HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

مناجات

مولوی محمد اسمٰعیل میرٹھی


خداوندگارا جہازِ جہاں  ہے تیری مشیّت کی رو میں رواں
سمندر ہے قُدرت کا تیری بڑا  اور اِس بحر میں یہ سفینہ پڑا
ہم اُس میں سفر ختم کرتے ہوئے  مُسافر ہیں چڑھتے اُترتے ہوئے
تو ہی اُس سفینہ کا ہے ناخُدا  ہمارے تَرَدُّد سے ہوتا ہے کیا
ترے حُکم سے گرمِ رفتار ہے  مُسافر کا اندیشہ بے کار ہے
جِدھر تو جھکائے ادھر وہ جھکے  جہاں روک دے تو وہاں وہ رُکے
جو ملاح تُو ہے تو گھبرائے کیوں؟  نگہبان تو ہے تو چِلّائیں کیوں؟
نہیں موج و طوفان کا کچھ خطر  کہ تو آپ ہے راہرو راہبر
ازل سے ابد تک ہے بس تو ہی تو  ترا جلوہ ہے عالمِ رنگ و بو
نہ ہوتا اگر تیرا لُطفِ نہاں  تو ہم بزمِ ہستی میں ہوتے کہاں
ہیں تری حِمایت میں محفوظ سب  ہیں تیری عنایت سے محفوظ سب
نہ تھا عہدِ طفلی میں کچھ بھی وقوف  تو ہی پالتا تھا ہمیں اَے رؤف
سب ہی آفتوں سے بچایا ہمیں  کھِلایا پلایا بڑھایا ہمیں
دیے تو نے ماں باپ کیسے شفیق  مُہیّا کیے تو نے کیا کیا رفیق
ہماری نہ کوشش نہ تدبیر تھی  ترا حُکم تھا تیری تقدیر تھی
خُدایا مری خواہشوں پر نہ جا  جو تیری رضا ہے وہی ہے بجا
تقاضا مرا سخت معیوب ہے  جو مرضی ہے تیری وہی خوب ہے
تری ذات داناے اَسرار ہے  سب ہی نیک و بد سے خبردار ہے
کہ اپنی ہی مرضی سے ردّ و قبول  کہ سائل ہے تیرا ظلوم و جَہول
وُہ ہی خوب ہے جو ہے تُجھ کو پسند  ہو آسودگی ظاہرا یا گزند
جِس احوال سے تو رضامند ہے  اگر زہر بھی ہو تو گُلقند ہے

(سفینۂ اردو، مرتب: مولوی محمد اسمعٰیل میرٹھی ۱۲۳۔۱۲۴)

________

 

B