HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: النحل ۱۶: ۱۰۶- ۱۲۸ (۸)

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْم بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَءِنٌّم بِالْاِیْمَانِ وَلٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْھِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(۱۰۶) ذٰلِکَ بِاَنَّھُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا عَلَی الْاٰخِرَۃِ وَاَنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ(۱۰۷) اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَسَمْعِھِمْ وَاَبْصَارِھِمْ وَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ(۱۰۸) لَا جَرَمَ اَنَّھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ ھُُمُ الْخٰسِرُوْنَ(۱۰۹)
ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا مِنْم بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰھَدُوْا وَصَبَرُوْٓا اِنَّ رَبَّکَ مِنْم بَعْدِھَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۱۰) یَوْمَ تَاْتِیْ کُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِھَا وَتُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَھُمْ لَا یُظْلَمُوْن(۱۱۱)
وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَءِنَّۃً یَّاْتِیْھَا رِزْقُھَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰہِ فَاَذَاقَھَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ(۱۱۲) وَلَقَدْ جَآءَ ھُمْ رَسُوْلٌ مِّنْھُمْ فَکَذَّبُوْہُ فَاَخَذَھُمُ الْعَذَابُ وَھُمْ ظٰلِمُوْنَ(۱۱۳)
فَکُلُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ حَلٰلاً طَیِّبًا وَّاشْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ(۱۱۴) اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۱۵) وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ(۱۱۶) مَتَاعٌ قَلِیْلٌ وَّلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۱۷)
وَعَلَی الَّذِیْنَ ھَادُوْا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ وَمَا ظَلَمْنٰھُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ(۱۱۸)
 ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیْنَ عَمِلُوا السُّوْٓءَ بِجَھَالَۃٍ ثُمَّ تَابُوْا مِنْم بَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْٓا اِنَّ رَبَّکَ مِنْ م بَعْدِھَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۱۹) 
اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلّٰہِ حَنِیْفًا وَلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ(۱۲۰) شَاکِرًا لِّاَنْعُمِہٖ اِجْتَبٰہُ وَھَدٰہُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۱۲۱) وَاٰتَیْنٰہُ فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَاِنَّہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۲۲) ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ(۱۲۳) 
اِنَمَّا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَی الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ وَاِنَّ رَبَّکَ لَیَحْکُمُ بَیْنَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ(۱۲۴) 
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ(۱۲۵) وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ وَلَءِنْ صَبَرْتُمْ لَھُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ(۱۲۶) وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ اِلَّا بِاللّٰہِ وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْھِمْ وَلَاتَکُ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُوْنَ(۱۲۷) اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ(۱۲۸)
(ایمان والو، تم میں سے) جو اپنے ایمان لانے کے بعد اللہ سے کفر کریں گے، اُنھیں اگر مجبور کیا گیا ہو اور اُن کا دل ایمان پر مطمئن ہو، (تب تو کچھ مواخذہ نہیں) مگر جو کفر کے لیے سینہ کھول دیں گے، اُن پر اللہ کا غضب ہے اور اُنھیں بڑی سزا ہو گی۔ یہ اِس لیے کہ اُنھوں نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو ترجیح دی اور اِس لیے کہ اِس طرح کے منکرلوگوں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۸۶؎۔ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں اور کانوں اور آنکھوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے۸۷؎ اور یہی ہیں جو (آخرت سے) غافل ہیں۔ لازم ہے۸۸؎ کہ آخرت میں یہی خسارے میں ہوں گے۔۱۰۶-۱۰۹
