بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ(۱)
وَاٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَجَعَلْنٰہُ ھُدًی لِّبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَکِیْلاً(۲) ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ اِنَّہٗ کَانَ عَبْدًا شَکُوْرًا(۳)
وَقَضَیْنَآ اِلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ فِی الْکِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا کَبِیْرًا(۴) فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ اُوْلٰہُمَا بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَادًا لَّنَآ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِ وَکَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلاً(۵) ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ الْکَرَّۃَ عَلَیْہِمْ وَاَمْدَدْنٰکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَجَعَلْنٰکُمْ اَکْثَرَ نَفِیْرًا(۶) اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ وَاِنْ اَسَاْتُمْ فَلَھَا فَاِذَا جَآءَوَعْدُالْاٰخِرَۃِ لِیَسُوْٓءٗ ا وُجُوْھَکُمْ وَلِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ کَمَا دَخَلُوْہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّلِیُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِیْرًا(۷) عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَمَکُمْ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَھَنَّمَ لِلْکٰفِرِیْنَ حَصِیْرًا(۸)
اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے، جس کی شفقت ابدی ہے
ہر عیب سے پاک ہے۱۱۰؎ وہ ذات جو اپنے بندے کو۱۱۱؎ ایک رات مسجد حرام سے اُس دور کی مسجد۱۱۲؎ تک لے گئی جس کے ماحول کو ہم نے برکت دی ہے۱۱۳؎ تاکہ اُس کو ہم اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں ۱۱۴؎۔ بے شک، وہی سمیع و بصیر ہے۱۱۵؎۔۱
(سو اُن کا عہد تمام ہوا جو اِس دور کی مسجد کے نگہبان بنائے گئے)۔ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی۱۱۶؎ اور اُس کو (اِنھی) بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا تھا، اِس تاکید کے ساتھ کہ میرے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ بناؤ،۱۱۷؎اے اُن لوگوں کی اولاد جنھیں ہم نے نوح کے ساتھ(کشتی پر) سوار کیا تھا۱۱۸؎۔ اِس میں شک نہیں کہ وہ (ہمارا) ایک شکر گزار بندہ تھا۔ ۲-۳
