بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً لَّکُمْ مِّنْہُ شَرَابٌ وَّمِنْہُ شَجَرٌ فِیْہِ تُسِیْمُوْنَ(۱۰) یُنْبِتُ لَکُمْ بِہِ الزَّرْعَ وَالزَّیْتُوْنَ وَالنَّخِیْلَ وَالْاَعْنَابَ وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ(۱۱) وَسَخَّرَلَکُمُ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌم بِاَمْرِہٖ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(۱۲) وَمَا ذَرَاَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُخْتَلِفًا اَلْوَانُہٗ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّذَّکَّرُوْنَ (۱۳)
وَھُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْکُلُوْا مِنْہُ لَحْمًا طَرِیًّا وَّتَسْتَخْرِجُوْا مِنْہُ حِلْیَۃً تَلْبَسُوْنَھَا وَتَرَی الْفُلْکَ مَوَاخِرَ فِیْہِ وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ(۱۴)
وَاَلْقٰی فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَبِکُمْ وَاَنْھٰرًا وَّسُبُلاً لَّعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ(۱۵) وَعَلٰمٰتٍ وَبِالنَّجْمِ ھُمْ یَھْتَدُوْنَ(۱۶)
اَفَمَنْ یَّخْلُقُ کَمَنْ لَّایَخْلُقُ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ(۱۷) وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا اِنَّ اللّٰہَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۸) وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ(۱۹) وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْءًا وَّھُمْ یُخْلَقُوْنَ(۲۰) اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ وَمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ(۲۱)
اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ قُلُوْبُھُمْ مُّنْکِرَۃٌ وَّھُمْ مُّسْتَکْبِرُوْنَ(۲۲) لَا جَرَمَ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِیْنَ(۲۳)
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ مَّا ذَآ اَنْزَلَ رَبُّکُمْ قَالُوْٓا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ(۲۴) لِیَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَھُمْ کَامِلَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ ےُضِلُّوْنَھُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوْنَ(۲۵)
قَدْ مَکَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَاَتَی اللّٰہُ بُنْیَانَھُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَیْھِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِھِمْ وَاَتٰھُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ(۲۶) ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُخْزِیْھِمْ وَیَقُوْلُ اَیْنَ شُرَکَآءِ یَ الَّذِیْنَ کُنْتُمْ تُشَآقُّوْنَ فِیْھِمْ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اِنَّ الْخِزْیَ الْیَوْمَ وَالسُّوْٓءَ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ(۲۷) الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰھُمُ الْمَلٰٓءِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِھِمْ فَاَلْقَوُا السَّلَمَ مَا کُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوْٓءٍ بَلٰٓی اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌم بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۲۸) فَادْخُلُوْٓا اَبْوَابَ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا فَلَبِءْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ(۲۹)
