HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : معز امجد

رشتہ دار کی جانب سے حج

ترجمہ وتدوین: شاہد رضا

رُوِیَ أَنَّ امْرَأَۃً جَاءَ تْ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ أُمِّیْ نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ فَمَاتَتْ قَبْلَ أَنْ تَحُجَّ، أَفَأَحُجُّ عَنْہَا؟ قَالَ: نَعَمْ، حُجِّیْ عَنْہَا، أَرَأَیْتِ لَوْ کَانَ عَلٰی أُمِّکِ دَیْنٌ أَکُنْتِ قَاضِیَتَہُ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، فَقَالَ: فَاقْضُوا اللّٰہَ الَّذِیْ لَہُ فَإِنَّ اللّٰہَ أَحَقُّ بِالْوَفَاءِ.(بخاری، رقم ۶۸۶۵)
رُوِیَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ مَّاتَ وَعَلَیْہِ صِیَامٌ صَامَ عَنْہُ وَلِیُّہُ.(بخاری، رقم ۱۸۵۱)
روایت کیا گیا ہے کہ ایک خاتون نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں اور عرض کیا: بے شک، میری والدہ نے حج ادا کرنے کی نذر مانی تھی، مگر حج ادا کرنے سے پہلے ہی ان کی وفات ہو گئی، کیا میں ان کی جانب سے حج ادا کر سکتی ہوں؟ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: ہاں، ان کی جانب سے حج ادا کر دو، تمھارا کیا گمان ہے کہ اگر تمھاری ماں کے ذمے قرض ہوتا تو کیا تم (اس کی جانب سے) اسے ادا نہ کرتی؟ خاتون نے عرض کیا: جی ہاں، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: پھر اللہ تعالیٰ کا قرض ادا کرو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس کے ساتھ کیے ہوئے معاملات کو پورا کیا جائے۱۔
روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص وفات پا جائے اور اس کے ذمے روزے ہوں تو اس کا ولی اس کی جانب سے روزے رکھے۔
حاشیہ کی توضیح

۱۔ اس روایت کا گذشتہ روایات کی توضیحات کی روشنی میں جائزہ لینا چاہیے۔ یہ روایت بھی اسی طرح کے مضمون کی حامل ہے، جس طرح کے مضمون کی حامل گذشتہ بیان کردہ روایات ہیں۔ تاہم یہ روایت اس بات کی بہت عمدہ مثال پیش کرتی ہے کہ مرور زمانہ کے ساتھ ایک واقعہ کے متعلق روایت کس طرح مختلف شکل اختیار کر لیتی ہے۔ زیر بحث حصے میں ہم نے اس واقعے کو روایت کرنے سے متعلق چار یا پانچ اختلافات کو بیان کیا ہے۔ اگر ان میں سے ہر روایت کا فرداً فرداً قرآن مجید کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو واضح ہو گا کہ اس واقعے کی اصل صورت کو واضح کرنا نہایت ہی مشکل امر ہے۔ بہرحال، اگر ہم اس واقعے سے متعلق تمام روایات سے اخذ شدہ کامل صورت کو پیش نظر رکھیں توہم بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ بعض روایات میں راویوں نے اس واقعے کو روایت کرتے ہوئے اس کی ایک یا ایک سے زیادہ اہم جزئیات کو ترک کر دیا ہے۔

متون

پہلی روایت: یہ روایت بعض اختلافات کے ساتھ بخاری، رقم۱۷۵۴؛ ترمذی، رقم۹۲۹؛ نسائی، رقم۲۶۳۳؛ بیہقی، رقم۸۴۵۵، ۱۲۳۸۲؛ ابن خزیمہ، رقم۳۰۳۴، ۳۰۴۲؛ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۳۶۱۳ اور ابن ابی شیبہ، رقم۳۶۱۲۲ میں روایت کی گئی ہے۔