بنی اسرائیل کو ہم نے اِسی کتاب میں اپنے اِس فیصلے سے آگاہ کر دیا تھا۱۱۹؎ کہ تم دو مرتبہ زمین میں فساد برپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھاؤ گے،۱۲۰؎ (لہٰذا دونوں مرتبہ سخت سزا پاؤ گے)۔ پھر (تم نے دیکھا کہ) جب اُن میں سے پہلی بار کے وعدے کا وقت آجاتا ہے۱۲۱؎ تو ہم تم پر اپنے ایسے بندے اٹھا کرمسلط کر دیتے ہیں ۱۲۲؎ جو نہایت زور آور تھے۔ سو وہ تمھارے گھروں کے اندر گھس پڑے اور وعدہ پورا ہو کے رہا۱۲۳؎۔ پھر ہم نے تمھاری باری اُن پر لوٹا دی اور اموال و اولاد سے تمھاری مدد کی اور تمھیں ایک بڑی جماعت بنا دیا۱۲۴؎۔ (یہ تمھارے لیے سبق تھا کہ) اگر تم اچھے کام کرو گے تو اپنے لیے اچھا کرو گے اور اگر برے کام کرو گے تو وہ بھی اپنے لیے کرو گے۔(یہ پہلا وعدہ تھا)۔ اِس کے بعد جب دوسری بار کے وعدے کا وقت آجاتا ہے (تو ہم اپنے کچھ دوسرے زور آور بندے اٹھا کھڑے کرتے ہیں)۱۲۵؎،اِس لیے کہ وہ تمھارے چہرے بگاڑ دیں اور تمھاری مسجد میں اُسی طرح گھس پڑیں، جس طرح وہ پہلی بار اُس میں گھس پڑے تھے اور جس چیز پر اُن کا زور چلے، اُس کو تہس نہس کر ڈالیں ۱۲۶؎۔ (اب بھی)عجب نہیں، (اے بنی اسرائیل) کہ تمھارا پروردگار (ایک مرتبہ پھر) تم پر رحم فرمائے۔ لیکن (یاد رکھو)، اگر تم وہی کرو گے تو ہم بھی وہی کریں گے اور جہنم کو تو ہم نے اِسی طرح کے منکروں کے لیے باڑا بنا رکھا ہے۱۲۷؎۔ ۴-۸
۱۱۰؎ اصل میں لفظ ’سُبْحٰن‘ہے۔ یہ تنزیہہ کا کلمہ ہے جو خدا کے باب میں کسی سوء ظن یا غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے آتا ہے۔
۱۱۱؎ آیت میں لفظ ’عَبْدِہٖ‘ استعمال ہوا ہے۔ اِس سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”...اِس موقعے پر حضور کے لیے اِس لفظ کا استعمال اللہ تعالیٰ کے ساتھ حضور کے غایت درجہ اختصاص، آپ کے ساتھ اللہ کی غایت درجہ محبت اور آپ کے کمال درجہ عبدیت کی دلیل ہے۔ گویا آپ کی ذات کسی اور تعریف و تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ لفظ ’عَبْد‘ نے خود انگلی اٹھا کر ساری خدائی میں سے اُس کو ممیز کر دیا جو اِس لفظ کا حقیقی محمل و مصداق ہے۔“ (تدبرقرآن۴/ ۴۷۴)
۱۱۲؎ اِس سے یروشلم کی مسجد مراد ہے جسے بیت المقدس کہا جاتا ہے۔ یہ حرم مکہ سے کم و بیش ۰۴ دن کی مسافت پر تھی۔ اِس کا تعارف اِسی بنا پر ’الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا‘، یعنی ’دور کی مسجد‘ کے الفاظ سے کرایا ہے تاکہ مخاطبین کا ذہن آسانی سے اِس کی طرف منتقل ہو سکے۔
۱۱۳؎ اصل الفاظ ہیں:’الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ‘۔ ابراہیم علیہ السلام کی بابل سے ہجرت کے بعد اللہ تعالیٰ نے دو مقامات کا انتخاب کیا، جہاں خود اُس کے حکم سے دو مسجدیں تعمیر کی گئیں اور اُنھیں پورے عالم کے لیے توحید کی دعوت کا مرکز بنا دیا گیا۔ ایک سرزمین عرب اور دوسرے فلسطین۔ اِن میں سے پہلا مقام وادی غیر ذی زرع اور دوسرا انتہائی زرخیز ہے۔ قدیم صحیفوں میں اِسی بنا پر اُسے دودھ اور شہد کی سرزمین کہا گیا ہے۔ ’الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ‘ کے الفاظ سے قرآن نے اِسی طرف اشارہ کیا ہے اور اِس طرح بالکل متعین کر دیا ہے کہ دور کی جس مسجد کا ذکر ہو رہا ہے، وہ یروشلم کی مسجد ہے۔ فرمایا کہ خدا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے اُس دور کی مسجد تک لے گیا۔ یہ لے جانا کس طرح ہوا؟ قرآن نے آگے اِسی سورہ کی آیت ۰۶ میں بتا دیا ہے کہ یہ ایک رؤیا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ طریقہ جس مقصد سے اختیار کیا،استاذامام امین احسن اصلاحی نے اُس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”... رؤیا کا مشاہدہ چشم سر کے مشاہدے سے زیادہ قطعی، زیادہ وسیع اور اُس سے ہزارہا درجہ عمیق اور دور رس ہوتا ہے۔ آنکھ کو مغالطہ پیش آسکتا ہے، لیکن رویاے صادقہ مغالطے سے پاک ہوتی ہے؛ آنکھ ایک محدود دائرے ہی میں دیکھ سکتی ہے، لیکن رؤیا بہ یک وقت نہایت وسیع دائرے پر محیط ہوجاتی ہے؛ آنکھ حقائق و معانی کے مشاہدے سے قاصر ہے، اُس کی رسائی مرئیات ہی تک محدود ہے، لیکن رؤیا معانی و حقائق اور انوار و تجلیات کو بھی اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔“(تدبرقرآن۴/ ۴۷۶)
۱۱۴؎ یعنی اِس بات کی نشانیاں کہ حرم مکہ کے ساتھ اب فلسطین کی سرزمین اور اُس کی امانت بھی بنی اسمٰعیل کے سپرد کر دی جائے گی۔ تاہم اِن نشانیوں کی کوئی تفصیل نہیں کی گئی، اِس لیے کہ نہ الفاظ اِس تفصیل کے متحمل ہو سکتے ہیں اور نہ وہ ہمارے علم و عقل اور تصورات کی گرفت میں آسکتی ہیں۔
آیت میں یہ چیز بھی قابل توجہ ہے کہ اوپر کی بات غائب کے صیغے سے بیان ہوئی ہے اور یہاں متکلم کا صیغہ آگیا ہے۔ اِس میں اسلوب بیان کی یہ بلاغت ہے کہ متکلم کا صیغہ التفات خاص کو ظاہر کر رہا ہے، جبکہ اوپر تفخیم شان مقصود تھی جسے غائب کے صیغے سے ظاہر فرمایا ہے۔
۱۱۵؎ آیت کے شروع میں لفظ’سُبْحٰن‘جس پہلو سے آیا ہے، یہ صفات اُس کی وضاحت کر رہی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ خدا ہی سمیع و بصیر ہے تو یہ اُسی کا کام تھا کہ اُن بد عہدوں کا محاسبہ کرے جنھوں نے، سیدنا مسیح علیہ السلام کے الفاظ میں، اُس کے گھر کو چوروں کا بھٹ بنا ڈالا ہے۔ بنی اسرائیل اِس گھر میں جو کچھ کہتے اور کرتے رہے ہیں، اُس کو سننے اور دیکھنے کے بعد یہی ہونا تھا۔ چنانچہ خدا نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اِس گھر کی امانت اب نبی امی کے حوالے کر دی جائے گی۔ آپ کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے یہاں تک اِسی مقصد سے لایا گیا ہے۔ خدا ہر عیب سے پاک ہے، لہٰذا وہ کسی طرح گوارا نہیں کر سکتا تھا کہ ایک قوم کو لوگوں پر اتمام حجت کے لیے منتخب کرے اور اُس کی طرف سے اِس درجے کی سرکشی کے باوجود اُسے یوں ہی چھوڑے رکھے۔ ناگزیر تھا کہ پیش نظر مقصد کے لیے وہ کوئی دوسرا اہتمام کرے۔ اُس نے یہی کیا ہے اور عالمی سطح پر دعوت و شہادت کی ذمہ داری بنی اسمٰعیل کے سپرد کر دی ہے۔
۱۱۶؎ یعنی تورات عطا فرمائی تھی۔
