بسم اللہ الرحمن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
وَاَوْفُوْا بِعَھْدِ اللّٰہِ اِذَا عٰھَدْتُّمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیْدِھَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰہَ عَلَیْکُمْ کَفِیْلاً اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ(۹۱) وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَھَا مِنْم بَعْدِ قُوَّۃٍ اَنْکَاثًا تَتَّخِذُوْنَ اَیْمَانَکُمْ دَخَلاًم بَیْنَکُمْ اَنْ تَکُوْنَ اُمَّۃٌ ھِیَ اَرْبٰی مِنْ اُمَّۃٍ اِنَّمَا یَبْلُوْکُمُ اللّٰہُ بِہٖ وَلَیُبَیِّنَنَّ لَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ(۹۲)
وَلَوْشَآءَ اللّٰہُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلٰکِنْ یُّضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَیَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ وَلَتُسْءَلُنَّ عَمَّا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۹۳)
وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اَیْمَانَکُمْ دَخَلاًم بَیْنَکُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌم بَعْدَ ثُبُوْتِھَا وَتَذُوْقُوا السُّوْٓءَ بِمَا صَدَدْتُّمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَکُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(۹۴) وَلَا تَشْتَرُوْا بِعَھْدِ اللّٰہِ ثَمَنًا قَلِیْلاً اِنَّمَا عِنْدَ اللّٰہِ ھُوَ خَیْرٌلَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۹۵)
مَا عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ بَاقٍ وَلَنَجْزِیَنَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْٓا اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۹۶) مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِےَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۹۷)
فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ(۹۸) اِنَّہٗ لَیْسَ لَہٗ سُلْطٰنٌ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ(۹۹) اِنَّمَا سُلْطٰنُہٗ عَلَی الَّذِیْنَ یَتَوَلَّوْنَہٗ وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِہٖ مُشْرِکُوْنَ(۱۰۰)
وَاِذَا بَدَّلْنَآ اٰیَۃً مَّکَانَ اٰیَۃٍ وَّاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مُفْتَرٍ بَلْ اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(۱۰۱) قُلْ نَزَّلَہٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَھُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ(۱۰۲)
وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُہٗ بََشَرٌ لِسَانُ الَّذِیْ ےُلْحِدُوْنَ اِلَیْہِ اَعْجَمِیٌّ وَّھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ(۱۰۳) اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ لَا یَھْدِیْھِمُ اللّٰہُ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) اِنَّمَا یَفْتَرِی الْکَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْکٰذِبُوْنَ(۱۰۵)
