HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الکہف ۱۸: ۹ - ۲۶ (۲)

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَھْفِ وَالرَّقِیْمِ کَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا(۹) اِذْ اَوَی الْفِتْیَۃُ اِلَی الْکَھْفِ فَقَالُوْا رَبَّنَآ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً وَّھَیِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا(۱۰) فَضَرَبْنَا عَلٰٓی اٰذَانِھِمْ فِی الْکَھْفِ سِنِیْنَ عَدَدًا(۱۱) ثُمَّ بَعَثْنٰہُمْ لِنَعْلَمَ اَیُّ الْحِزْبَیْنِ اَحْصٰی لِمَا لَبِثُوْٓا اَمَدًا(۱۲) 
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ نَبَاَھُمْ بِالْحَقِّ اِنَّھُمْ فِتْیَۃٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّھِمْ وَزِدْنٰہُمْ ھُدًی(۱۳) وَّرَبَطْنَا عَلٰی قُلُوْبِھِمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَا مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلٰھًا لَّقَدْ قُلْنَآ اِذًا شَطَطًا(۱۴) ھٰٓؤُلَآءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِھَۃً لَوْلَا یَاْتُوْنَ عَلَیْھِمْ بِسُلْطٰنٍم بَےِّنٍ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا(۱۵) 
وَاِذِ اعْتَزَلْتُمُوْھُمْ وَمَا یَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰہَ فَاْوٗٓا اِلَی الْکَھْفِ یَنْشُرْ لَکُمْ رَبُّکُمْ مِّنْ رَّحْمَتِہٖ وَیُھَیِّئْ لَکُمْ مِّنْ اَمْرِکُمْ مِّرْفَقًا(۱۶)
وَتَرَی الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ تَّزٰوَرُ عَنْ کَھْفِہِمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَاِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُھُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَھُمْ فِیْ فَجْوَۃٍ مِّنْہُ ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ مَنْ یَّھْدِ اللّٰہُ فَھُوَ الْمُھْتَدِ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا(۱۷)
وَتَحْسَبُھُمْ اَیْقَاظًا وَّھُمْ رُقُوْدٌ وَّنُقَلِّبُھُمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَذَاتَ الشِّمَالِ وَکَلْبُہُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْہِ بِالْوَصِیْدِ لَوِاطَّلَعْتَ عَلَیْہِمْ لَوَلَّیْتَ مِنْہُمْ فِرَارًا وَّلَمُلِءْتَ مِنْہُمْ رُعْبًا(۱۸)
وَکَذٰلِکَ بَعَثْنٰھُمْ لِیَتَسَآءَ لُوْا بَیْنَھُمْ قَالَ قَآءِلٌ مِّنْھُمْ کَمْ لَبِثْتُمْ قَالُوْا لَبِثْنَا ےَوْمًا اَوْ بَعْضَ ےَوْمٍ قَالُوْا رَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ فَابْعَثُوْٓا اَحَدَکُمْ بِوَرِقِکُمْ ھٰذِہٖٓ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ فَلْیَنْظُرْ اَیُّھَآ اَزْکٰی طَعَامًا فَلْیَاْتِکُمْ بِرِزْقٍ مِّنْہُ وَلْیَتَلَطَّفْ وَلَا یُشْعِرَنَّ بِکُمْ اَحَدًا(۱۹) اِنَّھُمْ اِنْ یَّظْھَرُوْا عَلَیْکُمْ یَرْجُمُوْکُمْ اَوْ یُعِیْدُوْکُمْ فِیْ مِلَّتِھِمْ وَلَنْ تُفْلِحُوْٓا اِذًا اَبَدًا(۲۰) 
وَکَذٰلِکَ اَعْثَرْنَا عَلَیْھِمْ لِیَعْلَمُوْٓا اَنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّاَنَّ السَّاعَۃَ لَا رَیْبَ فِیْھَا اِذْ یَتَنَازَعُوْنَ بَیْنَھُمْ اَمْرَھُمْ فَقَالُوا ابْنُوْا عَلَیْھِمْ بُنْیَانًا رَبُّھُمْ اَعْلَمُ بِھِمْ قَالَ الَّذِےْنَ غَلَبُوْا عَلٰٓی اَمْرِھِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَےْھِمْ مَّسْجِدًا(۲۱)
سَیَقُوْلُوْنَ ثَلٰثَۃٌ رَّابِعُھُمْ کَلْبُھُمْ وَیَقُوْلُوْنَ خَمْسَۃٌ سَادِسُھُمْ کَلْبُھُمْ رَجْمًام بِالْغَیْبِ وَیَقُوْلُوْنَ سَبْعَۃٌ وَّثَامِنُہُمْ کَلْبُہُمْ قُلْ رَّبِّیْٓ اَعْلَمُ بِعِدَّتِھِمْ مَّا یَعْلَمُھُمْ اِلَّا قَلِیْلٌ فَلَا تُمَارِ فِیْھِمْ اِلَّا مِرَآءً ظَاھِرًا وَّلَا تَسْتَفْتِ فِیْھِمْ مِّنْھُمْ اَحَدًا(۲۲) وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْءٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا(۲۳) اِلَّآ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰہُ وَاذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ وَقُلْ عَسٰٓی اَنْ یَّھْدِیَنِ رَبِّیْ لِاَقْرَبَ مِنْ ھٰذَا رَشَدًا(۲۴) 
وَلَبِثُوْا فِیْ کَھْفِھِمْ ثَلٰثَ مِاءَۃٍ سِنِیْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا(۲۵) قُلِ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا لَہٗ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَبْصِرْ بِہٖ وَاَسْمِعْ مَا لَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِہٖٓ اَحَدًا(۲۶)
