بسم اللہ الرحمن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلاً(۲۲) وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُھُمَآ اَوْ کِلٰھُمَا فَلَا تَقُلْ لَّھُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلاً کَرِیْمًا(۲۳) وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا(۲۴) رَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِیْ نُفُوْسِکُمْ اِنْ تَکُوْنُوْا صٰلِحِیْنَ فَاِنَّہٗ کَانَ لِلْاَوَّابِیْنَ غَفُوْرًا(۲۵)
وَاٰتِ ذَاالْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶) اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا(۲۷) وَاِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْھُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ تَرْجُوْھَا فَقُلْ لَّھُمْ قَوْلاً مَّیْسُوْرًا(۲۸) وَلَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَلَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا(۲۹) اِنَّ رَبَّکَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَےَقْدِرُ اِنَّہٗ کَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرًام بَصِیْرًا(۳۰)
وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلاَقٍ نَحْنُ نَرْزُقُھُمْ وَاِیَّاکُمْ اِنَّ قَتْلَہُمْ کَانَ خِطْاً کَبِیْرًا(۳۱) وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَسَآءَ سَبِیْلاً(۳۲) وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہٖ سُلْطٰنًا فَلاَ یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ اِنَّہٗ کَانَ مَنْصُوْرًا(۳۳) وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّہٗ وَاَوْفُوْا بِالْعَھْدِ اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْءُوْلاً(۳۴) وَاَوْفُوا الْکَیْلَ اِذَا کِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلاً(۳۵) وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓءِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْءُوْلاً(۳۶) وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلاً(۳۷) کُلُّ ذٰلِکَ کَانَ سَیِّءُہٗ عِنْدَ رَبِّکَ مَکْرُوْھًا(۳۸)
ذٰلِکَ مِمَّآ اَوْحٰٓی اِلَیْکَ رَبُّکَ مِنَ الْحِکْمَۃِ وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ فَتُلْقٰی فِیْ جَھَنَّمَ مَلُوْمًا مَّدْحُوْرًا(۳۹)
(لوگو)۱۴۱؎، اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ بناؤ کہ (روز قیامت) ملامت زدہ اور بے یارومددگار بیٹھے رہ جاؤ۔۱۴۲؎تمھارے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تنہا اُسی کی عبادت کرو۱۴۳؎ اور ماں باپ کے ساتھ نہایت اچھا سلوک کرو۱۴۴؎۔اُن میں سے کوئی ایک یا دونوں اگر تمھارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو نہ اُن کو اف کہو اور نہ اُن کو جھڑک کر جواب دو، تم اُن سے ادب کے ساتھ بات کرو۱۴۵؎ اور اُن کے لیے نرمی ۱۴۶؎سے عاجزی کے بازو جھکائے رکھو۱۴۷؎ اور دعا کرتے رہو کہ پروردگار، اُن پر رحم فرما، جس طرح اُنھوں نے (رحمت و شفقت کے ساتھ) مجھے بچپن میں پالا تھا۱۴۸؎۔ تمھارے دلوں میں جو کچھ ہے، اُسے تمھارا پروردگار خوب جانتا ہے۔ اگر تم سعادت مند رہو گے تو پلٹ کر آنے والوں کے لیے وہ بڑا درگذر فرمانے والا ہے۱۴۹؎۔ ۲۲-۲۵
