بسم اللہ الرحمن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓءِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہٖ اَفَتَتَّخِذُوْنَہٗ وَذُرِّیَّتَہٗٓ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِیْ وَھُمْ لَکُمْ عَدُوٌّ بِءْسَ لِلظّٰلِمِیْنَ بَدَلًا(۵۰) مَآ اَشْھَدْتُّہُمْ خَلْقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَا خَلْقَ اَنْفُسِہِمْ وَمَا کُنْتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّیْنَ عَضُدًا(۵۱)
وَیَوْمَ یَقُوْلُ نَادُوْا شُرَکَآءِ یَ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ فَدَعَوْھُمْ فَلَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَھُمْ وَجَعَلْنَا بَیْنَھُمْ مَّوْبِقًا(۵۲) وَرَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ فَظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ مُّوَاقِعُوْھَا وَلَمْ یَجِدُوْا عَنْھَا مَصْرِفًا(۵۳)
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لِلنَّاسِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا(۵۴) وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَآءَ ھُمُ الْھُدٰی وَیَسْتَغْفِرُوْا رَبَّھُمْ اِلَّآ اَنْ تَاْتِیَھُمْ سُنَّۃُ الْاَوَّلِیْنَ اَوْ یَاْتِیَھُمُ الْعَذَابُ قُبُلًا(۵۵) وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ وَیُجَادِلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِالْبَاطِلِ لِیُدْحِضُوْا بِہِ الْحَقَّ وَاتَّخَذُوْٓا اٰیٰتِیْ وَمَآ اُنْذِرُوْا ھُزُوًا(۵۶) وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ فَاَعْرَضَ عَنْھَا وَنَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدٰہُ اِنَّا جَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِہِمْ اَکِنَّۃً اَنْ یَّفْقَھُوْہُ وَفِیْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرًا وَاِنْ تَدْعُہُمْ اِلَی الْھُدٰی فَلَنْ یَّھْتَدُوْٓا اِذًا اَبَدًا(۵۷) وَرَبُّکَ الْغَفُوْرُ ذُوالرَّحْمَۃِ لَوْ یُؤَاخِذُھُمْ بِمَا کَسَبُوْا لَعَجَّلَ لَہُمُ الْعَذَابَ بَلْ لَّہُمْ مَّوْعِدٌ لَّنْ یَّجِدُوْا مِنْ دُوْنِہٖ مَوْءِلًا(۵۸) وَتِلْکَ الْقُرٰٓی اَھْلَکْنٰہُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا وَجَعَلْنَا لِمَھْلِکِھِمْ مَّوْعِدًا(۵۹)
یاد کرو، جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو وہ سجدہ ریز ہو گئے، مگر ابلیس نہیں مانا وہ جنوں میں سے تھا۵۵؎ سو اپنے پروردگار کے حکم سے نکل بھاگا۔ اب کیا تم مجھے چھوڑ کر اُس کو اور اُس کی اولاد کو اپنا کارساز بنا رہے ہو، دراں حالیکہ وہ تمھارے دشمن ہیں ۵۶؎؟ بڑا ہی برا بدل ہے جسے یہ ظالم اختیار کر رہے ہیں ۵۷؎! (یہ اُن کو میرا شریک ٹھیرا رہے ہیں ۵۸؎، جب کہ) میں نے اِن (شیطانوں) کو نہ زمین اور آسمانوں کو پیدا کرتے وقت بلایا تھا اور نہ خود اِن کو پیدا کرتے وقت بلایا تھا۔میں ایسا نہیں ہوں کہ گمراہ کرنے والوں کو اپنا دست و بازو بنا لوں ۵۹؎۔۵۰-۵۱