کیا تم سمجھتے ہو کہ غار اور رقیم والے۸؎ ہماری نشانیوں میں سے بہت عجیب نشانی تھے۹؎۔ اُس وقت جب اُن نوجوانوں نے غار میں پناہ لی، پھر (اپنے پروردگار سے) دعا کی کہ اے ہمارے رب، ہم کو تو خاص اپنے پاس سے رحمت عطا فرما اور ہمارے اِس معاملے میں تو ہمارے لیے رہنمائی کا سامان کر دے۱۰؎۔ اِس پر کئی برس کے لیے ہم نے اُس غار میں اُن کے کانوں پر تھپک دیا۱۱؎۔ پھر ہم نے اُن کو اٹھایا تاکہ دیکھیں ۱۲؎ کہ دونوں گروہوں میں سے کس نے اُن کے قیام کی مدت ٹھیک شمار کی ہے۱۳؎۔ ۹-۱۲
ہم اُن کی سرگذشت تمھیں ٹھیک ٹھیک سناتے ہیں ۱۴؎۔ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے پروردگار پر ایمان لائے ۱۵؎اور اُن کی ہدایت میں ہم نے افزونی عطا فرمائی ۱۶؎اور اُن کے دل اُس وقت مضبوط کر دیے، جب وہ (توحید کی دعوت لے کر) اٹھے اور اعلان کیا کہ ہمارا رب وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے۔ ہم اُس کے سوا کسی دوسرے معبود کو ہرگز نہ پکاریں گے اور اگر ایسا کریں گے تو حق سے نہایت ہٹی ہوئی بات کریں گے۔ یہ ہماری قوم کے لوگ ہیں کہ اِنھوں نے اُس کے سوا کچھ دوسرے معبود بنا رکھے ہیں۔ یہ اُن کے حق میں کوئی واضح دلیل کیوں نہیں پیش کرتے؟ پھر اُن سے بڑا ظالم کون ہو گا جو خدا پر جھوٹ باندھیں ۱۷؎۔۱۳-۱۵
(وہ یہی دعوت دیتے رہے، یہاں تک کہ لوگ اُن کی جان کے درپے ہو گئے تو بشارت ہوئی کہ) جب تم اُن سے اور اُن کے معبودوں سے، جنھیں وہ خدا کے سوا پوجتے ہیں، الگ ہو گئے ہو تو(جاؤ اور) فلاں غار میں جا کر پناہ لو۔ تمھارا پروردگار اپنی رحمت کا دامن تمھارے لیے پھیلا دے گا اور تمھارے اِس مرحلے میں جو کچھ تمھاری ضرورت ہے، تم کو مہیا فرمائے گا۱۸؎۔ ۱۶
تم سورج کو دیکھتے کہ جب نکلتا ہے تو اُن کے غار سے دائیں جانب کو بچا رہتا ہے اور جب ڈوبتا ہے تو اُن سے بائیں جانب کو کترا جاتا ہے اور وہ اُس کے صحن میں پڑے ہیں ۱۹؎۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے۔ جس کو اللہ ہدایت دے، وہی ہدایت پانے والا ہے اور جس کو اللہ(اپنے قانون کے مطابق)۲۰؎ گمراہی میں ڈال دے تو اُس کے لیے تم کوئی مددگار راہ بتانے والا نہ پاؤ گے۔۱۷
تم اُن کو (دیکھتے تو) سمجھتے کہ جاگ رہے ہیں، حالاں کہ وہ سو رہے تھے۔ ہم اُن کو دائیں اور بائیں کروٹ دلواتے رہتے تھے اور اُن کا کتا دہلیز پر اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔ اگر تمھاری نظر کہیں اُن پر پڑ جاتی تو اُن سے تم الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اور تمھارے اندر اُن کی دہشت بیٹھ جاتی۔۱۲؎۱۸
(ہم نے جس طرح اپنی قدرت سے اُنھیں سلایا تھا)، اُسی طرح ہم نے اُن کو جگایا کہ (اِس کے نتیجے میں) وہ آپس میں پوچھ گچھ کریں ۲۲؎۔ اُن میں سے ایک پوچھنے والے نے پوچھا: تم یہاں کتنی دیر ٹھیرے ہو گے؟ وہ بولے: ہم ایک دن یا ایک دن سے بھی کم ٹھیرے ہوں گے۔ بولے: تمھارا پروردگار ہی بہتر جانتا ہے کہ تم کتنی دیر ٹھیرے ہو۲۳؎۔ خیر، اپنے میں سے کسی کو اپنی یہ رقم ۲۴؎دے کر شہر بھیجو، پھر وہ اچھی طرح دیکھے کہ پاکیزہ کھانا شہر کے کس حصے میں ملتا ہے۲۵؎ اور اُس سے تمھارے لیے کچھ کھانا لے آئے۔ اُسے چاہیے کہ وہ چپکے سے جائے اور کسی کو تمھاری خبر نہ ہونے دے۔ اِس لیے کہ اگر وہ تمھاری خبر پا جائیں گے تو تمھیں سنگ سار کر دیں گے یا اپنے دین میں لوٹا لیں گے اور ایسا ہوا تو تم کبھی فلاح نہ پاؤ گے۔۲۶؎ ۱۹-۲۰
ہم نے اِسی طرح (اپنی قدرت سے) لوگوں کو اُن پر مطلع کر دیا۲۷؎ تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ہے۲۸؎۔ذرا خیال کرو، جب اُن کے معاملے میں لوگ آپس میں جھگڑ رہے تھے۲۹؎ تو کچھ لوگوں نے کہا:اِن کے غار پر ایک عمارت بنا دو (اور زیادہ تفتیش نہ کرو)، اِن کا پروردگار اِن کے حالات کو بہتر جانتا ہے۳۰؎۔ (اِس کے برخلاف) جن لوگوں کی راے اُن کے معاملے میں غالب رہی، اُنھوں نے کہا: ہم تو اِن کے غار پر ایک مسجد بنائیں گے۔۳۱؎ ۲۱
اب یہ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا اُن کا کتا تھا اور (اِن میں سے) کچھ کہیں گے کہ پانچ تھے اور چھٹا اُن کا کتا تھا، بالکل اٹکل پچو! اور کچھ کہیں گے کہ سات تھے اور آٹھواں اُن کا کتاتھا۔ کہہ دو، میرا پروردگار بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنے تھے۔ اُن کو تھوڑے ہی لوگ جانتے ہیں۔ چنانچہ، (اے پیغمبر)، تم اُن کے بارے میں بحث نہ کرو، الاّ یہ کہ ٹالنے کے لیے کچھ کہنا پڑے اور نہ اُن کے متعلق اُن میں سے کسی سے پوچھو۳۲؎     اور (دیکھو)، کسی معاملے کے لیے یہ نہ کہا کرو کہ میں کل یہ کردوں گا۔ ہاں، اِس صورت میں کہ اللہ چاہے۳۳؎۔ اور جب تم بھول جاؤ تو فوراً اپنے پروردگار کو یاد کرو اور کہو، امید ہے کہ میرا پروردگار اِس سے بھی کم مدت میں صحیح بات کی طرف میری رہنمائی فرما دے گا۳۴؎۔ ۲۲-۲۴
(اِسی طرح کہیں گے کہ) وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے اور نو سال اُس پر مزید بھی۵۳؎۔ کہہ دو، اُن کے رہنے کی مدت اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ زمین اور آسمانوں کا غیب اُسی کے علم میں ہے۳۶؎۔ کیا ہی خوب ہے وہ دیکھنے اور سننے والا۔ اُس کے سوا اُن کا کوئی کارساز نہیں ہے اور اپنے اختیار میں وہ کسی کو شریک بھی نہیں کرتا۳۷؎۔ ۲۵-۲۶