تم۶۶؎ بھی، (اے اہل کتاب)، اللہ کے ساتھ (اپنے)عہد کو پورا کرو۶۷؎، جبکہ تم اُسے باندھ چکے ہو اور اپنی قسمیں اُن کے پختہ کر لینے کے بعد مت توڑو، جبکہ تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ ٹھیرا چکے ہو۔ بے شک، اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۶۸؎۔ تم اُس عورت کی طرح نہ ہو جاؤ جس نے اپنا سوت خوب مضبوط کاتا، پھر خود ہی اُسے تار تار ادھیڑ کے رکھ دیا۶۹؎۔ تم اپنی قسموں کو اِس اندیشے سے آپس میں فریب کا ذریعہ بناتے ہو کہ ایک امت کہیں دوسری امت سے بڑھ نہ جائے۷۰؎۔ خدا تو (اپنے) اِس (فیصلے) کے ذریعے سے تمھاری آزمایش کر رہا ہے۔ قیامت کے دن وہ ضرور اُس چیز کو تم پر اچھی طرح واضح کر دے گا جس میں اختلاف کر رہے ہو۔ ۹۱-۹۲
اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا، مگر (اُس نے تمھیں اختیار دیا ہے، اِس لیے اب) وہ جس کو چاہتا ہے(اُس کے برے استعمال کی وجہ سے) گمراہ کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے(اپنے قانون کے مطابق)۷۱؎ ہدایت بخشتا ہے۔ (اُس نے اپنی حجت تم پر پوری کر دی ہے، اِس لیے) جو کچھ تم کر رہے ہو، اُس کے بارے میں ضرور تم سے پوچھا جائے گا۔ ۹۳
تم اپنی قسموں کو آپس میں فریب کا ذریعہ نہ بناؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی قدم جمنے کے بعد اکھڑ جائے۷۲؎ اور تمھیں اِس جرم کی پاداش میں کہ تم نے (لوگوں کو) خدا کی راہ سے روکا ہے، عذاب (کا مزہ) چکھنا پڑے۷۳؎ اور (آخرت میں) تم ایک بڑے عذاب سے دوچار ہو جاؤ۔ تم اللہ کے عہد کو تھوڑی قیمت کے عوض نہ بیچو۷۴؎۔ (خدا کے بندو)، اگر تم جانو تو جو کچھ خدا کے پاس ہے، وہی تمھارے لیے بہتر ہے۔۹۴-۹۵
(یاد رکھو)، جو کچھ تمھارے پاس ہے، وہ (ایک دن) ختم ہو جائے گا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے، وہ باقی رہنے والا ہے۔ (یہ اعمال کا صلہ ہے) اور ہم اُن لوگوں کو جو (ہماری راہ میں) ثابت قدم رہے ہیں، اُن کے اعمال کے بدلے میں ضروراُن کا بہترین صلہ دیں گے۔۷۵؎جو شخص بھی کوئی اچھا عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۷۶؎، وہ اگر ایمان پر ہے تو ہم اُس کو (دنیا اور آخرت،دونوں میں) ایک پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے ۷۷؎اور ایسے لوگوں کو اُن کے اعمال کے بدلے میں ضرور اُن کا بہترین صلہ دیں گے۔ ۹۶-۹۷
(تم اِنھیں خبردار کرنا چاہتے ہو)، سو (اِس کے لیے) جب (اِن کے سامنے) قرآن پڑھو تو (پہلے) شیطان مردود سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو۷۸؎۔ (وہ لازماً وسوسہ اندازی کرے گا، مگر یاد رکھو)، اُس کا اُن لوگوں پر کچھ زور نہیں چلتا جو ایمان لائے ہوئے ہیں اور اپنے پروردگار ہی پر بھروسا رکھتے ہیں۔ اُس کا زور تو اُنھی پر چلتا ہے جو اُس سے دوستی رکھتے اور اپنے پروردگار کے شریک ٹھیراتے ہیں۔۹۸-۱۰۰
(تم دیکھتے ہو کہ) جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت نازل کرتے ہیں ۷۹؎ اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ نازل کرتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ (یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ) تم توخود گھڑ لاتے ہو۸۰؎۔ (نہیں)، بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) اِن میں سے اکثر جانتے نہیں ہیں (کہ اِس میں کیا حکمت پیش نظر ہوتی ہے)۔ اِن سے کہہ دو، اِس کو تو روح القدس نے تیرے پروردگار کی طرف سے حق کے ساتھ اتارا ہے۸۱؎ تاکہ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھے ۸۲؎اور اُن کے لیے یہ ہدایت اور بشارت ہو جو (خدا کے) فرماں بردار ہیں ۸۳؎۔ ۱۰۱-۱۰۲
