HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: النحل ۱۶: ۳۳- ۴۷ (۳)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِیَھُمُ الْمَلٰٓءِکَۃُ اَوْ یَاْتِیَ اَمْرُ رَبِّکَ کَذٰلِکَ فَعَلَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَمَا ظَلَمَھُمُ اللّٰہُ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ(۳۳) فَاَصَابَھُمْ سَیِّاٰتُ مَا عَمِلُوْا وَحَاقَ بِھِمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِءُ ْوَنَ(۳۴)
وَقَالَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا لَوْشَآءَ اللّٰہُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَیْءٍ نَّحْنُ وَلَآ اٰبَآؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَیْءٍ کَذٰلِکَ فَعَلَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَھَلْ عَلَی الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ(۳۵) وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ فَمِنْھُمْ مَّنْ ھَدَی اللّٰہُ وَمِنْھُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْہِ الضَّلٰلَۃُ فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ(۳۶)
اِنْ تَحْرِصْ عَلٰی ھُدٰھُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِیْ مَنْ یُّضِلُّ وَمَا لَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ(۳۷)
وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ لَا یَبْعَثُ اللّٰہُ مَنْ یَّمُوْتُ بَلٰی وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(۳۸) لِیُبَیِّنَ لَھُمُ الَّذِیْ یَخْتَلِفُوْنَ فِیْہِ وَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّھُمْ کَانُوْا کٰذِبِیْنَ(۳۹) اِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْءٍ اِذَآ اَرَدْنٰہُ اَنْ نَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ(۴۰)
وَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا فِی اللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّءَنَّھُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ لَوْکَانُوْا یَعْلَمُوْنَ(۴۱) الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ(۴۲)
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ فَسْءَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۴۳) بِالْبَیِّنٰتِ وَالزُّبُرِ وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لَتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ(۴۴)
اَفَاَمِنَ الَّذِیْنَ مَکَرُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّخْسِفَ اللّٰہُ بِہِمُ الْاَرْضَ اَوْیَاْتِیَھُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ(۴۵) اَوْ یَاْخُذَھُمْ فِیْ تَقَلُّبِھِمْ فَمَا ھُمْ بِمُعْجِزِیْنَ(۴۶) اَوْ یَاْخُذَھُمْ عَلٰی تَخَوُّفٍ فَاِنَّ رَبَّکُمْ لَرَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ(۴۷)
کیا یہ اِسی کے منتظر ہیں کہ اِن کے پاس فرشتے آئیں یا تیرے پروردگار کا فیصلہ صادر ہو جائے؟ اِن سے پہلے والوں نے بھی یہی کیا تھا۔ (پھر جو کچھ ہوا، وہ) اللہ نے اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا، بلکہ وہی اپنے اوپر ظلم کررہے تھے۔ سو اُن کے کرتوتوں کی سزائیں اُن کو ملیں اورجس چیز کا مذاق اڑا رہے تھے، اُسی نے اُن کو گھیر لیا۔ ۳۳-۳۴
یہ مشرکین کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم اُس کے سوا کسی چیز کی عبادت نہ کرتے، نہ ہم نہ ہمارے باپ دادا، اور نہ اُس (کی ہدایت) کے بغیر کسی چیز کو حرام ٹھیراتے۔ اِن سے پہلے والوں نے بھی یہی رویہ اختیار کیا تھا۔ سو رسولوں پر تو صاف صاف پہنچا دینے ہی کی ذمہ داری ہے۔ (وہ اپنے کسی تصرف سے لوگوں کو حق کی راہ پر نہیں لگاتے اور نہ خدا یہ کرتا ہے۔ چنانچہ دیکھ سکتے ہو کہ) ہم نے ہر قوم میں ایک رسول اِس دعوت کے ساتھ بھیجا تھاکہ اللہ کی بندگی کرو اور شیطان سے بچو تو اُن میں سے کچھ کو اللہ نے ہدایت بخشی اوراُن میں کچھ ایسے بھی ہوئے جن پر گمراہی مسلط ہو گئی۔ سو زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا ہے۔ ۳۵-۳۶
تم اِن کی ہدایت کے حریص ہو(تو اِس سے کیا حاصل کر لو گے،اے پیغمبر)،اِس لیے کہ اللہ اُن کو ہدایت نہیں دیتا جنھیں وہ (اپنے قانون کے مطابق) گمراہ کر دیتا ہے اور اُن کا کوئی مددگار بھی نہیں بن سکتا۔ ۳۷
یہ اللہ کے نام سے کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ جو مرجاتا ہے، اللہ اُس کو نہیں اٹھائے گا۔ کیوں نہیں، یہ اُس پر ایک وعدہ ہے جسے وہ لازماً پورا کرے گا، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ یہ اِس لیے ہو گا کہ اللہ اِن کے سامنے اُس حقیقت کو کھول دے جس کے بارے میں یہ اختلاف کر رہے ہیں اور منکرین جان لیں کہ وہ جھوٹے تھے۔ (یہ ہمارے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے)۔ ہم جب کسی چیز کا ارادہ کر لیتے ہیں تو اُس کے بارے میں ہمارا اتنا ہی کہنا ہوتا ہے کہ ہم اُس کو کہتے ہیں کہ ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۲۲؎۔۳۸-۴۰
(ہم کیوں نہیں اٹھائیں گے)؟ جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی ہے، اِس کے بعد کہ اُن پر ظلم ڈھائے گئے، ہم اُن کو دنیا میں بھی لازماً اچھا ٹھکانا دیں گے۲۳؎ اور آخرت کا اجر تو کہیں بڑھ کر ہے۲۴؎۔ اے کاش، یہ منکرین جانتے۔ اُنھی (ہجرت کرنے والوں) کو جو ثابت قدم رہے اور جو اپنے پروردگار ہی پر بھروسا رکھتے ہیں۔ ۴۱-۴۲
(اِنھیں اصرار ہے کہ اِن پر فرشتے اتارے جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ)تم سے پہلے بھی ہم نے آدمیوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا تھا، جن کی طرف ہم وحی کرتے رہے۔ سو اگر تم لوگ نہیں جانتے تو اُن سے پوچھ لو جو یاددہانی والے ہیں ۲۵؎۔ ہم نے اُن کو دلائل کے ساتھ اور کتابیں دے کر بھیجا تھا۔ اور اب یہ یاددہانی ہم نے تم پر اتاری ہے، اِس لیے کہ تم اِن لوگوں کے لیے اُس چیز کو بیان کر دو جو اِن کی طرف نازل کی گئی ہے اور اِس لیے کہ یہ غور کریں ۲۶؎۔۴۳-۴۴
پھر کیا یہ لوگ جو بری تدبیریں کر رہے ہیں، اِس بات سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ اللہ اِن کو زمین میں دھنسا دے یا اِن پر وہاں سے عذاب آجائے، جہاں سے اِنھیں گمان بھی نہ ہو یا اِن کو چلتے پھرتے پکڑ لے    (وہ ایسا کرنے پر آجائے) تو یہ اُس کو عاجز نہیں کر سکتے    یا اِن کو ایسی حالت میں پکڑ لے کہ یہ (خود بھی اُس کا) اندیشہ محسوس کر رہے ہوں۔ (وہ اِنھیں مہلت دے رہا ہے)، اِس لیے کہ تمھارا پروردگار بڑا ہی نرم خو ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ ۴۵-۴۷

