مولانا ابو اللیث اصلاحی ندوی
[بعض حدیثوں میں سورۂ ہود کے متعلق وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’شیّبتنی ہود‘ (مجھے سورۂ ہود نے بوڑھا کر دیا)۔
اس مضمون میں اس روایت کے متعلق علماے محققین خصوصاً مولانا فراہی کے نقطۂ نظر کی وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ (ادارہ)]
یہ روایت، حدیث کی کتابوں میں متعدد طریقوں سے منقول ہے۔ بعض روایتوں میں ’شیّبتنی ہود‘ کے بعد ’وأخواتہا‘ کا لفظ بھی ہے اور مختلف روایتوں میں اس کی تفصیل مختلف طریقوں سے کی گئی ہے۔ کہیں ’أخواتہا‘ کے ضمن میں سورۂ واقعہ، سورۂ قارعہ، سورۂ حاقہ، سورۂ تکویر اور سورۂ معارج کو بیان کیا گیا ہے اور کہیں سورۂ مرسلات، سورۂ نبا اور سورۂ تکویر کو۔ یہ اختلاف انھی دو روایتوں پر ختم نہیں ہو جاتا، بلکہ متعدد دوسری روایتوں میں بعض سورتوں کی جگہ دوسری سورتوں کے نام لیے گئے ہیں۔۱ لیکن اگر ان تمام سورتوں کو جمع کر کے دیکھا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ’أخواتہا‘ کی تفصیل میں جتنی سورتیں مذکور ہیں، وہ تمام تر وہ ہیں جن میں قیامت کے احوال بیان ہوئے ہیں۔ ان تمام سورتوں میں قیامت کا ذکر عمود کی حیثیت سے آیا ہے اور اس کا اس طرح نقشہ کھینچا گیا ہے کہ پوری تصویر سامنے آ جاتی ہے۔ ہر شخص جو ان سورتوں کو حضور قلب اور نیت صالح کے ساتھ پڑھتا ہے، ان کو پڑھ کر کانپ اٹھتا ہے۔ پڑھنے والے کی طبیعت جتنی زیادہ حساس اور مآل اندیش ہوتی ہے، اتنی ہی زیادہ اس کے اندر دنیا سے بے زاری اور نفرت پیدا ہوتی ہے۔ دنیا کی لذتیں سوہان روح بن جاتی ہیں۔ عاقبت کی فکر دامن گیر ہو جاتی ہے کہ معلوم نہیں مرنے کے بعد کیا حشر ہو گا؟
یہ اثر حسب استعداد کم و بیش تمام پڑھنے والوں پر پڑتا ہے۔ پھر خیال کیجیے کہ جو ہستی صرف اپنی ہی نجات کی فکرمند نہیں ہے، بلکہ پوری امت اور سارے عالم کی غم گسار ہے، اس پر ذکر قیامت کیا قیامت ڈھائے گا! رحمت عالم کی شان رحمت دیکھتے ہوئے یہ کوئی تعجب انگیز بات نہیں کہ یہ سورتیں آپ کے قبل ازوقت بڑھاپے کا سبب بن گئیں۔
لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورۂ ہود میں تو بظاہر قیامت کا ذکر بھی نہیں۔ پھر آخر اس میں ایسی کیا چیز ہے جس کی ذمہ داری اور مسؤلیت کے غم نے آپ کو قبل از وقت بوڑھا کر دیا؟ سورۂ ہود کے متعلق یہ سوال ہمیشہ کھٹکتا رہا ہے۔ حدیث کی بعض کتابوں میں ہے کہ ایک بزرگ کو خواب میں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ انھوں نے اس عقدہ کو آپ سے حل کرنا چاہا اور استفسار کیا کہ سورۂ ہود کی کس بات نے آپ کو بوڑھا بنا دیا؟ انبیا کے قصوں نے؟ قوموں کی ہلاکت کے واقعات نے؟ یا کسی اور چیز نے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آیت ’فَاسْتَقِمْ کَمَا اُمِرْتَ‘ نے۔
لیکن میرے نزدیک یہ سوال لوگوں کے دلوں میں، اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ انھوں نے صرف ذکر قیامت ہی کو غم کا باعث فرض کر لیا ہے، اس لیے جب سورۂ ہود میں قیامت کا ذکر کسی خاص اہمیت کے ساتھ نہیں پاتے تو ان کو تعجب ہوتا ہے کہ اس سورہ کو ’شیب‘ کا باعث کیوں کہا گیا ہے! لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف ذکر قیامت ہی آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حزن و ملال کا باعث نہ تھا، بلکہ اس کے علاوہ اور دوسرے اسباب بھی تھے۔ اکثر روایتیں ان اسباب کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ایک روایت میں ہے:
شیبتنی ہود وأخواتھا وذکر یوم القیامۃ وقصص الأمم.
