HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : رضوان اللہ

بعد از موت (۱۰)

جنت

انسان کی فطری خواہش ہے کہ یہ جنت کوحاصل کرناچاہتاہے۔اس کی یہ خواہش اس قدرعمومی ہے کہ کوئی شخص مذہب سے بے گانہ اوراخروی جنت کے تصورسے بے پروابھی ہو،وہ اپنے حصے کی جنت کم سے کم اس دنیامیں ضروربنالیناچاہتاہے۔دنیوی جنت کے لیے اسباب چاہییں اور پروردگارِ عالم کااذن چاہیے،مگراخروی جنت کے لیے ایمان وعمل اورپروردگارکافضل چاہیے۔ یہ اخروی جنت صرف ان لوگوں کامقدربنے گی جوخدا کے سامنے پیش ہونے کاشعوراوراس کی خاطر اپنی جنت جیسی زندگی کوبھی قربان کر دینے کاحوصلہ رکھتے ہوں گے۔اس کے برخلاف جولوگ دنیا کے ہو رہیں اور اسی میں کھو کر اپنے آپ کو آخرت سے بے نیازکرلیں،وہ اصل جنت سے بالکل محروم رہیں گے:

وَتِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْٓ اُوْرِثْتُمُوْھَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ.(الزخرف ۴۳: ۷۲)
’’اور یہ و ہ جنت ہے جس کے تم وارث بنائے گئے اپنے اعمال کے صلے میں ۔‘‘


وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی، فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰی.(النازعات ۷۹: ۴۰۔۴۱)
’’اور جو اپنے رب کے حضور میں پیشی سے ڈرا، اور اپنے نفس کو خواہشوں کی پیروی سے روکا،تو بہشت ہی اُس کا ٹھکاناہے۔‘‘


جنت ایک پاکیزہ مقام ہے۔اس کے مساکن،اس میں دی جانے والی زندگی ،اس میں ہونے والی گفتگو، اس میں ملنے والے شراب و طعام اورازواج،سب پاک ہوں گے، اس لیے اس میں داخل ہونے کی پہلی اورآخری شرط بھی پاک ہوناہوگی۔خوش قسمت ہوں گے وہ لوگ جنھوں نے دنیاہی میں اپنے نفس کی گندگیوں کا ازالہ کر لیا ہو گا۔ وگرنہ بہت سے لوگوں کو قبر کی گھٹن، قیامت کے ہول ،عدالت کے رعب،جزا کے دن کی حسرت وندامت اوروہاں ہونے والی رسوائی کے ذریعے سے صاف کیا جائے گا۔اورنہایت بدبخت ہوں گے وہ لوگ کہ جن کی آلودگی کو صرف اورصرف دوزخ کی آگ ہی صاف کر سکے گی۔غرض یہ کہ جنت جیسے پاکیزہ مقام میں گندے نفوس کاداخلہ کسی صورت بھی ممکن نہیں ہوگا۔اس میں جانے والے کے لیے لازم ہوگاکہ وہ اپنے نفس کو آلایشوں سے پاک کر چکا ہو یا اس کے نفس کو بعد ازاں سزادے کرپاک کردیاگیاہو:

جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا، وَذٰلِکَ جَزٰٓؤُا مَنْ تَزَکّٰی.(طٰہٰ ۲۰: ۷۶)
’’ہمیشہ رہنے والے باغ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔یہ صلہ ہے ان کا جو پاکیزگی اختیار کریں۔‘‘
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا، وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا.(الشمس ۹۱: ۹۔۱۰)
’’فلاح پاگیاوہ جس نے نفس کاتزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اسے آلودہ کرڈالا۔‘‘


وَلَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ وَلَا یَنْظُرُ اِلَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلَا یُزَکِّیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ.(آل عمران ۳: ۷۷)
’’اوراللہ قیامت کے دن نہ ان سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف (نگاہ التفات سے) دیکھے گااورنہ انھیں (گناہوں سے) پاک کرے گا،بلکہ وہاں ان کے لیے ایک دردناک سزاہے۔‘‘