۲۲؎ یعنی اُس طریقے کے مطابق ہو جاتی ہے جو اُس کے لیے طے کر دیا جاتا ہے۔

۲۳؎ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کے لیے دنیا میں بھی غلبہ و اقتدار لازمی تھا۔

۲۴؎ آخرت کے بارے میں جو بات اوپر فرمائی ہے، یہ اُسی کومطابق حال کر دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آخرت نہیں ہو گی تو کیا یہ سمجھتے ہو کہ اللہ اُن لوگوں کو جو اُس کی راہ میں ستائے گئے ہیں، اُن کی جان بازیوں کا صلہ نہیں دے گا اور تمھاری جفاکاریوں پر تم سے کوئی بازپرس نہ کرے گا؟ یہ کیسا فیصلہ کرتے ہو؟اِس سے ہجرت کی حقیقت بھی واضح ہوئی کہ ہر نقل مکان ہجرت نہیں ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”... ہجرت یہ ہے کہ آدمی اپنے دین کے معاملے میں ستایاجائے، یہاں تک کہ وہ اپنا محبوب وطن اور اپنا عزیز آشیانہ چھوڑ کر وہاں سے نکلنے اور دوسری سرزمین کو اپنی پناہ گاہ بنانے پر مجبور ہو جائے۔ اِس راہ میں صبر کا مفہوم یہ ہے کہ خواہ اُس کے سر پر آرے ہی کیوں نہ چل جائیں،لیکن دین حق کی جو نعمت اُس کو مل چکی ہے، وہ اُس سے دست بردار ہونے پر آمادہ نہ ہو اور’توکل‘ کا مفہوم یہ ہے کہ خواہ حالات کتنے ہی نامساعد کیوں نہ ہوں، لیکن وہ یہ اعتماد رکھے کہ اللہ اُس کو تنہا نہیں چھوڑے گا،بلکہ اُس کی دست گیری فرمائے گا۔ یہی صبر و توکل ہجرت کی راہ میں زادراہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔“(تدبرقرآن۴/ ۴۱۲)

۲۵؎ یعنی اہل کتاب سے جو نبوت و رسالت کے باب میں خدا کے قانون کو خوب جانتے ہیں۔ اُنھیں معلوم ہے کہ انسانوں کے اندر نبوت و رسالت کا منصب ہمیشہ انسانوں ہی کو دیا گیا ہے، اِس کے لیے فرشتے کبھی منتخب نہیں کیے گئے۔

۲۶؎ یعنی اِس لیے اتاری ہے کہ بے کم و کاست اِن تک پہنچا دو اور یہ تدبر کے ساتھ اُس کا مطالعہ کریں تاکہ اُس کی روشنی میں اُن حقائق کو سمجھ سکیں جن کو سمجھانا خدا کے پیش نظر ہے۔ آیت میں ’لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ‘کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں فعل ’تُبَیِّنَ‘بالکل اُسی طرح آیا ہے، جس طرح سورۂ رحمٰن (۵۵) کی آیت ’اَلرَّحْمٰنُ، عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ‘ میں لفظ ’عَلَّمَ‘ہے۔ اِس سے شرح و وضاحت مراد نہیں ہے، جس طرح کہ ’عَلَّمَ‘سے وہاں شرح و وضاحت کے ساتھ سکھانا، پڑھانا مراد نہیں ہے۔

[باقی]

_______________________

B