سوال: ایک مصنف لکھتے ہیں:
’’اسلامی حکومت کے امتیازی اصولوں میں سے ایک یہ بھی قابل ذکر ہے کہ جو شخص کسی حکومتی عہدے کا طالب یا خواہش مند ہو، اس کو عہدے کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری راوی ہیں کہ میرے خاندان کے دو آدمیوں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی حکومتی عہدے کے لیے درخواست کی، تو آپ نے فرمایا: ’إنا واللّٰہ لا نولی علٰی ھٰذا العمل أحدًا سألہ وَلا أحدًا حرص علیہ‘، ’’خدا کی قسم، ہم کسی ایسے آدمی کو کوئی حکومتی عہدہ سپرد نہیں کرتے جو اس کے لیے خود طالب اور حریص ہو۔‘‘(رواہ بخاری و مسلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس صریح حکم کے بعد مصنف حکمت عملی کے حق میں استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’عام اصول تو یہی ہے لیکن اگر کوئی مخلص بندہ کسی خاص موقع پر یہ محسوس کرے کہ اس اہم خدمت کو اللہ کی توفیق سے میں اچھی طرح انجام دے سکتا ہوں تو اس کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اپنے کو پیش کر دے اور حکومت کے ذمہ دار لوگ مطمئن ہوں تو وہ خدمت اس کے سپرد کر سکتے ہیں۔‘‘
براہ کرم ان نتائج فکر کے متعلق اپنی راے ظاہر فرمائیے۔
جواب: اسلامی حکومت میں کسی مسلمان کے لیے کسی عہدے کی طلب اور تمنا اس اعتبار سے ایک ناپسندیدہ بات ہے کہ اسلام میں ہر عہدہ کے ساتھ بہت سی اخروی ذمہ داریاں وابستہ ہیں۔ اگر ایک مسلمان کو اللہ تعالیٰ نے کسی ذمہ داری سے بری رکھا ہے تو اس کی عاقبت بینی اور خداترسی کا تقاضا یہی ہونا چاہیے کہ وہ ازخود اس ذمہ داری کے لیے طالب اور متمنی نہ بنے۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اگر کسی نے کسی منصب اور عہدہ کے لیے خواہش کر دی تو اس کی یہ خواہش اس کے اس منصب کے لیے اس کی نااہلیت (DISQUALIFICATION) کی کوئی مستقل دلیل بن گئی۔
اسلام میں جس طرح مناصب اور عہدوں کی طلب و تمنا ایک ناپسندیدہ بات ہے، اسی طرح ذمہ داریوں سے گریز و فرار بھی ایک ناپسندیدہ امر ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ایک مرتبہ جب لوگوں کے اندر سرکاری ذمہ داریوں سے گریز کا رجحان بہت زیادہ بڑھ گیا تو انھوں نے اپنے ایک خطبہ میں لوگوں کو بڑی سختی سے ڈانٹا کہ اگر آپ لوگ حکومت کی ذمہ داریاں سنبھالنے سے اسی طرح گریز کرتے رہے تو میں حکومت چلانے کے لیے آدمی کہاں سے لاؤں گا۔
ان دونوں حقیقتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس معاملے میں صحیح اسلامی نقطۂ نظر یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی مسلمان کے لیے یہ بات تو ناپسندیدہ ہے کہ وہ کسی عہدہ کے حصول کے لیے بھاگ دوڑ کرے، لیکن اگر کوئی ذمہ داری اس پر ڈال دی جائے تو اپنے اندر اس کی صلاحیت پاتے ہوئے اس سے گریز نہ کرے۔ بعض مواقع ایسے بھی پیش آ سکتے ہیں، جبکہ وہ خود یا دوسرے ذی فہم لوگ یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے وہی اس کا اہل ہے کہ اس ذمہ داری کو سنبھالے، ورنہ کام خراب ہو جائے گا، جس سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچے گا۔ ایسے حالات میں اس کا فرض ہے کہ وہ خود بڑھ کر اس ذمہ داری کے لیے اپنے آپ کو پیش کر دے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے گا تو اندیشہ ہے کہ اس سے خدا کے ہاں اس بات پر مواخذہ ہو جائے کہ اس نے ایک ذمہ داری سے صلاحیت رکھتے ہوئے گریز کیا جس سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس مقصد کے لیے اس قسم کے مصنوعی طریقے اور لاحاصل بہانے نہیں پیدا کرنے چاہییں جس قسم کے طریقے اور بہانے اس زمانے میں وہ لوگ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو شریعت کے معاملے میں گندم نمائی اور جَو فروشی کا کاروبار کر رہے ہیں۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ایک اسلامی حکومت میں عہدوں کی طلب و تمنا اور ان سے گریز معیوب وہاں ہے جہاں طمع کے امکانات غالب ہوں۔ جہاں طمع سے زیادہ خطرات و مشکلات کا امکان ہو وہاں تو ذی صلاحیت لوگوں کو خودبخود بڑھ چڑھ کر اپنی خدمات پیش کرنا مطلوب ہے۔ جب صحیح راہ طلب و تمنا اور گریز و فرار، دونوں کے درمیان ہوئی اور یہی اسلام کی اصلی راہ ہے تو یہ سمجھنا بالکل غلط ہے کہ ان میں سے کوئی ایک چیز حرام ہونے کے باوجود اس لیے جائز ہو گئی ہے کہ یہ حکمت عملی کا تقاضا تھا۔
(تفہیم دین ۱۴۷)
____________