پھر(اِس کے برخلاف) جنھوں نے ہجرت کی، اِس کے بعد کہ وہ آزمایشوں میں ڈالے گئے، پھر (اللہ کی راہ میں) جدوجہد کی اور ثابت قدمی دکھائی،۸۹؎ تیرا پروردگار، اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ تیرا پروردگار(اُن کی) اِن سب باتوں کے بعد بڑا ہی بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۹۰؎۔ اُس دن، جب ہر شخص اپنی مدافعت میں بولتا ہوا آئے گا اور ہر شخص کو پورا پورا وہی بدلہ ملے گا جو اُس نے کیا ہو گا اور لوگوں کے ساتھ کوئی ظلم نہ ہو گا۔ ۱۱۰-۱۱۱
(قریش کے لوگو)، اللہ (تمھارے لیے) اُس بستی کی مثال پیش کرتا ہے۹۱؎ جو امن و اطمینان کی زندگی بسر کر رہی تھی۔ اُس کا رزق اُس کو ہر طرف سے فراغت کے ساتھ پہنچ رہا تھا۔ پھر اُس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی، تب اللہ نے اُس کے باشندوں کے کرتوتوں کی پاداش میں اُس کو بھوک کا مزہ چکھایا اور خوف کا لباس پہنا دیا۹۲؎۔ اُن کے پاس اُنھی میں سے ایک رسول آیا تھا تو اُنھوں نے اُسے جھٹلا دیا۔ پھر اُنھیں عذاب نے پکڑ لیا اور وہ اپنی جانوں پر خود ظلم ڈھانے والے تھے۹۳؎۔۱۱۲-۱۱۳
سو (اُن کے اِس انجام سے سبق لو اور) اللہ نے جو حلال اور پاکیزہ چیزیں تمھیں دے رکھی ہیں، اُنھیں کھاؤ اور اللہ کی نعمت کا شکر اداکرو۹۴؎، اگرتم اُسی کی پرستش کرتے ہو۹۵؎۔ اُس نے تو تم پر صرف مردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ حرام ٹھیرایا ہے۹۶؎۔ اِس پر بھی جو مجبور ہو جائے، اِس طرح کہ نہ چاہنے والا ہو، نہ حد سے بڑھنے والا۹۷؎ تواللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ تم اپنی زبانوں کے گھڑے ہوئے جھوٹ کی بنا پر یہ نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اِس طرح اللہ پر جھوٹ باندھنے لگو۔ (یاد رکھو) جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھیں گے، وہ ہرگز فلاح نہ پائیں گے۔ یہ چند روزہ عیش ہے اور (اِس کے بعد) ایک دردناک عذاب اُن کا منتظر ہے۔ ۱۱۴-۱۱۷
اور جو یہودی ہیں، اُن پر بھی ہم نے وہی چیزیں حرام کی تھیں جو (اوپر) اِس سے پہلے ہم تمھیں بتا چکے ہیں۔ (اِس کے علاوہ جو کچھ ہے، وہ) ہم نے اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا، بلکہ وہ خود اپنے اوپر ظلم کرتے رہے ہیں ۹۸؎۔۱۱۸
پھر اُن کے لیے جو جذبات سے مغلوب ہو کر برائی کر بیٹھیں ۹۹؎، پھر اُس کے بعد توبہ کریں اور اپنی اصلاح کر لیں تو اِس کے بعد،(اے پیغمبر)، تیرا پروردگار،اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ تیرا پروردگاربڑا ہی بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۱۰۰؎۔ ۱۱۹
(اپنے اوہام کو یہ ابراہیم کی طرف منسوب نہ کریں)، حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم (اپنی جگہ) ایک الگ امت تھا۱۰۱؎، اللہ کا فرماں بردار اور یک سو اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا۔ وہ اُس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا تھا۱۰۲؎۔ اللہ نے اُس کو برگزیدہ کیا اور اُس کی رہنمائی ایک سیدھی راہ کی طرف فرمائی تھی۔ ہم نے اُس کو دنیا میں بھی بھلائی عطا کی۱۰۳؎ اور آخرت میں بھی وہ یقینا صالحین میں سے ہو گا۔ پھر (یہی وجہ ہے کہ) ہم نے تمھاری طرف وحی کی کہ اِسی ابراہیم کے طریقے کی پیروی کرو،۱۰۴؎ جو بالکل یک سو تھا اور مشرکوں میں سے نہیں تھا۔ ۱۲۰-۱۲۳
(سبت کی حرمت کا بھی ابراہیم سے کوئی تعلق نہیں ہے)۔ یہ سبت تو درحقیقت اُنھی لوگوں پر عائد کیا گیا تھا۱۰۵؎ جنھوں نے (اپنی موشگافیوں سے) اِس میں اختلافات پیدا کر لیے۔ تیرا پروردگار یقینا قیامت کے دن اُن کے درمیان اُن سب چیزوں کے بارے میں فیصلہ کر دے گا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔ ۱۲۴
تم، (اے پیغمبر)، اپنے پروردگار کے راستے کی طرف دعوت دیتے رہو حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ، اور اِن کے ساتھ اُس طریقے سے بحث کرو جو پسندیدہ ہے۔ یقینا تیرا پروردگار خوب جانتا ہے کہ کون اُس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور وہ اُن کو بھی خوب جانتا ہے جو ہدایت پانے والے ہیں۔ اگر تم لوگ (کسی وقت) بدلہ لو تو اتنا ہی بدلہ لو جتنا تمھارے ساتھ کیا گیا ہے، لیکن اگر صبر کرو تو صبر کرنے والوں کے لیے یہ بہت ہی بہتر ہے۱۰۶؎۔ (اے پیغمبر)، صبر کرو۱۰۷؎     اور تمھیں یہ صبر خدا کے تعلق ہی سے حاصل ہو سکتا ہے۱۰۸؎     تم اِن پر غم نہ کرو اور جو چالیں یہ چل رہے ہیں، اُن سے دل تنگ نہ ہو۔ بے شک، اللہ اُن لوگوں کے ساتھ ہے جنھوں نے تقویٰ اختیار کیا اور جوخوبی سے عمل کرنے والے ہیں ۱۰۹؎۔ ۱۲۵-۱۲۸