۸؎ یہ لوگ اگر وہی ہیں جو مسیحی تاریخ میں سات سونے والے (seven sleepers)کہے جاتے ہیں تو یہ شہر افیسس(Ephesus)کا قصہ ہے جو ترکی کے مغربی ساحل پر واقع زمانہئ قدیم کا ایک مشہور شہر تھا۔ اِس کے عظیم کھنڈر آج بھی وہاں دیکھ لیے جا سکتے ہیں۔ یہ شہر بت پرستی کا ایک بڑا مرکز تھا اور یہاں چاند دیوی کی پرستش ہوتی تھی جسے ڈائنا(Diana)کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ یہ اُسی کا عظیم الشان مندرتھا جو زمانۂ قدیم کے عجائبات عالم میں شمار کیا جاتا ہے۔ اِس علاقے میں اُس وقت قیصر ڈیسیس(Desius)کی حکومت تھی جو ۲۴۹ء سے ۲۵۱ء تک سلطنت روما کا فرماں روا رہا ہے۔ مسیح علیہ السلام کے پیرو اِسی کے لگ بھگ زمانے میں اپنی دعوت لے کر یہاں پہنچے۔ رومی حکمران خود بھی بت پرست تھا۔ وہ مذہب توحید کی اشاعت کو برداشت نہیں کر سکا۔ چنانچہ جو لوگ ایمان لائے، وہ بالعموم ظلم و ستم کا نشانہ بن گئے۔ جن نوجوانوں کایہ قصہ ہے،وہ شہر کے اعلیٰ گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے اور غالباً ۲۵۰ء میں کسی وقت ایمان لا کر اِس دعوت کے مبلغ بنے۔ اُنھوں نے یہ دعوت اِس زور کے ساتھ اور علانیہ پیش کی کہ پورا ماحول اُن کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اور خطرہ پیدا ہو گیا کہ اُنھیں سنگ سار کر دیا جائے گا۔ اِس پر وہ لوگ شہر سے باہر نکل کر ایک غار میں پناہ گیر ہو گئے۔ عربی زبان میں کہف وسیع غار کو کہتے ہیں، اُنھیں اِسی بنا پر اصحاب الکہف کہاگیا ہے۔