تم قرابت دار کو اُس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی۱۵۰؎، اور مال کو بے جا نہ اڑاؤ۔ اِس لیے کہ مال کو بے جا اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہوتے ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے۱۵۱؎۔ اور اگر اِن (ضرورت مندوں) سے اعراض کرنا پڑے، اِس لیے کہ ابھی تم اپنے پروردگار کی رحمت کے انتظار میں ہو، جس کی تمھیں امید ہے، تو اِن سے نرمی کی بات کہو۔۱۵۲؎ اپنا ہاتھ نہ گردن سے باندھے رکھو اور نہ اُس کو بالکل کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ رہو۱۵۳؎۔ بے شک، تمھارا پروردگار ہی جس کے لیے چاہتا ہے، رزق کشادہ کرتا ہے اور (جس کے لیے چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے۔ وہ اپنے بندوں سے یقینا با خبر ہے، وہ اُنھیں دیکھ رہا ہے۔۲۶-۳۰
تم اپنی اولاد کو مفلسی کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم اُنھیں بھی روزی دیتے ہیں اور تمھیں بھی۔ اُن کا قتل یقینا بہت بڑا جرم ہے۱۵۴؎۔ اور زنا کے قریب نہ جاؤ، اِس لیے کہ وہ کھلی بے حیائی اور بہت بری راہ ہے۱۵۵؎۔ خدا نے جس جان کی حرمت قائم کر دی ہے، اُسے ناحق قتل نہ کرو ۱۵۶؎اور (یاد رکھو کہ) جو مظلومانہ قتل کیا جائے، اُس کے ولی کو ہم نے اختیار دے دیا ہے۔ سووہ قتل میں حد سے تجاوز نہ کرے، اِس لیے کہ اُس کی مدد کی گئی ہے۱۵۷؎۔ تم یتیم کے مال کے قریب نہ پھٹکو۔ ہاں، مگر اچھے طریقے سے، یہاں تک کہ وہ اپنی پختگی کو پہنچ جائے۱۵۸؎۔ اور عہد کو پورا کرو،اِس لیے کہ عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا۱۵۹؎۔ تم پیمانے سے دو تو پورا بھر کر دو اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو۔یہی بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی یہی اچھا طریقہ ہے۱۶۰؎۔ تم اُس چیز کے پیچھے نہ پڑو جسے تم جانتے نہیں ہو، اِس لیے کہ کان، آنکھ اور دل، اِن سب کی پرسش ہونی ہے۱۶۱؎۔ اور زمین میں اکڑ کر نہ چلو، اِس لیے کہ نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو۱۶۲؎۔ اِن سب باتوں کی برائی تمھارے پروردگار کے نزدیک سخت نا پسندیدہ ہے۔ ۳۱-۳۸
یہ اُنھی حکمت کی باتوں میں سے ہیں جو تمھارے پروردگار نے تمھاری طرف وحی کی ہیں ۱۳۶؎۔ (اِنھیں مضبوطی سے پکڑو) اور (ایک مرتبہ پھر سن لو کہ) اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بناؤ کہ راندہ اور ملامت زدہ ہو کر جہنم میں ڈال دیے جاؤ۔ ۳۹
۱۴۱؎ پیچھے فرمایا تھا کہ قرآن اُس راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے۔ اُس سے متعلق چند توضیحات کے بعد یہ اب اُسی راستے کی وضاحت ہو رہی ہے۔ اِس میں خطاب جگہ جگہ واحد کے صیغے سے بھی ہوا ہے، لیکن بیچ بیچ میں جمع کا صیغہ لا کر بتا دیا ہے کہ اِس سے مقصود واحد نہیں ہے، بلکہ عربیت کے اسلوب پر ایک ایک شخص کو فرداً فرداً مخاطب کرنا ہے۔ اِسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اگر اِس بیچ میں کہیں مخاطب کیا گیا ہے تو آپ کی شخصی حیثیت میں نہیں کیا گیا، بلکہ مسلمانوں کے امام کی حیثیت سے کیا گیا ہے۔