وَقِیْلَ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا مَا ذَآ اَنْزَلَ رَبُّکُمْ قَالُوْا خَیْرًا لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃٌ وَلَدَارُ الْاٰخِرَۃِ خَیْرٌ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِیْنَ(۳۰) جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَھَا تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ لَہُمْ فِیْھَا مَا یَشَآءُ وْنَ کَذٰلِکَ یَجْزِی اللّٰہُ الْمُتَّقِیْنَ(۳۱) الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰہُمُ الْمَلٰٓءِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَیْکُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۳۲)
وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا جس سے تم پیتے بھی ہو اور اُسی سے وہ نباتات بھی اگتی ہیں جن میں تم (مویشیوں کو) چراتے ہو۔ وہ تمھارے لیے اُسی سے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے۔ یقینا اِس میں اُن لوگوں کے لیے بہت بڑی نشانی ہے جو غور کریں ۷؎۔ رات اور دن اور سورج اور چاند کو اُسی نے تمھارے کام میں لگا رکھا ہے اور اُسی کے حکم سے ستارے بھی تمھارے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ یقینا اِس میں اُن لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیں۔ اور یہ جو رنگ رنگ کی چیزیں اُس نے تمھارے لیے زمین میں بکھیر دی ہیں، اُن میں بھی یقینا بہت بڑی نشانی ہے اُن لوگوں کے لیے جو یاددہانی حاصل کریں ۸؎۔ ۱۰-۱۳
وہی ہے جس نے سمندر کو تمھارے کام میں لگا رکھا ہے، اِس لیے کہ تم اُس سے (مچھلیوں کا) تازہ گوشت کھاؤ اور اُس سے زیور (کی وہ چیزیں) نکالو جنھیں تم پہنا کرتے ہو۔ اور تم کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ اِسی (سمندر) میں (اُس کا سینہ) چیرتی ہوئی چلی جا رہی ہیں، (اِس لیے کہ تم اُن میں سفر کرو) اور اِس لیے کہ اپنے پروردگار کا فضل تلاش کرو اور اِس لیے کہ (اُس کا) شکر کرو۔۱۴
اُسی نے زمین میں پہاڑ ڈال دیے ہیں، اِس لیے کہ وہ تم کو لے کر جھک نہ پڑے اور (اُس میں) نہریں جاری کر دی ہیں ۹؎ اور راستے نکال دیے ہیں، اِس لیے کہ راہ پاؤ (اور اِن کے علاوہ) دوسری علامتیں بھی ٹھیرائی ہیں ۱۰؎ اور لوگ (آسمان کے) تاروں سے بھی راستہ پاتے ہیں۔۱۵-۱۶
پھر کیا جو پیدا کرتا ہے، وہ اُن کے برابر ہو جائے گا جو کچھ پیدا نہیں کرتے؟توکیا تم سمجھتے نہیں ہو؟ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو اُنھیں گن نہیں سکو گے۔ (اِس پر بھی ناشکری کرتے ہو)؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑا ہی بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ (اُس نے تمھیں مہلت دے رکھی ہے تو اُس کی وجہ یہی ہے، مگر یاد رکھو کہ) اللہ جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو۔ جنھیں یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، وہ کچھ پیدا نہیں کرتے، بلکہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں۔ مردہ ہیں نہ کہ زندہ اور نہیں جانتے کہ کب اٹھائے جائیں گے۔۱۱؎ ۷۱-۲۱
تمھارا معبود ایک ہی معبود ہے۔ مگر جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، اُن کے دل منکر ہیں اور وہ گھمنڈ میں پڑے ہوئے ہیں ۱۲؎ ۔ اللہ یقینا جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں۔ وہ اُن لوگوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا جو غرور نفس میں مبتلا ہیں۔ ۲۲-۲۳