عرب کے اہل کتاب اُنھیں اصحاب الرقیم بھی کہتے تھے۔رقیم کو مرقوم، یعنی لکھی ہوئی چیز کے معنی میں لے کر بعض اہل علم نے اِس سے اصحاب کہف کے غارکا کتبہ اور بعض نے سیسے کی وہ لوح مراد لی ہے جس پر اُن کے نام اور حالات بادشاہ کے حکم سے لکھ کر شاہی خزانے میں رکھے گئے تھے۔ لیکن لوح یا کتبے کے لیے اِس لفظ کا استعمال عربی زبان میں معروف نہیں ہے، اِس وجہ سے ہمارے نزدیک راجح قول اُنھی لوگوں کا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ رقیم اُس عمارت کا نام تھا جو اصحاب کہف کی یادگار میں اُن کے غار پر بنائی گئی تھی اور جس کا ذکر قرآن میں آگے ہوا ہے۔

۹؎ یہ خطاب عام ہے۔ واحد کے صیغے سے خطاب کا یہ اسلوب اُس وقت اختیار کیا جاتا ہے، جب مخاطبین کے ایک ایک شخص کو فرداً فرداً خطاب کرنا پیش نظر ہوتا ہے۔ آیت سے واضح ہے کہ قریش کو یہ قصہ اہل کتاب سے سن کر سخت تعجب ہوا اور غالباً اُنھی کے ایما سے اُنھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتحان کی غرض سے اِسے آپ کے سامنے پیش کر دیا کہ دیکھیں آپ اِس کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ آگے آیات ۲۲-۲۴ میں اشارہ ہے کہ یہ قصہ اُن کے سوال کے جواب میں سنایا گیا ہے۔ تاہم قرآن نے اِسے افسانوں کے حجاب سے نکال کر اِس کی اصل صورت میں اِس طرح سنایا ہے کہ سورہ کے مضمون سے پوری طرح ہم آہنگ ہو کر یہ اُس کے انذار و بشارت کا نہایت موثر ذریعہ بن گیا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ تم اِن غاروالوں کی سرگذشت کو بہت عجیب سمجھتے ہو۔ خدا نے جو نشانیاں اپنے دین کے علم برداروں کی حفاظت کے لیے ظاہر کی ہیں، یہ بھی اُنھی میں سے ایک نشانی ہے۔ اِس طرح کی نشانیاں پہلے بھی ظاہر ہوتی رہی ہیں اور اِس وقت بھی، اگر خدا نے چاہا تو اُن اہل حق کے لیے ظاہر ہو جائیں گی جنھیں تم تعذیب کا نشانہ بنا رہے ہو۔ یہ خدا کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔

۱۰؎ یعنی غار میں آتے ہی اللہ تعالیٰ سے رہنمائی اور استقامت کے لیے دست بدعا ہو گئے، اِس لیے کہ جوش حمیت کے ساتھ وہ نور حکمت سے بھی بہرہ یاب تھے اور خوب جانتے تھے کہ اِس طرح کے مراحل میں اہل ایمان کو کیا کرنا چاہیے۔