۱۴۲؎ اصل الفاظ ہیں:’فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلاً‘۔اِن میں ’فَتَقْعُدَ‘ افعال ناقصہ کے طریقے پر آیا ہے۔ چنانچہ بیٹھنے کے مفہوم سے مجرد ہو گیا ہے۔ اِس کا ظرف ’یوم القیٰمۃ‘ ہے جسے اصل میں حذف کر دیا ہے۔ یہاں سے آیت ۳۹ تک اِس پورے سلسلۂ احکام کو دیکھیے تو اِس کی ابتدا بھی شرک کی ممانعت سے ہوئی ہے اور اِس کا خاتمہ بھی اِسی کی تاکید پر کیا گیا ہے۔ قرآن میں یہ اسلوب کسی چیز کی اہمیت کو نمایاں کرنے کے لیے اختیار کیاجاتا ہے۔ یہاں اِس سے مقصود یہ بتانا ہے کہ درمیان میں جن چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے، اُن کے لیے یہ عقیدہ گویا شہر پناہ ہے جس کے وجود سے شہر قائم رہتا اور جس میں کوئی رخنہ پیدا ہو جائے تو پورا شہر خطرے کی زد میں آجاتا ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی جو حکمت اِن آیتوں میں بیان ہوئی ہے، اُس کے لیے توحید کی حیثیت یہی ہے۔ یہ اُس عدل کا سب سے بڑا اور بنیادی تقاضا ہے جس کا حکم قرآن نے دیا ہے۔ چنانچہ شرک کو اِسی بنا پر ظلم عظیم کہا گیا ہے اور اِس کا یہ نتیجہ بھی قرآن نے پوری صراحت کے ساتھ واضح کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ ایک ناقابل معافی جرم ہے جس کی پاداش میں لوگ راندہ اور ملامت زدہ ہو کر جہنم میں ڈال دیے جائیں گے۔
یہ شرک کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو الٰہ بنایا جائے تو قرآن اپنی اصطلاح میں اُسے شرک سے تعبیر کرتا ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ کسی کو خدا کی ذات سے یا خدا کو اُس کی ذات سے سمجھا جائے یا خلق میں یا مخلوقات کی تدبیر امور میں کسی کا کوئی حصہ مانا جائے اور اِس طرح کسی نہ کسی درجے میں اُسے اللہ تعالیٰ کا ہم سر بنا دیا جائے۔
پہلی صورت کی مثال سیدنا مسیح، سیدہ مریم اور فرشتوں کے بارے میں عیسائیوں اور مشرکین عرب کے عقائد ہیں۔ صوفیانہ مذاہب کا عقیدۂ وحدت الوجود بھی اِسی کے قبیل سے ہے۔
دوسری صورت کی مثال ہندوؤں میں برہما، وشنو، شیو اور مسلمانوں میں غوث، قطب، ابدال، داتا اور غریب نواز جیسی ہستیوں کا عقیدہ ہے۔ ارواح خبیثہ، نجوم و کواکب اور شیاطین کے تصرفات پر ایمان کو بھی اِسی کے ذیل میں سمجھنا چاہیے۔
۱۴۳؎ توحید پر ایمان کے بعد یہ پہلا حکم ہے جس کا انسانوں کو مکلف ٹھیرایا گیا ہے۔ فرمایا کہ جب اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں تو پھر عبادت بھی اُسی کی ہونی چاہیے۔ اِس کی حقیقت خضوع اور تذلل ہے جس کا اولین ظہور پرستش کی صورت میں ہوتا ہے۔ پھر انسان کے عملی وجود کی رعایت سے یہی پرستش اطاعت کو شامل ہو جاتی ہے۔ پہلی صورت کے مظاہر تسبیح و تحمید، دعاومناجات، رکوع و سجود، نذر، نیاز، قربانی اور اعتکاف ہیں۔ دوسری صورت میں آدمی کسی کے لیے خدائی اختیارات مانتا اور مستقل بالذات شارع و حاکم کی حیثیت سے اُس کے ہر حکم پر سر تسلیم خم کرتا ہے۔ اللہ پروردگار عالم کا فیصلہ ہے کہ اِن میں سے کوئی چیز بھی اُس کے سوا کسی اور کے لیے نہیں ہو سکتی۔ ’قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا ٓاِیَّاہُ‘کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا یہی فیصلہ بیان فرمایا ہے۔ لہٰذا کوئی شخص اگر کسی کی تسبیح و تحمید کرتا ہے یا اُس سے دعا و مناجات کرتا ہے یا اُس کے لیے رکوع و سجود کرتا ہے یا اُس کے حضور میں نذر، نیاز یا قربانی پیش کرتا ہے یا اُس کے لیے اعتکاف کرتا ہے یا خدائی اختیارات مان کر اُس کی اطاعت کرتا ہے تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ اُس نے اللہ تعالیٰ کے اِس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔
۱۴۴؎ خدا کے بعد سب سے بڑا حق ماں باپ کا ہے، لیکن وہ بھی خدا کے شریک نہیں ہو سکتے۔ اُن کا حق صرف یہ ہے کہ اُن کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے۔ یہ دوسرا حکم ہے اور اِس کی تعلیم تمام الہامی صحائف میں دی گئی ہے۔ قرآن مجید نے یہاں اور اِس کے علاوہ عنکبوت(۲۹) کی آیت ۸، لقمان (۳۱) کی آیات ۱۴-۱۵ اور احقاف(۴۶) کی آیت ۱۵ میں یہی تلقین فرمائی ہے۔ اِ س میں شبہ نہیں کہ انسانوں میں سب سے مقدم حق والدین کا ہے۔ چنانچہ اللہ کی عبادت کے بعد سب سے پہلے اِسی کو ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے والدین ہی اُس کے وجود میں آنے اور پرورش پانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا ہے کہ اپنے پروردگار کے بعد انسان کو سب سے بڑھ کر اُنھی کا شکر گزار ہونا چاہیے۔
۱۴۵؎ مطلب یہ ہے کہ والدین کے ساتھ آدمی کو اِس طرح پیش آنا چاہیے کہ وہ ظاہر و باطن میں اُن کی عزت کرے، اُن کے خلاف اپنے دل میں کوئی بے زاری نہ پیدا ہونے دے، اُن کے سامنے سوء ادب کا کوئی کلمہ زبان سے نہ نکالے، بلکہ نرمی، محبت، شرافت اور سعادت مندی کا اسلوب اختیار کرے۔ اُن کی بات مانے اور بڑھاپے کی ناتوانیوں میں اُن کی دل داری اور تسلی کرتا رہے۔
اِس بڑھاپے کا حوالہ بالخصوص جس مقصد سے دیا گیا ہے، اُس کی وضاحت استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس طرح کی ہے:
”... یہی زمانہ ہوتا ہے جس میں اُن لوگوں کو ماں باپ بوجھ محسوس ہوتے ہیں جو اُن کی قربانیوں اور جاں فشانیوں کو بھول جاتے ہیں جو اُنھوں نے اُن کے لیے بچپن میں کی ہوتی ہیں۔ سعادت مند اولاد تو اِس بات کو یاد رکھتی ہے کہ جس طرح کبھی ایک مضغۂ گوشت کی صورت میں مجھ کو اپنے والدین کی گود میں ڈالا گیا تھا، اُسی طرح اب میرے والدین ہڈیوں کے ایک ڈھانچے کی صورت میں میرے حوالے کیے گئے ہیں اور میرا فرض ہے کہ میں اُن کے احسان کا بدلہ احسان کی صورت میں دوں۔ لیکن ہر شخص اِس بات کو یاد نہیں رکھتا۔ یہ اِسی بات کی یاددہانی ہے۔ ورنہ اصل حقیقت یہ ہے کہ والدین ہر دور میں محبت، تعظیم اور احسان کے حق دار ہیں۔“(تدبرقرآن۴/ ۴۹۶)
۱۴۶؎ اصل میں ’مِنَ الرَّحْمَۃِ‘کے الفاظ آئے ہیں۔ آیت میں جس اطاعت و فرماں برداری کی ہدایت کی گئی ہے، یہ اُس کا منبع بتا دیا ہے کہ یہ اطاعت و فرماں برداری تما م تر رحمت و شفقت اور مہر و محبت کے جذبے سے ہونی چاہیے۔
۱۴۷؎ اِس میں یہ تلمیح ہے کہ والدین جس طرح بچے کو پرندوں کی طرح اپنے بازوؤں میں چھپا کر رکھتے ہیں، بچوں کو بھی چاہیے کہ اُن کے بڑھاپے میں اِسی طرح اُن کو اپنی محبت و اطاعت کے بازوؤں میں چھپا کر رکھیں۔ اِس لیے کہ والدین کی شفقت کا حق اگر کچھ ادا ہو سکتا ہے تو اِسی جذبے سے ہو سکتا ہے۔ اِس کے بغیر یہ حق ادا کرنا کسی شخص کے لیے ممکن نہیں ہے۔
۱۴۸؎ یہ دعا والدین کا حق ہے اور اُس حق کی یاددہانی بھی جو والدین سے متعلق اولاد پر عائد ہوتا ہے۔ پھر یہ اُس جذبہئ محبت کی محرک بھی ہے جس کا مطالبہ اللہ تعالیٰ نے والدین سے حسن سلوک کے معاملے میں کیا ہے۔