’’مجھے ہود، اس کی امثال، ذکر قیامت اور قوموں کے قصوں نے بوڑھا بنا دیا۔‘‘
دوسری روایت میں ہے:
شیبتنی ہود وأخواتھا وما فعل بالأمم قبلی.۲
’’مجھے ہود، اس کی امثال اور ان کے حالات نے جو میری امت سے پہلی امتوں کو پیش آئے، بوڑھا بنا دیا۔‘‘
ان روایتوں سے واضح ہوتا ہے کہ صرف ذکر قیامت ہی غم کا باعث نہ تھا، بلکہ اس کے اسباب متعدد تھے۔ جن میں ’قصص الأمم‘ یا ’ما فعل بالأمم قبلی‘ بھی شامل ہے، لیکن آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف چند اسباب کی طرف اشارہ کیا، کیونکہ احتوا مقصود نہ تھا۔ اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ اگرچہ ذکر قیامت کو آپ نے ’شیب‘ کا باعث قرار دیا ہے، لیکن ان کثیر سورتوں میں سے، جن میں قیامت کا بیان خاص طریقہ سے ہوا ہے، صرف چند سورتوں کا آپ نے نام لیا اور کبھی کسی سورہ کا کبھی کسی سورہ کا، کیونکہ مقصود ان کا تعین نہ تھا، بلکہ یہ واضح کرنا تھا کہ آپ کے بڑھاپے میں قیامت والی سورتوں کو بھی دخل ہے۔
الغرض ’شیب‘ کے اسباب گوناگوں تھے، لیکن راویوں نے سمجھا کہ سورۂ ہود، سورۂ واقعہ اور دوسری سورتیں جن کو آپ نے بیان فرمایا ہے، سب ایک ہی حیثیت سے بڑھاپے کا باعث بنیں، اس لیے وہ ان سورتوں کو ’أخواتہا‘ کہہ کر ذکر کرتے ہیں جس کی وجہ سے شبہ ہوتا ہے کہ آپ پر یہ سب سورتیں ایک ہی نہج سے اثرانداز ہوئی ہیں، حالاں کہ ایسا نہیں ہے، جیسا کہ اوپر میں نے بیان کیا۔ اس خیال کی تائید یوں بھی ہوتی ہے کہ زیادہ صحیح روایتوں میں یا تو ’أخواتہا‘ کا لفظ سے سرے آتا ہی نہیں جیسا کہ ترمذی وغیرہ میں ہے کہ ’شیبتنی ہود والواقعۃ والمرسلات وعم یتسألون واذا الشمس کورت‘ یا ’وأخواتہا‘ کے بعد واؤ عاطفہ کے ساتھ سورتیں گنائی جاتی ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ ’ہود وأخواتہا‘ کی نوعیت دوسری ہے اور ان سورتوں کی دوسری۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورۂ ہود کس نہج سے ’شیب‘ کا باعث ہوئی؟ افسوس ہے کہ اس سوال کی طرف عموماً علما نے بہت کم توجہ کی ہے، البتہ حسب توقع امام رازی ۳ نے اس پر طویل بحث کی ہے۔ امام غزالی نے بھی اپنی کتاب ’’احیاء علوم الدین‘‘ میں ایک جگہ محبت الٰہی کے بیان میں ضمناً اس روایت سے تعرض کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ’’جس طرح جمال کے ادراک سے قلب میں محبت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، اسی طرح محبوب کی عظمت کا احساس ہبیت کا باعث ہوتا ہے۔ اس لیے یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ محبت و ہیبت کا اجتماع نہیں ہو سکتا۔ عاشقان الٰہی گو اس کی محبت میں سرشار ہوں، لیکن ان کو ہر وقت اس کے اعراض اور بے نیازی کا ڈر لگا رہتا ہے اور جو قرب و وصال کی لذتوں سے پوری طرح متمتع ہو چکے ہوں، ان کے لیے تو ہجر و فراق کا ذکر ہی قیامت ہے۔ سورۂ ہود میں بہت سی قوموں کی ہلاکت اور بربادی کا بیان ہے۔ گو یہ قومیں اپنی سرکشی اور شرارت کی بنا پر ہلاک و برباد ہوئیں، لیکن جس کا دل عظمت الٰہی اور جلال خداوندی کے تصور سے لبریز ہو، وہ اغیار کے انجام بد کو بھی دیکھ کر اپنی جگہ پر خوف زدہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے ’اَلَا بُعْدًا لِثَمُوْدَ اَلَا بُعْدًا لِمَدْیَنَ‘ وغیرہ جیسے زواجر نے آپ کو لرزا دیا اور آپ اس فکر میں جلد بوڑھے ہو گئے۔‘‘
امام غزالی کی یہ تقریر بہت لطیف ہے، لیکن ان کی توجیہ صحیح نہیں، کیونکہ بعض روایتوں میں ہے کہ آپ نے تصریح فرمائی کہ مجھے آیت ’فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ‘ (ہود۱۱: ۱۱۲) نے بوڑھا بنا دیا۔ ۴ حضرت ابن عباس بھی اسی بات کے قائل ہیں۔ امام رازی بھی اسی آیت کو ’شیب‘ کا باعث قرار دیتے ہیں۔۵ لیکن جس نہج سے وہ قرار دیتے ہیں، اس سے ہمیں اتفاق نہیں۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ ’’اس آیت میں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حقیقی مامور بہا عقائد اور مامور بہا اعمال پر استقامت کا حکم دیا گیا ہے اور یہ چیز بہت دشوار ہے۔ عقائد میں اولین درجہ معرفت الٰہی کا ہے، لیکن بندہ کو صحیح معرفت کبھی حاصل نہیں ہو سکتی یا تو صفات کثیرہ کا اثبات کرتے کرتے خدا کو انسان بنا دے گا یا تمام صفات سے اس کو معرا کر دے گا اور اگر صحیح معرفت اس کو حاصل بھی ہوئی تو اس پر استقامت بہت زیادہ دشوار ہے۔ یہ حال تو عقائد کا ہے۔ رہی اعمال کی صحیح پابندی اور اس پر استقامت تو ظاہر ہے یہ اس سے بھی بدرجہا دشوار ہے۔ اسی لیے آں حضرت پر یہ آیت ایک بارگراں تھی۔ جس کی فکر نے آپ کو بوڑھا کر دیا۔‘‘۶
افسوس ہے کہ بوجوہ جس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں، امام رازی کی اس توجیہ سے ہم کو اختلاف ہے۔ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اسی مفہوم کی ایک آیت، بلکہ بعینہٖ یہی آیت سورۂ شوریٰ (۴۲) میں بھی وارد ہوئی ہے۔ (ملاحظہ ہو آیت ۱۵) استقامت کا حکم جس طرح یہاں ہے، ٹھیک اسی طرح وہاں بھی ہے اگر یہی حکم آپ کے بڑھاپے کا باعث ہوا تو پھر سورۂ ہود کی تخصیص کے کوئی معنی نہیں۔ پس یہ کہنا کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتا کہ یہ آیت آپ پر قرآن کی تمام آیتوں سے زیادہ بار تھی۔ جس کی بنا پر آپ نے ’شیبتنی ہود‘ فرمایا۔ ظاہر ہے کہ آپ کا یہ قول بالکل آخر عمر کا ہے، اور یہ دونوں سورتیں مکی ہیں، اس لیے یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ سورۂ شوریٰ اس قول کے بعد نازل ہوئی۔ پھر یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے کہ آپ پر استقامت کا حکم اس حیثیت سے جس حیثیت سے امام رازی فرماتے ہیں، کیوں اتنا بار گزرا کہ اس کے غم میں آپ پر جلد بڑھاپے کے آثار طاری ہو گئے۔ کیا واقعی یہ آیت آپ پر اسی لیے بار تھی کہ اس میں ایک ناممکن الحصول چیز کا حکم دیا گیا ہے، اگر ایسا ہے تو انسان ناممکن چیز کا مکلف ہی کب بنایا گیا ہے۔ کیا قرآن کی متعدد آیتوں میں یہ تصریح نہیں کہ ’لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا‘! کیا نعوذ باللہ آپ اس بات سے بے خبر تھے؟ بہرحال بوجوہ ہم کو امام رازی کا یہ قول صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ اب ہم آخر میں اس مسئلہ کے متعلق استاذ امام فراہی کا نقطۂ نظر واضح کرنا چاہتے ہیں۔
مولانا بھی حضرت ابن عباس کے قول کے مطابق آیت ’فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ‘ کو ’شیب‘ کا باعث قرار دیتے ہیں اور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قرآن میں اس آیت سے زیادہ سخت اور کوئی آیت نہ تھی، لیکن مولانا کی توجیہ امام رازی کی توجیہ سے بالکل مختلف ہے۔ مولانا کے نزدیک یہ آیت اس حیثیت سے ’شیب‘ کی باعث نہیں ہے کہ اس میں ایک محال اور غیر ممکن الحصول چیز کا حکم ہے، بلکہ اس حیثیت سے ہے کہ اس میں اور بعد کی آیتوں میں ان خرابیوں کی طرف اشارہ ہے جن میں مسلمان مبتلا ہو کر دین و دنیا کو کھو بیٹھیں گے۔ اسی کا غم تھا جس نے رحمت عالم کو قبل از وقت بوڑھا بنا دیا، لیکن یہ اشارہ اتنا صریح نہیں ہے کہ ہر شخص آسانی سے سمجھ لے۔ اس کے سمجھنے کے لیے ذوق سلیم کے ساتھ قرآن کے اسلوب بیان وغیرہ پر بہت گہری نظر ہونی چاہیے۔ بہت سی آیتیں ایسی ہیں جن میں عوام کو کوئی خاص بات نظر نہیں آتی، لیکن غور و تدبر کرنے والے علما انھی آیتوں سے عجیب عجیب نکتے پیدا کرتے ہیں۔ پیشین گوئیوں اور اشاروں کا سمجھنا تو اور زیادہ دشوار ہے۔ سورۃ النصر میں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی پیشین گوئی تھی، لیکن خاص خاص صحابہ کے سوا عموماً لوگ اس کو نہیں سمجھے، کیونکہ ظاہر الفاظ سے اس کی طرف ذہن منتقل نہیں ہوتا تھا۔ اس آیت میں بھی بظاہر کوئی صریح اشارہ ہم کو نظر نہیں آتا، لیکن اگر ان تمام مقدمات کو سامنے رکھا جائے، جن کی بنا پر مولانا اس راے تک پہنچے تھے تو پھر اس میں شبہ کی گنجایش باقی نہیں رہ جاتی ہے، لیکن افسوس ہے کہ اس مسئلہ کے متعلق ہمارے سامنے صرف مولانا کا دعویٰ ہے، ان کے وجوہ و دلائل کی تفصیل بجز چند مجمل اشارات کے ہمارے سامنے نہیں ہے، اس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ اس دعویٰ پر مولانا کے پاس کیا دلائل تھے۔ البتہ جن قرائن سے ہم اس دعویٰ کو صحیح خیال کرتے ہیں، ان کو یہاں بیان کرتے ہیں۔