۱۱؎ اصل میں ’فَضَرَبْنَا عَلٰٓی اٰذَانِھِمْ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ عربی زبان کا محاورہ ہے جو پیار اور شفقت کے ساتھ کسی کو سلانے کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ اِس کے وجود میں آنے کی وجہ غالباً یہ ہوئی کہ بچوں کو سلانے کے لیے بالعموم اُن کے کانوں پر تھپکتے ہیں۔

۱۲؎ اصل میں ’لِنَعْلَمَ‘ استعمال ہوا ہے۔ اِس میں ’ل‘غایت و نہایت کے مفہوم میں ہے، یعنی تاکہ یہ بات اُس نتیجے تک منتہی ہو جو آگے بیان ہوا ہے اور لوگوں کے لیے یہ واقعہ بعث بعد الموت کی نشانی بن جائے۔

۱۳؎ یعنی وہ خود یا اُس شہر کے لوگ جس سے نکل کر وہ غار میں پناہ گیر ہوئے تھے۔

۱۴؎ اِس سے پہلے قرآن نے اِس سرگذشت کا خلاصہ بیان کر دیا ہے تاکہ اصل مدعا ابتدا ہی میں نگاہوں کے سامنے آجائے۔ اِس کے بعد اب یہ اُسی اجمال کی تفصیل کی جا رہی ہے۔ فرمایا کہ یہ ’بِالْحَقِّ‘ یعنی پوری صحت کے ساتھ اور اِس کے مقصد کی پوری رعایت کے ساتھ سنائی جائے گی۔

۱۵؎ یعنی خدا کی توحید پر ایمان لائے، اِس لیے کہ شرک کے ساتھ خدا پر ایمان درحقیقت کفر ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”...یہاں ’فِتْیَۃ‘ کے لفظ پر نظر رہے۔ قرآن نے اِن لوگوں کا جوانوں کے طبقے سے ہونا ظاہر کر کے وقت کے نوجوانوں، بالخصوص آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے نوجوانوں کو توجہ دلا دی کہ وہ اِس سرگذشت سے سبق حاصل کریں اور اُنھی کی طرح دعوت حق کی راہ میں اپنی قوم کی عداوت سے بے پروا ہو کر چل کھڑے ہوں۔ خدا ہر مرحلے میں اُن کا ناصر و مدد گار ہو گا۔“(تدبرقرآن ۴/ ۵۶۹)

۱۶؎ یہ افزونی کس صورت میں ہوئی؟ آگے ’رَبَطْنَا عَلٰی قُلُوْبِھِمْ‘کے الفاظ اِسی کو واضح کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اُنھوں نے اپنے ایمان کی نگہداشت کی جس کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے اُن کے دلوں کو قوت و عزیمت بخشی اور اِس طرح جو ہدایت اُن کو حاصل تھی، اُس میں اضافہ کر دیا۔

۱۷؎ آیت میں ’ھٰٓؤُلَآءِ‘ کا لفظ جس انداز سے استعمال ہوا ہے، پھر حاضر کے بجاے غائب کے صیغے اختیار کیے گئے ہیں، یہ اُن نوجوانوں کی طرف سے اپنی قوم کے عقائد کے لیے ایک قسم کی حقارت کا اظہار ہے۔ یہ حقارت مذہب توحید پر اُن کے غیر معمولی شرح صدر اور اُس سے اُن کی غیر معمولی وابستگی کو ظاہر کرتی ہے۔

۱۸؎ یہ اُس رہنمائی کا بیان ہے جو اُنھیں اِس مرحلے میں اُن کے پروردگار کی طرف سے حاصل ہوئی اور اُن کے باطن سے ایما ہوا کہ اب قوم کو چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ اِس طرح کے نازک مرحلوں میں یہ رہنمائی اہل حق کو بالعموم حاصل ہوتی رہی ہے۔سیدہ مریم اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا واقعہ اِس کی مثالیں ہیں۔ یہ ختم نبوت سے پہلے کسی حد تک محسوس صورت میں بھی حاصل ہو جاتی تھی۔ اِس سے ضمناً یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ دعوت کے مخالفین جب داعی کی جان لینے کے درپے ہو جائیں تو اہل حق کے لیے یہی ہجرت کا وقت ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اِس کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو آگے کے لیے زاد و راحلہ اُن کا پروردگار خود فراہم کر دیتا ہے۔