جنت کوئی عارضی اورجزوقتی انعام نہیں، بلکہ یہ اس طرح کے ہراندیشے سے مبراہوگی ،حتیٰ کہ انقطاع کے ہر شائبے سے بھی پاک ہوگی۔جوکوئی ایک مرتبہ اس میں داخل ہوجائے گا،وہ اس میں سے نہ کبھی نکالاجائے گااورنہ اس کوملنے والے انعامات میں کوئی تعطل آئے گا:

وَاَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا فَفِی الْجَنَّۃِ، خٰلِدِیْنَ فِیْھَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّکَ، عَطَآءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ.(ہود ۱۱: ۱۰۸)
’’رہے وہ جونیک بخت ہیں تو وہ جنت میں ہوں گے۔ وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے، جب تک(اُس عالم کے) زمین و آسمان قائم ہیں، الّا یہ کہ تیرا پروردگار کچھ اور چاہے، ایسی عطاکے طور پر جو کبھی منقطع نہ ہو گی۔‘‘

جنت میں ہمیشہ رہنے کے لیے اس بات کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی کہ کون کتنازیادہ صالح ہے۔نیکی کی راہ پرچلنے والا کوئی عام مسافرہویااس پرسبقت کرنے والاخداکا مقرب اور برگزیدہ، ہرکوئی اس میں دائمی طورپرمقیم ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بات عجیب محسوس ہوکہ ان میں سے ایک کے پاس عمل کی پونجی کم ہے اوردوسرے کادامن اس متاع عزیز سے بھرا ہوا ہے اوروہ دونوں جنت میں ابدی طورپر رہنے کے مستحق قرارپائے ہیں۔اس کے جواب میں قرآن نے واضح کیاہے کہ جنت میں باقاعدہ درجات کالحاظ رکھاگیا ہے۔ نیکی میں کمی وبیشی اوراس کی کیفیت کے اعتبارسے وہاں مختلف مقامات ہوں گے۔سابقین اولین اور عام صالحین کی جنتیں ایک دوسرے سے مختلف ہوں گی۔ان میں دی جانے والی نعمتوں میں بھی حددرجہ تفاوت ہوگا۔۱؂ چنانچہ ہرایک کے لیے جنت کاابدی اوردائمی ہونا،نہ عجیب معاملہ ہے اورنہ یہ عدل کے خلاف ہی ہے۔

یہ بات بھی واضح رہے کہ عدل اگراللہ کی صفت ہے توفضل کرنابھی اسی کافعل ہے۔چنانچہ جنت میں جب صالحین خواہش کریں گے کہ ان کے والدین ،ان کی اولاد اوران کے ازواج جس طرح دنیامیں ان کے ساتھ رہے، اسی طرح یہاں کی مسرت بھری زندگی میں بھی وہ ان کے ساتھ رہیں توان کی اس خواہش کااحترام کرتے ہوئے انھیں ایک ہی جگہ اکٹھاکر دیا جائے گا۔اس کی صورت یہ نہیں ہوگی کہ صالحین کواوپرکے درجے سے اتاراجائے اورنچلے درجے میں ان سب کواکٹھاکردیاجائے کہ یہ صالحین کے ساتھ ظلم اورسراسرزیادتی ہوگی۔بلکہ خدااپنے فضل سے یہ کرے گاکہ ان کے عزیزوں کوکم تردرجے کی جنت سے اٹھاکر ،محض صالحین کی دل جوئی کے لیے، ان کے ساتھ اکٹھا کردے گا۔تاہم ، یہ لازم ہوگاکہ ان کے یہ عزیز اپنے ایمان اورعمل کی بنیادپر، بڑے درجے میں نہ سہی،مگرجنت میں داخل ہونے کا استحقاق ضرورثابت کرچکے ہوں:

جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَھَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآءِھِمْ وَاَزْوَاجِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ.(الرعد ۱۳: ۲۳)
’’ابدکے باغ جن میں وہ داخل ہوں گے اوروہ بھی جو اُن کے آبا و اجداد اور اُن کی بیویوں اوراُن کی اولاد میں سے اِس کے اہل بنیں گے۔‘‘


وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْھُمْ ذُرِّیَّتُھُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَمَآ اَلَتْنٰھُمْ مِّنْ عَمَلِھِمْ مِّنْ شَیْءٍ، کُلُّ امْرِیءٍم بِمَا کَسَبَ رَھِیْنٌ.(الطور ۵۲: ۲۱)
’’جو لوگ ایمان لائے ہیں اوراُن کی اولاد بھی کسی درجۂ ایمان میں ان کے نقش قدم پرچلی ہے،اُن کی اس اولادکوبھی ہم (اُنھی کے درجے میں)ان کے ساتھ ملا دیں گے اوران کے عمل میں کوئی کمی نہ کریں گے، (اس لیے کہ) ہر ایک اپنی کمائی کے بدلے میں رہن ہے۔‘‘


جنت میں رشتہ داریوں سے ہٹ کربھی مومنین ایک دوسرے کی رفاقت سے حظ اٹھاسکیں گے۔وہ لوگ جودینی حوالے سے آپس میں تعلق خاطررکھیں اورخدااوراس کے رسول کی اطاعت کریں،ان میں سے کم تردرجے والوں کوبڑے درجے والوں کاساتھ نصیب ہوجائے گا:

وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓءِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشَُّھَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ، وَحَسُنَ اُولٰٓءِکَ رَفِیْقًا، ذٰلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰہِ وَکَفٰی بِاللّٰہِ عَلِیْمًا.(النساء ۴: ۶۹۔۷۰)
’’جو اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کریں گے، وہی ہیں جو اُن لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین۔ کیا ہی اچھے ہیں یہ رفیق! یہ اللہ کی عنایت ہے اور (اس کے لیے) اللہ کاعلم کافی ہے۔‘‘

غرض یہ کہ جنت ایک ایسی مستقل اقامت گاہ ہے کہ جس میں مختلف درجات بھی ہوں گے اور ہردم خدا کافضل بھی جنت والوں کے شامل حال ہوگا۔

جہاں تک اس کی حدوں کی بات ہے توظاہرہے کہ یہ کوئی قیدخانہ نہیں کہ اس میں تنگی کی مصیبت اورگھٹن کا احساس ہو،بلکہ یہ نیک کاروں کی عمربھرکی کمائی اوران پرخداکی بے پایاں نعمتوں کی تعبیرہے۔یہ بات خوداس چیز کا تقاضاکرتی ہے کہ یہ حدوں سے مطلق بے پروااور تنگنائیوں سے قطعی ناآشناہو۔قرآن نے اس کی وسعتوں کو کائنات کی وسعتوں سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایاہے:

وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ، عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَاْلاَرْضُ، اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ.(آل عمران ۳: ۱۳۳)
’’اپنے پروردگارکی مغفرت اوراس جنت کی طرف بڑھ جانے کے لیے دوڑو جس کی وسعت زمین و آسمان جیسی ہے، پرہیزگاروں کے لیے تیارکی گئی ہے۔‘‘

خدا کی عدالت جب صالحین کوان کی کامیابی کی خوش خبری سنادے گی تو وہ جنت جس پرابھی تک ان کا غیبی ایمان تھا،اُن کے بالکل سامنے کر دی جائے گی۔ کسی کوغلط فہمی ہوسکتی تھی کہ شاید یہ ان سے دور ہوگی جواس کو نزدیک کیاجائے گا۔اس غلط فہمی کو ذیل کی آیت میں ’غَیْرَ بَعِیْدٍ‘ کہہ کر دور کر دیا گیا ہے۔ یعنی یہ دوری اورپھراس کی نزدیکی ،بس اتنی ہی ہو گی جیسے کسی پرتکلف ضیافت میں دسترخوان پر پڑی رکابی مہمان سے ذراسی دور ہو اوراُس کی تکریم کے لیے اس کو سرکاکرکچھ آگے کردیاجائے:

وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِیْدٍ.(قٓ ۵۰: ۳۱)
’’اور جنت ان لوگوں کے قریب لائی جائے گی جو خدا سے ڈرنے والے ہیں اور وہ کچھ زیادہ دورنہ ہو گی۔‘‘

