بسم اللہ الرحمن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
وَاتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ کِتَابِ رَبِّکَ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَدًا(۲۷) وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ وَلَا تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْھُمْ تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوٰہُ وَکَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا(۲۸) وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآءَ فَلْیَکْفُرْ اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًا اَحَاطَ بِھِمْ سُرَادِقُھَا وَاِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَآءٍ کَالْمُھْلِ یَشْوِی الْوُجُوْہَ بِءْسَ الشَّرَابُ وَسَآءَ تْ مُرْتَفَقًا(۲۹)
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ مَنْ اَحْسَنَ عَمَلًا(۳۰) اُولٰٓءِکَ لَھُمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھِمُ الْاَنْھٰرُ یُحَلَّوْنَ فِیْھَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَھَبٍ وَّیَلْبَسُوْنَ ثِیَابًا خُضْرًا مِّنْ سُنْدُسٍ وَّاِسْتَبْرَقٍ مُّتَّکِءِیْنَ فِیْھَا عَلَی الْاَرَآءِکِ نِعْمَ الثَّوَابُ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا(۳۱)
وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلاً رَّجُلَیْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِھِمَا جَنَّتَیْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّحَفَفْنٰہُمَا بِنَخْلٍ وَّجَعَلْنَا بَیْنَہُمَا زَرْعًا(۳۲)کِلْتَا الْجَنَّتَیْنِ اٰتَتْ اُکُلَھَا وَلَمْ تَظْلِمْ مِّنْہُ شَیْءًا وَّفَجَّرْناَ خِلٰلَہُمَا نَھَرًا(۳۳) وَّکَانَ لَہٗ ثَمَرٌ فَقَالَ لِصَاحِبِہٖ وَھُوَ یُحَاوِرُہٗٓ اَنَا اَکْثَرُ مِنْکَ مَالًا وَّاَعَزُّنَفَرًا(۳۴) وَدَخَلَ جَنَّتَہٗ وَھُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ قَالَ مَآاَظُنُّ اَنْ تَبِیْدَ ھٰذِہٖٓ اَبَدًا(۳۵) وَّمَآ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآءِمَۃً وَّلَءِنْ رُّدِدْتُّ اِلٰی رَبِّیْ لَاَجِدَنَّ خَیْرًا مِّنْھَا مُنْقَلَبًا(۳۶)
قَالَ لَہٗ صَاحِبُہٗ وَھُوَ یُحَاوِرُہٗٓ اَکَفَرْتَ بِالَّذِیْ خَلَقَکَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ سَوّٰکَ رَجُلًا(۳۷) لٰکِنَّا ھُوَ اللّٰہُ رَبِّیْ وَلَآ اُشْرِکُ بِرَبِّیْٓ اَحَدًا(۳۸) وَلَوْلَآ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَکَ قُلْتَ مَا شَآءَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ اِنْ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنْکَ مَالًا وَّوَلَدًا(۳۹) فَعَسٰی رَبِّیْٓ اَنْ یُّؤْتِیَنِ خَیْرًا مِّنْ جَنَّتِکَ وَیُرْسِلَ عَلَیْھَا حُسْبَانًا مِّنَ السَّمَآءِ فَتُصْبِحَ صَعِیْدًا زَلَقًا(۴۰)اَوْ یُصْبِحَ مَآؤُھَا غَوْرًا فَلَنْ تَسْتَطِیْعَ لَہٗ طَلَبًا(۴۱)
