HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: النحل ۱۶: ۸۴- ۹۰ (۶)

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


وَیَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ شَھِیْدًا ثُمَّ لَا یُؤْذَنُ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَلَا ھُمْ یُسْتَعْتَبُوْنَ(۸۴) وَاِذَا رَاَلَّذِےْنَ ظَلَمُوا الْعَذَابَ فَلَا یُخَفَّفُ عَنْہُمْ وَلَا ھُمْ یُنْظَرُوْنَ(۸۵) وَاِذَا رَاَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا شُرَکَآءَ ھُمْ قَالُوْا رَبَّنَا ھٰٓؤُلَآءِ شُرَکَآؤُنَا الَّذِیْنَ کُنَّا نَدْعُوْا مِنْ دُوْنِکَ فَاَلْقَوْا اِلَیْھِمُ الْقَوْلَ اِنَّکُمْ لَکٰذِبُوْنَ(۸۶) وَاَلْقَوْا اِلَی اللّٰہِ یَوْمَءِذِنِ السَّلَمَ وَضَلَّ عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ(۸۷) اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ زِدْنٰھُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا کَانُوْا یُفْسِدُوْنَ(۸۸)
وَیَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ شَھِیْدًا عَلَیْھِمْ مِّنْ اَنْفُسِھِمْ وَجِءْنَابِکَ شَھِیْدًا عَلٰی ھٰٓؤُلَآءِ وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ وَّھُدًی وَّرَحْمَۃً وَّبُْشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ(۸۹) اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ(۹۰)
یہ اُس دن کو یاد رکھیں، جس دن ہم ہر امت میں سے ایک گواہ اٹھائیں گے۔۵۷؎ پھرجن لوگوں نے انکار کیا ہو گا۵۸؎، اُنھیں نہ (کوئی عذر پیش کرنے کی)۵۹؎ اجازت دی جائے گی اور نہ اُن سے یہ فرمایش ہو گی کہ وہ خدا کو راضی کر لیں ۶۰؎۔ اور جو (اِس) ظلم کے مرتکب ہوئے، وہ جب (ایک مرتبہ) عذاب کو دیکھ لیں گے تو وہ نہ اُن سے ہلکا ہو گا اور نہ اُنھیں مہلت دی جائے گی۔ اور شرک کرنے والے (اُس دن)، جب اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار، یہی ہیں ہمارے وہ شریک جنھیں ہم تجھ کو چھوڑ کر پکارتے رہے۶۱؎۔ اِس پر (اُن کے) وہ (معبود) اُن کی بات اُنھی پر پھینک ماریں گے کہ تم بالکل جھوٹے ہو۔ اُس دن وہ خدا کے آگے سپر ڈال دیں گے اور جو افترا وہ کرتے رہے تھے۶۲؎، وہ سب اُن سے ہوا ہو جائے گا۔ جنھوں نے(خود بھی) انکار کیا اور (دوسروں کو بھی) خدا کی راہ سے روکتے رہے، اُن کے اِس فساد کی پاداش میں ہم اُن کے عذاب پر عذاب بڑھا دیں گے۔۶۳؎ ۸۴-۸۸
یہ اُس دن کو یاد رکھیں، جس دن ہم ہر امت میں ایک گواہ خود اُنھی کے اندر سے اُن پر اٹھائیں گے اور تمھیں، (اے پیغمبر، تمھاری قوم کے) اِن لوگوں پر گواہی کے لیے لا کھڑا کریں گے۔ (اِس سے پہلے) یہ کتاب ہم نے ہر چیز کو کھول دینے کے لیے تم پر نازل کر دی ہے،ہدایت و رحمت کے طور پر۶۴؎ اور فرماں برداروں کی بشارت کے لیے۔ حقیقت یہ ہے کہ (اِس میں تو) اللہ عدل اور احسان اور قرابت مندوں کو دیتے رہنے کی ہدایت کرتا ہے اور بے حیائی، برائی اور سرکشی سے روکتا ہے۔وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاددہانی حاصل کرو۶۵؎۔۸۹-۹۰

۵۷؎ اِس سے وہ امتیں مراد ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول بھیجے تھے۔ یہی رسول قیامت کے دن اُن پر گواہی کے لیے اٹھائے جائیں گے۔

۵۸؎ یعنی رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد جانتے بوجھتے انکار کیا ہو گا۔

۵۹؎ جملے کا یہ حصہ آیت میں بربناے قرینہ حذف کر دیا گیا ہے۔

۶۰؎ اِس لیے کہ رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اِس طرح کی کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی۔

۶۱؎ مشرکین یہ بات اپنے آپ کو بری ٹھیرانے کے لیے کہیں گے تاکہ اصلی مجرم اُنھی کو سمجھا جائے جن کے سبب سے وہ گمراہ ہوئے۔ آگے شرکا کے جواب میں جو تلخی ہے، اُس کا اصل رخ اِسی سے واضح ہوتا ہے۔

۶۲؎ یہاں شرک کو افترا سے تعبیر فرمایا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جس چیز کے لیے خدا کی کوئی سند نہ ہو، اُسے خدا سے منسوب کرنا صریح افتراء علی اللہ ہے۔

۶۳؎ یعنی اُن کی گمراہی کی سزا بھی دیں گے اور جن کو گمراہ کرتے رہے، اُن کی گمراہی کا عذاب بھی اُنھیں پہنچائیں گے۔چنانچہ گمراہوں کو جو عذاب ہو گا، اُس کا دگنا عذاب اُن لوگوں کو ملے گا جو گمراہی کی قیادت کرتے رہے۔