دوسری روایت: یہ روایت بعض اختلافات کے ساتھ مسلم، رقم۱۱۴۷؛ ابوداؤد، رقم۲۴۰۰۔۲۴۰۱، ۳۳۱۱؛ ترمذی، رقم۷۱۸؛ ابن ماجہ، رقم ۱۷۵۷، ۲۱۳۳؛ احمد، رقم۲۴۴۴۶۔۲۴۴۴۷؛ ابن حبان، رقم۳۵۶۹؛ بیہقی، رقم۸۰۱۰۔۸۰۱۱، ۱۲۴۲۴؛ مسند ابویعلیٰ، رقم۴۴۱۷، ۴۷۶۱؛ ابن خزیمہ، رقم۲۰۵۲، ۲۰۵۶۔۲۰۵۷اور السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۲۹۱۹ میں روایت کی گئی ہے۔

پہلی روایت

بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم ۱۷۵۴ میں ’فماتت قبل أن تحج‘ (مگر حج ادا کرنے سے پہلے ہی ان کی وفات ہو گئی) کے الفاظ کے بجاے ’فلم تحج حتی ماتت‘ (مگر انھوں نے حج ادا نہیں کیا، یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم ۱۷۵۴ میں ’فاقضوا اللّٰہ الذی لہ‘ (پھر اللہ تعالیٰ کا قرض ادا کرو) کے الفاظ کے بجاے ’إقضوا اللّٰہ‘ (اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا ہوا معاملہ پورا کرو) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ جبکہ بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم۱۲۳۸۲ میں ان الفاظ کے بجاے ان کے مترادف الفاظ ’إقضی اللّٰہ الذی ہو لہ‘ (اللہ تعالیٰ کا قرض ادا کرو) روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم ۱۷۵۴ میں ان الفاظ کے بجاے ان کے مترادف الفاظ ’فإن اللّٰہ أحق بالوفاء‘ (اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس کے ساتھ کیے ہوئے معاملات کو پورا کیا جائے) کے الفاظ کے بجاے ’فاللّٰہ أحق بالوفاء‘ (پھر اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس کے ساتھ کیے ہوئے معاملات کو پورا کیا جائے) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاًابن ابی شیبہ، رقم۳۶۱۲۲ میں یہ روایت قدرے مختلف الفاظ میں روایت کی گئی ہے۔ وہ روایت درج ذیل ہے:

عن سنان بن عبد اﷲ الجہنی أنہ حدثتہ عمتہ أنہا أتت النبی صلی اﷲ علیہ وسلم، فقالت: یا رسول اﷲ، إن أمی توفیت وعلیہا مشی إلی الکعبۃ نذرًا، فقال النبی صلی اﷲ علیہ وسلم: أتستطیعین تمشین عنہا؟ قالت: نعم، قال: فامشی عن أمک، قالت: أویجزئ ذلک عنہا؟ قال: نعم، قال: لو کان علیھا دین قضیتہ، ہل کان یقبل منک؟ قالت: نعم، فقال النبی صلی اﷲ علیہ وسلم: فدین اﷲ أحق.
’’حضرت سنان بن عبد اللہ جہنی کہتے ہیں: ان کی پھوپھی نے انھیں بتایا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ سے پوچھا: یا رسول اللہ، میری والدہ فوت ہو گئی ہیں، جبکہ ان پر یہ نذر واجب تھی کہ وہ پیدل کعبہ جائیں گی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: کیا تم ان کی طرف سے یہ پیدل سفر کر نے کی استطاعت رکھتی ہو؟ انھوں نے عرض کیا: جی ہاں، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: اپنی والدہ کی طرف سے یہ سفر کرو۔ انھوں نے پوچھا: کیا اس سے ان کی نذر ادا ہو جائے گی؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اگر تمھاری والدہ پر قرض ہوتا اور تو اسے ادا کرتی تو کیایہ قبول کیا جاتا؟ انھوں نے کہا:جی ہاں، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا قرض ادا کیے جانے کا زیادہ حق دار ہے۔‘‘