وَاُحِیْطَ بِثَمَرِہٖ فَاَصْبَحَ یُقَلِّبُ کَفَّیْہِ عَلٰی مَآ اَنْفَقَ فِیْھَا وَھِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِھَا وَیَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُشْرِکْ بِرَبِّیْٓ اَحَدًا(۴۲) وَلَمْ تَکُنْ لَّہٗ فِءَۃٌ یَّنْصُرُوْنَہٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَمَا کَانَ مُنْتَصِرًا(۴۳) ھُنَالِکَ الْوَلَایَۃُ لِلّٰہِ الْحَقِّ ھُوَ خَیْرٌ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ عُقْبًا(۴۴)
وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَآءٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ ھَشِیْمًا تَذْرُوْہُ الرِّیٰحُ وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا(۴۵) اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَالْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ اَمَلًا(۴۶) وَیَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَی الْاَرْضَ بَارِزَۃً وَّحَشَرْنٰہُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْہُمْ اَحَدًا(۴۷) وَعُرِضُوْا عَلٰی رَبِّکَ صَفًّا لَقَدْ جِءْتُمُوْنَا کَمَا خَلَقْنٰکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ م بَلْ زَعَمْتُمْ اَلَّنْ نَّجْعَلَ لَکُمْ مَّوْعِدًا(۴۸) وَوُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ھٰذَا الْکِتٰبِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّلَا کَبِیْرَۃً اِلَّآ اَحْصٰھَا وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا وَلَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا(۴۹)
(تم اِن کی پروا نہ کرو، اے پیغمبر)، اور تمھارے پروردگار کی جو کتاب تمھاری طرف وحی کی جا رہی ہے، اُسے لوگوں کو سنادو۔ خدا کے قوانین کو کوئی بدلنے والا نہیں ہے۔ تم (اُن سے ہٹ کر کچھ چاہو گے تو) اُس کے سوا ہرگز کوئی پناہ کی جگہ نہ پاؤ گے۔۳۸؎ تم اپنے آپ کو اُن لوگوں کے ساتھ جمائے رکھو جو اپنے پروردگار کی رضا جوئی میں صبح و شام اُس کو پکارتے ہیں۔ تمھاری آنکھیں دنیوی زندگی کی رونق کی خاطر اُن سے ہٹنے نہ پائیں اور تم اُن (لوگوں کی بات) پر دھیان نہ کرو جن کے دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیے ہیں اور جو اپنی خواہشوں کے پیچھے پڑے ہیں اور جن کا معاملہ حد سے گزر گیا ہے۳۹؎۔ اِن سے کہو، تمھارے پروردگار کی طرف سے یہی حق ہے۴۰؎۔ سو جس کا جی چاہے، ایمان لائے اور جس کا جی چاہے، انکار کر دے۔ ہم نے ظالموں کے لیے ایسی آگ تیار کر رکھی ہے جس کے سراپردے اُن کو اپنے گھیرے میں لے لیں گے۔ اگر وہ پانی کے لیے فریاد کریں گے تو اُن کی فریاد رسی اُس پانی سے کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہو گا۔ وہ چہروں کو بھون ڈالے گا۔ کیا ہی برا پانی ہو گا اور کیا ہی برا ٹھکانا!۲۷-۲۹
رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے تو یقینا ہم اُن لوگوں کا اجر ضائع نہیں کریں گے جو اچھے طریقے سے عمل کریں۔ اُن کے لیے ہمیشہ رہنے والے باغ ہوں گے،اِس طرح کہ اُن کے پاؤں تلے نہریں بہ رہی ہوں گی۔ اُنھیں وہاں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ وہ سندس اور استبرق کی سبزپوشاک پہنیں گے، تختوں پر ٹیک لگائے ہوئے اُس میں بیٹھے ہوں گے۔ کیا ہی اچھا بدلہ ہے اور کیا ہی اچھا ٹھکانا۴۱؎! ۳۰-۳۱