۱۹؎ یعنی خدا نے ایسا غار اُنھیں فراہم کر دیا جس کے اندر ہوا اور روشنی اور حرارت تو برابر پہنچتی تھی، لیکن آفتاب کی تمازت کسی طرح راہ نہیں پاتی تھی۔ آگے فرمایا کہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”... اُس نے اپنی تدبیر و کارسازی سے اپنے بندوں کے لیے ایک ایسا غار مہیا فرما دیا جہاں بغیر کسی کاوش کے اُن کے لیے ساری ضروریات زندگی فراہم تھیں اور معلوم ہوتا کہ سورج بھی اُن کے پاس سے گزرتا ہے تو ادب و احترام سے گزرتا ہے کہ اُن کی خدمت کی انجام دہی کا شرف توحاصل ہو، لیکن اُن کے آرام و سکون میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔“(تدبرقرآن۴/ ۵۷۱)

۲۰؎ یعنی اپنے اِس قانون کے مطابق کہ گمراہ وہی کیے جاتے ہیں جو اپنے کرتوتوں کے نتیجے میں گمراہی کے سزاوار ہو جاتے ہیں۔

۲۱؎ یہ اُس انتظام کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ نے اُن کی حفاظت کے لیے فرمایا۔ وہ سلا دیے گئے، اُن کے جسم کی حفاظت کے لیے فرشتے اُنھیں پہلو بدلواتے رہے اور اُن کے گردوپیش ایسا ماحول پیدا کر دیا گیا کہ دیکھنے والا یہی سمجھتا کہ پراسرار سے لوگ ہیں؛ شاید چور، ڈاکو، راہب، سنیاسی یا جنات۔ سوئے ہوئے نہیں ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ذرا دم لینے کو لیٹ گئے ہیں اور اُن کا کتا غار کے دہانے پر اِس طرح بیٹھا ہے، گویا پہرا دے رہا ہے۔

۲۲؎ سیدنا مسیح کے جن پیرووں کا ذکر پیچھے ہوا ہے، وہ ۲۵۰ ء میں کسی وقت اپنے شہر افیسس سے نکل کر غار میں گئے تھے۔ ہم بیان کر چکے ہیں کہ اُس وقت اِس علاقے میں بت پرست بادشاہ ڈیسیس کی حکومت تھی۔ یہ لوگ کم و بیش ۱۹۶ سال سوتے رہے اور قیصر تھیوڈوسیس ثانی (Theodosius ii) کی سلطنت کے اڑتیسویں سال ۴۴۶ء یا ۴۴۷ء میں بیدار ہوئے۔ اِس عرصے میں مسیحی مبلغین کی کوششوں سے رومی شہنشاہ قسطنطین (۳۳۷ء- ۲۷۲ء) مسیحی ہو چکا تھا جس کے نتیجے میں ساری رومی سلطنت میں مسیح علیہ السلام کا مذہب پھیل گیا تھا۔ چنانچہ یہ لوگ بیدار ہوئے تو ہر طرف مسیحیت کا غلبہ تھا۔

۲۳؎ یعنی بالکل وہی صورت پیدا ہو گئی جو برزخ کی زندگی سے اٹھنے کے بعد ہو گی۔

۲۴؎ اصل میں لفظ ’وَرِق‘ آیا ہے۔ اِس کے معنی چاندی کے ہیں۔ یہ چونکہ اُس زمانے میں مسکوک اور غیرمسکوک، دونوں صورتوں میں خرید و فروخت کے لیے استعمال ہوتی تھی، اِس لیے ہم نے اِس کے لیے ’رقم‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔

۲۵؎ اصل میں لفظ ’اَیُّھَا‘آیا ہے، یعنی ’أي أطراف المدینۃ‘ یا ’أي نواحي المدینۃ‘ اورپاکیزہ کھانے سے حلال و طیب کھانا مراد ہے۔ اُنھوں نے یہ بات اِس لیے کہی کہ جس ماحول سے نکل کر وہ گئے تھے، اُس میں حلال و حرام کی کوئی تمیز نہ تھی، لہٰذا اِس طرح کا کھانا کسی ایسے علاقے ہی سے مل سکتا تھا جہاں اِس طرح کی تمیز کرنے والے بستے ہوں۔

۲۶؎ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ نوجوان اپنا شہر چھوڑ کر غار میں پناہ لینے کے لیے کیوں مجبور ہوئے اور جس ظلم و تشدد کے اندیشے سے یہ گھر سے نکلے، وہ کس انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ آیت ۱۶ کے ترجمے میں اِسی بنا پر ہم نے واضح کر دیا ہے کہ ہجرت کا اشارہ اُس وقت ہوا، جب لوگ اِن کی جان کے درپے ہو گئے۔

