بسم اللہ الرحمن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ وَیُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ اَجْرًا کَبِیْرًا(۹) وَّاَنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ اَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا(۱۰)
وَیَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَ ہٗ بِالْخَیْرِ وَکَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلاً(۱۱) وَجَعَلْنَا الَّیْلَ وَالنَّھَارَ اٰیَتَیْنِ فَمَحَوْنَآ اٰیَۃَ الَّیْلِ وَجَعَلْنَآ اٰیَۃَ النَّھَارِ مُبْصِرَۃً لِّتَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ وَکُلَّ شَیْءٍ فَصَّلْنٰہُ تَفْصِیْلاً(۱۲)
وَکُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰٓءِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ وَنُخْرِجُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتٰبًا یَّلْقٰہُ مَنْشُوْرًا(۱۳) اِقْرَاْ کِتٰبَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا(۱۴) مَنِ اھْتَدٰی فَاِنَّمَا یَھْتَدِیْ لِنَفْسِہٖ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْھَا وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی وَمَاکُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاً(۱۵)
وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّھْلِکَ قَرْیَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْھَا فَفَسَقُوْا فِےْھَا فَحَقَّ عَلَیْھَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰھَا تَدْمِیْرًا(۱۶) وَکَمْ اَھْلَکْنَا مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْم بَعْدِ نُوْحٍ وَکَفٰی بِرَبِّکَ بِذُنُوْبِ عِبَادِہٖ خَبِیْرًام بَصِیْرًا(۱۷)
مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّلْنَا لَہٗ فِیْھَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَہٗ جَھَنَّمَ یَصْلٰھَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا(۱۸) وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَۃَ وَسَعٰی لَھَا سَعْیَھَا وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓءِکَ کَانَ سَعْیُھُمْ مَّشْکُوْرًا(۱۹) کُلاًّ نُّمِدُّ ھٰٓؤُلَآءِ وَھٰٓؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّکَ وَمَا کَانَ عَطَآءُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًا(۲۰) اُنْظُرْکَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَلَلْاٰخِرَۃُ اَکْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّاَکْبَرُ تَفْضِیْلاً(۲۱)
(لوگو)۱۲۸؎،حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔ یہ ماننے والوں کو جو اچھے عمل کرتے ہیں، اِس بات کی بشارت دیتا ہے کہ اُن کے لیے بہت بڑا اجر ہے اور یہ بھی کہ جو آخرت کو نہیں مانتے، اُن کے لیے ہم نے ایک دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ ۹-۱۰
(یہ اُس کی نشانی مانگتے ہیں)۔انسان(پر افسوس، وہ اپنے لیے) جس طرح بھلائی مانگتا ہے، اُسی طرح برائی مانگنے لگتا ہے۱۲۹؎۔ انسان بڑا ہی جلدباز واقع ہوا ہے۔ (یہ اگر دیکھیں ۱۳۰؎ تو)ہم نے رات اور دن کو (اِنھی کے لیے) دو نشانیاں بنایا ہے۔ پھر ہم نے رات کی نشانی دھندلا دی (کہ اُس میں راحت پاؤ)اور ہم نے دن کی نشانی کو روشن کر دیا، اِس لیے کہ تم اپنے پروردگار کا فضل تلاش کرو، اور اِس لیے کہ تم برسوں کی گنتی اور اُن کا حساب جان لو۔ (اِس پر مزید یہ کہ) ہم نے (اِس کتاب میں) ہر چیز کی پوری تفصیل بھی کر دی ہے۱۳۱؎۔ ۱۱-۱۲