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی تسلی کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت تفصیل کے ساتھ پہلے ان قوموں کی دنیاوی ہلاکت اور اخروی عذاب و خسران کو بیان کیا جو نشۂ دولت سے سرشار ہو کر عالم میں فتنہ و فساد پھیلا رہی تھیں اور اپنی ثروت کے غرور میں رسولوں کو جھٹلاتی تھیں اور اللہ کے بندوں کو ایذائیں پہنچاتی تھیں اور آخر میں مشرکین عرب کی ہلاکت کی بشارت سناتے ہوئے اس بیان کو اس آیت پر ختم کر دیا:
فَلاَ تَکُ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّمَّا یَعْبُدُ ہٰٓؤُلَآءِ مَا یَعْبُدُوْنَ اِلاَّ کَمَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُہُم مِّنْ قَبْلُ وَاِنَّا لَمُوَفُّوْہُمْ نَصِیْبَہُمْ غَیْْرَ مَنقُوْصٍ.(ہود ۱۱: ۱۰۹)
’’سو تو نہ رہ دھوکے میں ان چیزوں سے جن کو پوجتے ہیں یہ لوگ۔ یہ لوگ کچھ نہیں پوجتے، مگر ویسا ہی جیسا کہ پوجتے تھے ان کے باپ دادا اس سے پہلے۔ اور ہم دینے والے ہیں ان کو ان کا حصہ، یعنی عذاب سے بلانقصان۔‘‘
اس کے بعد اہل کتاب کے اختلاف کو بالاختصار بیان کر کے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَکَ وَلاَ تَطْغَوْا.(ہود ۱۱: ۱۱۲)
’’سو تو سیدھا چلاجا جیسا تم کو حکم ہوا اور جس نے توبہ کی تیرے ساتھ اور حد سے نہ بڑھو۔‘‘
یہ خطاب یہاں خاص اہمیت رکھتا ہے اور درحقیقت اس آیت میں ایک لمبی داستان پنہاں ہے۔ حرف ’فا‘ سے اس جملہ کی ابتدا ہوئی جس کا اقتضا یہ ہے کہ اس کا تعلق ماقبل سے ہے۔ سو نظم کلام کو پیش نظر رکھنے والوں پر ظاہر ہے کہ یہاں مسلمانوں کے لیے یہ بشارت ہے کہ اب ان کو خدا کی فتح و نصرت نصیب ہونے والی ہے، لیکن اسی کے ساتھ یہ اشارہ بھی ہے کہ گذشتہ قوموں کی طرح، مال و دولت پا کر مسلمان بھی اپنے کو طغیان اور اختلاف کی وبا سے محفوظ نہیں رکھ سکتے، اسی لیے ’فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ‘ کے بعد ’وَلاَ تَطْغَوْا‘ کہا گیا۔ پس اس میں ایک طرف بشارت ہے اور دوسری طرف سرکشی اور اختلاف میں پڑنے کی پیشین گوئی۔ ان دونوں مسئلوں کو سمجھنے کے لیے متعدد طویل مقدمات کی ضرورت ہے۔ بشارت کے پہلو کو سمجھنے کے لیے دو باتیں پیش نظر رکھیے:
۱۔ قرآن میں امر کے بعد جب نہی آتی ہے تو اس نہی سے امر کے مفہوم کی توضیح و تشریح ہوتی ہے۔ اس کی مثالیں قرآن میں کثرت سے ملیں گی۔ پس ’فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ‘ کے بعد جو ’لاَ تَطْغَوْا‘ فرمایا گیا تو گویا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ مال و دولت کے حصول کے بعد جس طرح گذشتہ قومیں طغیان میں مبتلا ہو گئی تھیں، کہیں تم بھی طغیان میں مبتلا نہ ہو جانا، بلکہ جادۂ حق پر مستقیم رہنا۔
