ترجمہ وتدوین: شاہد رضا
عَنِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّہُ قَالَ: اسْتَفْتٰی سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ نَذْرٍ کَانَ عَلٰی أُمِّہِ تُوُفِّیَتْ قَبْلَ أَنْ تَقْضِیَہُ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: فَاقْضِہِ عَنْہَا.(مسلم، رقم ۱۶۳۸ا)
عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ أَنَّہُ أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّ أُمِّی مَاتَتْ وَعَلَیْہَا نَذْرٌ أَفَیُجْزِءُ عَنْہَا أَنْ أُعْتِقَ عَنْہَا؟ قَالَ: أَعْتِقْ عَنْ أُمِّکَ.(نسائی، رقم ۳۶۵۶)
حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہما) کہتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ (رضی اللہ عنہ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نذر کے بارے میں سوال کیا جو ان کی والدہ پر تھی اور وہ اسے پورا کرنے سے پہلے ہی انتقال کر گئی تھیں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان کی طرف سے یہ نذر پوری کر دو۱۔
حضرت سعد بن عبادہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا: بے شک، میری والدہ انتقال کر چکی ہیں اور ان کے ذمے ایک نذر ہے، اگر میں ان کی طرف سے ایک غلام آزاد کر دوں تو کیا یہ نذر ان کی طرف سے پوری ہو جائے گی۲؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: اپنی والدہ کی طرف سے ایک غلام آزاد کر دو۳۔
۱۔ جس طرح دیگر قرض خواہ انسانوں کا قرض حق ہے، اسی طرح قضا نذریں بھی اللہ تعالیٰ کا حق ہیں۔ آدمی کو حقوق العباد کے ساتھ ساتھ حقوق اللہ کے معاملے میں بھی نہایت محتاط رہنا چاہیے، اس لیے کہ روز قیامت اسے ان حقوق کا بار برداشت کرنا پڑے گا۔ یہ ایک امر بدیہی ہے کہ یہ بات اس صحابی (حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ) کے لیے باعث تشویش تھی جس نے اسے اپنی والدہ کی نذر پوری کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے پر آمادہ کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابی کو اپنی والدہ کی نذر پوری کرنے اور جس طرح وہ اپنی والدہ کو دیگر ذمہ داریوں سے آزاد کرنا چاہتے تھے، اسی طرح اس ذمہ داری سے آزاد کرنے کا حکم فرمایا۔
۲۔ اس روایت میں یہ بات واضح نہیں ہے کہ آیا حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی والدہ نے ایک غلام آزاد کرنے کی نذر مانی تھی یا غلام آزاد کرنا قضا نذر کے کفارے کے طور پر تھا۔ بہ صورت دیگر یہ بات بالبداہت واضح ہے کہ جس طرح کسی دوسرے شخص کی جانب سے قرض کی ادائیگی کی جاتی ہے، بالکل اسی طرح اس صحابی (رضی اللہ عنہ) کے اس عمل کا مقصد بھی اپنی فوت شدہ والدہ کو قضا نذر کے باعث عائد ہونے والی ذمہ داری سے آزاد کرنا تھا۔
۳۔ ان روایات اور اس طرح کی دیگر روایات کا قرآن مجید کے بنیادی اصول ’لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی‘* (انسان کو (آخرت میں) وہی ملے گا جو اس نے (دنیا میں) کمایا ہے) کی روشنی میں جائزہ لینا چاہیے۔
پہلی روایت بعض اختلافات کے ساتھ بخاری، رقم ۲۶۱۰، ۶۳۲۰، ۶۵۵۸؛ مسلم، رقم۱۶۳۸ا، ۱۶۳۸ب؛ ابوداؤد، رقم۳۳۰۷؛ ترمذی، رقم ۱۵۴۶؛ نسائی، رقم۳۶۵۷۔۳۶۶۳، ۳۸۱۷۔۳۸۱۹؛ ابن ماجہ، رقم ۲۱۳۲؛ احمد، رقم۳۵۰۶؛ ابن حبان، رقم۴۳۹۳۔۴۳۹۵؛ بیہقی، رقم۸۰۲۱، ۱۲۴۱۳، ۱۹۹۳۴؛ موطا امام مالک، رقم۱۰۰۷؛ مسند ابویعلیٰ، رقم۲۳۸۳، ۲۶۸۳؛ مسند حمیدی، رقم۵۲۲؛ عبدالرزاق، رقم۱۶۳۳۳۔۱۶۳۳۴؛ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۴۷۵۹۔۴۷۶۱، ۶۴۸۴۔۶۴۹۰ اور ابن ابی شیبہ، رقم۱۲۰۸۰، ۳۶۱۲۰ میں روایت کی گئی ہے۔
دوسری روایت* بعض اختلافات کے ساتھ نسائی، رقم۳۶۵۶؛ احمد، رقم ۲۳۸۹۷؛ بیہقی، رقم ۱۲۴۱۸۔۱۲۴۱۹؛ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم۶۴۸۳ اور موطا امام مالک، رقم۱۴۷۳ میں روایت کی گئی ہے۔
بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم۶۳۲۰ میں ’فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: فاقضہ عنہا‘ (اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان کی طرف سے یہ نذر پوری کر دو) کے الفاظ کے بجاے ’فأفتاہ أن یقضیہ عنہا‘ (نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے انھیں والدہ کی طرف سے نذر پوری کرنے کا حکم فرمایا) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم۶۳۲۰ میں اس روایت کے آخر میں ’فکانت سنۃ بعد‘ (پھر اس واقعے کے بعد یہ سنت بن گئی) کے الفاظ کا اضافہ روایت کیا گیا ہے۔
بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم۲۶۱۰ میں اس روایت کی ایک متبادل روایت مروی ہے۔ وہ درج ذیل الفاظ میں روایت کی گئی ہے:
روی أن سعد بن عبادۃ رضی اللّٰہ عنہ استفتی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: إن أمی ماتت وعلیہا نذر، فقال: اقضہ عنہا.