۸۶؎ یعنی اُن کو ہدایت نہیں دیا کرتا جو ایمان و اسلام کی صداقت کو سمجھتے ہیں، مگر مشکلات سے گھبرا کر کفر ہی کو اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں۔ اللہ اپنی ہدایت کی راہ اُنھی لوگوں کے لیے کھولتا ہے جو اِس طرح کے حالات میں اگر کبھی بے بس بھی ہو جائیں تو اِس سے آگے نہیں بڑھتے کہ زبان سے کوئی ایسا کلمہ نکال دیں جو وقتی طور پر اُنھیں کسی مصیبت سے بچا لے۔

۸۷؎ یعنی اُن کے اِس جرم کی پاداش میں مہر لگا دی ہے کہ اُنھوں نے اِس کے باوجود انکار کر دیا کہ اسلام کی صحت و صداقت اُن پر واضح تھی۔ یہ ہدایت و ضلالت کے باب میں اُس سنت الہٰی کا اطلاق ہے جس کی وضاحت ہم سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۷ کے تحت کر چکے ہیں۔

۸۸؎ اصل میں ’لَاجَرَمَ‘کا لفظ آیا ہے۔ یہ ’لابد‘ اور ’لامحالۃ‘ کے معنی میں کسی بات کی تاکید کے لیے آتا ہے، لیکن موقع کا تقاضا ہو تو اِس کے اندر قسم کا زور بھی پیدا ہو جاتا ہے۔

۸۹؎ یہ مہاجرین حبشہ کی طرف اشارہ ہے اور اللہ کی راہ میں جدوجہد سے اُن کی وہ جاں بازیاں مراد ہیں جو اُنھوں نے دین پر استقامت کے معاملے میں دکھائیں۔

۹۰؎ یعنی اُن سے اگر کوئی لغزش یا فروگذاشت ہوئی بھی ہے تو اِن اعمال کے صلے میں اللہ اُسے معاف کر دے گا اور اُنھیں اپنی رحمت سے نوازے گا۔

۹۱؎ یہ ہر اُس بستی کی مثال ہے جس کی طرف کسی رسول کی بعثت ہوئی۔ قریش کے لیے اِس کا سب سے نمایاں مصداق وہ بستیاں تھیں جن کی تباہی کی داستانیں اُن کے ہاں ضرب المثل بن چکی تھیں۔

۹۲؎ اصل الفاظ ہیں: ’فَاَذَاقَھَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ‘۔اِس میں عربیت کے اسلوب پر جملے کے کچھ حصے حذف ہو گئے ہیں، اُنھیں کھول دیجیے تو پوری بات اِس طرح ہو گی:’فَأَذَاقَھَا اللّٰہُ طُعْمَ الْجُوْعِ وَأَلْبَسَھَا لِبَاسَ الْخَوْفِ‘۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔

۹۳؎ مطلب یہ ہے کہ ہم نے اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا۔ اُن کے ساتھ یہ جو کچھ ہوا، خود اُنھی کا ظلم تھا جو اُنھوں نے اپنے اوپر کیا تھا۔

۹۴؎ یعنی کسی حلال اور پاکیزہ چیز کو اپنے مشرکانہ اوہام کے تحت حرام نہ ٹھیراؤ۔ یہ کفران نعمت ہے اور اہل سبا اِسی کے مرتکب ہو کر اُس انجام کو پہنچے تھے جس کا ذکر پیچھے ہوا ہے۔