۱۴۹؎ والدین کے ساتھ حسن سلوک کی جو ہدایت کی گئی ہے، یہ اُس سے متعلق ایک نہایت اہم پہلو کی طرف توجہ دلائی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”بڑھاپے میں والدین کی خدمت و محبت اِس طرح کرنا، جس طرح قرآن نے ہدایت فرمائی ہے،کوئی آسان بازی نہیں ہے۔ اِس میں صرف ظاہری اطاعت ہی مطلوب نہیں ہے، بلکہ پاکیزہ قلبی جذبۂ محبت اور دلی لگاؤ بھی مطلوب ہے۔ اِس کی اِس مشکل کی وجہ سے قرآن نے یہ وضاحت بھی فرما دی کہ اصل مطلوب دلی محبت اور کامل سعادت مندی ہے۔ اگر یہ چیز موجود ہے تو خدا دلوں کے حال سے خوب واقف ہے۔ اِس کے ہوتے اگر کوئی چھوٹی موٹی اتفاقیہ کوتاہی صادر ہو گئی تو اُس کی تلافی توبہ اور رجوع الی اللہ سے ہو سکتی ہے۔ جولوگ اپنی اِس طرح کی کوتاہیوں پر برابر اللہ سے معافی مانگتے رہیں گے تو اللہ اُن کو معاف کر دے گا۔“ (تدبرقرآن۴/ ۴۹۷)
۱۵۰؎ یہ تیسرا حکم ہے۔ مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں انسان کو بخشی ہیں، وہ جس طرح اُنھیں اپنی ذات پر خرچ کرتا ہے، اُسی طرح اپنی ذاتی اور کاروباری ضرورتیں پوری کر لینے کے بعد اُنھیں اپنے اعزہ و اقربا اور دوسرے ابناے نوع پر بھی خرچ کرے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس دنیا میں اللہ کا بندہ بن کر رہنے کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے: ایک یہ کہ خالق کے ساتھ انسان کا تعلق ٹھیک ٹھیک قائم ہو جائے۔ دوسری یہ کہ مخلوق کے ساتھ وہ صحیح طریقے پر جڑ جائے۔ پہلی چیز نماز سے حاصل ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی محبت کا اولین مظہر ہے، اور دوسری انفاق سے جو اُس کی مخلوق کے ساتھ محبت کا اولین مظہر ہے۔ پھر اِس کا صلہ بھی خدا کی محبت ہی ہے۔ اِس لیے کہ انسان جو کچھ خرچ کرتا ہے، اُسے درحقیقت آسمان پر جمع کرتا ہے اور سیدنا مسیح علیہ السلام کے الفاظ میں، اُس کا دل بھی اِس کے نتیجے میں وہیں لگا رہتا ہے*۔آیت میں اِسے اعزہ و اقربا اور مسکین اور مسافر کا حق قرار دیا گیا ہے۔ اِس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اِس میں کوتاہی آدمی کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک غصب حقوق کا مجرم بنا سکتی ہے۔ چنانچہ قرآن نے یہ بات دوسری جگہ واضح کر دی ہے کہ اِن حقوق سے بے پروا ہو کر اگر کوئی شخص مال و دولت جمع کرتا ہے تو یہ کنز ہے اور اِس کی سزا جہنم کی آگ ہے جس سے ہر بندۂ مومن کو اپنے پروردگار کی پناہ مانگنی چاہیے**۔
۱۵۱؎ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کی توفیق اُنھی لوگوں کو ملتی ہے جو اپنے اخراجات میں اعتدال کا رویہ اختیار کرتے اور اللہ تعالیٰ جو رزق اُنھیں عطا فرماتا ہے، اُس کو اپنی کسی تدبیر و حکمت کا نہیں، بلکہ اللہ کی عنایت کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص اپنی ضرورتوں کے معاملے میں اعتدال اور توازن کا رویہ اختیار نہیں کرتا، اُسے اپنے ہی شوق پورے کرنے سے فرصت نہیں ملتی کہ دوسروں کے حقوق ادا کر پائے۔
۱۵۲؎ مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں پر یہ حق عائد ہوتا ہے، اُن کے حالات اگر کسی وقت ایسے ہوں کہ کسی حق دار کی مدد سے مجبوراً اعراض کرنا پڑے اور توقع ہو کہ مستقبل میں حالات بہتر ہو جائیں گے تو اُس کی دل داری کی جائے اور آیندہ کے لیے اچھے وعدے کے ساتھ رخصت کر دیا جائے۔
۱۵۳؎ اوپر اسراف و تبذیر کی جو ممانعت وارد ہوئی ہے، یہ اُس کے بارے میں صحیح نقطہئ اعتدال کی وضاحت کر دی ہے کہ آدمی نہ اپنے ہاتھ بالکل باندھ لے اور نہ بالکل کھلے ہی چھوڑ دے کہ ضرورت کے وقت درماندہ اور ملامت زدہ ہو کر بیٹھا رہے، بلکہ اعتدال کے ساتھ خرچ کرے اور ہمیشہ کچھ بچا کر رکھے تاکہ اپنے اور دوسروں کے حقوق بر وقت ادا کر سکے۔
