خیال و خامہ
o
بہار آئی تو ہے چمن میں ، بہار کی تازگی کہاں ہے!
نئی نئی کونپلیں تو ہیں ، اِن کا ذوق بالیدگی کہاں ہے!
نہ غمزہ و عشوہ و ادا ہے ، نہ کوئی تشبیہ و استعارہ
وہ کیا ہوئے رنگ مو قلم کے ، رباب کی نغمگی کہاں ہے!
مرے تخیل کے لالہ زاروں میں رنگ بے رنگ ہو رہے ہیں
وہی ہے فطرت تو پوچھتے ہیں کہ اُس کی مشاطگی کہاں ہے!
یہ نجد کا دشت ہے تو کیوں آج اپنی وحشت کو ڈھونڈتا ہے؟
اگر یہی قیسؔ عامری ہے تو اِس کی آشفتگی کہاں ہے!
وہ فقر غیور اب کہاں ہے جو علم و حکمت کی آبرو تھا
جسے سلیقہ تھا خواجگی کا ، جہاں میں وہ خواجگی کہاں ہے!
تجھے اندھیروں سے خوف کیا ہے کہ تیرے ہاتھوں میں ، اے مسلماں
اگر خدا کی کتاب ہے تو یہاں کوئی تیرگی کہاں ہے!____________