۹۵؎ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ تمام مشرکانہ خرافات میں مبتلا ہونے کے باوجود قریش مکہ کا دعویٰ یہی تھا کہ وہ خدا ہی کی پرستش کرتے ہیں اور بتوں کو صرف اِس لیے پوجتے ہیں کہ وہ اُنھیں خدا کے قریب کر دیں گے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”...اُن کا زعم یہ تھا کہ یہ خدا کے مقرب اور چہیتے ہیں۔ اگر یہ راضی رہیں تو خدا سے سفارش کرکے اپنے پرستاروں کو جو چاہیں،دلوا سکتے ہیں۔ اِسی زعم کے تحت وہ اُن کو نذرانے اور چڑھاوے پیش کرتے اور اُن کے نام پر جانور چھوڑتے جن کو تقدس کا یہ درجہ حاصل ہو جاتا کہ نہ اُن کا دودھ اور گوشت کھانا جائز ہوتا اور نہ اُن پر سواری کی جا سکتی۔ قرآن نے اُن کے اِسی مغالطے کو یہاں رفع کیا ہے کہ اگر خدا ہی کی پرستش کا دعویٰ ہے تو اُس کی نعمتوں پر اُسی کا شکر ادا کرو۔ اُس کی بخشی ہوئی نعمتوں کو نہ دوسروں کی طرف منسوب کرو، نہ اُن کے لیے اُن کی قربانی پیش کرو، نہ اُن کے نام پر اُن کو حرام و حلال ٹھیراؤ۔“(تدبرقرآن۴/ ۴۵۹)

۹۶؎ یعنی اُن چیزوں میں سے جنھیں کھانے والے من جملہ طیبات سمجھ کر کھا سکتے تھے، یہی چار چیزیں حرام ٹھیرائی ہیں۔ خون کو اِس لیے کہ درندگی کی طرف مائل کرتا ہے، مردار کو اِس لیے کہ طبعی موت مرنے سے خون رگوں ہی میں رہ جاتا ہے، سؤر کو اِس لیے کہ اگرچہ انعام کی قسم کے بہائم میں سے ہے، مگر درندوں کی طرح گوشت بھی کھاتا ہے اور ذبیحہ لغیر اللہ کو اِس لیے کہ یہ صریح شرک ہے جس کا ارتکاب وہی کر سکتے ہیں جو خدا سے سرکش ہو گئے ہوں۔ رہے خبائث تو اُن کے لیے کسی تعیین و تصریح کی ضرورت نہیں ہے، اِس لیے کہ وہ ممنوعات فطرت ہیں اور انسان ہمیشہ سے جانتا ہے کہ اُن سے اُس کو اجتناب کرنا ہے۔

۹۷؎ اصل الفاظ ہیں: ’غَیْرَ بَاغٍ وَّلاَعَادٍ‘۔ اِن میں ’بَاغٍ‘ ’بغی یبغی‘ سے اسم فاعل ہے۔ اِس پر ’عَادٍ‘ کے عطف سے واضح ہے کہ اِس کے معنی یہاں چاہنے اور طلب کرنے ہی کے ہیں۔ یہ اُس حالت اضطرار کے لیے رخصت ہے جو کھانے کی کوئی چیز میسر نہ ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔

۹۸؎ اشارہ ہے اُن چیزوں کی طرف جو یہود کو اُن کی سرکشی کی سزا دینے کے لیے اُن پر حرام کی گئیں، اِس لیے کہ اُنھوں نے خدا اور اُس کے احکام سے بے پروا ہو کر یہ چیزیں اپنے جی سے اپنے اوپر حرام کر لی تھیں۔ چنانچہ خدا نے بھی اُن کے اوپر اِنھیں حرام ٹھیرا دیا۔

۹۹؎ اصل میں لفظ ’جَھَالَۃ‘استعمال ہوا ہے۔ اِس کے معنی اگرچہ نہ جاننے کے بھی آتے ہیں، لیکن اِس کا غالب استعمال جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی شرارت یا کسی گناہ کا ارتکاب کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ چنانچہ عربی زبان میں یہ لفظ عام طور پر علم کے بجاے حلم کے ضد کے طور پر آتا ہے۔ یہاں بھی قرینہ دلیل ہے کہ یہ اِسی معنی میں آیا ہے۔

۱۰۰؎ اوپر کی تنبیہات کے بعد توبہ وا صلاح کی یہ دعوت جس اسلوب میں دی گئی ہے، اُس کی بلاغت کو ہر صاحب ذوق محسوس کر سکتا ہے۔

۱۰۱؎ مطلب یہ ہے کہ نہ وہ یہودی تھا نہ نصرانی، بلکہ اِن سے الگ اپنی ایک خاص حیثیت رکھتا تھا اور محض ایک فرد نہیں، بلکہ ایک ایسی شخصیت تھا جس سے خدا کے دین کی عالمی شہادت کے لیے ایک عظیم امت وجود میں آئی۔

