HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

غزل

خیال و خامہ

o

عاشقی میں چاہیے کچھ لذت آزار بھی
اے خوشا محفل کہ اُن کے ساتھ ہیں اغیار بھی

دھوپ میں جب آگ برساتا ہے کوئی آسماں
روٹھ جاتا ہے زمیں پر سایۂ دیوار بھی

اب کھلا یہ راز منزل تک پہنچ جانے کے بعد
حوصلے کا نام تھا ہر سہل بھی ، دشوار بھی

سیر باطن کیا ہے؟ خود دریا میں دریا کا ظہور
آپ ہی گویا صدف بھی ، ابر گوہر بار بھی

جانتا ہوں آں سوے افلاک پروازوں کا بھید
سکر گویا آنکھ کے شیشے کا ہے زنگار بھی

نقد جاں دے کر بھی مل جائے اگر مہر و وفا
دیکھ لیتے ہیں تمھارے شہر کا بازار بھی

سامنے ہو کر بھی رہتا ہوں کبھی بے گانہ وار
دامن دل کھینچ لیتے ہیں کبھی آثار بھی

زندگی میں ایک گونہ بے خودی بھی چاہیے
یوں اٹھا سکتے ہیں ہم اپنی خودی کا بار بھی

کیا ہی اچھا ہے نیاگان کہن کا ذکر خیر
اُن سے لے سکتے اگر کچھ سیرت و کردار بھی

اپنی دنیا کے لیے یہ بھی ہے گویا آفتاب
علم کی فطرت میں پنہاں نور بھی ہے ، نار بھی

____________

B