جب لوگ جنت کی طرف چل پڑیں گے توان کے اعزازاوران کی رہنمائی کے لیے روشنی کا خوب انتظام ہو گا۔ ان کے آگے اوران کے دائیں ان کی روشنی ہوگی جوان کے ساتھ ساتھ چل رہی ہوگی:

یَوْمَ تَرَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ یَسْعٰی نُوْرُھُمْ بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَبِاَیْمَانِھِمْ.(الحدید ۵۷: ۱۲)
’’اُس دن جبکہ تم مومن مردوں اور عورتوں کو دیکھو گے کہ اُن کی روشنی ان کے آگے اوران کے دائیں چل رہی ہے۔‘‘

لوگ جماعتوں کی صورت میں ہوں گے اورفرشتے انھیں اپنے جلومیں لے کر چلے جا رہے ہوں گے۔یہ نہیں ہو گا کہ جب یہ جنت کے قریب پہنچیں تواُس وقت دروازے کھولے جائیں اور انھیں اس کے اندریوں دھکیل دیا جائے جیسے جیل کے پھاٹک کی کھڑکی کو کھول کر مجرموں کو اندر ٹھونس دیا جاتا ہے،بلکہ یہ ابھی دور سے آتے ہوں گے اور جنت کے دروازے پہلے سے کھول دیے جائیں گے۔گویا یہ خداکے معزز اور صاحب تکریم مہمان ہیں کہ جن کاوہاں شدت سے انتظارہورہاہے:

وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّھُمْ اِلَی الْجَنَّۃِ زُمَرًا، حَتّآی اِذَا جَآءُ وْھَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُھَا....(الزمر۳۹:۷۳)
’’جولوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے ، انھیں گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جایاجائے گا،یہاں تک کہ جب و ہ اس کے پاس آئیں گے اوراس کے دروازے کھول کر رکھے گئے ہوں گے...۔‘‘


وَاِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ لَحُسْنَ مَآبٍ، جَنّٰتِ عَدْنٍ مُّفَتَّحَۃً لَّھُمُ الْاَبْوَابُ.(صٓ ۳۸: ۴۹۔۵۰)
’’بے شک اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے اچھا ٹھکانا ہے، ہمیشہ کے باغ، جن کے دروازے اُن کے لیے کھول کر رکھے گئے ہوں گے۔‘‘

ان کے آنے کی خوشی میں وہاں عیدکاساسماں ہوگا۔جنت پرمامور فرشتے انھیں خوش آمدید کہیں گے۔ہرطرف سے مبارک سلامت کی آوازیںآرہی ہوگی۔بشارتوں اورخوش خبریوں کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ ہوگا۔اس قدرعزت افزائی اوراس طرح کاخیرمقدم دیکھ کر انھیں دنیا میں خدا کی بندگی میں اٹھایا جانے والااپنا ہرقدم بہت کم تر محسوس ہوگااوران کی زبان پربے ساختہ اپنے رب کے لیے شکریہ کے کلمات جاری ہو جائیں گے:

وَقَالَ لَھُمْ خَزَنَتُھَا سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْھَا خٰلِدِیْنَ، وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہٗ.(الزمر ۳۹: ۷۳۔۷۴)
’’جنت کے پاسبان انھیں کہیں گے: تم پر سلام ہو، شاد رہو، سو اس میں داخل ہو جاؤ، ہمیشہ کے لیے۔ وہ کہیں گے: اللہ کاشکر ہے جس نے ہم سے کیا ہوا اپنا وعدہ سچا کر دکھایا‘‘

جنت میں داخل ہوجانے کے بعدبھی سلامتی کی دعائیں اورمبارک بادی کے پیغامات جاری رہیں گے۔جنت اور دوزخ کے درمیان کی دیوار پرجوبرجیاں اورمینارے بنے ہوں گے،ان میں براجمان بڑے بڑے لوگ انھیں جنت میں دیکھ کر سلام کریں گے اور ابدی بادشاہی کی بشارت دیں گے:

وَبَیْنَھُمَا حِجَابٌ وَعَلَی الْاَعْرَافِ رِجَالٌ یَّعْرِفُوْنَ کُلًّام بِسِیْمٰھُمْ وَنَادَوْا اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ اَنْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ... اُدْخُلُوا الْجَنَّۃَ لَا خَوْفٌ عَلَیْکُمْ وَلَآ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ.(الاعراف ۷: ۴۶،۴۹)
’’ان دونوں گروہوں کے درمیان پردے کی دیوار ہو گی اور دیوار کی برجیوں پر کچھ نمایاں اور ممتاز لوگ ہوں گے جو ہر ایک کو اس کی علامت سے پہچانیں گے اور جنت کے لوگوں کو پکار کر کہیں گے کہ تم پرسلامتی ہو... تم جنت میں داخل رہو، اب نہ تمھارے لیے کوئی خوف ہے اورنہ تم کبھی غم زدہ ہوگے۔‘‘

صالحین کوپہلے پہل جس جنت میں اتاراجائے گا، وہ ان کی مستقل قیام گاہ نہیں ہوگی۔جس طرح مہمان کے سواری سے اترتے ہی پہلے ہلکی پھلکی تواضع کی جاتی اور ذراسی دیرکے لیے آرام کرنے کاموقع دیاجاتا ہے اوراس کے بعداصل کھانے اوراس کی رہایش کاانتظام ہوتا ہے،اسی طرح یہ جنت بھی ان کی اولین ضیافت ہوگی جویہاں پہنچتے ہی پہلے مرحلے میں ان کو دی جائے گی اورخداکی فرماں برداری میں کیے جانے والے ان کے سفر کی ساری تکان دور کر دے گی:

اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَھُمْ جَنّٰتُ الْمَاْوٰی، نُزُلاًم بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ.(السجدہ ۳۲: ۱۹)
’’جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اچھے کام کیے، اُن کے لیے راحت کے باغ ہیں، اولین ضیافت، جو اُن کو ان کے اعمال کے صلے میں دی جائے گی۔‘‘

اس کے بعداصل جنت کادورشروع ہوگا۔ان کی وہ زندگی شروع ہوگی جوموت سے یک سر ناآشنااورعدم و نیست سے بالکل ناواقف ہوگی۔ان کی لذت بھری صبحیں کبھی شام میں نہ بدلیں گی۔انھیں ملنے والی راحتیں ابدی اوران پرہونے والی نوازشیں مسلسل ہوں گی۔اوران کی مسرتوں کے عروج کسی بھی طرح کے زوال سے ہمیشہ بے پروا رہیں گے۔ بس کیف ہوگااورسرور ہوگا۔جام ہوں گے اورشباب ہوگا۔ہرطرف امن ہوگا۔اطمینان اورراحت کابسیرا ہوگا۔مغنیوں کے سازہواؤں میں سُربکھیرتے ہوں گے اوررحمت کی گھٹائیں ہردم امنڈی پڑرہی ہوں گی۔ ابرکرم آئیں گے۔ ناچیں گے اور گائیں گے اوررم جھم برستے جائیں گے۔ غرض یہ کہ جودوسخاکی ہرداستان وہاں زندہ اوراس کے سارے تخیل حقیقت میں ڈھل جائیں گے۔

جنت خداکاوہ بیش قیمت انعام ہے جس کااس دنیامیں کامل طورپر تصورکرلیناممکن نہیں۔ اس لیے اسے بیان کرنے کے لیے اُس نے تشبیہ کااسلوب اختیارکیاہے اوروہاں دی جانے والی نعمتوں کی فراوانی اورآزادی اور خود مختاری کوبیان کرنے کے لیے بادشاہی اوراس کے لوازم کو مستعار لیا ہے۔مزید یہ کہ قرآن میں اس کے لیے بالعموم ’جنت‘کالفظ لایاگیاہے جوعربی زبان میں باغ کے لیے آتا ہے۔اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ انسان جس قدربھی متمدن ہو جائے اور فطرت سے منہ موڑکربناوٹ میں کھوکررہ جائے،اس کے باوجوداگراس سے پوچھاجائے کہ اس کے رہنے کی قابل رشک جگہ کیسی ہو تووہ جواب میں جوکچھ بھی کہے گا،اس میں ایک باغ کا تصور ضرور موجودہوگا۔اس کے نزدیک نعمتوں کابیان اُس وقت تک کامل نہیں ہوتا جب تک اس میں چمنستانوں اورگل زاروں کا ذکر نہ کر دیا جائے۔یہی وجہ ہوئی کہ خدانے جب اس کے انعام کابیان کیاتواس کی اسی خواہش کی رعایت سے اس میں’’جنت‘‘ کومرکزی حیثیت سے بیان کیا۔