(یہ اُس دن کیا کریں گے)، جس دن خدا کہے گا کہ اب اُن کو پکارو جنھیں تم میرا شریک سمجھتے تھے۔ سو اُن کو پکاریں گے، مگر وہ اِنھیں کوئی جواب نہ دیں گے۔ ہم اُن کے درمیان ایک ہلاکت کا گڑھا حائل کر دیں گے اور یہ مجرم اُس کی آگ کو دیکھیں گے اور سمجھ لیں گے کہ اُسی میں گرنے والے ہیں اور اُس سے بچنے کے لیے وہ کوئی راہ نہ پا سکیں گے۔ ۵۲-۵۳
ہم نے اِس قرآن میں لوگوں کی رہنمائی کے لیے ہر قسم کی تنبیہات۶۰؎ طرح طرح سے بیان کر دی ہیں، مگر انسان بڑا ہی جھگڑالو واقع ہوا ہے۶۱؎۔ جب اِن کے پاس ہدایت آچکی تو اِن لوگوں کو ایمان لانے اور اپنے پروردگار کی مغفرت مانگنے سے یہی چیز روک رہی ہے کہ اگلوں کا معاملہ اِن کے لیے بھی ظاہر ہو جائے یا عذاب اِن کے سامنے آ کھڑا ہو۶۲؎۔ (اِنھیں بتاؤ کہ)رسولوں کو تو ہم صرف اِس لیے بھیجتے ہیں کہ بشارت دیں اور خبردار کردیں ۶۳؎ اور اِن منکروں کا حال یہ ہے کہ باطل کی مددسے کٹ حجتیاں کرتے ہیں کہ اِس کے ذریعے سے حق کو نیچا دکھائیں ۶۴؎ اور میری آیتوں کو اِنھوں نے مذاق بنا رکھا ہے اور اُس چیز کو بھی جس سے اِنھیں خبردار کیا گیا ہے۔ اُن سے بڑا ظالم کون ہو گا جنھیں اُن کے پروردگار کی آیتوں کے ذریعے سے یاددہانی کی جائے تو وہ اُن سے منہ پھیر لیں اور اپنے ہاتھوں کی کمائی بھول جائیں ۶۵؎جو آگے بھیج چکے ہیں۔ اِن کے دلوں پر ہم نے (اِسی کے سبب سے) پردے ڈال دیے ہیں کہ اِس (قرآن) کو نہ سمجھیں اور اِن کے کانوں میں گرانی پیدا کر دی ہے(کہ اِس کو نہ سنیں)۶۶؎۔ تم اِن کو کتنا ہی ہدایت کی طرف بلاؤ، یہ اِس حالت میں تو ہرگز کبھی ہدایت نہ پائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمھارا پروردگار بڑا درگذر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔وہ اِن کے اعمال کی پاداش میں اِنھیں (اِسی وقت) پکڑنا چاہتا تو اِن پر فوراً عذاب بھیج دیتا، لیکن اِن کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ (وہ جب آجائے گا تو) یہ اُس کے مقابل میں کوئی پناہ کی جگہ نہ پائیں گے۔ یہ بستیاں (تمھارے سامنے) ہیں ۶۷؎۔ جب اُن کے لوگ ظالم ہو گئے تو ہم نے اُنھیں ہلاک کر دیا اور اُن کی ہلاکت کے لیے بھی ہم نے ایک وقت مقرر کر رکھا تھا۔ ۵۴-۵۹
۵۵؎ یعنی فرشتہ نہیں، بلکہ جن تھا۔ یہ استثنا دلیل ہے کہ جب سجدے کا حکم دیا گیا تو اُس میں فرشتوں کے ساتھ جنات بھی شامل تھے۔ وہ اُس وقت چونکہ فرشتوں کے توابع کی حیثیت رکھتے تھے، اِس لیے حکم میں مذکور نہیں ہوئے۔
۵۶؎ یعنی پہلے دن سے تمھارے دشمن ہیں اور اُن کی دشمنی کو دیکھ کر بھی اُنھیں یہ حیثیت دے رہے ہو۔
۵۷؎ یہ اظہار افسوس اور اظہار تعجب کا جملہ ہے اور اُن سے منہ پھیر کر ارشاد ہوا ہے۔
۵۸؎ مشرکین عرب جس طرح فرشتوں کوخدا کی بیٹیاں قرار دے کر اُن کو پوجتے تھے، اُسی طرح جنوں کا رشتہ بھی خدا سے قائم کیے ہوئے تھے اور مختلف صورتوں میں اُن کی پرستش کرتے تھے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”... وہ ہر وادی اور ہرپہاڑ کے الگ الگ جن اور بھوت مانتے اور اُن کی آفتوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے اُن کی جے پکارتے اور اُن کو نذرانے اور چڑھاوے پیش کرتے۔ بعض جن تو اتنے خطرناک سمجھے جاتے کہ اُن کو راضی رکھنے کے لیے بدقسمت لوگ اپنی اولاد تک کی قربانی پیش کرتے۔ اُن کا وہم یہ تھا کہ اگر اِس جن کو اپنی کسی اولاد کی قربانی دے کر راضی نہ رکھا گیا تو وہ ساری اولاد کو چٹ کر جائے گا۔“(تدبرقرآن۴/ ۵۹۶)