۱۱۷؎ یہ ایک جملے میں اُس دعوت کا خلاصہ ہے جس کے بنی اسرائیل امین بنائے گئے تھے۔ توحید پر ایمان کا اولین تقاضا یہی ہے کہ خدا کے سوا کسی کو کارساز نہ بنایا جائے اور صرف ایک خدا پر بھروسا کرکے اپنے تمام معاملات اُس کے حوالے کر دیے جائیں۔ تورات میں بھی یہ تعلیم جگہ جگہ اور نہایت واضح الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔ دین کی تعلیمات میں اِس کی حیثیت ایک مرکز ثقل کی ہے اور تمام شریعت کی بنیاد بھی یہی ہے۔
۱۱۸؎ مطلب یہ ہے کہ تم اُنھی باقیات الصالحات کی اولاد ہو جو توحید پر سچے ایمان کی وجہ سے کشتی پر سوار کرائے گئے اور خداکے عذاب سے بچا لیے گئے تھے۔ اپنی یہ تاریخ ہمیشہ یاد رکھو اور اپنے ابوالآبا نوح علیہ السلام کی طرح تم بھی خدا کے شکر گزار بندے بن کر اُس کی توحید پر قائم رہو۔
۱۱۹؎ اصل الفاظ ہیں:’وَقَضَیْنَآ اِلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ‘۔ اِن میں ’قَضَیْنَا‘ کے بعد ’اِلٰی‘ کا تقاضا ہے کہ اُسے کسی ایسے فعل پرمتضمن مانا جائے جو اِس صلہ سے مناسبت رکھنے والا ہو۔ یہ ’أبلغنا‘ یا اِس کے ہم معنی کوئی فعل ہو سکتا ہے۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔
۱۲۰؎ یعنی خدا کے مقابلے میں سرکشی دکھاؤ گے اور اُس کی شریعت سے بغاوت کردو گے۔ قرآن میں لفظ ’فَسَاد‘ اِس مفہوم کے لیے بھی آیا ہے۔ اِس کے بعد ’فنعذبکم مرتین‘ یا اِس کے ہم معنی الفاظ آیت میں حذف ہو گئے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بات بالکل واضح بھی تھی اور آگے جو کچھ بیان ہوا ہے، وہ بھی اِسی پر دلالت کررہا تھا۔ تورات میں یہ تنبیہ اور اِس کے نتیجے میں ملنے والی سزا کی تفصیلات استثنا کے باب ۲۸ میں دیکھ لی جا سکتی ہیں۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
”...اور چونکہ تو باوجود سب چیزوں کی فراوانی کے فرحت اور خوش دلی سے اپنے خدا کی عبادت نہیں کرے گا، اِس لیے بھوکا اور پیاسا اور ننگا اور سب چیزوں کا محتاج ہو کر تو اپنے دشمنوں کی خدمت کرے گا،جن کو خداوند تیرے برخلاف بھیجے گا اور غنیم تیری گردن پر لوہے کا جو آ رکھے رہے گا، جب تک وہ تیرا ناس نہ کر دے۔ خداوند دور سے، بلکہ زمین کے کنارے سے ایک قوم کو تجھ پر چڑھا لائے گا جیسے عقاب ٹوٹ کر آتا ہے۔ اُس قوم کی زبان کو تو نہیں سمجھے گا۔ اُس قوم کے لوگ ترش رو ہوں گے جو نہ بڈھوں کا لحاظ کریں گے نہ جوانوں پر ترس کھائیں گے۔ اور وہ تیرے چوپایوں کے بچوں اور تیری زمین کی پیداوار کو کھاتے رہیں گے، جب تک تیرا ناس نہ ہو جائے۔ اور وہ تیرے لیے اناج یا مے یا تیل یا گاے بیل کی بڑھتی یا تیری بھیڑ بکریوں کے بچے کچھ نہیں چھوڑیں گے، جب تک وہ تجھ کو فنا نہ کر دیں۔ اور وہ تیرے تمام ملک میں تیرا محاصرہ تیری ہی بستیوں میں کیے رہیں گے، جب تک تیری اونچی اونچی فصیلیں جن پر تیرا بھروسا ہو گا، گر نہ جائیں۔ تیرا محاصرہ وہ تیرے ہی اُس ملک کی سب بستیوں میں کریں گے جسے خداوند تیرا خدا تجھ کو دیتا ہے۔“(۴۷-۵۲)