بعض روایات، مثلاً ترمذی، رقم۹۲۹ میں اس واقعے کا ایک نہایت ہی اہم حصہ محذوف ہو گیا ہے، اس لیے اس میں روایت کا مکمل مفہوم بدل گیا ہے۔ روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں:

روی أن امرأۃ جاء ت إلی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقالت: یا رسول اللّٰہ، إن أمی ماتت ولم تحج، أفأحج عنہا؟ قال: نعم، حجی عنہا.
’’روایت کیا گیا ہے کہ ایک خاتون نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یارسول اللہ، میری والدہ وفات پا چکی ہیں، جبکہ انھوں نے حج ادا نہیں کیا، کیا میں ان کی جانب سے حج ادا کر سکتی ہوں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: ہاں، ان کی جانب سے حج ادا کر دو۔‘‘

بعض اختلافات کے ساتھ یہ روایت نسائی، رقم۲۶۳۳؛ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم۳۶۱۳ اور ابن خزیمہ، رقم ۳۰۳۴ میں روایت کی گئی ہے۔

بہ نظر غائر دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اس روایت نے دیگر لوگوں کی جانب سے اعمال عبادت کی ادائیگی کے دروازے کھول دیے ہیں، اس لیے کہ اس روایت میں اس حقیقت کو حذف کر دیا گیا ہے کہ اس خاتون کی والدہ نے حج ادا کرنے کی نذر مانی تھی۔ روایت کا یہ مفہوم قرآن مجید کے بیان کردہ جزا و سزا کے اصول کے صریح خلاف ہے۔ قرآن مجید اس ابدی اصول کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:

اَلاَّ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی.(النجم ۵۳: ۳۸۔۳۹)
’’یہ کہ کوئی جان دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی اور یہ کہ انسان کو (آخرت میں) وہی ملے گا جو اُس نے (دنیا میں) کمایا ہے۔‘‘*

بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم ۳۶۵۳ میں اسی طرح کا واقعہ ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:

عن الشرید بن سوید الثقفی قال: أتیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقلت: إن أمی أوصت أن تعتق عنہا رقبۃ وإن عندی جاریۃ نوبیۃ أفیجزء عنی أن أعتقہا عنہا؟ قال: ائتنی بہا، فأتیتہ بہا، فقال لہا النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من ربک؟ قالت: أللّٰہ، قال: من أنا؟ قالت: أنت رسول اللّٰہ، قال: فأعتقہا فإنہا مؤمنۃ.
’’حضرت شرید بن سوید الثقفی روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: (یارسو ل اللہ )، میری والدہ نے مجھے وصیت کی ہے کہ میں ان کی جانب سے ایک غلام آزاد کروں، جبکہ میرے پاس ایک حبشی (سوڈانی) نسل کی لونڈی موجود ہے، اگر میں ان کی جانب سے یہ لونڈی آزاد کروں تو کیا یہ کافی ہو گا؟ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: اس لونڈی کو میرے پاس لے کر آؤ، میں اسے آپ کے پاس لے کر آیا تو اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : تمھارا رب کون ہے؟ اس نے جواب دیا: اللہ، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پھر پوچھا: میں کون ہوں؟ اس نے جواب دیا: آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: اسے (اپنی والدہ کی جانب سے) آزاد کر دو، اس لیے کہ یہ مومنہ ہے۔‘‘

یہ روایت السنن الکبریٰ، رقم ۶۴۸۰ اور دارمی، رقم۲۳۴۸ میں بھی روایت کی گئی ہے، مگر ’’دارمی‘‘ میں یہ روایت قدرے مختلف الفاظ میں بیان کی گئی ہے:

عن الشرید، قال: أتیت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقلت: إن علی أمی رقبۃ وإن عندی جاریۃ سوداء نویبیۃ أفتجزء عنہا؟ قال: أدع بہا. فقال: أتشہدین أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ؟ قالت: نعم، قال: أعتقہا فإنہا مؤمنۃ.
’’حضرت شرید روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: میری والدہ کے ذمے ایک غلام آزاد کرنا ہے، جبکہ میرے پاس ایک حبشی نسل کی سیاہ فام لونڈی موجود ہے، (اگر میں اسے آزاد کر دوں تو ) کیا یہ ان کی جانب سے کافی ہو گا؟ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: اسے میرے پاس بلاؤ، (جب وہ لونڈی حاضر ہو گئی تو) آپ نے اس سے فرمایا: کیا تم اس بات کی گواہی دیتی ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں؟ اس لونڈی نے جواب دیا: جی ہاں، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: اسے آزاد کر دو، اس لیے کہ یہ مومنہ ہے۔‘‘

بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم۲۶۳۹ میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ سوال ایک بیٹے نے اپنے والد کی جانب سے غلام آزاد کرنے کے متعلق کیا تھا۔ اسی نوعیت کی ایک روایت ابن ابی شیبہ، رقم ۱۵۱۲۰؛ ابن خزیمہ، رقم ۳۰۳۵؛ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم۳۶۱۹؛ ابن حبان، رقم ۳۹۹۲ اور ابن ماجہ، رقم ۲۹۰۴۔۲۹۰۵ میں بھی روایت کی گئی ہے۔

بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۱۱۴۸ا میں اس طرح کا ایک واقعہ روزوں کے بارے میں درج ذیل الفاظ میں روایت کیا گیا ہے:

روی أن امرأۃ أتت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقالت: إن أمی ماتت وعلیہا صوم شہر، فقال: أرأیت لو کان علیہا دین أکنت تقضینہ؟ قالت: نعم، قال: فدین اللّٰہ أحق بالقضاء.
’’روایت کیا گیا ہے کہ ایک خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں اور عرض کیا: میری والدہ انتقال کر چکی ہیں، جبکہ ان کے ذمے ایک ماہ کے روزے ہیں، (کیا میں ان کی جانب سے یہ روزے رکھ سکتی ہوں)؟ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: تمھارا کیا گمان ہے کہ اگر ان پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتی؟ انھوں نے جواب دیا: جی ہاں، نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: پھر اللہ تعالیٰ قرض ادا کیے جانے کا زیادہ حق دار ہے۔‘‘

یہ روایت بعض اختلافات کے ساتھ بخاری، رقم ۱۸۵۲؛ مسلم، رقم ۱۱۴۸ب، ۱۱۴۸ج، ۱۱۴۸د؛ ابوداؤد، رقم۳۳۱۰؛ ابن ماجہ، رقم۱۷۵۹؛ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم۲۹۱۲۔۲۹۱۳، ۲۹۱۵۔۲۹۱۷؛ ابن خزیمہ، رقم۲۰۵۳؛ ابن حبان، رقم ۴۳۹۶ اور ابن ابی شیبہ، رقم ۳۶۱۲۱ میں روایت کی گئی ہے۔

بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم ۱۱۴۸ب میں روایت کیا گیا ہے کہ یہ سوال ایک خاتون کے بجاے ایک شخص نے دریافت کیا ہے۔

بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم ۱۱۴۸د میں روایت کیا گیا ہے کہ اس خاتون کی والدہ نے ایک ماہ کے روزوں کی نذر مانی ہوئی تھی۔ چنانچہ اس میں ’إن أمی ماتت وعلیہا صوم شہر‘ (میری والدہ انتقال کر چکی ہیں، جبکہ ان کے ذمے ایک ماہ کے روزے ہیں) کے الفاظ کے بجاے ’إن أمی ماتت وعلیہا صوم نذر‘ (میری والدہ انتقال کر چکی ہیں، جبکہ ان کے ذمے ایک ماہ کے روزوں کی نذر ہے) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ جبکہ ابن حبان، رقم۴۳۹۶ میں ان الفاظ کے مترادف الفاظ ’وعلیہا صوم من نذر‘ (جبکہ ان کے ذمے روزوں کی نذر ہے) روایت کیے گئے ہیں۔