۲۷؎ یعنی ایسے حالات پیدا کر دیے کہ لوگ اُن کی طرف متوجہ ہوئے اور تحقیق و تفتیش کے نتیجے میں کسی کو شبہ نہیں رہا کہ یہ اِس زمانے کے لوگ نہیں ہیں۔ اوپر جس مسیحی روایت کا ذکر ہوا ہے، اُس میں یہ واقعہ اِس طرح بیان ہوا ہے کہ جس شخص کو کھانا خریدنے کے لیے شہر بھیجا گیا تھا، اُس نے جب قیصر ڈیسیس کے وقت کا سکہ کھانا خریدنے کے لیے پیش کیا تو دوکان دار کو شبہ ہوا کہ شاید یہ کسی پرانے زمانے کا دفینہ نکال لایا ہے۔ اِس پر دونوں میں تکرار ہونے لگی تو لوگ جمع ہو گئے، حتیٰ کہ معاملہ حکام تک پہنچ گیا۔ وہاں جب سوالات ہوئے اور اُس شخص نے یہ سنا کہ قیصر ڈیسیس کو مرے زمانہ گزر چکا ہے تو وہ دنگ رہ گیا۔ چنانچہ کچھ دیر تک بالکل دم بخود رہا اور پھر اپنی داستان سنا دی۔ اُسے سن کر حکام بھی حیران ہوئے اور اُس کو لے کر اُس غار کی طرف چلے جہاں وہ اور اُس کے ساتھی چھپے رہے تھے۔ لوگوں کا ایک انبوہ کثیر بھی اُن کے ساتھ تھا۔ وہاں پہنچ کر یہ بات پوری طرح تحقیق ہو گئی کہ وہ فی الواقع قیصر ڈیسیس کے زمانے کے لوگ ہیں۔ نئے رومی حکمران قیصر تھیوڈوسیس کو اِس کی اطلاع دی گئی۔ وہ پیدل چل کرآیا اور آکر اُن سے برکت لی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اِس کے بعد یہ ساتوں نوجوان غار میں جا کر لیٹے اور یکایک وفات پا گئے۔

۲۸؎ یہ واقعہ اگر اُسی دور کا ہے جس کا ذکر روایتوں میں ہوا ہے، تو اِس حسی دلیل کی ضرورت غالباً اِس لیے پیش آئی کہ اُس زمانے میں مسیحی دعوت یونان کے فلسفے اور رومی شرک و بت پرستی کی روایت سے نبردآزما تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی یہ نشانی دکھائی تاکہ زندگی بعد موت کے معاملے میں عقلی دلائل کے ساتھ یہ حسی دلیل بھی پیش کر دی جائے۔ اِس سے مقصود یہ تھا کہ نئے نئے جو لوگ ہزاروں کی تعداد میں مسیحی ہوئے ہیں، اُن کے لیے دین کا یہ بنیادی عقیدہ فلسفیانہ موشگافیوں کا موضوع بن کر نہ رہ جائے۔ بائیبل اور قرآن، دونوں سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانۂ رسالت میں اِس طرح کے حسی دلائل اِس سے پہلے بھی وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہے ہیں۔

۲۹؎ یعنی اِس معاملے میں جھگڑ رہے تھے کہ کون سا گروہ یا فرقہ اُن سے نسبت کا زیادہ حق دار ہے اور اُن کے ساتھ کیا کیا جائے، اِس کے لیے کس کی راے مانی جانی چاہیے۔استاذ امام لکھتے ہیں:

”...اہل حق کے ساتھ اِس ظالم دنیا نے ہمیشہ یہی معاملہ کیا ہے۔ زندگی میں تو اُن کو لوگوں کے پتھر کھانے پڑے، لیکن مرنے کے بعد اُن کے بت پوجے گئے۔ اِن لوگوں کے ساتھ بھی مرنے کے بعد یہی ہوا کہ مختلف گروہ اور فرقے اُن کے ساتھ قرب کے مدعی بن کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔“(تدبرقرآن۴/ ۵۷۵)

۳۰؎ یہ بات اُنھوں نے جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے کہی کہ غار والوں کے عقائد و نظریات اور مقام و مرتبے کو بحث و نزاع کا موضوع نہ بنایا جائے، بلکہ معاملہ خدا کے سپرد کر دیا جائے اور اُن کے غار پر ایک عام عمارت بنا دی جائے جس سے یہ جگہ محفوظ ہو جائے۔ آیت میں ’رَبُّھُمْ اَعْلَمُ بِھِمْ‘ کے جو الفاظ آئے ہیں، اُن میں ایک مضاف عربیت کی رو سے محذوف ہے، یعنی ’أعلم بأحوالھم‘۔