جب اُن سے پوچھا جاتا ہے کہ تمھارے پروردگار نے یہ کیا چیز اتاری ہے۱۳؎ تو کہتے ہیں کہ اگلوں کی کہانیاں ہیں ۱۴؎۔ یہ اِس لیے کہ قیامت کے دن وہ اپنے بوجھ بھی پورے اٹھائیں اور اُن لوگوں کے کچھ بوجھ بھی جنھیں وہ بغیر کسی علم کے گمراہ کر رہے ہیں ۱۵؎۔ یاد رکھو، نہایت برا ہے وہ بوجھ جو یہ لوگ اٹھائیں گے۔ ۲۴-۲۵
اِن سے پہلے لوگوں نے بھی (اِسی طرح) چالیں چلی تھیں ۱۶؎۔ پھر اُن کی عمارت خدا نے بنیاد سے اکھاڑ دی تو اُس کی چھت اُن کے اوپر سے اُن پر آ رہی۱۷؎ اور اُس کا عذاب اُن پر وہاں سے آیا، جہاں سے اُن کو گمان تک نہ تھا۔ پھر (یہی نہیں)، قیامت کے دن اللہ اُنھیں اور بھی رسوا کرے گا اور اُن سے پوچھے گا کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں جن کے لیے تم لڑتے رہے تھے۔ جن کو علم دیا گیا تھا، وہ (اُس وقت) پکار اُٹھیں گے کہ آج اِن منکروں پر رسوائی اور بدبختی ہے۔ (اُن ۱۸؎ پر)جن کی روح فرشتے اِس حالت میں قبض کریں گے کہ وہ اپنی جانوں پر ظلم ڈھا رہے ہوں گے تو فوراً سپر ڈال دیں گے کہ ہم تو کوئی برا کام نہیں کر رہے تھے۔ (فرشتے جواب دیں گے): کیوں نہیں، بے شک اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرتے رہے ہو۔ اب جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ، اِس طرح کہ اُسی میں ہمیشہ رہو گے۔ سو کیا ہی برا ٹھکانا ہے تکبر کرنے والوں کے لیے۔ ۲۶-۲۹
(دوسری طرف)جو خدا سے ڈرنے والے ہیں، جب اُن سے پوچھا جاتا ہے کہ تمھارے پروردگار نے یہ کیا چیز اتاری ہے تووہ کہتے ہیں کہ بہترین چیز اتاری ہے۔ (حقیقت یہ ہے کہ) جنھوں نے بھلائی اختیار کی، اُن کے لیے اِس دنیا میں بھی بھلائی ہے ۱۹؎ اور آخرت کا گھر تو اِس سے کہیں بہتر ہے اور کیا ہی خوب ہے خدا سے ڈرنے والوں کا گھر! (وہ)ہمیشہ رہنے کے باغ جن میں وہ داخل ہوں گے، اُن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، اُن کے لیے وہاں سب کچھ ہو گا جو وہ چاہیں گے۔ اللہ ڈرنے والوں کو اِسی طرح صلہ دے گا۔ (اُن۲۰؎ کو)، جن کی روح فرشتے اِس حالت میں قبض کریں گے کہ وہ پاک ہیں ۲۱؎۔ فرشتے کہیں گے: تم پر سلامتی ہو، جنت میں جا کر رہیے اپنے اعمال کے صلے میں۔۳۰-۳۲
۷؎ یعنی اِس بات کی نشانی کہ یہ کائنات مخلوق ہے اور اِس کا ایک ہی خالق ہے، زمین و آسمان میں ہر جگہ اُسی کی حکومت ہے، سب اُسی کی قدرت و حکمت اور رحمت و ربوبیت سے متمتع ہو رہے ہیں، اُس نے کوئی چیز بے مقصد پیدا نہیں کی ہے، وہ یقینا ایک دن ایسا لائے گا جس میں اُن لوگوں پر انعام فرمائے گا جنھوں نے اپنی ذمہ داری پہچانی اور اُن سے بازپرس کرے گا جو اندھے اور بہرے بن کر ایک شتر بے مہار کی زندگی گزارتے ہیں۔
۸؎ انسان کی جو صلاحیتیں اُس کی صحیح رہنمائی کرتی ہیں، اُنھیں بالترتیب یہاں ’یَتَفَکَّرُوْنَ‘، ’یَعْقِلُوْنَ‘ اور ’یَذَّکَّرُوْنَ‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”...یہ اعلیٰ سے ادنیٰ کی طرف نزول ہے۔ انسان کی سب سے اعلیٰ صفت تو یہ ہے کہ وہ اِس کائنات میں تفکر کرے، اِسی تفکر سے اُس کو اِس کثرت کے اندر وحدت کی طرف رہنمائی اور اِس کائنات کی اصل غایت کی معرفت حاصل ہو تی ہے۔ یہ نہ ہو تو کم از کم یہ تو ہو کہ وہ اپنی عقل سے کام لے اور اِس کائنات کی ایک ایک چیز جس نشان منزل کی طرف انگلی اٹھا اٹھا کر اشارہ کر رہی ہے، اُس کی اِس یاددہانی سے فائدہ اٹھائے اور اندھے بھینسے کی طرح نہ چلے۔ اِنھی صفات کا حوالہ آگے اِسی سورہ کی آیات۶۵، ۶۷، ۶۹ میں بالترتیب ’یَسْمَعُوْنَ‘، ’یَعْقِلُوْنَ‘ ا ور ’یَتَفَکَّرُوْنَ‘ کے الفاظ سے آیا ہے۔ یہ ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف صعود ہے۔ یعنی ایک معقول آدمی کے اندر کم از کم جو بات ہونی چاہیے، وہ یہ ہے کہ وہ معقول بات کو سنے اور اُس کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اگر یہ نہ ہو تو وہ سرے سے آدمی ہی نہیں ہے، بلکہ نرا دو ٹانگوں پر چلنے والا ایک جانور ہے۔ اور اُس کا اعلیٰ وصف یہ ہے کہ وہ اِس کائنات میں تفکر کرے، اِس لیے کہ اِسی تفکر سے علم صحیح اور معرفت حقیقی کے دروازے کھلتے ہیں اور قرآن درحقیقت انسان کی اِسی صلاحیت کوبیدار کرنا چاہتا ہے۔“(تدبرقرآن۴/ ۳۹۶)
