و حکمت کا ایک گنج گراں مایہ ہے۔ صبر و رضا کی تربیت کے لیے اِس سے جو اصول حکمت واضح ہوتے ہیں، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اُن کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”ایک یہ کہ اِس دنیا میں جو کچھ بھی واقع ہو تاہے، سب خدا کے اذن اور اُس کے ارادہ و مشیت کے تحت واقع ہوتا ہے۔ اُس کے اذن و ارادہ کے بغیر ایک ذرہ بھی اپنی جگہ سے حرکت نہیں کر سکتا۔
دوسری یہ کہ خدا خیر مطلق اور حکیم ہے، اِس وجہ سے اُس کا کوئی ارادہ بھی خیر اور حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ وہ اگر اہل باطل کو ڈھیل دیتا ہے تو اِس لیے نہیں کہ وہ باطل سے محبت کرتا یا اُس کے آگے بے بس اور مجبور ہے، بلکہ اُس کے اندر بھی وہ کسی خیر عظیم کی پرورش کرتاہے۔ اِسی طرح اگروہ اہل حق کو مصائب و آلام میں مبتلا کرتاہے تو اِس لیے نہیں کہ اُسے اہل حق کے مصائب سے کوئی دل چسپی ہے، بلکہ وہ اِس طرح اُن کے لیے کسی بڑے خیر کی راہیں کھولتا ہے۔
تیسری یہ کہ انسان کے علم کی رسائی محدود ہے، اِس وجہ سے وہ خدا کے ہر ارادہ کی حکمت کو اِس دنیا میں نہیں معلوم کر سکتا۔ اُس کے ارادوں کے تمام اسرار صرف آخرت ہی میں بے نقاب ہوں گے۔ اِس دنیا میں انسان کے لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ وہ خدا کے تمام فیصلوں پر صابر و شاکر رہتے ہوئے اپنا فرض ادا کرے اور مطمئن رہے کہ آج کی تلخیوں کے اندر جو شیرینی چھی ہوئی ہے، اُس کے روح افزا جام اِن شاء اللہ کل سامنے آئیں گے۔“ (تدبرقرآن۴/ ۵۹۹)
[باقی]
______________