”...اور چونکہ تو خداوند اپنے خدا کی بات نہیں سنے گا، اِس لیے کہاں تو تم کثرت میں آسمان کے تاروں کی مانند ہو اور کہاں شمار میں تھوڑے ہی سے رہ جاؤ گے۔ تب یہ ہو گا کہ جیسے تمھارے ساتھ بھلائی کرنے اور تم کو بڑھانے سے خداوندخوشنود ہوا، ایسے ہی تم کو فنا کرانے اور ہلاک کر ڈالنے سے خداوند خوشنود ہو گا اور تم اُس ملک سے اکھاڑ دیے جاؤ گے، جہاں تو اُس پر قبضہ کرنے جا رہا ہے۔ اور خداوند تجھ کو زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تمام قوموں میں پراگندہ کرے گا۔“ (۶۲-۶۴)
اِس کے بعد بنی اسرائیل کے انبیا اُنھیں متنبہ کرتے رہے۔ چنانچہ پہلے فساد پر اُن کی تنبیہات زبور، یسعیاہ، یرمیا اور حزقی ایل میں اور دوسرے فساد پر سیدنا مسیح علیہ السلام کی زبان سے متی اور لوقا کی انجیلوں میں موجود ہیں۔
۱۲۱؎ جملے کی ابتدا ’اِذَا‘ سے ہوئی ہے۔ یہ یہاں تصویر حال کے لیے آیا ہے۔ ’اِذَا‘ کے بارے میں یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ یہ جس طرح حال اور مستقبل کے لیے آتا ہے، اُسی طرح بیان سنت و عادت اور ماضی میں کسی صورت حال کی تصویر کے لیے بھی آتا ہے۔
۱۲۲؎ آیت میں ’بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ‘ کے الفاظ ہیں۔ ’بَعْث‘ کے بعد ’عَلٰی‘ دلیل ہے کہ یہ ابھارنے اور اٹھا کھڑا کرنے کے ساتھ ساتھ مسلط کر دینے کے مفہوم پر بھی متضمن ہو گیا ہے۔
۱۲۳؎ یہ اشارہ بابل و نینوا کے بادشاہ بخت نصر کے حملے کی طرف ہے جس نے ۵۸۶ قبل مسیح میں یہودیہ کے تمام بڑے شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور یروشلم اور ہیکل سلیمانی کو، جو یہود کی عظمت کا آخری نشان تھا، بالکل پیوند خاک کر دیا۔ آیت میں اِس کے لیے ’فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ استاذ امام کے الفاظ میں، یہ یہودکی انتہائی توہین و تذلیل کی تصویر ہے، اِس لیے کہ جب دشمن اتنا زور آور ہو کہ وہ گھروں کے اندر گھس پڑے تو اِس کے معنی یہ ہوئے کہ اُس نے عزت و ناموس، ہر چیز کو تاراج کر کے رکھ دیا۔ اِسی طرح بخت نصر کی فوجوں کے لیے ’عِبَادًا لَّنَآ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ‘(اپنے زور آور بندے) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”...یہ اُن کے دین اور تقویٰ کے اعتبار سے نہیں استعمال ہوئے ہیں، بلکہ صرف اِس حیثیت سے استعمال ہوئے ہیں کہ اُنھوں نے خدا کے ارادہ کے اجرا و نفاذ کے لیے آلہ و جارحہ کا کام دیا۔ یہ اگرچہ خود گندے تھے، لیکن گندگی کے ایک بہت بڑے ڈھیر کو صاف کرنے میں اُنھوں نے مشیت الٰہی کی تنفیذ کی، اِس وجہ سے اُنھیں بھی فی الجملہ خدا سے نسبت حاصل ہو گئی۔ بنی اسرائیل کو غرہ تھا کہ ’نَحْنُ اَبْنَآءُ اللّٰہِ وَاَحِبَّآءُ ہٗ‘ ہم خدا کے محبوب اور چہیتے ہیں۔ خدا نے اُن پر واضح کر دیا کہ جن جوتوں سے تم پٹے ہو، وہ تو خدا کی نظروں میں کچھ وقعت رکھتے ہیں، لیکن تم کوئی وقعت نہیں رکھتے۔“(تدبرقرآن۴/ ۴۸۲)
