خیال وخامہ
o
پھر وہی شوق دلبری ، کچھ تو ملے فراغ ابھی
آتش غم سے داغ کر بیٹھے ہیں داغ داغ ابھی
شیخ کے اختیار میں ابر بھی ہے ، ہوا بھی ہے
آئے ، اگر بجھا سکے ، ہاتھ میں ہے چراغ ابھی
آپ کے ہیں تو پھر یہ کیوں زرد پڑے ہیں سرنگوں
ابر کرم کے منتظر آپ کے باغ و راغ ابھی
اپنے وجود کی فغاں فلسفہ ہاے شرق و غرب
پھر بھی اسیر زلف ہیں تیرے دل و دماغ ابھی
اِس سے ہوئی ہے ساقیا ، گردش رنگ مے کدہ
تیری نگاہ التفات بھرتی رہے ایاغ ابھی
____________