HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: النحل ۱۶: ۱- ۹ (۱)

النحل ـــــــــ بنی اسرائیل  


یہ دونوں سورتیں اپنے مضمون کے لحاظ سے توام ہیں۔ دونوں کا باہمی تعلق اجمال اور تفصیل کا ہے۔ چنانچہ پہلی سورہ میں جو چیزیں اشارات کی صورت میں ہیں، دوسری میں اُن کو بالکل واضح کر دیا ہے۔ یہود سے مفصل خطاب، اخلاق کے فضائل و رذائل کی وضاحت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کے لیے تیاری کی ہدایت اِس کی نمایاں مثالیں ہیں۔

دونوں سورتوں کا موضوع انذار و بشارت ہے جو پچھلی سورتوں سے چلا آرہا ہے اور دونوں میں خطاب اصلاً قریش ہی سے ہے۔ دوسری سورہ     بنی اسرائیل    میں، البتہ یہود سے بھی مفصل خطاب کیا گیا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ قریش کی حمایت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کے لیے اب وہ بھی پوری طرح میدان میں آچکے ہیں۔

اِن کے مضمون سے واضح ہے کہ ام القریٰ مکہ میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مرحلۂ اتمام حجت میں اُس وقت نازل ہوئی ہیں، جب ہجرت کا مرحلہ قریب آگیا ہے۔

_____________


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 
اَتٰٓی اَمْرُاللّٰہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ سُبْحٰٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ(۱) یُنَزِّلُ الْمَلٰٓءِکَۃَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖٓ اَنْ اَنْذِرُوْٓا اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ(۲)خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ تَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ(۳) خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ فَاِذَا ھُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ(۴) وَ الْاَنْعَامَ خَلَقَھَا لَکُمْ فِیْھَا دِفْءٌ وَّمَنَافِعُ ومِنْھَا تَاْکُلُوْنَ(۵) وَلَکُمْ فِیْھَا جَمَالٌ حِیْنَ تُرِیْحُوْنَ وَحِیْنَ تَسْرَحُوْنَ(۶) وَتَحْمِلُ اَثْقَالَکُمْ اِلٰی بَلَدٍ لَّمْ تَکُوْنُوْا بٰلِغِیْہِ اِلَّا بِشِقِّ الْاَنْفُسِ اِنَّ رَبَّکُمْ لَرَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ(۷) وَّالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیْرَ لِتَرْکَبُوْھَا وَزِیْنَۃً وَیَخْلُقُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ(۸) وَعَلَی اللّٰہِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَمِنْھَا جَآءِرٌ وَلَوْ شَآءَ لَھَدٰکُمْ اَجْمَعِیْنَ(۹)

ـــــــــ ۱ ـــــــــ

اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے، جس کی شفقت ابدی ہے۔
اللہ کا فیصلہ صادر ہو چکا ہے، سو اُس کے لیے جلدی نہ مچاؤ۱؎۔ وہ پاک اور برتر ہے اُن چیزوں سے جنھیں یہ شریک ٹھیراتے ہیں ۲؎۔ (اِنھیں بتاؤ، اے پیغمبر کہ ہر شخص اِس کا اہل نہیں ہوتا کہ اللہ اُس پر فرشتے اتار دے)۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے، اپنے حکم کی وحی۳؎ کے ساتھ فرشتے اتارتا ہے، (اِس ہدایت کے ساتھ) کہ لوگوں کو خبردار کر دو کہ میرے سوا (تمھارا) کوئی معبود نہیں ہے، لہٰذا مجھی سے ڈرو۔ اُس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے۴؎۔ (اُس کے فیصلوں پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا)، وہ برتر ہے اُن چیزوں سے جنھیں یہ شریک ٹھیراتے ہیں۔ اُس نے انسان کو ایک ذرا سی بوند سے پیدا کیا تو دیکھتے ہو کہ یکایک وہ ایک کھلا ہوا حریف بن کر اُٹھ کھڑا ہوا ہے۵؎۔ یہ چوپایے بھی اُس نے پیدا کیے ہیں جن میں تمھارے لیے جاڑے کی پوشاک ہے اور دوسرے فائدے بھی اور اِن سے تم غذا بھی حاصل کرتے ہو۔ اِن کے اندر تمھارے لیے جمال بھی ہے، جبکہ شام کے وقت اِن کو واپس لاتے ہو اور جب صبح کو چرنے کے لیے چھوڑتے ہو۶؎۔ یہ تمھارے بوجھ ایسی جگہوں تک لے جاتے ہیں، جہاں تم جان توڑ کر ہی پہنچ سکتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمھارا پروردگار بڑا ہی شفیق، بڑا مہربان ہے۔ یہ گھوڑے اور خچر اور گدھے بھی اُس نے پیدا کیے ہیں تاکہ تم اِن پر سوار ہو اور یہ زینت بھی ہیں۔ وہ ایسی چیزیں بھی پیدا کرتا ہے جنھیں تم نہیں جانتے۔(اُس کو پانا چاہتے ہو تو جان لو کہ) اللہ تک سیدھی راہ پہنچاتی ہے، جبکہ راہیں ٹیڑھی بھی ہیں۔ (اُس نے تمھیں اختیار دیا ہے کہ جو راہ چاہے، اختیار کرو)، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ چاہتا تو تم سب کو (اُسی ایک راہ کی) ہدایت دے دیتا۔۱-۹

