HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

غزل

خیال وخامہ


o
ہر لب پہ ہے غیروں کی عداوت کی کہانی
اِس عہد کو سمجھے ہیں اعالی نہ ادانی
یہ علم کی آفت ہے ، خدا اِس سے بچائے
ہر دور کے ملاؤں کا زعم ہمہ دانی
رہتی ہے کہاں اُس سے مروت کی توقع
مر جاتا ہے انسان کی جب آنکھ کا پانی
سینے سے لگا رکھتے تھے پہلے جسے برسوں
اب ہوتی ہے دو دن میں وہی چیز پرانی
اے پیر فلک ، کہتی ہے کس غم کا فسانہ
ہر رات یہ عالم پہ تری اشک فشانی
کہتے ہیں کہ ہر گھر میں ہے عورت کی حکومت
یہ بات مگر سنتے ہیں مردوں کی زبانی
لے جاتی ہے صحراؤں میں کچھ شہر کی وحشت
کچھ ہوتی ہے شاعر کی طبیعت خفقانی
یہ فلسفہ ابلیس کا الہام ہے گویا
الفاظ سے مافوق بھی ہوتے ہیں معانی
ہر گام پہ آتے ہوں اگر راہ میں پتھر
بڑھ جاتی ہے کچھ اور بھی دریا کی روانی
وہ پہلے پہل جس کو تخیل نے تراشا
ڈھونڈو گے کہاں اُس بت گلفام کا ثانی
اے کاش ، تجھے پردۂ تصویر پہ لائے
آنکھوں سے اٹھا کر کوئی بہزاد یا مانی
سچ یہ ہے کہ خود ہم نے بنا لی ہے جو اپنی
آساں نہیں خود ہم کو وہ تصویر دکھانی
مردہ ہے طبیعت تو جوانی بھی ہے پیری
دل پہلو میں زندہ ہے تو پیری بھی جوانی
مذہب کو کوئی اُس کی حقیقت میں دکھا دے
کہتے ہیں: یہ ہے اور ہی اسلام کا بانی
مہر و مہ و انجم ہوں کہ ہستی کے کرشمے
جس شے کو بھی دیکھیں ، ہے وہی تیری نشانی
تو ظاہر و باطن ہے ، تو ہی اول و آخر
کیا سمجھیں گے تجھ کو یہ زمانی و مکانی
کہہ لیتے تھے اپنا بھی کوئی درد کسی سے
اب ہوتی ہے اِس سے بھی طبیعت کی گرانی

____________

 

B