۱۵۴؎ یہ اوپر والی بات ہی پر متفرع ایک ہدایت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب رزق کی تنگی اور کشادگی، سب خدا کے ہاتھ میں ہے تو انسان کی ذمہ داری اِس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ پوری محنت کے ساتھ اُس کے اسباب پیدا کرے۔ تم اِس حقیقت کو نہیں سمجھتے، اِسی لیے بعض اوقات ایسے سنگ دل ہو جاتے ہو کہ مفلسی کے اندیشے سے اپنی اولاد تک کو قتل کر دیتے ہو۔ خدا سے ڈرو اور کبھی اِس گناہ کا ارتکاب نہ کرو۔ یقینا یہ بہت بڑا جرم ہے۔ اِس میں خاص طور پر عرب جاہلیت میں لڑکیوں کو زندہ درگور کر دینے کی اُس سنگ دلانہ رسم کی طرف اشارہ ہے جس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ عورت چونکہ کوئی کماؤ فرد نہیں ہے، اِس لیے اُس کی پرورش کا بوجھ کیوں اٹھایا جائے۔
۱۵۵؎ یہاں تک قرآنی اوامر عدل، احسان، ایتاے ذی القربیٰ کا بیان تھا۔اب آگے وہ چیزیں بیان ہو رہی ہیں جو قرآنی منہیات فحشا، منکر اور بغی کے تحت آتی ہیں۔ اِن میں سب سے پہلے زنا کو لیا ہے۔ یہ چوتھا حکم ہے۔ فرمایا کہ اِس کے قریب نہ جاؤ، اِس لیے کہ یہ کھلی بے حیائی اور بہت بری راہ ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ اِس کے برائی اور بے حیائی ہونے پر کسی دلیل و حجت کی ضرورت نہیں ہے۔ انسان کی فطرت اِسے ہمیشہ سے ایک بڑا گناہ اور سنگین جرم سمجھتی رہی ہے اور جب تک وہ بالکل مسخ نہ ہو جائے، اِسی طرح سمجھتی رہے گی۔ انسان سے متعلق یہ حقیقت بالکل ناقابل تردید ہے کہ خاندان کا ادارہ اُس کے لیے ہوا اور پانی کی طرح ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ یہ ادارہ صحیح فطری جذبات کے ساتھ صرف اُسی صورت میں قائم ہوتا اور قائم رہ سکتا ہے، جب زوجین کا باہمی تعلق مستقل رفاقت کا ہو۔ یہ چیز اگر مفقود ہو جائے تو اِس سے فطری اور روحانی جذبات سے محروم جانوروں کا ایک گلہ تو وجود میں آسکتا ہے، کوئی صالح معاشرہ اور صالح تمدن وجود پذیر نہیں ہو سکتا۔
اِس فعل کی یہی شناعت ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے صرف اتنی بات نہیں کہی کہ زنا نہ کرو، بلکہ فرمایا ہے کہ زنا کے قریب بھی نہ جاؤ۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ ایسی تمام باتوں سے دور رہو جو زنا کی محرک، اُس کی ترغیب دینے والی اور اُس کے قریب لے جانے والی ہوں۔
۱۵۶؎ یہ پانچواں حکم ہے اور مذہب و اخلاق کی رو سے جو حرمت انسانی جان کو ہمیشہ سے حاصل رہی ہے، اُسی کا بیان ہے۔ دوسری جگہ قرآن نے بتایا ہے کہ اِس کے بارے میں یہی تاکید بنی اسرائیل کو کی گئی تھی اور اللہ تعالیٰ نے یہ بات اُن پر لکھ دی تھی کہ ایک انسان کا قتل درحقیقت پوری انسانیت کا قتل ہے۔ اِسی طرح یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ کسی انسان کی جان دو ہی صورتوں میں لی جا سکتی ہے: ایک یہ کہ وہ کسی کو قتل کر دے، دوسری یہ کہ نظم اجتماعی سے سرکشی کرکے وہ دوسروں کی جان و مال اور آبرو کے درپے ہو جائے۔ اِس کے سوا ہر قتل ایک ناحق قتل ہے جس کی سزا قرآن کی رو سے ابدی جہنم ہے***۔