۶۴؎ یعنی آغاز کے لحاظ سے ہدایت اور انجام کے لحاظ سے رحمت کے طور پر۔

۶۵؎ یہ عظیم آیت قرآن کے تمام اوامر و نواہی کا خلاصہ ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”...قرآن جن باتوں کا حکم دیتا ہے،اُن کی بنیادیں بھی اِس میں واضح کر دی گئی ہیں اور جن چیزوں سے روکتا ہے، اُن کی اساسات کی طرف بھی اِس میں اشارہ ہے۔ تمام قرآنی اوامر کی بنیاد عدل، احسان اور ذوی القربیٰ کے لیے انفاق پر ہے اور اُس کی منہیات میں وہ چیزیں داخل ہیں جن کے اندر فحشا، منکر اور بغی کی روح فساد پائی جاتی ہے۔ یہاں اِس کا حوالہ دینے سے مقصود اُن لوگوں کومتنبہ کرناہے جو قرآن کی مخالفت میں اپنا ایڑی چوٹی کا زور صرف کر رہے تھے تاکہ وہ سوچیں کہ جس چیز کی وہ مخالفت کر رہے ہیں، اُس کی تعلیم کیا ہے اور اُس کی مخالفت سے کس عدل و خیر کی مخالفت اور کس شر و فساد کی حمایت لازم آتی ہے۔“(تدبرقرآن۴/ ۴۳۸)

خیر و شرکی جو اساسات اِس آیت میں بیان ہوئی ہیں، وہ بالکل فطری ہیں۔ لہٰذا خدا کے دین میں بھی ہمیشہ مسلم رہی ہیں۔ تورات کے احکام عشرہ اِنھی پر مبنی ہیں اور قرآن نے بھی، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، اپنے تمام اخلاقی احکام میں اِنھی کی تفصیل کی ہے۔ 

پہلی چیز جس کا آیت میں حکم دیا گیا ہے، وہ عدل ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ جس کا جو حق واجب کسی پر عائد ہوتا ہے، اُسے بے کم و کاست اور بے لاگ طریقے سے ادا کر دیا جائے، خواہ صاحب حق کمزور ہو یا طاقت ور اور خواہ ہم اُسے پسند کریں یا نا پسند۔

دوسری چیز احسان ہے۔ یہ عدل سے زائد ایک چیز اور تمام اخلاقیات کا جمال و کمال ہے۔ اِس سے مراد صرف یہ نہیں کہ حق ادا کر دیا جائے، بلکہ مزید براں یہ بھی ہے کہ ہم دوسروں سے باہمی مراعات اور فیاضی کا رویہ اختیار کریں۔ اُن کے حق سے اُنھیں کچھ زیادہ دیں اور خود اپنے حق سے کچھ کم پر راضی ہو جائیں۔ یہی وہ چیز ہے جس سے معاشرے میں محبت و مودت، ایثار و اخلاص، شکر گزاری، عالی ظرفی اور خیر خواہی کی قدریں نشوونما پاتی اور زندگی میں لطف و حلاوت پیدا کرتی ہیں۔

تیسری چیز قرابت مندوں کے لیے انفاق ہے۔ یہ احسان ہی کی ایک نہایت اہم فرع ہے اور اُس کی ایک خاص صورت متعین کرتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ قرابت مند صرف اِسی کے حق دار نہیں ہیں کہ اُن کے ساتھ عدل و انصاف کا رویہ اختیار کیا جائے،بلکہ اِس کے بھی حق دار ہیں کہ لوگ اپنے مال پر اُن کا حق تسلیم کریں، اُنھیں کسی حال میں بھوکا ننگا نہ چھوڑیں اور اپنے بال بچوں کے ساتھ اُن کی ضرورتیں بھی جس حد تک ممکن ہو، فیاضی کے ساتھ پوری کرنے کی کوشش کریں۔

اِن کے مقابلے میں بھی تین ہی چیزیں ہیں جن سے اِس آیت میں روکا گیا ہے۔

پہلی چیز ’فَحْشَآء‘ ہے۔ اِس سے مراد زنا، اغلام اور اِن کے متعلقات ہیں۔

دوسری چیز ’مُنْکَر‘ ہے۔ یہ معروف کا ضد ہے۔ یعنی وہ برائیاں جنھیں انسان بالعموم برا جانتے ہیں، ہمیشہ سے برا کہتے رہے ہیں اور جن کی برائی ایسی کھلی ہوئی ہے کہ اِس کے لیے کسی استدلال کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مذہب و ملت اور تہذیب و تمدن کی ہر اچھی روایت میں اُنھیں برا ہی سمجھا جاتا ہے۔ قرآن نے ایک دوسرے مقام پر اِس کی جگہ ’اِثْم‘ کا لفظ استعمال کرکے واضح کر دیا ہے کہ اِس سے مراد یہاں وہ کام ہیں جن سے دوسروں کے حقوق تلف ہوتے ہوں۔

تیسری چیز ’بَغْی‘ ہے۔ اِس کے معنی سرکشی اور تعدی کے ہیں۔ یعنی آدمی اپنی قوت، طاقت اور زور و اثر سے ناجائز فائدہ اٹھائے، حدود سے تجاوز کرے اور دوسروں کے حقوق پر، خواہ وہ حقوق خالق کے ہوں یا مخلوق کے، دست درازی کرنے کی کوشش کرے۔

[باقی]

_____________________

B