بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتٰبَ وَلَمْ یَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا(۱) قَیِّمًا لِّیُنْذِرَ بَاْسًا شَدِیْدًا مِّنْ لَّدُنْہُ وَیُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمْ اَجْرًا حَسَنًا(۲) مَّاکِثِیْنَ فِیْہِ اَبَدًا(۳) وَّیُنْذِرَ الَّذِیْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا(۴) مَالَھُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ وَّلَا لِاٰبَآءِھِمْ کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّا کَذِبًا(۵)
فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا(۶) اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَۃً لَّھَا لِنَبْلُوَھُمْ اَیُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا(۷) وَاِنَّا لَجٰعِلُوْنَ مَا عَلَیْھَا صَعِیْدًا جُرُزًا(۸)
اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے، جس کی شفقت ابدی ہے۔
شکر اللہ ہی کے لیے ہے۱؎ جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب اتاری اور اِس میں کوئی کج پیچ نہیں رکھا ہے۲؎۔ ہر لحاظ سے ٹھیک اور سیدھی تاکہ (جھٹلانے والوں کو)۳؎ وہ اُس کی طرف سے ایک سخت عذاب سے آگاہ کردے اور ایمان لانے والوں کو، جو نیک عمل کر رہے ہیں، خوش خبری سنا دے کہ اُن کے لیے بہت اچھا اجر ہے۔ وہ اُس میں ۴؎ ہمیشہ رہیں گے۔ اُن لوگوں کو آگاہ کر دے جو کہتے ہیں کہ خدا نے اولاد بنا رکھی ہے۵؎۔ اُنھیں اِس بات کا کوئی علم نہیں ہے، اُن کے باپ دادا کو بھی نہیں تھا۔ بڑی ہی سنگین بات ہے جو اُن کے مونہوں سے نکل رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ محض جھوٹ کہہ رہے ہیں۔ ۱-۵
پھر اگر وہ اِس بات پر ایمان نہ لائے تو شاید تم اُن کے پیچھے اپنے آپ کو غم سے ہلاک کر ڈالو گے۔۶؎ زمین پر جو کچھ ہے، اُس کو ہم نے زمین کی زینت بنا یا ہے، اِس لیے کہ ہم لوگوں کا امتحان کریں کہ اُن میں کون اچھا عمل کرنے والا ہے۔ (وہ اِسی زینت پر ریجھے ہوئے ہیں ۷؎، دراں حالیکہ)ہم اُن سب چیزوں کو جو زمین پر ہیں، (ایک دن بالکل نابود کرکے اُس کو) ایک چٹیل میدان بنادینے والے ہیں۔ ۶-۸
۱؎ یعنی اُسی کے لیے ہونا چاہیے۔ یہ کسی کے حق واجب کو اقرار و اعتراف کی زبان میں بیان کرنے کا اسلوب ہے اور قرآن میں جگہ جگہ اختیار کیا گیا ہے۔
۲؎ مطلب یہ ہے کہ لفظ و معنی کے اعتبار سے اِس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو سمجھ میں نہ آسکے اور نہ اِس کی رہنمائی میں صراط مستقیم سے کوئی ادنیٰ انحراف ہے کہ کوئی سلیم الفطرت انسان اُس کو قبول کرنے سے انکار کر دے۔
۳؎ یہ الفاظ اصل میں محذوف ہیں، اِس لیے کہ آگے ’مُؤْمِنِیْن‘کا لفظ موجود ہے جو اِن پر دلالت کر رہا ہے۔
۴؎ آیت میں ’فِیْہِ‘ کی ضمیر نتیجہ ئاجر کے لیے ہے، یعنی بہشت بریں جو اچھے اجر کا ثمرہ اور نتیجہ ہو گا۔
۵؎ یہ عام کے بعد خاص کا ذکر ہے اوراِس میں مشرکین عرب اور نصاریٰ، دونوں شامل ہیں، اِس لیے کہ مشرکین عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے اور نصاریٰ حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کا بیٹا بنائے ہوئے تھے۔
۶؎ یہ نہایت دل نواز انداز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے کہ یہ اگر ایمان نہیں لا رہے ہیں تو اِس کا سبب ہرگز یہ نہیں ہے کہ آپ سے فرض دعوت کے ادا کرنے میں کوئی کوتاہی ہوئی ہے۔ آپ تو اِس کے لیے اپنے آپ کو رنج و غم میں گھلائے دے رہے ہیں، جبکہ آپ کا کام صرف انذار و بشارت ہے اور اُس کا حق آپ نے ادا کر دیا ہے۔ اُس سے آگے آپ کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے فرض دعوت کے ادا کرنے کا احساس کس قدر شدید تھا۔
۷؎ ایمان نہ لانے کا اصل سبب کیا ہے؟ یہ اُس سے پردہ اٹھایا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”...فرمایا کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ اِس میں ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کون اپنی عقل و تمیز سے کام لے کر آخرت کا طالب بنتا ہے اور کون اپنی خواہشوں کے پیچھے لگ کر اِسی دنیا کا پرستار بن کر رہ جاتا ہے۔ اِس امتحان کے تقاضے سے ہم نے اِس دنیا کے چہرے پر حسن و زیبائی کا ایک پرفریب غازہ مل دیا ہے۔ اِس کے مال و اولاد، اِس کے کھیتوں کھلیانوں، اِس کے باغوں اور چمنوں، اِس کی کاروں اور کوٹھیوں، اِس کے محلوں اور ایوانوں، اِس کی صدارتوں اور وزارتوں میں بڑی کشش اور دل فریبی ہے۔ اِس کی لذتیں نقد اور عاجل اور اِس کی تلخیاں پس پردہ ہیں۔ اِس کے مقابل میں آخرت کی تمام کامرانیاں نسیہ ہیں اور اِس کے طالبوں کو اِس کی خاطر بے شمار جان کاہ مصیبتیں نقد نقد اِسی دنیا میں جھیلنی پڑتی ہیں۔ یہ امتحان ایک سخت امتحان ہے۔ اِس میں پورا اترنا ہر بوالہوس کا کام نہیں ہے۔ اِس میں پورے وہی اتریں گے جن کی بصیرت اتنی گہری ہو کہ خواہ یہ دنیا اُن کے سامنے کتنی ہی عشوہ گری کرے،لیکن وہ اِس عجوزہئ ہزار داماد کو اِس کے ہر بھیس میں تاڑ جائیں اور کبھی اِس کے عشق میں پھنس کر آخرت کے ابدی انعام کو قربان کرنے پر تیار نہ ہوں۔ رہے وہ لوگ جنھوں نے اپنی عقل و دل کی آنکھیں اندھی کر لی ہیں اور اپنی خواہشوں کے پرستار بن کے رہ گئے ہیں،وہ اِس نقد کو آخرت کے نسیہ کے لیے قربان کرنے پر تیار نہیں ہو سکتے، اگرچہ اِس کے حق ہونے پر اِس کائنات کا ذرہ ذرہ گواہ ہے۔“(تدبرقرآن۴/ ۵۵۸)
[باقی]
___________________