تم اِن کے سامنے ایک مثال بیان کرو۴۲؎۔ دو شخص تھے۴۳؎۔ اُن میں سے ایک کو ہم نے انگوروں کے دو باغ۴۴؎ دے رکھے تھے اور اُن کے گردا گرد کھجوروں کے درخت لگا دیے تھے اور اُن کے درمیان کھیتی کے قطعے رکھ دیے تھے۔ دونوں باغ خوب پھل لاتے، اُس میں کوئی کمی نہیں کرتے تھے۔ اور اُن کے بیچ بیچ میں ہم نے ایک نہر دوڑا دی تھی۔ اُس کے پھلوں کا موسم ہوا تو اُس نے اپنے ساتھی سے بحث کرتے ہوئے کہا: میں تم سے مال میں بھی زیادہ ہوں اور میرا جتھا بھی زبردست ہے۴۵؎۔ وہ(یہ باتیں کرتے ہوئے) اپنے باغ میں داخل ہوا تو اپنی جان پر آفت ڈھا رہا تھا۔ اُس نے کہا:میں نہیں سمجھتا کہ یہ کبھی برباد ہو جائے گا اور میں نہیں سمجھتا کہ قیامت کبھی آئے گی۔ تاہم میں اگر اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا بھی گیا تو جہاں لوٹ کر جاؤں گا، اِس سے بہتر جگہ ہی پاؤں گا۔ ۳۲-۳۶
اُس کے ساتھی نے اُس سے گفتگو کرتے ہوئے جواب دیا: کیا اُس ہستی کا انکار کر رہے ہو جس نے تمھیں مٹی سے بنایا، پھر پانی کی ایک بوند سے،پھر تم کو ایک پورا آدمی بنا کھڑا کیا۔۴۶؎ (تم جو چاہے کرو)، لیکن (میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ) میرا رب وہی اللہ ہے اور میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھیراتا۴۷؎۔تم جب اپنے باغ میں داخل ہو رہے تھے تو تم نے یہ کیوں نہیں کہا کہ جو اللہ نے چاہا۴۸؎، اللہ کے بغیر کسی میں کوئی طاقت نہیں ہے۔ اگر تم مجھ کو دیکھتے ہو کہ میں مال و اولاد میں تم سے کم ہوں ۴۹؎ تو عجب نہیں کہ میرا پروردگار مجھے تمھارے باغ سے بہتر باغ عطا فرمائے اور تمھارے باغ پر آسمان سے کوئی ایسی گردش بھیج دے کہ وہ چٹیل میدان ہو کر رہ جائے یا اُس کا پانی زمین میں اتر جائے، پھر تم اُس کو کسی طرح پا نہ سکو۔۳۷-۴۱
(چنانچہ یہی ہوا) اور اُس کا سارا پھل (عذاب کے) پھیر میں آگیا۔ سو جو کچھ اُس نے باغ پر خرچ کیا تھا، وہ اُس پر اپنے ہاتھ ملتا رہ گیا۔ اُس کا باغ اپنی ٹٹیوں پر گرا پڑا تھا اور وہ کہہ رہا تھا: اے کاش، میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیراتا۵۰؎۔ اُس کے پاس کوئی جتھا نہ تھا جو خدا کے مقابلے میں اُس کی مدد کرتا ۵۱؎اور نہ وہ خود (اُس کا) بدلہ لے سکتا تھا۔ اِس وقت ۵۲؎سارا اختیار صرف خداے برحق کا ہے۔(حقیقت یہ ہے کہ) اُسی کا اجر بہتر ہے اور جس انجام تک وہ پہنچائے، وہی سب سے اچھا انجام ہے۔۴۲-۴۴
(یہ جس پر ریجھے ہوئے ہیں)، اِنھیں اُس دنیوی زندگی کی مثال سناؤ۔ یہ ایسی ہے جیسے پانی ہو جسے ہم نے آسمان سے (بارش برسا کر) اتارا، پھر اُس سے زمین کی نباتات خوب گھنی ہوئیں، پھر چورا ہو کر رہ گئیں جسے ہوائیں اڑاتی پھری ہیں۔ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۵۳؎۔ یہ مال و اولاد۵۴؎اِسی دنیوی زندگی کی رونق ہیں۔ (حقیقت یہ ہے کہ) تمھارے پروردگار کے ہاں اجر کے لحاظ سے بہتر وہ اعمال ہیں جو اچھے اور باقی رہنے والے ہیں اور اِس لحاظ سے بھی کہ اُن سے امیدیں وابستہ کی جائیں۔ اُس دن کا خیال کرو، جب ہم پہاڑوں کو چلا دیں گے اور تم زمین کو دیکھو گے کہ بالکل عریاں ہو گئی ہے اور ہم اِن کو لا جمع کریں گے، پھر اِن میں سے کسی کو چھوڑیں گے نہیں۔ سب صفیں باندھے ہوئے تیرے پروردگار کے حضور پیش کر دیے جائیں گے تم ہمارے پاس آگئے نا، جس طرح ہم نے تمھیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا۔ بلکہ تم نے تو یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم تمھارے لیے کوئی وعدے کا وقت مقرر ہی نہیں کریں گے۔ اُس وقت اعمال کا دفتر سامنے رکھ دیا جائے گا۔ پھر تم مجرموں کو دیکھو گے کہ جو کچھ اُس میں (لکھا) ہے، وہ اُس سے ڈر رہے ہوں گے اور کہیں گے کہ ہاے ہماری کم بختی!یہ کیسا دفتر ہے کہ نہ کوئی چھوٹی بات اِس نے لکھنے سے چھوڑی ہے نہ بڑی۔ اُنھوں نے جو کچھ (دنیا میں) کیا تھا، سب اپنے سامنے حاضر پایا اور تیرا پروردگار (اُس دن) کسی پر کوئی ظلم نہ کرے گا۔ ۴۵-۴۹
۳۸؎ یعنی ہدایت و ضلالت کے لیے جو قوانین خدا نے بنا دیے ہیں، لوگ اُنھی کے مطابق ہدایت پائیں گے اور اُنھی کے مطابق گمراہی کے حوالے کیے جائیں گے۔ اُن سے ہٹ کر کوئی شخص کسی کو ہدایت نہیں دے سکتا اور کسی کو اِس کی تمنا بھی نہیں کرنی چاہیے۔
۳۹؎ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے قریش کے اغنیا اور متکبرین کو متنبہ کیا ہے کہ ہمارے پیغمبر کو تمھاری نازبرداری کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اُن کی متاع عزیز وہی لوگ ہیں اور اُنھی کو ہونا چاہیے جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں۔ چنانچہ آپ کو بھی توجہ دلائی ہے کہ داعی حق کا کام یہی ہے کہ وہ خدا کا پیغام بے کم و کاست پہنچا دے اور اِس کے لیے اپنے مخاطبین کی دولت، اقتدار اور معاشرے میں اُن کے اثر و رسوخ کو ہرگز خاطر میں نہ لائے۔
۴۰؎ اِس جملے میں مبتدا محذوف ہے، یعنی ’ھذا ھوالحق‘۔
۴۱؎ اوپر دوزخ کے احوال بیان ہوئے ہیں۔ یہ اب جنت کے احوال ہیں۔ قرآن نے یہ سب چیزیں تشبیہ و تمثیل کے طریقے پر اور مخاطبین کے ذوق اور معلومات کی رعایت سے بیان کی ہیں۔ چنانچہ اہل ایمان کے صلے میں اُنھی چیزوں کو نمایاں کیا ہے جنھیں وقت کے امراو اغنیا اپنا سرمایۂ فخر و مباہات سمجھتے تھے۔
۴۲؎ یعنی قریش کے متمردین کے سامنے تاکہ وہ اِس کے آئینے میں اپنا ظاہر و باطن بھی دیکھ لیں اور اُس کشمکش کا انجام بھی جو اِس وقت برپا ہے۔
۴۳؎ ایک جسے خدا نے دوباغ دیے تھے اور دوسرا اُس کا ساتھی جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔
۴۴؎ یعنی ایک نہیں، بلکہ دو۔ یہ تکمیل نعمت کے اظہار کے لیے ہے۔
۴۵؎ یہ فقرہ بتا رہا ہے کہ اُس کے ساتھی نے اُسے نصیحت کی کہ تمھیں خدا نے یہ سب کچھ عطا فرمایا ہے تو اُس کے شکر گزار بندے بنو، ورنہ اندیشہ ہے کہ اُس کے قہر و غضب کا نشانہ بن جاؤ گے۔ لیکن اُس نے جواب میں بحث شروع کر دی کہ میرے مقابلے میں ذرا اپنا حال دیکھو۔ تمھارے پاس کچھ بھی نہیں اور اِس کے باوجود مجھے ڈرا رہے ہو۔ یہ جو کچھ مجھے میسر ہے، یہ خود اِس بات کی شہادت ہے کہ میرا طرزعمل تم سے زیادہ صحیح ہے۔