(یہ عذاب کے لیے جلدی نہ مچائیں)۔ ہر انسان کی قسمت ہم نے اُس کے گلے کے ساتھ باندھ دی ہے،۱۳۲؎ اور قیامت کے دن ہم اُس کے لیے ایک نوشتہ نکالیں گے جس کو وہ اپنے روبرو بالکل کھلا ہوا پائے گا۔ (لو)، پڑھو اپنا اعمال نامہ، آج اپنا حساب کر لینے کے لیے تم خود ہی کافی ہو۔ (حقیقت یہ ہے کہ) جو ہدایت کی راہ چلتا ہے، وہ اپنے ہی لیے چلتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے، وہ بھی اپنی اِس گمراہی کا وبال اپنے ہی اوپر لاتا ہے۔ (خدا کا قانون یہ ہے کہ) کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا۔ (سو کیا جلدی مچاتے ہو)، ہم (کسی قوم کو) کبھی سزا نہیں دیتے، جب تک ایک رسول نہ بھیج دیں (کہ سزا سے پہلے وہ اُس پر حجت پوری کر دے)۱۳۳؎۔۱۳-۱۵
جب ہم کسی بستی کو (اُس کے کرتوتوں کی پاداش میں) ہلاک کر دینا چاہتے ہیں تو اُس کے خوش حالوں کو حکم دیتے ہیں (کہ جاؤ، جو جی چاہے کرو)۱۳۴؎۔ پھر وہ اُس میں نافرمانیاں کرتے ہیں، تب اُس بستی پر بات پوری ہو جاتی ہے۔ پھر ہم اُس کو بالکل برباد کرکے رکھ دیتے ہیں۔ (دیکھ لو)، نوح کے بعد ہم نے کتنی ہی قومیں (اِسی طرح) ہلاک کر دیں۔ (اے پیغمبر)، اپنے بندوں کے گناہوں کو جاننے اور اُن کو دیکھنے کے لیے تیرا پروردگار کافی ہے۱۳۵؎۔ ۱۶-۱۷
(ہمارا طریقہ یہ ہے کہ) جو اِس دنیا ہی کو چاہتا ہے، اُس کو ہم جس کے لیے چاہتے اور جتنا چاہتے ہیں، سردست یہیں دے دیتے ہیں ۱۳۶؎۔پھر ہم نے اُس کے لیے جہنم رکھ چھوڑی ہے، جس میں وہ خوار اور راندہ ہو کر داخل ہو جائے گا۔ اور جو آخرت کو چاہتا ہے اور اُس کے لیے کوشش بھی کرتا ہے، جیسی کوشش اُس کے لیے کرنی چاہیے،اور مومن بھی ہے تو یہی لوگ ہیں جن کی سعی مقبول ہو گی۔۱۳۷؎ تیرے پروردگار کی بخشش سے ہم ہر ایک کو مدد پہنچاتے ہیں، اِن کو بھی اور اُن کو بھی۔۱۳۸؎ اورتیرے پروردگار کی بخشش کسی پر بند نہیں ہے۔۱۳۹؎ دیکھ لو، اِن کے ایک کو دوسرے پر ہم نے کس طرح فضیلت دے رکھی ہے اور آخرت کے درجے اور اُس کی فضیلت تو کہیں بڑھ کر ہے۱۴۰؎۔ ۱۸-۲۱
۱۲۸؎ یہ خطاب یہود اور مشرکین قریش، دونوں سے ہے۔ اوپر کی تمہید کے بعد اب اُنھیں قرآن پر ایمان لانے کی دعوت دی جا رہی ہے۔
۱۲۹؎ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کی وعید سن کر اُس کی نشانی کا مطالبہ چونکہ نہایت احمقانہ اور خود مطالبہ کرنے والوں کے حق میں انتہائی مہلک تھا، اِس لیے، استاذ امام کے الفاظ میں، یہ بات بانداز تاسف اور اُن سے منہ پھیر کر عام الفاظ میں فرما دی ہے۔
۱۳۰؎ یعنی عذاب کی نشانی مانگنے کے بجاے آفاق کی اُن نشانیوں کو دیکھیں جو ہر وقت اِن کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔
۱۳۱؎ یعنی اُن چیزوں کی پوری تفصیل کر دی ہے جن پر یہ نشانیاں دلالت کرتی ہیں۔
۱۳۲؎ یہ اِس بات کی تعبیر ہے کہ انسان کو جو کچھ آگے پیش آنے والا ہے، وہ اُس کے اعمال کا صلہ ہے، اِس لیے یہیں سے اُس کے ساتھ لگا ہوا ہوتا ہے۔ اپنی جنت اور جہنم وہ اِسی دنیا سے لے کر خدا کے حضور پہنچتا ہے۔ قیامت میں اُس کو کوئی ایسی چیز پیش آنے والی نہیں ہے جو یہاں اُس کا مقدر نہیں بن سکی۔ لہٰذا عذاب کے لیے جلدی مچانے کے بجاے یہ اِس پر غور کریں کہ اُس سے بچنے کے لیے اِنھوں نے کیا اہتمام کر رکھا ہے۔
۱۳۳؎ مطلب یہ ہے کہ رسول تو آچکا۔ اب اِسی کا انتظار ہے کہ کب حجت پوری ہو جاتی ہے۔ اِس کے بعد عذاب ہی کا مرحلہ ہے۔ سو یہ مرحلہ بھی آیا ہی چاہتا ہے۔