ہم اچھی طرح جانتے ہیں ۸۴؎ کہ یہ (تمھارے متعلق) کہتے ہیں کہ اِسے تو ایک آدمی سکھاتا ہے۔ یہ جس کی طرف منسوب کرتے ہیں، اُس کی زبان عجمی ہے اور یہ (قرآن) فصیح عربی زبان (میں) ہے۸۵؎۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی آیتوں کو نہیں مانتے، اُنھیں اللہ کبھی صحیح بات تک پہنچنے کی توفیق نہیں دیتا اور (آگے بھی) اُن کے لیے دردناک سزا ہے۔ (ہمارے پیغمبر نے کوئی جھوٹ نہیں گھڑا، بلکہ) جھوٹ تو وہی لوگ گھڑ رہے ہیں جو اللہ کی آیتوں کو مانتے نہیں ہیں اور وہی درحقیقت جھوٹے ہیں۔۱۰۳-۱۰۵
۶۶؎ یہاں سے خطاب میں التفات ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”اوپر آیت ۸۸ میں قریش کے اُن اشرار کا ذکر گزر چکا ہے جو اللہ کے دین سے لوگوں کو روکنے کے لیے اپنا ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہے تھے۔ اب اِس ضمن میں نام لیے بغیر یہود کو مخاطب کر لیا ہے، اِس لیے کہ اِس مرحلے میں اُنھوں نے بھی اپنے تمام مکرو فریب کے ساتھ اللہ کی راہ سے روکنے کی اِس مہم کی پشت پناہی شروع کر دی تھی۔“ (تدبرقرآن۴/ ۴۴۱)
۶۷؎ یعنی اُس عہد کو جو موسیٰ علیہ السلام نے خدا کی شریعت کی پابندی اور بنی اسمٰعیل میں پیدا ہونے والے نبی امی کی تائید و نصرت کا تم سے لیا تھا۔ تورات درحقیقت اِسی عہد کا بیان ہے۔ چنانچہ اِسی بنا پر اُس کو ”عہد نامہ“ بھی کہا جاتا ہے۔
۶۸؎ چنانچہ کسی کے لیے ممکن نہیں ہے کہ خدا کے ساتھ باندھے ہوئے کسی عہد کی جواب دہی سے اپنے آپ کو بچا لے جائے۔
۶۹؎ مطلب یہ ہے کہ پہلے تم نے خدا سے عہد باندھا، پھر اُس کو اپنی قسموں سے خوب پختہ کیا، لیکن جب اُس کو پورا کرنے کا وقت آیا تو اُس کے ساتھ وہی کیا جو اگر کوئی عورت اپنا کاتا ہوا سوت خود ہی تار تار کرکے رکھ دے تو اپنے شب و روز کی محنت کے ساتھ کرے گی۔
اِس تمثیل میں لفظ ’اَلَّتِیْ‘آیا ہے۔ یہ اگرچہ معرفہ کے لیے آتا ہے، لیکن تمثیلات میں معرفہ بعض اوقات صرف اِس لیے لایا جاتا ہے کہ صورت حال کو نگاہوں کے سامنے مصورکر دیا جائے۔ اِس سے کسی متعین بڑھیا کو مراد لینے کی ضرورت نہیں۔
۷۰؎ آیت میں ’اَنْ‘سے پہلے ’مخافۃ‘ یا اِس کے ہم معنی کوئی لفظ محذوف ہے۔ یہود جو کچھ کر رہے تھے، اُس کا اصل محرک یہی تھا کہ بنی اسمٰعیل جنھیں وہ امی کہتے تھے، کہیں امامت و سیادت اور دولت و اقتدار میں اُن سے بڑھ نہ جائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں اُنھوں نے اِسی بنا پر ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا۔ ’دَخَلاًم بَیْنَکُمْ‘ کے الفاظ اُن کی اِنھی سرگرمیوں کے لیے آئے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”...یہ یہود کی اُن مفسدانہ کوششوں کی طرف اشارہ ہے جو وہ اسلام کی طرف مائل لوگوں کو اسلام سے روکنے یا اسلام قبول کر لینے والوں کو متزلزل کرنے کے لیے صرف کر رہے تھے۔ یہ قسمیں کھا کھا کر لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے کہ یہ نیا دین سر تا سر خدائی دین کے خلاف ہے۔ ہمارے صحیفوں میں نہ اِس کی کوئی سند موجود ہے اور نہ ہمارے نبیوں نے اِس کی طرف کوئی اشارہ کیا ہے۔ یہود کو چونکہ فی الجملہ مذہبی تقدس کی سند حاصل تھی، اِس وجہ سے اُن کی یہ قسمیں اُن لوگوں کے دلوں میں اضطراب پیدا کرتی تھیں جو اُن کی چالوں اور اُن کے مخفی محرکات سے اچھی طرح واقف نہیں تھے۔“(تدبرقرآن۴/ ۴۴۲)