۱۵۷؎ اِس سے معلوم ہوا کہ اِس جرم کے مرتکبین کا معاملہ صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ یا معاشرے اور حکومت کے ساتھ نہیں ہے، مقتول کے اولیا کے ساتھ بھی ہے اور اُن کو اللہ نے پورا اختیار دے دیا ہے، لہٰذا دنیا کی کوئی عدالت اُن کی مرضی کے بغیر قاتل کو کوئی رعایت نہیں دے سکتی۔ اُس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اگر قصاص پر اصرار کریں تو اُن کی مدد کرے اور جو کچھ وہ چاہیں، اُسے پوری قوت کے ساتھ اور ٹھیک ٹھیک نافذ کر دے۔
تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ مسلمانوں کی کوئی باقاعدہ حکومت اگر کسی جگہ قائم نہ ہو اور قصاص کا معاملہ مقتول کے اولیا ہی سے متعلق ہو جائے تو وہ اپنی اِس حیثیت میں حدود سے تجاوز کریں اور مثال کے طور پر جوش انتقام میں قاتل کے علاوہ دوسروں کو بھی قتل کرنے کی کوشش کریں یا اپنی شرافت و نجابت اور برتری کے زعم میں اپنے غلام کے بدلے میں آزاد اور عورت کے بدلے میں مرد کے قتل کا مطالبہ کریں یا مجرم کو عذاب دے دے کرماریں یا مار دینے کے بعد اُس کی لاش پر غصہ نکالیں یا قتل کے ایسے طریقے اختیار کریں جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ آیت میں ’فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ‘(سو وہ قتل میں حد سے تجاوز نہ کرے) کے الفاظ اِسی تنبیہ کے لیے آئے ہیں۔
۱۵۸؎ یہ چھٹا حکم ہے اور اِس کے الفاظ، اگر غور کیجیے تو وہی ہیں جو اوپر زنا سے روکنے کے لیے آئے ہیں۔ یعنی یتیم کی بہبود اور بہتری کے ارادے کے سوا اُس کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ یتیم کے مال میں صرف وہی تصرف جائز ہے جو اُس کی حفاظت اور نشوونما کی غرض سے کیا جائے اور اُسی وقت تک کیا جائے، جب تک یتیم سن رشد کو پہنچ کر اپنے مال کی ذمہ داری خود سنبھالنے کے قابل نہیں ہو جاتا۔
۱۵۹؎ یہ ساتواں حکم ہے۔ اِس میں ’عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا‘ کے الفاظ یہ بتانے کے لیے آئے ہیں کہ عہد صرف دو فریقوں کا باہمی معاملہ نہیں ہوتا، بلکہ اِس میں ایک تیسرا فریق کائنات کا پروردگار بھی ہوتا ہے، جس کے حضور کل ہر ایک کو جواب دہ ہونا ہے اور جس کی پکڑ سے بچنا کسی کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اِس میں، ظاہر ہے کہ ہر قسم کے عہد شامل ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”...ایفاے عہد کے اندر تمام چھوٹے بڑے حقوق و فرائض آجاتے ہیں خواہ وہ خلق سے متعلق ہوں یا خالق سے، خواہ وہ کسی تحریری معاہدے سے وجود میں آتے ہوں یا کسی نسبت، تعلق، رشتہ داری اور قرابت سے، خواہ اُن کا اظہار و اعلان ہوتا ہو یا وہ ہر اچھی سوسائٹی میں بغیر کہے سمجھے اور مانے جاتے ہوں۔ اللہ اور رسول، ماں اور باپ، بیوی اور بچے، خویش و اقارب، کنبہ اور خاندان، پڑوسی اور اہل محلہ، استاد اور شاگرد، نوکر اور آقا، ملک اور قوم، ہر ایک کے ساتھ ہم کسی نہ کسی ظاہری یا مخفی معاہدے کے تحت بندھے ہوئے ہیں، اور یہ بر و تقویٰ کا ایک لازمی تقاضا ہے کہ اِن تمام معاہدوں کے حقوق ادا کرنے والے بنیں۔ گویا ایفاے عہد کی اصل روح ایفاے حقوق ہے اور ایفاے حقوق انسان کے تمام چھوٹے بڑے فرائض کو محیط ہے۔“(تدبرقرآن۱/ ۴۲۹)
