HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : معز امجد

وراثت میں تحائف کی واپسی

ترجمہ وتدوین: شاہد رضا

قَالَ: بَیْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذْ أَتَتْہُ إِمْرَأَۃٌ، فَقَالَتْ: إِنِّيْ تَصَدَّقْتُ عَلٰی أُمِّيْ بِجَارِیَۃٍ وَإِنَّہَا مَاتَتْ، قَالَ: فَقَالَ: وَجَبَ أَجْرُکِ وَرَدَّہَا عَلَیْکِ الْمِیْرَاثُ.(مسلم، رقم ۱۱۴۹ا)
راوی (حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک خاتون آئیں اور عرض کیا: میں نے اپنی والدہ کو ایک لونڈی خیرات میں دی تھی، جبکہ وہ وفات پا چکی ہیں، (میراث کے متعلق اس لونڈی کی کیا حیثیت ہو گی)؟ راوی کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: تمھارا ثواب ثابت ہو گیا اور وراثت (کا قانون) تجھے وہ لونڈی واپس لوٹا دے گا۱۔
حاشیہ کی توضیح

۱۔ اس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب بہ یک وقت دو پہلوؤں کی وضاحت کرتا ہے:

اولاً، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر کی وضاحت فرمادی ہے کہ اگرچہ وہ لونڈی خاتون نے خیرات میں دی تھی، مگر اب وہ لونڈی اس کی مرحومہ والدہ کی ملکیت بن چکی ہے، اس لیے قانون میراث کی تنفیذ کی صورت میں وہ لونڈی اس کے مالک اول کو واپس تفویض ہو گی۔ یہ حقیقت کہ وہ لونڈی اس کے مالک اول کی جانب سے خیرات میں دی گئی تھی، قانون وراثت کی تنفیذ میں مانع نہیں ہے۔

ثانیاً، کسی شخص کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ لونڈی کو اس کے اصل مالک کو تفویض کرنا، اسے خیرات کے اجر عظیم سے محروم کر سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس الجھن کو اس تاکید کے ساتھ رفع فرما دیا ہے کہ قانون وراثت کے نفاذ کے سبب سے اگرچہ آدمی کو وہ صدقہ کی ہوئی شے دوبارہ حاصل ہو جائے، وہ اپنے صدقہ کرنے کے عمل کا اجر کامل حاصل کرے گا۔

متون

اپنی اصل کے اعتبار سے یہ روایت مسلم، رقم ۱۱۴۹ا میں روایت کی گئی ہے۔

بعض اختلافات کے ساتھ یہ روایت مسلم، رقم۱۱۴۹ب، ۱۱۴۹ج، ۱۱۴۹د، ۱۱۴۹ہ؛ ابوداؤد، رقم۱۶۵۶، ۲۸۷۷، ۳۳۰۹؛ ترمذی، رقم۶۶۷؛ ابن ماجہ، رقم ۲۳۹۴۔۲۳۹۵؛ احمد، رقم۲۳۰۰۶، ۲۳۰۸۲؛ بیہقی، رقم ۲۴۷۴، ۸۰۲۰، ۸۴۵۳۔۸۴۵۴، ۱۹۹۳۵؛ ابن خزیمہ، رقم۲۴۶۵؛ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۴۷۵۸، ۶۳۱۴۔۶۳۱۷، ۶۳۲۰؛ ابن ابی شیبہ، رقم۱۲۰۸۷، ۲۰۹۹۹ اور عبدالرزاق، رقم۱۶۵۸۷ میں روایت کی گئی ہے۔

بعض روایات، مثلاً ابن ماجہ، رقم۲۳۹۵ میں اسی طرح کا سوال روایت کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک لونڈی کے بجاے ایک قطعۂ اراضی کے بارے میں دریافت کیا گیا۔