۱۰۲؎ چنانچہ یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ کفران نعمت کا مرتکب ہو اور خدا کے پیدا کیے ہوئے جانوروں کو اصنام و انصاب کی طرف منسوب کرکے اُن کی تحلیل و تحریم کے فیصلے کرے، جس طرح کہ تم کر رہے ہو۔

۱۰۳؎ یہ اُس مال و جاہ اور شوکت و حشمت کی طرف اشارہ ہے جو اُنھیں بابل سے ہجرت کے بعد اِسی دنیا میں حاصل ہوئی اور اُن کی اولاد کے لیے ممکن ہو گیا کہ وہ بتدریج اُس علاقے کی مالک بن جائے جس میں اُنھوں نے اُسے آباد کیا تھا۔

۱۰۴؎ یعنی دین کو ٹھیک اُس طریقے پر قائم کر دو، جہاں ابراہیم علیہ السلام نے اُسے چھوڑا تھا۔ چنانچہ تمھارے عقائد و اعمال میں نہ شرک کا کوئی شائبہ ہونا چاہیے اور نہ یہود و نصاریٰ اور مشرکین عرب کی بدعتوں کا۔ تم نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دوسرے تمام دینی اعمال اور رسوم و آداب کو ہر آمیزش سے پاک کرکے بالکل اُسی صورت میں جاری کرو، جس طرح وہ ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں انجام دیے جاتے تھے۔ حلال و حرام کے معاملے میں بھی ہر چیز ٹھیک اپنی اصل پر آجانی چاہیے اور ہر شخص پر واضح ہو جانا چاہیے کہ ملت ابراہیم کے پیرو درحقیقت تمھی ہو، تمھارے مخالفین کا ابراہیم علیہ السلام اور اُن کی ملت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ 

یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ دین کا جو حصہ اِس وقت سنت کہلاتا ہے، وہ اِسی حکم کے تحت جاری کیا گیا ہے، لہٰذا اُسی طرح واجب الاطاعت ہے، جس طرح قرآن کی دوسری ہدایات واجب الاطاعت ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اِس کی تجدید و اصلاح اور اِس میں بعض اضافوں کے ساتھ اِس کے جو احکام مسلمانوں کے اجماع اور تواتر سے منتقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں:

۱۔ نماز۔۲۔ زکوٰۃ اور صدقہئ فطر۔۳۔ روزہ و اعتکاف۔۴۔ حج و عمرہ۔۵۔ قربانی اور ایام تشریق کی تکبیریں۔۶۔ نکاح و طلاق اور اُن کے متعلقات۔ ۷۔حیض و نفاس میں زن و شو کے تعلق سے اجتناب۔ ۸۔ سؤر، خون، مردار اور خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کی حرمت۔ ۹۔اللہ کا نام لے کر جانوروں کا تذکیہ۔ ۱۰۔ اللہ کا نام لے کر اور دائیں ہاتھ سے کھانا پینا۔ ۱۱۔ملاقات کے موقع پر ’السلام علیکم‘اور اُس کا جواب۔۱۲۔ چھینک آنے پر ’الحمدللہ‘اور اُس کے جواب میں ’یرحمک اللہ‘۔۱۳۔مونچھیں پست رکھنا۔ ۱۴۔ زیر ناف کے بال کاٹنا۔ ۱۵۔بغل کے بال صاف کرنا۔ ۱۶۔ بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا۔ ۱۷۔لڑکوں کا ختنہ کرنا۔۱۸۔ ناک،منہ اور دانتوں کی صفائی۔ ۱۹۔استنجا۔ ۲۰۔ حیض و نفاس کے بعد غسل۔ ۲۱۔غسل جنابت۔ ۲۲۔میت کا غسل۔ ۲۳۔تجہیز و تکفین۔۲۴۔تدفین۔۲۵۔عید الفطر۔ ۲۶۔عید الاضحی۔

۱۰۵؎ یعنی یہود پر جنھوں نے اپنے اختلافات سے اِس دن کی حرمت برباد کی اور اللہ تعالیٰ نے اِس کے نتیجے میں سبت کے احکام اُن کے لیے سخت سے سخت تر کر دیے۔ اِس کی تفصیلات، اگر کوئی شخص چاہے تو بائیبل میں خروج، گنتی، یرمیاہ اور حزقی ایل کی کتابوں میں دیکھ سکتا ہے۔