’’روایت کیا گیا ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے ہوئے عرض کیا: بے شک، میری والدہ انتقال کر چکی ہیں، جبکہ ان پر ایک نذر ہے (کیا میں اس نذر کے معاملے میں کچھ کر سکتا ہوں)؟ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: یہ نذر ان کی طرف سے پوری کر دو۔‘‘
بعض روایات، مثلاً ابوداؤد، رقم۳۳۰۷ میں ’وعلیہا نذر‘ (جبکہ ان پر ایک نذر ہے) کے الفاظ کے بعد ’لم تقضہ‘ (جو انھوں نے پوری نہیں کی ہے) کے الفاظ کا اضافہ ہے؛ جبکہ نسائی، رقم۳۸۱۹ میں یہ الفاظ ’فلم تقضہ‘ (مگر انھوں نے یہ نذر پوری نہیں کی) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً عبدالرزاق، رقم۱۶۳۳۳ میں ’فقال: اقضہ عنہا‘ (نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: یہ نذر ان کی طرف سے پوری کر دو) کے الفاظ کے بجاے ان کے متبادل الفاظ ’فأمر بقضاۂ‘ (نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے انھیں یہ نذر پوری کرنے کا حکم فرمایا) روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم ۳۶۶۱ میں یہ روایت درج ذیل الفاظ میں روایت کی گئی ہے:
روی أن سعد بن عبادۃ رضی اللّٰہ عنہ قال: ماتت أمی وعلیہا نذر، فسألت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأمرنی أن أقضیہ عنہا.
’’روایت کیا گیا ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میری والدہ وفات پا گئیں، جبکہ ان پرایک نذر تھی، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے (اس نذر کے بارے میں) پوچھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مجھے ان کی طرف سے یہ نذر پوری کرنے کا حکم فرمایا۔‘‘
بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم۳۶۶۳ میں ’وعلیہا نذر‘ (جبکہ ان پر ایک نذر ہے) کے الفاظ کے بعد ’ولم تقضہ‘ (جو انھوں نے پوری نہیں کی ہے) کے الفاظ کا اضافہ روایت کیا گیا ہے۔
بعض روایات، مثلاً عبدالرزاق، رقم۱۶۳۳۴ میں یہ روایت قدرے مختلف الفاظ میں روایت کی گئی ہے۔ وہ روایت درج ذیل ہے:
روی أنہ جاء سعد بن عبادۃ رضی اللّٰہ عنہ إلی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: إن أمی کان علیہا نذر أفأقضیہ؟ قال: نعم، قال: أینفعہا ذلک؟ قال: نعم.
’’روایت کیا گیا ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا: بے شک، (وفات کے بعد)میری ماں پر ایک نذر ہے، کیا میں یہ نذر (ان کی طرف سے) پوری کر دوں؟ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: ہاں، (ان کی طرف سے یہ نذر پوری کر دو)، حضرت سعد نے پھر عرض کیا: کیا یہ نذر ان کو فائدہ دے گی؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: ہاں۔‘‘
بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم ۱۲۴۱۸ میں اس روایت کا ایک اہم اور بامعنی حصہ محذوف ہو گیا ہے۔ وہ روایت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:
روی أن سعد بن عبادۃ رضی اللّٰہ عنہ قال لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن أمی ہلکت فہل ینفعہا أن أعتق عنہا؟ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: نعم، أعتق عنہا.