اس سے یہ بات بالکل مبرہن ہوتی ہے کہ یہ سوال ماہ رمضان میں فرض روزوں کے متعلق نہیں تھا۔

بعض روایات، مثلاً ابن ماجہ، رقم۱۷۵۹ میں ’إن أمی ماتت وعلیہا صوم شہر‘ (میری والدہ انتقال کر چکی ہیں، جبکہ ان کے ذمے ایک ماہ کے روزے ہیں) کے الفاظ کے بجاے ’إن أمی ماتت وعلیہا صوم‘ (میری والدہ انتقال کر چکی ہیں، جبکہ ان کے ذمے روزے ہیں) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ جبکہ احمد، رقم ۳۴۲۰ میں یہ الفاظ ’إن أمی ماتت وعلیہا صوم شہر رمضان‘ (میری والدہ انتقال کر چکی ہیں، جبکہ ان کے ذمے ماہ رمضان کے روزے ہیں) روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً ابن ماجہ، رقم۲۰۵۳ میں ’صوم شہر‘ (ایک ماہ کے روزے ) کے الفاظ کے بجاے ’صوم خمسۃ عشر یومًا‘ (پندرہ یوم کے روزے) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم۶۳۲۱ میں اسی نوعیت کا سوال روایت کیا گیا ہے کہ حج کے حوالے سے ایک بھائی نے اپنی مرحومہ بہن کے لیے سوال کیا۔ وہ روایت درج ذیل ہے:

روی أنہ أتی رجل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال: إن أختی نذرت أن تحج، إنہا ماتت. فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لو کان علیہا دین أکنت قاضیہ؟ قال: نعم، قال: فاقض اللّٰہ فہو أحق بالقضاء.
’’روایت کیا گیا ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: میری بہن نے حج ادا کرنے کی نذر مانی تھی، مگر وہ انتقال کر گئی ہیں، (کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کر سکتا ہوں)؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر ان پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتے؟ اس نے جواب دیا: جی ہاں، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: اللہ کا قرض ادا کرو، اس لیے کہ وہ ادا کیے جانے کا زیادہ حق رکھتا ہے۔‘‘

یہ روایت بعض اختلافات کے ساتھ نسائی، رقم۲۶۳۲؛ احمد، رقم۳۲۲۴؛ ابن حبان، رقم۳۹۹۳؛ بیہقی، رقم ۹۶۳۴، ۱۲۴۰۷؛ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۳۶۱۲اور ابن خزیمہ، رقم ۳۰۴۱۔۳۰۴۲ میں روایت کی گئی ہے۔

ابن حبان، رقم۳۹۹۳ میں راویوں نے اس حقیقت کو حذف کر دیا ہے کہ اس شخص کی فوت شدہ بہن نے حج ادا کرنے کی نذر مانی تھی، مگر اپنی وفات سے پہلے وہ اسے ادا کرنے سے قاصر رہیں۔ وہ روایت درج ذیل ہے:

روی أنہ جاء رجل إلی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال: إن أختی ماتت ولم تحج، أفأحج عنہا؟ فقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أرأیت لو کان علیہا دین فقضیتہ؟ فاللّٰہ أحق بالوفاء.
’’روایت کیا گیا ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: میری بہن انتقال کر گئی ہیں اور انھوں نے حج ادا نہیں کیا ہے، کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کر سکتا ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمھارا کیا گمان ہے کہ اگر ان پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتے؟ (پھر اللہ کا قرض ادا کرو)، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس کے ساتھ کیے ہوئے معاملات کو پورا کیا جائے۔‘‘

بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم۲۶۳۴ میں اسی طرح کا سوال روایت کیا گیا ہے۔ اس میں مذکور ہے کہ ایک خاتون نے اپنے والد کے لیے سوال کیا۔ وہ روایت یہ ہے:

روی أن امرأۃ سألت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن أبیہا مات ولم یحج، قال: حجی عن أبیک.
’’روایت کیا گیا ہے کہ ایک خاتون نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے والد ، جو کہ انتقال کر چکے تھے اور انھوں نے حج ادا نہیں کیا تھا، کے بارے میں پوچھا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جواب مرحمت فرمایا: اپنے والد کی جانب سے حج ادا کر دو۔‘‘

اسی نوعیت کی ایک روایت السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۳۶۱۴میں بھی روایت کی گئی ہے۔

بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم ۲۶۳۹ میں اسی طرح کا سوال روایت کیا گیا ہے۔ اس میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے اپنے مرحوم والد کے لیے یہ سوال کیا۔ بعض اختلافات کے ساتھ اسی طرح کی روایت ابن ابی شیبہ، رقم ۱۵۱۱۸، ۱۵۱۲۰؛ ابن خزیمہ، رقم۳۰۳۵؛ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم۳۶۱۹؛ ابن حبان، رقم۳۹۹۲ اور ابن ماجہ، رقم ۲۹۰۴۔۲۹۰۵ میں روایت کی گئی ہے۔

تاہم ابن ماجہ، رقم ۲۹۰۴ میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب مختلف الفاظ میں روایت کیا گیا ہے۔اس جواب کے الفاظ درج ذیل ہیں:

روی أنہ جاء رجل إلی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال: أحج عن أبی؟ قال: نعم، حج عن أبیک، فإن لم تزدہ خیرًا، لم تزدہ شرًا.
’’روایت کیا گیا ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: کیا میں اپنے والد کی جانب سے حج ادا کر سکتا ہوں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: ہاں، اپنے والد کی جانب سے حج ادا کر لو، اس لیے کہ اگر تم ان کی نیکی میں اضافہ نہیں کر سکے تو ان کی برائی میں بھی اضافہ مت کرو۔‘‘
دوسری روایت

بعض روایات، مثلاً ابن ماجہ، رقم ۲۱۳۳ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب سوال کے در و بست کے ساتھ روایت کیا گیا ہے۔ روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں:

روی أن امرأۃ أتت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقالت: إن أمی توفیت وعلیہا نذر صیام فتوفیت قبل أن تقضیہ، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لیصم عنہا الولی.
’’روایت کیا گیا ہے کہ ایک خاتون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں اور عرض کیا: میری والدہ انتقال کر چکی ہیں، جبکہ ان کے ذمے روزوں کی نذر ہے اور وہ یہ نذر پوری کرنے سے پہلے ہی انتقال کر گئی ہیں، (کیا میں ان کی جانب سے نذر کے روزے رکھ سکتی ہوں)؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان کی جانب سے ان کے ولی کو روزے رکھنا چاہییں۔‘‘

بعض روایات، مثلاً احمد، رقم ۲۴۴۴۷ میں ’من مات وعلیہ صیام صام عنہ ولیہ‘ (جو شخص وفات پا جائے اور اس کے ذمے روزے ہوں تو اس کا ولی اس کی جانب سے روزے رکھے) کے الفاظ کے بجاے ان کے مترادف الفاظ ’أیما میت مات وعلیہ صیام فلیصمہ عنہ ولیہ‘ (جو شخص وفات پا جائے اور اس کے ذمے روزے ہوں تو اس کا ولی اس کی جانب سے روزے رکھے) روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً احمد، رقم ۲۴۴۴۶ میں ’صام عنہ ولیہ‘ (اس کا ولی اس کی جانب سے روزے رکھے) کے الفاظ کے بجاے ان کے مترادف الفاظ ’یصوم عنہ ولیہ‘ (اس کا ولی اس کی جانب سے روزے رکھے) روایت کیے گئے ہیں۔

ابوداؤد، رقم ۳۳۰۸ میں اسی نوعیت کا مضمون روایت کیا گیا ہے:

روی أن امرأۃ رکبت البحر فنذرت إن نجاہا اللّٰہ أن تصوم شہرًا فنجاہا اللّٰہ فلم تصم، حتی ماتت فجاء ت إبنتہا أو أختہا إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأمرہا أن تصوم عنہا.
’’روایت کیا گیا ہے کہ ایک خاتون نے سمندر کے ذریعے سے سفر کیا، انھوں نے اس بات کی نذر مان لی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اسے نجات عطا کی تو وہ ایک ماہ کے روزے رکھے گی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں نجات عطا فرمائی، مگر انھوں نے روزے نہیں رکھے، یہاں تک کہ وہ (بغیر نذر پوری کیے) وفات پا گئیں۔ اس کے بعد ان کی بیٹی یا بہن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں (اور عرض کیا کہ کیا میں اپنی والدہ کی جانب سے ایک ماہ کے روزے رکھ سکتی ہوں)؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ سلم) نے اسے اپنی والدہ کی جانب سے روزے رکھنے کا حکم فرمایا۔‘‘

اسی طرح کا مضمون بعض اختلافات کے ساتھ بخاری، رقم۸۰۱۵، ۸۰۱۸، ۱۲۴۲۵؛ نسائی، رقم ۳۸۱۶؛ دارمی،ر قم ۱۷۶۸ اور ابن خزیمہ، رقم۲۰۵۴ میں بھی روایت کیا گیا ہے۔

ترمذی ، رقم۷۱۶ میں یہ واقعہ ایک اور پیرائے میں روایت کیا گیا ہے:

روی أنہ جاء ت امرأۃ إلی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقالت: إن أختی ماتت وعلیہا صوم شہرین متتابعین، قال: أرأیت لو کان علی أختک دین أکنت تقضینہ؟ قالت: نعم، قال: فحق اللّٰہ أحق.
’’روایت کیا گیا ہے کہ ایک خاتون نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں اور عرض کیا: میری بہن وفات پا چکی ہیں، جبکہ ان کے ذمے پے در پے دو ماہ کے روزے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے فرمایا: تمھارا کیا گمان ہے کہ اگر تمھاری بہن پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا کرتی؟ انھوں نے جواب دیا: جی ہاں، آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے فرمایا: (اللہ کا حق ادا کرو)، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کیے جانے کا زیادہ حق دار ہے۔‘‘

اسی نوعیت کا مضمون بعض اختلافات کے ساتھ ابن ماجہ، رقم۱۷۵۸؛ ابن حبان، رقم۳۵۳۰، ۳۵۷۰؛ بیہقی، رقم ۸۰۱۴؛ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم۲۹۱۴؛ ابن خزیمہ، رقم ۱۹۵۳، ۲۰۵۵ اور مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۶۱۲۱ میں بھی روایت کیا گیا ہے۔

________

* بائیبل میں یہ اصول بہت تفصیل و تصریح کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ حزقی ایل نبی فرماتے ہیں:

’’اور خداوندکا کلام مجھ پر نازل ہوا کہ تم اسرائیل کے ملک کے حق میں کیوں یہ مثل کہتے ہوکہ باپ دادا نے کچے انگور کھائے اور اولاد کے دانت کھٹے ہوئے ؟ خداوند خدا فرماتا ہے مجھے اپنی حیات کی قسم کہ تم پھر اسرائیل میں یہ مثل نہ کہو گے ۔ دیکھ سب جانیں میری ہیں، جیسی باپ کی جان ،ویسی ہی بیٹے کی جان بھی میری ہے۔ جو جان گناہ کرتی ہے، وہی مرے گی، لیکن جو انسان صادق ہے اور اس کے کام عدالت و انصاف کے مطابق ہیں۔ جس نے بتوں کی قربانی سے نہیں کھایا اور بنی اسرائیل کے بتوں کی طرف اپنی آنکھیں نہیں اٹھائیں اور اپنے ہم سایے کی بیوی کو ناپاک نہیں کیااور عورت کی ناپاکی کے وقت اس کے پاس نہیں گیااور کسی پر ستم نہیں کیا اور قرض دار کا گِرَو واپس کر دیا اور ظلم سے کچھ چھین نہیں لیا ۔ بھوکوں کو اپنی روٹی کھلائی اور ننگوں کو کپڑا پہنایا۔ سود پر لین دین نہیں کیا ۔ بد کرداری سے دست بردارہوا اور لوگوں میں سچا انصاف کیا۔ میرے آئین پر چلا اور میرے احکام پر عمل کیا تاکہ راستی سے معاملہ کرے۔وہ صادق ہے، خداوند خدا فرماتا ہے وہ یقیناًزندہ رہے گا۔ پر اگر اس کے ہاں بیٹا پیدا ہو جو راہ زنی یا خون ریزی کرے اور ان گناہوں میں سے کوئی گناہ کرے اور ان فرائض کو بجا نہ لائے، بلکہ بتوں کی قربانی سے کھائے اور اپنے ہمسایہ کی بیوی کو ناپاک کرے۔ غریب اور محتاج پر ستم کرے۔ ظلم کرکے چھین لے۔ گِرَو واپس نہ دے اور بتوں کی طرف اپنی آنکھیں اٹھائے اور گھنونے کام کرے۔ سود پر لین دین کرے تو کیا وہ زندہ رہے گا؟وہ زندہ نہ رہے گا۔اس نے یہ سب نفرتی کام کیے ہیں۔ وہ یقیناًمرے گا۔ اس کا خون اسی پر ہو گا۔لیکن اگر اس کے ہاں ایسا بیٹا پیدا ہوجو ان تمام گناہوں کو جو اس کا باپ کرتاہے دیکھے اور خوف کھا کر اس کے سے کام نہ کرے اور بتوں کی قربانی سے نہ کھائے اور بنی اسرائیل کے بتوں کی طرف اپنی آنکھیں نہ اٹھائے اور اپنے ہم سایے کی بیوی کو ناپاک نہ کرے اور کسی پر ستم نہ کرے۔ گِرَو نہ لے اور ظلم کرکے کچھ چھین نہ لے۔ بھوکے کو اپنی روٹی کھلائے اور ننگے کو کپڑے پہنائے۔ غریب سے دست بردار ہو اور سود پر لین دین نہ کرے پر میرے احکام پر عمل کرے اور میرے آئین پر چلے ۔ وہ اپنے باپ کے گناہوں کے لیے نہ مرے گا۔وہ یقیناًزندہ رہے گا، لیکن اس کا باپ چونکہ اس نے بے رحمی سے ستم کیا اور اپنے بھائی کو ظلم سے لوٹا اور اپنے لوگوں کے درمیان برے کام کیے، اس لیے وہ اپنی بد کرداری کے باعث مرے گا۔ تو بھی تم کہتے ہو کہ بیٹا باپ کے گناہ کا بوجھ کیوں نہیں اٹھاتا؟ جب بیٹے نے وہی جو جائز اور روا ہے کیا اور میرے سب آئین کو حفظ کرکے ان پر عمل کیا تو وہ یقیناً زندہ رہے گا۔ جو جان گنا ہ کرتی ہے، وہی مرے گی۔ بیٹا باپ کے گنا ہ کا بوجھ نہ اٹھائے گااور نہ باپ بیٹے کے گناہ کا بوجھ۔ صادق کی صداقت اسی کے لیے ہو گی اور شریر کی شرارت شریر کے لیے، لیکن اگر شریر اپنے تمام گناہوں سے جو اس نے کیے ہیں، باز آئے اور میرے سب آئین پر چل کر جو جائز اور روا ہے کرے تو وہ یقیناًزندہ رہے گا۔ وہ نہ مرے گا۔ وہ سب گناہ جو اس نے کیے ہیں، اس کے خلاف محسوب نہ ہوں گے۔ وہ اپنی راست بازی میں جو اس نے کی، زندہ رہے گا۔‘‘(حزقی ایل ۱۸: ۱۔۲۲۔ مدون)

____________

 

B