۹؎ اصل میں ’اَنْھٰرًا وَّسُبُلاً‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن کے لیے موزوں افعال عربیت کے اسلوب پر حذف کر دیے گئے ہیں، یعنی ’فَجَّرَ فِیْھَا أَنْھَارًا وَّمَھَّدَ فِیْھَا سُبُلاً‘۔
۱۰؎ یہاں بھی وہی اسلوب ہے جس کا ذکر اوپر ہوا، یعنی ’جَعَلَ لِلسَّبِیْلِ عَلٰمٰتٍ‘۔
۱۱؎ آیت کے الفاظ سے واضح ہے کہ یہ خاص اُن کے بزرگوں اور آبا و اجداد کا ذکر ہے جنھیں معلوم نہیں کیا کیا قرار دے کر وہ اپنی حاجتوں کے لیے پکارتے اور اُن کی پرستش کرتے تھے۔
۱۲؎ مطلب یہ ہے کہ اُن کے دلوں میں انکار بس گیا ہے جس کی وجہ اِس کے سوا کچھ نہیں کہ داعی حق کی بات مان کر اپنے مزعومہ عقائد کو چھوڑ دینا اُنھیں اپنی ہتک محسوس ہوتا ہے۔ چنانچہ محض غرور نفس ہے جس کی بنا پر ایک واضح حقیقت کو جھٹلا رہے ہیں۔
۱۳؎ قرآن کی دعوت سے متاثر ہو کر یہ سوال، ظاہر ہے کہ پیرو اپنے لیڈروں سے کرتے ہوں گے تاکہ اُن کی راے معلوم کریں اور اُس کی روشنی میں اپنے لیے کوئی لائحۂ عمل طے کر سکیں۔
۱۴؎ مطلب یہ ہے کہ ماضی کے بے اصل قصے ہیں جو اپنے رنگ میں دہرائے جا رہے ہیں۔ اِن سے مرعوب یا ہراساں ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم جو کچھ کر رہے ہیں، وہی ٹھیک ہے۔ خدا کے نام سے یہ من گھڑت باتیں محض تمھیں گمراہ کرنے کے لیے پیش کی جا رہی ہیں۔
۱۵؎ اصل الفاظ ہیں: ’مِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْنَہُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ‘۔ اِن میں ’مِنْ‘ تبعیض کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ گمراہ ہونے والے اپنی گمراہی کا بوجھ تو لازماً اٹھائیں گے، اِس لیے کہ خدا نے اُنھیں بھی عقل و فہم سے بہرہ مند فرمایا تھا، مگراُن کے بوجھ میں سے کچھ حصہ اُن کے لیڈروں کو بھی بٹانا ہو گا جو اُنھیں گمراہ کرتے رہے۔ اِس پر ’بِغَیْرِ عِلْمٍ‘ کی قید بتا رہی ہے کہ رسولوں کی دعوت علم حقیقی پر مبنی ہوتی ہے اور اُس کے مقابلے میں جو کچھ بھی کہا جائے، وہ ’بِغَیْرِ عِلْمٍ‘ ہوتا ہے۔ علم و عقل کے مسلمات میں سے کوئی چیز اُس کی تائید میں پیش نہیں کی جا سکتی۔
۱۶؎ یہ جو کچھ کر رہے تھے، چونکہ اپنی لیڈری کو بچانے کے لیے کر رہے تھے، اِس لیے قرآن نے اِسے چالوں سے تعبیر کیا ہے۔
۱۷؎ یہ اُس تباہی اور بربادی کی تصویر ہے جس سے یہ قومیں دوچار ہوئیں اور اُن کے تمدن اور اقتدار کی عمارت گویا اِس طرح ڈھے گئی کہ اُس کی دیواریں اور چھتیں، سب اُن کے اوپر آ پڑیں۔
۱۸؎ یہاں سے آگے تضمین ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اہل علم کی بات کو مخاطبین پر منطبق کر دیا ہے کہ جو آج اپنے غرور میں مست ہیں، وہ بھی اِسی حال کو پہنچیں گے۔
۱۹؎ یہ خاص طور پر اِس لیے فرمایا ہے کہ اُس وقت اِس کا مصداق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی تھے جن کے لیے دنیا میں بھی غلبہ اور اقتدار لازمی تھا۔
۲۰؎ یہ اللہ تعالیٰ نے کلام کو اُسی طرح مطابق حال کر دیا ہے، جس طرح آیت ۲۸ میں ہوا ہے۔
۲۱؎ اصل میں لفظ ’طَیِّبِیْن‘آیا ہے۔ یہ ’ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِھِمْ‘کے مقابل میں ہے۔
[باقی]
____________________