بعض روایات، مثلاً ابوداؤد، رقم۱۶۵۶ میں ’وجب أجرک‘ (تمھارا ثواب ثابت ہو گیا) کے الفاظ کے بجاے ان کے ہم معنی الفاظ ’قد وجب أجرک‘ (تمھارا ثواب ثابت ہو گیاہے) روایت کیے گئے ہیں؛ احمد، رقم ۲۳۰۰۶ میں یہ الفاظ ’قد آجرک اللّٰہ‘ (اللہ تعالیٰ نے تمھیں اجر دے دیا ہے) روایت کیے گئے ہیں؛ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۶۳۱۶ میں یہ الفاظ ’قد آجرک‘ (اس نے تمھیں اجر دے دیا ہے) روایت کیے گئے ہیں؛ عبدالرزاق، رقم۱۶۵۸۷ میں یہ الفاظ ’لک أجرک‘ (تمھارے لیے تمھارا اجر ہے) روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً ابوداؤد، رقم۱۶۵۶ میں ’وردہا علیک المیراث‘ (وراثت (کا قانون) تجھے وہ لونڈی واپس لوٹا دے گا) کے الفاظ کے بجاے ان کے ہم معنی الفاظ ’ورجعت إلیک فی المیراث‘ (اور وہ لونڈی تمھاری طرف وراثت میں لوٹ آئے گی) روایت کیے گئے ہیں؛ ابن ماجہ، رقم ۲۳۹۴ میں یہ الفاظ ’ورد علیک المیراث‘ (وراثت (کا قانون) تجھے وہ لونڈی واپس لوٹا دے گا) روایت کیے گئے ہیں؛ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۶۳۱۴ میں یہ الفاظ ’ورد علیک في المیراث‘ (وراثت میں یہ تجھے واپس لوٹا دی جائے گی) روایت کیے گئے ہیں؛ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۶۳۲۰ میں یہ الفاظ ’ورجع إلیک مالک‘ (اور تمھارا مال تمھارے پاس لوٹ آئے گا) روایت کیے گئے ہیں؛ ابن خزیمہ، رقم ۲۴۶۵ میں یہ الفاظ ’ورجع إلیک ملکک‘ (اور تمھاری ملکیت تمھارے پاس لوٹ آئے گی) روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۱۱۴۹ا میں یہ روایت درج ذیل الفاظ میں روایت کی گئی ہے:

أنا جالس عند رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذ أتتہ إمرأۃ، فقالت: إني تصدقت علی أمي بجاریۃ وإنہا ماتت، قال: فقال: وجب أجرک وردہا علیک المیراث، قالت: یا رسول اللّٰہ، إنہ کان علیہا صوم شہر أفأصوم عنہا؟ قال: صومي عنہا، قالت: إنہا لم تحج قط أفأحج عنہا؟ قال: حجي عنہا.
’’ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک خاتون آئیں اور عرض کیا: میں نے اپنی والدہ کو ایک لونڈی خیرات میں دی تھی، جبکہ وہ وفات پا چکی ہیں، (میراث کے متعلق اس لونڈی کی کیا حیثیت ہو گی)؟ راوی کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: تمھارا ثواب ثابت ہو گیا اور وراثت (کا قانون) تجھے وہ لونڈی واپس لوٹا دے گا، اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ، میری ماں پر ایک ماہ کے روزے (قضاء ) تھے، کیا میں اس کی جانب سے روزے رکھ سکتی ہوں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ ہاں، اس کی جانب سے روزے رکھو۔ اس نے عرض کیا کہ میری ماں نے کبھی حج نہیں کیا تھا تو کیا میں اس کی طرف سے حج ادا کر سکتی ہوں؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: اس کی طرف سے حج بھی ادا کرو۔‘‘

مذکورہ تمام سوالات، جو کہ ایک دوسرے سے متعلق ہیں، کو بہ نظر غائر دیکھا جائے تو بدیہی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعے کے راویوں نے دو یا زیادہ مختلف واقعات کو ایک ہی روایت میں جمع کر دیا ہے۔ اس روایت کے آخری حصے میں پائے جانے والے متن کے اختلافات کا تذکرہ گذشتہ مضامین میں کیا جا چکا ہے۔

____________

 

B