۷۱؎ یعنی اِس قانون کے مطابق کہ جو ہدایت کے سچے طالب ہوں گے، اُنھیں ہدایت ضرور ملے گی۔
۷۲؎ یعنی کسی شخص کے حق پر جمے ہوئے قدم اکھڑ جائیں اور وہ اسلام لانے کے بعد اُس سے برگشتہ ہو جائے۔
۷۳؎ اصل میں ’تَذُوْقُوا السُّوْٓءَ‘کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ’سُوْٓء‘ سے مراد نتیجۂ سوء ہے۔ یہ فعل سے نتیجۂ فعل کو ظاہر کرنے کا اسلوب ہے۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔
۷۴؎ اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اگر زیادہ قیمت مل جائے تو بیچ سکتے ہو۔ اِس میں نہی کا تعلق اصل فعل سے ہے۔ جملے میں اِس طرح کی قیود سے کسی چیز کی شناعت کو واضح کرنے کا یہ اسلوب ہماری زبان میں بھی عام ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ کی آیتوں کے مقابلے میں اگر دنیا کے سارے خزانے بھی مل جائیں تو وہ ایک متاع حقیر ہی ہیں۔
۷۵؎ یہ اُن اہل ایمان کی طرف اشارہ ہے جو اُس وقت معاندین کے نرغے میں طرح طرح کے روحانی اور جسمانی مصائب کے ہدف بنے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کو بشارت دی اور اُن کے مخالفین کو تنبیہ فرمائی ہے۔
۷۶؎ اِس تصریح کی کیا ضرورت تھی؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”...اِس کا ایک خاص محل ہے۔ وہ یہ کہ اُس دور میں جس طرح مسلمان مرد اپنے ایمان پر ثابت قدم رہنے کے لیے نہایت کڑے امتحانات سے گزر رہے تھے، اُسی طرح بہت سی خواتین بھی اپنا ایمان بچائے رکھنے کے لیے جان کی بازی لگائے ہوئے تھیں اور اُن کا امتحان کمزور عنصر ہونے کے سبب سے مردوں کے امتحان سے بھی زیادہ سخت تھا۔ یہاں قرآن نے مردوں کے ساتھ خاص طور پر عورتوں کی تصریح کر کے اُن کی دل داری اور حوصلہ افزائی کر دی کہ اگر اُنھوں نے ایمان اور عمل صالح کی زندگی بسر کرنے کا عزم کر لیا ہے تو اللہ تعالیٰ اُن کو ضرور پاکیزہ زندگی بسر کرائے گا۔ شیاطین اِس نعمت سے اُن کو محروم نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ اِس کا موقع اُن کو نہیں دے گا۔“(تدبرقرآن۴/ ۴۴۸)
۷۷؎ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ دنیا میں بھی قلب و ضمیر کی جو طمانیت و سکینت ایمان اور عمل صالح سے حاصل ہوتی ہے، وہ کسی فاسق و فاجر کو بڑی سے بڑی سلطنت کی بادشاہی سے بھی حاصل نہیں ہو سکتی۔
۷۸؎ یہ قرآن کی دعوت پیش کرتے وقت تعوذ کی ہدایت ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”اِس کی تاثیر آدمی کے دل کی حالت پر منحصر ہے۔ اگر آدمی محض زبان سے تعوذ کے الفاظ دہراتا ہے تو اِس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑتا، لیکن جن کے دل کی گہرائیوں سے یہ دعا نکلتی ہے، وہ اِس سے ایک ایسی قوت و طاقت حاصل کرتے ہیں جو شیطان اور اُس کے اولیا سے نبرد آزمائی میں بڑا سہارا بنتی ہے۔ یہ نبرد آزمائی اُس امتحان کے مقتضیات میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے اِس دنیا میں انسانوں کے لیے مقرر کر رکھا ہے، اِس وجہ سے اِس سے کسی حالت میں مفر نہیں ہے۔ اِسی سے آدمی کی اپنی صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں۔ تعوذ کی یہ برکت ہے کہ اگر آدمی کو اِس کا سہارا حاصل ہو تو وہ شیطان اور اُس کے ایجنٹوں سے شکست نہیں کھاتا۔“(تدبرقرآن۴/ ۴۴۹)