’’روایت کیا گیا ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: بے شک، میری ماں وفات پا چکی ہیں، اگر میں ان کی طرف سے ایک غلام آزاد کروں تو کیا یہ غلام آزاد کرنا ان کے لیے نفع بخش ہو گا؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، ان کی طرف سے ایک غلام آزاد کر دو۔‘‘
اس روایت میں راویوں نے وہ حصہ حذف کر دیا ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ان کی والدہ کے ذمے ایک نذر تھی جسے وہ اپنی حین حیات پوری کرنے سے قاصر رہیں۔ اس حذف نے اصل واقعے کی صورت اور مطلب بالکل ہی تبدیل کر دیا ہے۔
قرآن مجید کے مطابق آخرت میں جزا و سزا کا بنیادی اصول ’لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی‘ (انسان کو (آخرت میں) وہی ملے گا جو اس نے (دنیا میں) کمایا ہے) کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ اس سے یہ بات بدیہی طور پر واضح ہے کہ جب کسی شخص نے کبھی بھی کسی عمل خیر اور عمل شر کا ارادہ نہیں کیا، اگر کوئی دوسرا شخص اس کی طرف سے یہ عمل ادا کرے تو وہ اس سے متعلق کسی نوعیت کا بھی اجر نہیں پائے گا۔ چنانچہ مذکورہ روایت کا مطلب، یعنی کسی شخص کی طرف سے کسی دوسرے شخص کا غلام آزاد کرنا اس کے لیے اجر کا باعث ہو سکتا ہے، یہ قرآن مجید کے بیان کردہ اصول کے صریح خلاف ہے۔
اس کے بعد ایک دوسری روایت میں رواۃ کی جانب سے ایک واضح غلطی کے سبب اس واقعے کا مزید مفہوم تبدیل ہو گیا ہے۔ وہ روایت بیہقی، رقم۱۲۴۱۹ میں ان الفاظ میں روایت کی گئی ہے:
روی أن سعدًا رضی اللّٰہ عنہ أتی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: یا رسول اللّٰہ، إن أم سعد کانت تحب الصدقۃ وتحب العتاقۃ، فہل لہا أجر إن تصدقت أو أعتقت؟ قال: نعم.
’’روایت کیا گیا ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللہ، (میری ماں) ام سعد صدقہ کرنا اور غلام آزاد کرنا پسند کرتی تھیں، اگر میں (ان کی طرف سے) صدقہ یا غلام آزاد کروں تو کیا ان کے لیے کوئی اجر ہو گا؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جواب دیا: ہاں۔‘‘
اسی واقعے کی بعض دیگر تبدیلیاں ان درج ذیل الفاظ میں روایت کی گئی ہیں:
روی أن سعد بن عبادۃ رضی اللّٰہ عنہ توفیت أمہ وہو غائب عنہا، فقال: یا رسول اللّٰہ، إن أمی توفیت وأنا غائب عنہا أینفعہا شیء إن تصدقت بہ عنہا؟ قال: نعم، قال: فإنی أشہدک أن حائطی المخراف صدقۃ علیہا.
’’روایت کیا گیا ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی والدہ ان کی عدم موجودگی میں انتقال کر گئیں، (جب ان کو اس کی خبر ملی اور وہ واپس آئے) تو انھوں نے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے ہوئے) عرض کیا: یارسول اللہ، میری والدہ میری عدم موجودگی میں وفات پا گئی ہیں، اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا انھیں اس کا کچھ فائدہ ہو گا؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جواب دیا: ہاں، انھوں نے پھر عرض کیا: میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میرا یہ باغ ان کے لیے صدقہ ہے۔‘‘
یہ روایت بخاری، رقم ۲۶۰۵، ۲۶۱۱، ۲۶۱۸؛ ابوداؤد، رقم۲۸۸۲؛ ترمذی، رقم ۶۶۹؛ نسائی، رقم۳۶۵۰۔۳۶۵۵؛ احمد، رقم۳۵۰۴۔۳۵۰۸؛ ابن حبان، رقم۳۳۵۴؛ بیہقی، رقم۱۲۴۱۱۔۱۲۴۱۲؛ موطا امام مالک، رقم۱۴۵۰؛ عبدالرزاق، رقم۱۶۳۳۷؛ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۶۴۷۷، ۶۴۸۱۔۶۴۸۲ اور ابن خزیمہ، رقم۲۵۰۰۔۲۵۰۲ میں روایت کی گئی ہے۔
ایک دوسرے مجموعۂ روایات میں یہ واقعہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
عن سعد بن عبادۃ رضی اللّٰہ عنہ قال: قلت: یا رسول اللّٰہ، إن أمی ماتت أفأتصدق عنہا؟ قال: نعم. قلت: فأی الصدقۃ أفضل؟ قال: سقی الماء.
’’حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا: یارسو ل اللہ، میری ماں وفات پا چکی ہیں، کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: ہاں۔ میں نے پھر عرض کیا: سب سے افضل صدقہ کون سا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: پانی پلانا۔‘‘
یہ روایت بعض اختلافات کے ساتھ نسائی، رقم۳۶۶۴، ۳۶۶۶؛ احمد، رقم۲۲۵۱۲، ۲۳۸۹۶؛ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم۶۴۹۱، ۶۴۹۳ اور ابن خزیمہ، رقم۲۴۹۶ میں روایت کی گئی ہے۔
________
*النجم ۵۳: ۳۹۔
** علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اگرچہ دوسری روایت کے طریق کو قوی شمار نہیں کیا ہے، تاہم اسی طرح کا مضمون رواۃ کے ایک ثقہ اور قوی طریق سے بھی روایت کیا گیا ہے، اس لیے انھوں نے اس روایت کو ’’صحیح سنن النسائی‘‘ (۲/ ۵۵۸) میں درج کیا ہے۔
____________