۱۶۰؎ یہ آٹھواں حکم ہے۔ دوسری جگہ فرمایا ہے کہ زمین و آسمان کو اللہ تعالیٰ نے ایک میزان پر قائم فرمایا ہے، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ انسان بھی اپنے دائرۂ اختیار میں انصاف پر قائم رہے اور ہمیشہ صحیح پیمانے سے ناپے اور ٹھیک ترازو سے تولے****۔ اِس سے معلوم ہوا کہ یہ ایک عظیم حکم ہے اور اپنی حقیقت کے اعتبار سے اُسی میزان انصاف کی فرع ہے جس پر یہ دنیا قائم ہے۔ چنانچہ اِس سے انحراف اگر کوئی شخص کرتا ہے تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ عدل و قسط کے تصور میں اختلال واقع ہو چکا اور خدا کے قائم بالقسط ہونے کا عقیدہ باقی نہیں رہا۔ اِس کے بعد، ظاہر ہے کہ معیشت اور معاشرت کا پورا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے اور تمدن کی کوئی اینٹ بھی اپنی جگہ پر قائم نہیں رہتی۔
۱۶۱؎ یہ نواں حکم ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ کسی مسلمان کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ بدگمانی کرے یا کسی پر الزام لگائے یا تحقیق کے بغیر کسی کے خلاف کوئی قدم اٹھائے یا محض شبہات پر افواہیں اڑائے یا اپنے پروردگار کی ذات و صفات اوراحکام و ہدایات کے بارے میں ظنون و اوہام اور لاطائل قیاسات پر مبنی کوئی نقطہئ نظر اختیار کرے۔ قرآن نے متنبہ فرمایا ہے کہ اِسے کوئی معمولی بات نہیں سمجھنا چاہیے، اِس لیے کہ انسان کی سماعت و بصارت اور دل و دماغ، ہر چیز کو ایک دن خدا کے حضور میں جواب دہ ہونا ہے۔
۱۶۲؎ یہ دسواں حکم ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”...مطلب یہ کہ جس خدا کی قدرت کی یہ شانیں دیکھتے ہو کہ اُس نے تمھارے پاؤں کے نیچے یہ طویل و عریض زمین بچھا دی جس کے اوپر تمھاری حیثیت ایک بھنگے اور چیونٹی کی بھی نہیں اور جس نے یہ فلک بوس پہاڑ تمھارے آگے کھڑے کر دیے جن کے سامنے تم ایک گلہری کی بھی حیثیت نہیں رکھتے، اُس کی زمین پر اکڑنے اور اترانے کے کیا معنی؟ اپنی حیثیت پہچانو اور خدا کی عظمت اور اُس کے جلال کے آگے ہمیشہ سرفگندہ رہو۔“(تدبرقرآن۴/ ۵۰۲)
اِس میں خاص طور پر چلنے کا ذکر کیا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس طرح کی چال آدمی کے باطن کی ترجمان ہوتی ہے۔ دولت، اقتدار، حسن، علم، طاقت اور ایسی ہی دوسری جتنی چیزیں آدمی کے اندر غرور پیدا کرتی ہیں، اُن میں سے ہر ایک کا گھمنڈ اُس کی چال کے ایک مخصوص ٹائپ میں نمایاں ہوتا اور اِس بات پر دلیل بن جاتا ہے کہ اُس کا دل بندگی کے شعور سے خالی ہے اور اُس میں خدا کی عظمت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جس دل میں بندگی کا شعور اور خدا کی عظمت کا تصور ہو، وہ اُنھی لوگوں کے سینے میں دھڑکتا ہے جن پر تواضع اور فروتنی کی حالت طاری رہتی ہے۔ وہ اکڑنے اور اترانے کے بجاے سر جھکا کر چلتے ہیں۔ لہٰذا یہ ایک بدترین خصلت ہے اور اِس کی سزا بھی نہایت سخت ہے۔
تورات کے احکام کی طرح یہ قرآن کے احکام عشرہ ہیں۔ تمام اخلاقیات اِنھی دس احکام کی فرع ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جن گناہوں کو ’کَبٰٓءِرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ‘***** یعنی بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے تعبیر کیا ہے، وہ اِنھی احکام کی خلاف ورزی سے پیدا ہوتے ہیں۔
۱۶۳؎ یہ قرآن نے آخر میں واضح کر دیا ہے کہ اخلاق ایمان کی فرع ہے اور قرآن کی تقسیم کے مطابق تمام اخلاقی احکام ’الْحِکْمَۃ‘ ہی کے تحت آتے ہیں۔ اِنھیں ’الْکِتٰب‘ کے زیر عنوان اُس وقت لایا جائے گا، جب اِن سے متعلق کوئی قانون بیان ہو گا۔
[باقی]
* متی۶: ۱۹-۲۱۔
** التوبہ ۹: ۳۴-۳۵۔
*** المائدہ ۵: ۳۲۔ الفرقان ۲۵: ۶۸-۶۹۔
**** الرحمٰن ۵۵: ۷-۹۔
***** الشوریٰ ۴۲: ۳۷۔النجم ۵۳: ۳۲۔
_______________