۴۶؎ یہ انکار آخرت پر اُس کے ساتھی، بندۂ مومن کا معارضہ ہے۔ وہ خدا کی سچی معرفت اور اُس پر سچے ایمان سے بہرہ یاب تھا۔ چنانچہ اُس نے توجہ دلائی کہ جس خدا کی قدرت کے یہ مظاہر دیکھتے ہو، اُس کے بارے میں کس طرح خیال کرتے ہو کہ مرنے کے بعد وہ تمھیں اٹھا نہ سکے گا؟ اِس کے معنی تو یہ ہیں کہ تم درحقیقت خدا ہی کا انکار کر رہے ہو۔
۴۷؎ استاذ امام لکھتے ہیں:
”یہ بندۂ مومن نے اپنا عقیدہ بیان کیا ہے جس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ایمان کے لیے صرف خدا کو مان لینا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ خدا ہی کو اپنا رب، پروردگار اور آقا و مالک بھی مانے۔ اگر کوئی شخص اللہ کا اقرار کرتا ہے، لیکن رب دوسروں کو بھی مانتا ہے تو وہ مشرک ہے۔ اور یہ شرک بھی کفر ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے مال و جاہ پر مغرور ہے، اُس کو اپنی قابلیت کا ثمرہ و نتیجہ اور اپنے استحقاق ذاتی کا کرشمہ خیال کرتا ہے اور یہ خنّاس اُس کے دماغ میں سمایا ہوا ہے کہ اُس کو اُس سے کوئی چھین نہیں سکتا تو یہ بھی شرک ہے، اِس لیے کہ ایسا شخص اپنے آپ کو خدا کی خدائی میں ساجھی سمجھتا ہے۔“(تدبرقرآن۴/ ۵۸۶)
۴۸؎ یعنی جو کچھ ہے، سب اللہ کی عنایت ہے اور اُس کی مشیت سے ملا ہے۔
۴۹؎ اصل الفاظ ہیں:’اِنْ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنْکَ مَالًا وَّ وَلَدًا‘۔ اِن میں ’اَنَا‘ عربیت کے اسلوب پر دو مفعولوں کے درمیان ایک فاصل کے طور پر آگیا ہے۔ اِس کی مثالیں کلام عرب میں بھی موجود ہیں اور ہماری اپنی زبان میں بھی۔
۵۰؎ یعنی اُس وقت ہوش آیا، جب ہر چیز غارت ہو گئی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”... تباہ شدہ باغ ایک میت کی طرح سامنے تھا اور وہ اُس کی لاش پر کھڑا اپنے دونوں ہاتھ مل رہا تھا کہ اُس سے کچھ یافت ہونی تو الگ رہی، جو کچھ اُس کے رکھ رکھاؤ پر خرچ کیا،وہ بھی برباد ہوا۔ اُس وقت اُسے اپنے ناصح کی بات یاد آئی اور نہایت حسرت کے ساتھ بولا کہ کاش، میں کسی کو اپنے رب کا شریک نہ بناتا۔“(تدبرقرآن۴/ ۵۸۸)
اِس آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ اے کاش، میں اپنی دولت و ثروت، جمعیت و عصبیت اور خدم و حشم کو معبود بنا کر اُن کی پرستش نہ کرتا، بلکہ اِن سب چیزوں کو اپنے پروردگار کی عنایت سمجھتا اور اُس کا شکر گزار ہوتا۔
۵۱؎ یہ اُس جتھے کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر پیچھے ’اَعَزُّ نَفَرًا‘کے الفاظ میں ہوا ہے۔
۵۲؎ یعنی اِس وقت جب عذاب کی گھڑی آ گئی ہے۔
۵۳؎ چنانچہ ایک دن اُس کا حکم ہو گا اور یہ دنیا کی بہار بھی اِسی طرح خزاں رسیدہ ہو کر رہ جائے گی۔ تم اِسے لازوال سمجھ کر اِس کے دیوانے ہو رہے ہو، دراں حالیکہ اِس کی کوئی چیز بھی باقی رہنے والی نہیں ہے۔
۵۴؎ قبائلی زندگی میں مال کے ساتھ اولاد کی اہمیت بھی غیر معمولی تھی۔ پیچھے جس جتھے کا ذکر ہوا ہے، وہ اصلاً اولاد ہی سے بنتا تھا اور لوگ اِسی بنا پر کثرت اولاد کی تمنا کرتے تھے۔
[باقی]
____________________