۱۲۴؎ ایک عرصے کی غلامی کے بعد یہود میں رجوع الی اللہ کی کیفیت پیدا ہوئی تو خدا نے دوبارہ اُن کی مدد کی۔ چنانچہ بابل کی سلطنت کو زوال ہوا اور ۵۳۹ قبل مسیح میں شاہ ایران سائرس نے کلدانیوں کو شکست دے کر اُن کے ملک پر قبضہ کر لیا۔ اِس کے بعد اُس نے یہود پر یہ عنایت کی کہ اُنھیں اپنے وطن واپس جانے اور وہاں دوبارہ آباد ہونے کی اجازت دے دی۔ یہود نے واپس آ کر ہیکل مقدس کو نئے سرے سے تعمیر کیا اور عزیر علیہ السلام کی رہنمائی میں اپنے آپ کو بڑی حد تک بحال کر لیا، جس کے بعد بنی اسرائیل کو خاصا فروغ حاصل ہوا۔ قرآن نے یہ اِسی فضل و عنایت کا ذکر کیاہے۔
۱۲۵؎ یہ الفاظ اصل میں محذوف ہیں۔ آیت میں ’لِیَسُوْٓءٗ ا‘کا لام انگلی اٹھا کر اِن کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
۱۲۶؎ یہ اُس تباہی کا ذکر ہے جو مسیح علیہ السلام کی طرف سے اتمام حجت کے بعد ۰۷ء میں رومی بادشاہ تیتس (Titus)کے ہاتھوں یہود پر آئی۔ اِس موقع پر ہزاروں مارے گئے، ہزاروں غلام بنائے گئے، ہزاروں کو پکڑ کر مصری کانوں میں کام کرنے کے لیے بھیج دیا گیا اور ہزاروں ایمفی تھیئٹروں اور کلوسیموں میں لوگوں کی تفریح طبع کے لیے جنگلی جانوروں سے پھڑوانے یا شمشیر زنوں کے کھیل کا تختہئ مشق بننے کے لیے مختلف شہروں میں بھیج دیے گئے۔ تمام دراز قامت اور حسین لڑکیاں فاتحین نے اپنے لیے چن لیں اور یروشلم کا شہر اور اُس کی مسجد، سب زمیں بوس کر دیے گئے۔
۱۲۷؎ یعنی جو حقائق کو اِس طرح بہ چشم سر دیکھ لینے کے بعد بھی انکار کر دیں۔ یہ اُن یہود کو براہ راست خطاب فرمایا ہے جو قرآن کی مخالفت میں منکرین قریش کے ہم نوا ہو کر اُن کی پشت پناہی کر رہے تھے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”اِس آیت کے تیور لحاظ رکھنے کے قابل ہیں۔ پہلے توبات غائب کے صیغے سے فرمائی۔ پھر ’اِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا‘ میں متکلم کا صیغہ آ گیا۔ پہلے ٹکڑے میں بے پروائی کا انداز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم یہ صحیح راہ اختیار کر لو گے تو اپنے ہی کو نفع پہنچاؤ گے، اور اگر نہ اختیار کرو گے تو اپنی ہی شامت کو دعوت دو گے، خدا کا کچھ نہیں بگاڑو گے۔ دوسرے ٹکڑے میں نہایت ہی سخت وعید ہے۔ اِس وجہ سے اول تو متکلم کا صیغہ آیا جو تہدید و وعید کے لیے زیادہ موزوں ہے، پھر اُس میں ابہام و اجمال بھی ہے۔ یہ تو بتایا کہ ہم لوٹیں گے، یہ نہیں بتایا کہ ہم کس شکل میں لوٹیں گے۔ یہ بات سمجھنے والوں کی سمجھ پر چھوڑ دی ہے اور اِس جملے کی ساری شدت اِس ابہام کے اندر مضمر ہے۔“(تدبرقرآن۴/ ۴۸۳)
[باقی]
___________________