۱۰۶؎ دعوت دین کے لیے یہی چیزیں لائحۂ عمل کی اساس ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا جو حکم اِن آیتوں میں بیان ہوا ہے، وہ درج ذیل نکات پر مبنی ہے:

ایک یہ کہ دعوت ہمیشہ حکمت و موعظت اور مجادلۂ احسن کے اسلوب میں پیش کرنی چاہیے۔ حکمت سے مراد اِن آیات میں دلائل و براہین ہیں اور موعظت حسنہ سے دردمندانہ تذکیر و نصیحت۔ مدعا یہ ہے کہ داعی جو بات کہے، وہ دلیل و برہان اور علم و عقل کی روشنی میں کہے اور اُس کا انداز چڑھ دوڑنے اور دھونس جمانے کا نہیں، بلکہ خیرخواہی اور شفقت و محبت کے ساتھ توجہ دلانے کا ہونا چاہیے۔ یہاں تک کہ بحث و مباحثہ کی نوبت بھی اگر آجائے تو اُس کے لیے پسندیدہ طریقے اختیار کیے جائیں اور اِس کے جواب میں حریف اشتعال انگیزی پر اتر آئے تو اُس کی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے بجاے داعی حق ہمیشہ مہذب اور شایستہ ہی رہے۔

دوسرے یہ کہ داعی کی ذمہ داری صرف دعوت تک محدود ہے، یعنی بات پہنچا دی جائے، حق کو ہر پہلو سے واضح کر دیا جائے اور ترغیب و تلقین میں اپنی طرف سے کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جائے۔ اُس نے اگر اپنا یہ فرض صحیح طریقے سے ادا کر دیا تو وہ اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہوا۔ لوگوں کی ہدایت و ضلالت کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ وہ اُن کو بھی جانتا ہے جو اُس کی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں اور اُن کو بھی جو ہدایت پانے والے ہیں۔ لہٰذا ہر ایک کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا جس کا وہ مستحق ہو گا۔ داعی کو نہ داروغہ بننا چاہیے، نہ اپنے مخاطبین کے لیے جنت اور جہنم کے فیصلے صادر کرنے چاہییں۔ یہ سب معاملات اللہ تعالیٰ سے متعلق ہیں۔ داعی حق کی ذمہ داری صرف ابلاغ ہے۔ اُسے چاہیے کہ اپنی اِس ذمہ داری سے وہ ہرگز کوئی تجاوز نہ کرے۔

تیسرے یہ کہ دعوت کے مخاطبین اگر ظلم و زیادتی اور ایذا رسانی پر اتر آئیں تو داعی کو اخلاقی حدود کے اندر رہتے ہوئے اتنا بدلہ لینے کا حق ہے جتنی تکلیف اُسے پہنچائی گئی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کو پسند یہی ہے کہ صبر سے کام لیا جائے۔ اِس صبر کے معنی یہ ہیں کہ حق کے داعی ہر اذیت برداشت کر لیں، لیکن نہ انتقام کے لیے کوئی اقدام کریں، نہ مصیبتوں اور تکلیفوں سے گھبرا کر اپنے موقف میں کوئی ترمیم و تغیر کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اِس موقع پر صبر کرنے والوں کے لیے بڑی نعمت کا وعدہ ہے۔ اِس کا نتیجہ دنیا میں بھی اُن کے لیے بہترین صورت میں ظاہر ہو گا اور قیامت میں بھی خدا نے چاہا تو وہ اِس کے بہترین نتائج دیکھیں گے۔

۷۰۱؎ یہ خطاب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، لیکن سیاق سے واضح ہے کہ آپ کے واسطے سے یہ تمام مسلمانوں کو ہدایت کی جا رہی ہے۔

۱۰۸؎ یہ صبر کی ہدایت کے ساتھ صبر حاصل کرنے کی تدبیر بھی بتا دی ہے کہ اِس کے لیے اپنا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ بڑھانا چاہیے۔ قرآن کے دوسرے مقامات میں تصریح ہے کہ اِس کا ذریعہ خدا کا ذکر ہے اور ذکر کا سب سے اعلیٰ طریقہ نماز ہے۔ قرآن میں نماز تہجد کے اہتمام کی تاکید اِسی مقصد سے فرمائی گئی ہے۔

۱۰۹؎ یعنی ہر کام اِس طرح کرتے ہیں کہ اُس کے دوران میں اپنے آپ کو خدا کے حضور میں سمجھتے ہیں۔

_______________________

B