۳۱؎ یعنی خدا کی عبادت گاہ بنائیں گے، اِس لیے کہ یہ لوگ تنہا اُسی کے ماننے والے تھے، اُسی کی خاطر غار میں آکر چھپے تھے اور اُسی نے یہ عظیم الشان نشانی اِن کے ذریعے سے دکھائی ہے۔ اِس کے لیے اصل میں ’عَلَیْہِمْ مَّسْجِدًا‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اِن میں بھی ایک مضاف ہمارے نزدیک محذوف ہے، یعنی ’علٰی کھفہم‘۔ یہی صورت ’ابْنُوْا عَلَیْہِمْ بُنْیَانًا‘ میں بھی ہے۔ صالحین کا عام طریقہ یہی رہا ہے کہ اگر کسی کی یادگار بنائی جائے تو مسجد ہی کی صورت میں بنائی جائے تاکہ جو لوگ وہاں آئیں، وہ خدا کو یاد کریں اور اُسی کے سامنے سجدہ ریز ہوں۔

۳۲؎ مطلب یہ ہے کہ اصحاب کہف کا قصہ جس پہلو سے سنا دیا گیا ہے، یہ اُس سے آخرت کا یقین حاصل کرنے کے بجاے اِس طرح کی بحثوں میں الجھیں گے کہ وہ کتنے تھے اور کتنے برس غار میں سوئے رہے۔ تم کو بھی یہ اِنھی بحثوں میں الجھانے کی کوشش کریں گے، لیکن تم ہرگز نہ الجھنا، بلکہ اجمالی جواب دے کر گزر جانا۔ تمھارے پروردگار نے بھی اِس طرح کی چیزوں سے اِسی لیے گریز کیا ہے کہ اِن کے شوق فضول کو اِس سے کوئی غذا نہ ملے اور وہی بات سامنے رہے جو اِس قصے کا اصلی سبق ہے۔

۳۳؎ یعنی جب تمھارے امتحان کی غرض سے اِس طرح کی باتیں پوچھی جائیں کہ اصحاب کہف کون تھے اور اُن کا کیا قصہ ہے، تو اپنی طرف سے کوئی وعدہ نہ کیا کرو۔ یہ ممکن ہے کہ کسی سوال کے متعلق خدا کی حکمت کا تقاضا یہ ہو کہ اُس کا جواب نہ دیا جائے یا جواب تو دیا جائے، مگر فوراً نہ دیا جائے۔ اِس لیے وحی کے بھروسے پر کوئی غیر مشروط وعدہ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ہر وعدہ خدا کی مشیت کی شرط کے ساتھ کرنا چاہیے۔

۳۴؎ یعنی بے خیالی میں ایسی کوئی بات زبان سے نکل جائے تو فوراً متنبہ ہو کر خدا کو یاد کرو اور جن سے وعدہ ہوا ہے، اُن کو بھی بتا دو کہ فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اِس معاملے کو مؤخر بھی کر سکتا ہے اور چاہے تو جس کا وعدہ میں نے کیا ہے، اُس سے بھی کم مدت میں صحیح بات کی طرف میری رہنمائی کر سکتا ہے۔ یہ سب اُسی کے اختیار میں ہے۔ وہ اپنی حکمت کے مطابق جو چاہے گا، کرے گا۔ میں نہ غیب کا علم رکھتا ہوں اور نہ ایسا خودمختار ہوں کہ اپنی دعوت کی مصلحت کے لیے جو چاہوں، کر سکوں۔

۳۵؎ اِس جملے کی ابتدا میں حرف عطف اور اِس کے بعد ’قُلِ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا‘کا فقرہ اِس کا واضح قرینہ ہے کہ یہ بھی اُنھی لوگوں کے اقوال میں سے ایک قول ہے جن کا ذکر پیچھے ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح اُن کی تعداد کے بارے میں یہ لوگ قیاس آرائیاں کریں گے، اُسی طرح غار میں اُن کی مدت قیام کے بارے میں بھی دعویٰ کریں گے کہ وہ تین سو نو سال اُس میں سوئے رہے۔

۳۶؎ اِس سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے دعوے کی تصدیق نہیں کی، بلکہ اُسے بے بنیاد قرار دیا ہے۔ دورحاضر میں علم تاریخ کے محققین بھی اِسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مسیحی روایتوں میں جن اصحاب کہف کا ذکر ہے، اُن کے غار میں رہنے کی مدت تین سو نو سال نہیں، بلکہ تقریباً ۶۹۱ سال تھی۔ قرآن خدا کا کلام ہے۔ وہ اگر کسی انسان کا کلام ہوتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ ایک ایسی بات کو قبول کرنے سے انکار کر دیتا جو لوگوں میں شہرت پا چکی تھی۔

۳۷؎ پچھلے جملے میں بات اللہ تعالیٰ کے احاطۂ علم تک پہنچ گئی تھی۔ یہ قرآن نے اُسی کو آگے بڑھا کر تمام مشرکانہ تصورات کی نفی کر دی ہے۔

[باقی]

_____________

B