۱۳۴؎ اصل میں لفظ ’اَمَرْنَا‘آیا ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”’اَمْر‘ صرف حکم دینے ہی کے معنی میں نہیں آتا،بلکہ بسا اوقات کسی کو ڈھیلا چھوڑ دینے اور مہلت دے دینے کے مفہوم میں بھی آتاہے۔ آپ کسی شخص یا گروہ سے افہام و تفہیم کی کوشش کرنے کے بعد جب تنگ آ جاتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ ’إفعلوا ما بدا لکم‘ جاؤ، جو تمھارے جی میں آئے،کرو۔ بظاہر یہ امر ہی کا صیغہ استعمال ہوتا ہے، لیکن اِس کا مفہوم امہال ہوتا ہے۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ بھی سرکش لوگوں پر اپنی حجت تمام کر چکنے کے بعد اُن کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے کہ وہ اپنا پیمانہ اچھی طرح سے بھر لیں۔“(تدبرقرآن ۴/ ۴۸۹)
یہ ڈھیل خوش حال لوگوں کو اِس لیے دی جاتی ہے کہ قوم کی زمام کار اُنھی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ کے رسول بھی سب سے پہلے اُنھی کو مخاطب کرتے ہیں۔ پھر اتمام حجت کے بعد یہ اُنھی کا رویہ ہے جس سے بالآخر قوم عذاب الہٰی کی گرفت میں آجاتی ہے۔
۱۳۵؎ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے کہ تمھارے منکرین جو کچھ کر رہے ہیں، اُس کو جاننے کے لیے تمھارے پروردگار کو کسی دوسرے کی مدد یا اطلاع کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور ہر چیز سے واقف ہے۔ لہٰذا مطمئن رہو، جب وقت آجائے گا تو اِن کا فیصلہ کرنے میں ذرا بھی دیر نہ کرے گا۔
۱۳۶؎ اوپر خوش عیش لوگوں کے لیے جس ڈھیل کا ذکر ہوا ہے، یہ اُس کے بارے میں سنت الہٰی کا بیان ہے۔ تاہم اتنی بات اُس میں بھی واضح کر دی ہے کہ اِس کے نتیجے میں جو کچھ ملتا ہے، وہ بھی اُن لوگوں کے اپنے اختیار میں نہیں ہے جو دنیا اور اُس کے نفع عاجل کے طلب گار ہیں، بلکہ خدا ہی جس کو چاہتا ہے اور جتنا چاہتا ہے، عطا فرماتا ہے۔
۱۳۷؎ یہ الفاظ خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”...مطلب یہ ہے کہ آخرت صرف تمنا کرنے سے نہیں مل جائے گی، بلکہ اِس کے لیے اُس کے شایان شان کوشش بھی مطلوب ہے اور ساتھ ہی شرک کی ہر آمیزش سے پاک ایمان بھی۔ جب تک یہ دونوں چیزیں طلب آخرت کے ساتھ نہیں ہوں گی، اُس وقت تک یہ تمنا لاحاصل ہی رہے گی۔“(تدبرقرآن۴/ ۴۹۰)
۱۳۸؎ یعنی اِن کو بھی جو آخرت کے طلب گار ہیں اور اُن کو بھی جو اُس سے بالکل بے پروا ہو کر رات دن دنیا ہی کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں۔ آیت میں لفظ ’کُلّ‘اِنھی دو گروہوں کے لیے آیا ہے۔ زبان کے اداشناس جانتے ہیں کہ اِس طرح کے موقعوں پر یہ معرفہ کے حکم میں ہو جاتا ہے۔
۱۳۹؎ اِس لیے کہ دنیا والوں کو اُس سے دنیا مل جاتی ہے اور جو آخرت کے طالب ہیں، وہ بھی محروم نہیں رہتے۔ اُن کے لیے جتنی دنیا مقدر ہے، وہ بھی اُنھیں ملتی ہے اور آخرت تو بہرحال اُنھی کے لیے ہے۔ وہ اپنی کوششوں کا بھرپور صلہ اُس میں بھی پالیں گے۔
۱۴۰؎ مطلب یہ ہے کہ اِس عارضی دنیا میں مراتب کی بلندی لوگوں کو کہاں پہنچا دیتی ہے، یہ تم دیکھتے ہو۔ اِسی سے اندازہ کر لو کہ جو لوگ آخرت میں اونچے درجوں کے لیے منتخب کیے جائیں گے، اُن کی عالی مقامی اور شوکت و حشمت کیسی ہو گی۔ پھر کیا لوگوں کو اِسی طرح اُس سے بے پروا رہنا چاہیے؟ یہ صورت حال تو تقاضا کرتی ہے کہ انسان کی تمام سعی و جہد کا مقصد آخرت کے اِنھی درجات و مراتب کا حصول ہونا چاہیے۔
[باقی]
____________________