۷۹؎ یعنی تورات کے کسی حکم کو قرآن مجید میں کسی دوسرے حکم سے تبدیل کر دیتے ہیں۔ یہ اُن احکام کا حوالہ ہے جو آگے تحریم و تحلیل اور یوم السبت کے باب میں بیان ہوئے ہیں۔
۸۰؎ اِس لیے کہ اگر تورات بھی خدا کی کتاب ہے اور تم اُس کو مانتے ہو تو اِس کے کیا معنی کہ خدا ایک مرتبہ قانون دے اور پھر اِس قانون کو خود ہی دوسرے قانون سے تبدیل کر دے۔
۸۱؎ روح القدس سے جبریل امین مراد ہیں اور حق کے ساتھ اتارنے کے معنی یہ ہیں کہ یہ خدا کی شریعت کو ٹھیک اُس صورت میں لے کر آیا ہے جو یہود و نصاریٰ اور مشرکین بنی اسمٰعیل کی تمام ملاوٹوں سے پاک اُس کی اصل صورت ہے۔
۸۲؎ یعنی وہ دین کو اُس کی خالص اور بے آمیز صورت میں دیکھ کر مطمئن ہو جائیں کہ اُن کی طرف حق نازل ہوا ہے اور اُن کے پاے استقلال میں کوئی لغزش نہ آنے پائے۔
۸۳؎ یعنی آغاز کے لحاظ سے ہدایت اور انجام کے لحاظ سے بشارت ہو۔
۸۴؎ اصل میں ’وَلَقَدْ نَعْلَمُ‘کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ایک فعل ناقص عربیت کے اسلوب پر حذف ہو گیا ہے، یعنی ’وَلَقَدْ کُنَّا نَعْلَمُ‘۔
۸۵؎ روایتوں میں مذکور ہے کہ مکہ میں کچھ عجمی غلام تھے۔ اُن میں سے زیادہ تر چونکہ یہودی یا نصرانی تھے، اِس لیے قریش نے محض یہ دیکھ کر کہ یہ لوگ تورات و انجیل پڑھتے ہیں، اِن میں سے کسی ایک کے بارے میں بے تکلف یہ الزام گھڑ دیا کہ اِس قرآن کو درحقیقت وہی تصنیف کر رہا ہے۔ یہ قرآن نے اِس الزام کا جواب دیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”... جواب کی تمہید ہی اِس طرح اٹھائی گئی ہے جس سے اِس اعتراض کی لغویت واضح ہو رہی ہے،اِس لیے کہ ’وَلَقَدْ نَعْلَمُ‘ کے اسلوب ہی میں یہ بات مضمر ہے کہ ہم برابر معترضین کی یہ بکواس سنتے رہے ہیں،لیکن اِس کی لغویت کے سبب سے ہم نے اِس کی طرف توجہ نہیں کی۔ اِس کے بعد فرمایا کہ اگر اِن بو الفضولوں کو قرآن کے معانی و حقائق کی پرکھ نہیں ہے تو کم از کم اِس کے بیان کی سطوت و جلالت اور اِس کی زبان کی بے مثال فصاحت پر ہی غور کرتے تو اِن پر اپنے اِس اعتراض کی لغویت واضح ہو جاتی کہ کہاں ایک کج مج بیان عجمی اور کہاں یہ حوض کوثر کی دھلی ہوئی عربی مبین۔ آخر ایسا کودن کون ہو سکتا ہے جو منہ کے اڑائے چھینٹوں اور آسمان کی بارش میں امتیاز نہ کر سکے۔
یہ بات علی سبیل التنزل فرمائی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن کے معانی و حقائق تک تو اِن لوگوں سے پہنچنے کی توقع ہی نہیں کی جا سکتی جن کو گہر اور پشیز میں امتیاز نہیں ہے،لیکن اِن کو اپنی طلاقت لسانی پر بڑا ناز ہے تو کم از کم اِس کی زبان ہی پر غور کرتے کہ ایک عجمی تو درکنار، خود اِن کے کسی شاعر یا خطیب کے بس میں بھی یہ نہیں ہے کہ اِس طرح کا کلام پیش کر سکے۔ یہاں تک کہ خود پیغمبر کے اپنے کلام اور اِس کلام میں آسمان و زمین کا فرق ہے۔“ (تدبرقرآن۴/ ۴۵۱)
[باقی]
________________