۱؎ یہ اُس فیصلے کا اعلان ہے جو رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد لازماً صادر ہو جاتا ہے۔ قرآن کے مخاطبین اُسی کے لیے جلدی مچائے ہوئے تھے۔ یہ اُنھی کو خطاب فرمایا ہے۔

۲؎ اِس آیت میں پہلے براہ راست خطاب ہے، پھر غائب کا صیغہ آگیا ہے۔ یہ التفات کیوں ہوا ہے؟ استاذ امام لکھتے ہیں:

”...اِس میں بلاغت یہ ہے کہ پہلے ٹکڑے میں تہدید و وعید ہے جس کے لیے خطاب ہی کا اسلوب زیادہ موزوں ہے اور اِس دوسرے ٹکڑے میں کراہت و نفرت کا اظہار ہے جس کے لیے غائب کا صیغہ زیادہ مناسب تھا۔ گویا بات اُن سے منہ پھیر کر فرمائی گئی۔“ (تدبرقرآن۴/ ۳۸۹)

۳؎ اصل میں ’بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِہٖ‘کے الفاظ آئے ہیں، یعنی اپنے حکم کی روح کے ساتھ۔ ’رُوْح‘ سے مراد یہاں وحی الہٰی ہے۔قرآن میں یہ لفظ اِس معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جو پھونک یا کلمہ خدا سے صادر ہو کر فرشتہ بن جاتا ہے یا انسان کا قالب اختیار کرتا ہے یا لفظ کا جامہ پہنتا ہے، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک ہی چیز ہے۔

۴؎ یعنی غایت و حکمت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ یہ کائنات بامعنیٰ انجام کو پہنچے اور اِس میں جو کچھ ہوا ہے، خدا کی عدالت انصاف کے ساتھ اُس کا فیصلہ سنا دے۔ یہ کوئی بازیچۂ اطفال نہیں ہے کہ لوگ اِس میں جو چاہیں، کرتے پھریں اور اُن سے کوئی بازپرس نہ ہو۔

۵؎ اشارہ ہے اُنھی سرکشوں کی طرف جو اُس وقت قرآن کے مخاطب تھے۔

۶؎ اصل الفاظ ہیں:’حِیْنَ تُرِیْحُوْنَ وَحِیْنَ تَسْرَحُوْنَ‘۔اِن میں ’سَرْح‘ کو بظاہر ’اِرَاحَۃ‘ پر مقدم ہونا چاہیے تھا، لیکن قرآن نے اُسے موخر کر دیا ہے۔ اِس کی وجہ کیا ہے؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

”... اِس کی وجہ یہ ہے کہ موقع کلام اظہار شان کا ہے اور شان کا اظہار گلے کی شام کو واپسی میں زیادہ ہے، جبکہ وہ چراگاہ سے چر چگ کے تازگی اور فربہی کی حالت میں گھر کو واپس آتا ہے۔ یہ بات اِس درجہ میں اُس وقت نہیں ہوتی، جب وہ صبح کو چرنے کے لیے چھوڑا جاتا ہے۔“(تدبرقرآن۴/ ۳۹۱)

[باقی]

______________________

B