۲۔ بشارت کا ایک لطیف پیرایۂ بیان یہ ہے کہ جس چیز کی بشارت دینی مقصود ہے، اس کا ذکر نہ کیا جائے، بلکہ اس کے لوازم کو نفیاً یا اثباتاً بیان کر دیا جائے۔ اس سے ملزوم کی بشارت خود بخود سمجھ لی جائے گی۔ غور کیجیے، تسلی کا موقع ہے سرکش قوموں کی ہلاکت کا طویل بیان تسلی ہی پر ختم ہوا ہے اور بعد کی آیت میں بھی ایک گونہ تسلی ہی ہے۔ اسی کے بعد حرف ’فا‘ کے ساتھ آیت ’فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ‘ الآیہ کی ابتدا کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں مقصود ان قوموں کے تکبر و نشۂ دولت کے انجام بد کو دکھلا کر مسلمانوں کو استقامت کا حکم دینا ہے اور طغیان سے روکنا ہے جو لازمۂ دولت و ثروت ہے تو کیا اس طغیان کی نہی سے یہ نہیں سمجھا جائے گا کہ اب مسلمانوں کو وہ چیز ملنے والی ہے جس کا لازمی نتیجہ طغیان ہے، اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہاں ’لاَ تَطْغَوْا‘ کہنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ یہ بات اپنی جگہ پر بالکل واضح ہے کہ طغیان کا جذبہ، مال و دولت کی فراوانی ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ قرآن کی متعدد آیتوں میں اس کی تصریح ہے۔ مثلاً: ’کَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغٰٓی، اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰی‘ (العلق ۹۶: ۶۔۷)۔
پس جب طغیان کی نہی کی گئی جو لازمۂ استغنا ہے تو اس سے خود ظاہر ہو گیا کہ مسلمانوں کو اب استغنا نصیب ہونے والا ہے۔
پیشین گوئی کے لیے، جیسا کہ پہلے میں نے عرض کیا، کوئی صریح اشارہ یہاں پایا نہیں جاتا، لیکن گذشتہ قوموں کے اختلاف و طغیان کو ذکر کرنے کے معاً بعد استقامت کے حکم اور طغیان کی نہی سے حقیقت سنج دماغ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہ امر و نہی یہاں کوئی خاص اہمیت رکھتے ہیں اور پھر دو تین آیتوں کے بعد جو نسخۂ شفا تجویز کیا گیا ہے، اس سے تو اہل نظر مرض کے وجوہ اور اس کی نوعیت کا اندازہ بہ خوبی لگا لیتے ہیں۔ چنانچہ انھی دو آیتوں کے بعد جن میں طغیان اور اختلاف میں پڑنے کا اشارہ ہے، اللہ تعالیٰ نے صلوٰۃ و صبر کا حکم دیا ہے۔ یہ دونوں چیزیں دراصل سابق الذکر بیماریوں کی دوا ہیں۔ طغیان اور اختلاف کے پیدا ہونے کے اسباب و و جوہ پر اگر آپ کی نظر ہو تو آپ بہ خوبی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ نماز کیوں کر ان اسباب کا بیخ و بن کے ساتھ خاتمہ کرتی ہے۔ مال و دولت کی فراوانی کے بعد انسان کے دل و دماغ پر ایک نشہ سوار ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے کو اللہ سے اور لوگوں سے بے نیاز سمجھنے لگتا ہے، اس لیے وہ نہ تو اللہ کے بتائے ہوئے راستوں پر چلتا اور نہ کسی بات میں لوگوں کی پروا کرتا ہے۔ جب کسی قوم کے افراد کی حالت اس حد تک پہنچ جاتی ہے تو وہ شکست و نامرادی سے دوچار ہوتی ہے اور اللہ کی رحمت سے محروم ہو کر برباد ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ یہاں کہا گیا ہے: ’ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ‘۔ پھر جب تک یہ قوم اللہ کی طرف رجوع نہیں کرتی، ہلاکت سے بچ نہیں سکتی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس سے بچنے کے لیے نماز کا حکم دیا، کیونکہ نماز ہی رحمت کا سبب ہے۔ یہی رجوع الی اللہ کی نشانی ہے۔ اسی سے مال و دولت کا نشہ زائل ہوتا ہے اور اسی سے انسان کے دل و دماغ کی ہر کل درست ہوتی ہے جیسا کہ مختلف آیات میں کہا گیاہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے:
اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ہَلُوْعًا، اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا، وَّاِذَا مَسَّہُ الْخَیْْرُ مَنُوْعًا، اِلَّا الْمُصَلِّیْنَ، الَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَاتِہِمْ دَآئِمُوْنَ.(المعارج ۷۰: ۱۹۔۲۳)
’’انسان چھوٹے دل کا ہے جب اس کو کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے گھبرانے لگتا ہے اور جب نعمت مل جاتی ہے بخیل بن جاتا ہے، مگر وہ جو نمازی ہیں اور اپنی نمازوں کا کبھی ناغہ نہیں کرتے۔‘‘
ان اشارات کے علاوہ بعد کی آیتوں میں اور بھی اشارے پائے جاتے ہیں، لیکن یہاں زیادہ تفصیل کی گنجایش نہیں۔
اس طویل بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ علامہ فراہی کے نزدیک سورۂ ہود اس حیثیت سے ’شیب‘ کا باعث ہوئی کہ اس میں ان خرابیوں کی طرف اشارہ تھا جو مسلمانوں میں آیندہ پیدا ہوں گی۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کے ساتھ جو محبت تھی، اس کو دیکھتے ہوئے کچھ تعجب نہیں کہ آپ ان خرابیوں کے تصور سے جلد بوڑھے ہو جائیں۔ ممکن ہے کہ بعض لوگوں کو یہ شبہ ہو کہ اگر ان آیات میں پیشین گوئی ہے تو یہی پیشین گوئی سورۂ شوریٰ میں بھی ہونی چاہیے جہاں بعینہٖ یہی آیت موجود ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے نزدیک مفہوم آیات کی تعیین کا ذریعہ سیاق و سباق اور نظم کلام ہے۔ یہاں الفاظ اور نظم کلام سے اس پیشین گوئی کی طرف اشارہ ہوتا ہے، لیکن سورۂ شوریٰ میں یہ آیت ایک دوسرے موقع پر ہے، اسی لیے وہاں استقامت کے حکم کے بعد ’لاَ تَطْغَوْا‘ کہنے کے بجاے ’وَلَا تَتَّبِعْ اَہْوَآءَ ہُمْ‘ کہا گیا۔ اس نہی سے اس آیت کا مفہوم متعین ہو گا، جیسا کہ میں پہلے قاعدہ عرض کر چکا ہوں۔
(مارچ ۱۹۳۶ء، قرآنی مقالات ۱۸۶۔۱۹۴)
________
۱ تفصیلات کے لیے دیکھیے: ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم۔ دارالمعرفہ، بیروت ۱۹۸۰ء، ۲/ ۴۳۵۔
۲ اس قسم کی بعض دوسری احادیث کے لیے دیکھیے: ابو عبداللہ القرطبی، الجامع لاحکام القرآن (بدون تاریخ) ۹/ ۱۔۲، ۱۰۷۔
۳ فخر الدین رازی، التفسیر الکبیر، الطبعۃ الثالثۃ ۱۸/ ۷ا۔
۴ التفسیر الکبیر ۱۸/ ۱۷۔
۵ التفسیر الکبیر ۱۸/ ۱۷۔
۶ التفسیر الکبیر ۱۸/ ۱۷۔
____________