۵۹؎ اِس جملے کا اسلوب بیان طنزیہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میں نے تو اپنے کسی کام میں اُن سے کبھی کوئی مدد نہیں لی، لیکن تمھارا حال یہ ہے کہ نہایت فیاضی کے ساتھ تم میری خدائی میں اُنھیں شریک بنا رہے ہو کہ گویا یہ زمین و آسمان اور اِن کی مخلوقات، سب اُنھی کے تعاون سے وجود میں آئی ہیں۔
۶۰؎ اصل میں لفظ ’مَثَل‘آیا ہے۔ یعنی وہ باتیں جو تمثیل کے اسلوب میں بیان ہوئی ہیں اور اُن کے ذریعے سے لوگوں کو عالم غیب کے حقائق پر متنبہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ تنبیہ اِس لفظ کا لازم ہے۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔
۶۱؎ یہ بات عام صیغے سے فرمائی ہے، مگر اشارہ اُنھی مخاطبین کی طرف ہے جن سے بحث ہو رہی ہے۔
۶۲؎ یعنی جہاں تک دلیل و برہان کا تعلق ہے، اُس میں کوئی کسر باقی نہیں رہ گئی۔ قرآن نے ہر قسم کی تنبیہات سنا دی ہیں اور ہر بات گونا گوں پہلوؤں سے واضح کر دی گئی ہے۔ لیکن یہ ماننا نہیں چاہتے،اِس لیے مصر ہیں کہ اب عذاب ہی کو دیکھ کر مانیں گے۔ استاذ امام کے الفاظ میں، قرآن اِن کے آگے مائدہئ آسمانی بچھا رہا ہے،لیکن یہ قہر آسمانی کے طلب گار ہیں۔ ایسے شامت زدوں کا بھلا کیا علاج! اِن کو معلوم نہیں ہے کہ جب عذاب الہٰی نمودار ہو گا تو وہ دیدار کرکے واپس نہیں چلا جائے گا، بلکہ اِن کا کچومر نکال کر رکھ دے گا تو اِس کے بعد یہ کس چیز پر ایمان لائیں گے؟
۶۳؎ یعنی فیصلے کا وقت آنے سے پہلے لوگوں کو فرماں برداری کے اچھے اور نافرمانی کے برے نتائج سے خبردار کر دیں۔ مگر یہ احمق اِس سے فائدہ اٹھانے کے بجاے اُنھی برے نتائج کے لیے بے تاب ہو رہے ہیں جن سے خدا کے پیغمبر اِنھیں بچانا چاہتے ہیں۔
۶۴؎ یعنی جب کوئی حقیقی دلیل نہیں پاتے کہ اُس کے ذریعے سے قرآن کے انذار کو جھٹلائیں تو اِس طرح کی بے تکی باتوں سے کٹ حجتیاں کرکے اُس کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جس عذاب سے ڈرایا جا رہا ہے، وہ آکیوں نہیں جاتا اور جس قیامت کی خبر دی گئی ہے، وہ آخر کہاں رہ گئی ہے۔ آیت میں اِنھی بے اصل باتوں کو لفظ ’بَاطِل‘ سے تعبیر کیا ہے۔
۶۵؎ یعنی اِس بات کو بھول جائیں کہ جو کچھ کر چکے ہیں، اُس کی بنا پر یہ ہر وقت عذاب الٰہی کے سزاوار ہیں۔
۶۶؎ اصل الفاظ ہیں: ’اِنَّا جَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِھِمْ اَکِنَّۃً اَنْ یَّفْقَھُوْہُ وَفِیْٓ اٰذَانِھِمْ وَقْرًا‘۔ اِن میں ’اَنْ‘ سے پہلے ’من‘یا ’کراھۃ‘ کا لفظ عربیت کے اسلوب پر محذوف ہے۔ اِسی طرح ’فِیْٓ اٰذَانِھِمْ وَقْرًا‘ کے بعد ’أن یسمعوہ‘ کے الفاظ بھی تقابل کے قاعدے سے حذف ہو گئے ہیں۔ ہم نے ترجمے میں اِنھیں کھول دیا ہے۔
۶۷؎ یہ مدین، ثمود، قوم لوط اور قوم سبا کے اجڑے دیاروں کی طرف اشارہ ہے جن سے اہل عرب اپنے سفروں میں گزرتے رہتے تھے۔
[باقی]
__________________