باغوں میں بہارآتی ہے۔ہردرخت برگ وبارلارہااورہرپودا شادابی کاایک باب رقم کررہا ہوتاہے۔پھر ذراسی رُت کیابدلتی ہے کہ گل وبلبل پراداسی چھانے لگتی ہے۔ لہلہاتے باغ اور ہواؤں سے اٹکھیلیاں کرتے ہوئے پھول، ساری مستیاں بھول جاتے اوراپناسب کچھ خزاں کے رنگ میں رنگ دیتے ہیں، یہاں تک کہ باغبانوں کے دل لہو ہو جاتے اوران کے جگربھی سوز آشنا ہونے لگتے ہیں۔ یہ بہارکے ساتھ مستقل طورپرجڑی ہوئی خزاں ہے جو اس دنیوی جنت کی ، بہرحال ،ایک تلخ حقیقت ہے ۔ یہ اس لیے ہوتاہے کہ دنیاامتحان کی جگہ ہے اورجوچیزامتحان کے لیے بنی ہو،اس کے ہمیشہ قائم رہنے کاتصوربالکل نامعقول ہے،چنانچہ پروردگارنے یہ دنیااور اس کی رونقیں بنائی ہی مرجھا جانے کے لیے ہیں۔ لیکن اس کے مقابلے میں جو آخرت کی جنت ہوگی ، وہ صالحین کوامتحان کے طورپر نہیں، بلکہ انعام کے طورپردی جائے گی،اس لیے اس کی بہاریں ہمیشہ کے لیے قائم رہیں گی:

جَنّٰتِ عَدْنِنِ الَّتِیْ وَعَدَ الرَّحْمٰنُ عِبَادَہٗ بِالْغَیْبِ، اِنَّہٗ کَانَ وَعْدُہٗ مَاْتِیًّا.(مریم ۱۹: ۶۱)
’’ہمیشہ رہنے والے باغوں میں،جن کا خداے رحمٰن نے اپنے بندوں سے وعدہ کر رکھا ہے جو آنکھوں سے پوشیدہ ہے۔ اس کاوعدہ یقیناپوراہوکررہے گا۔‘‘
قُلْ اَذٰلِکَ خَیْرٌ اَمْ جَنَّۃُ الْخُلْدِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ.(الفرقان ۲۵: ۱۵)
’’ان سے پوچھو،کیایہ(دوزخ) بہتر ہے یاہمیشہ کی جنت جس کا وعدہ خداسے ڈرنے والوں سے کیا گیا ہے۔‘‘

مزید فرمایاہے کہ وہاں کے درخت ٹُھونٹھ اور مرجھائے ہوئے نہیں،بلکہ سرسبزہوں گے۔ ان کی ہرطرف پھیلی ہوئی اور نہایت گھنی چھاؤں جنتیوں پرسایہ کیے ہوگی اوران پرپھلوں کی اس قدرکثرت ہوگی کہ ان کے بوجھ سے شاخیں بھی جھکی پڑرہی ہوں گی:

وَدَانِیَۃً عَلَیْھِمْ ظِلٰلُھَا وَذُلِّلَتْ قُطُوْفُھَا تَذْلِیْلاً.(الدھر ۷۶: ۱۴)
’’اُس کے درختوں کے سایے اُن پرجھکے ہوئے اور اُن کے خوشے بالکل اُن کی دسترس میں ہوں گے۔‘‘

ان باغوں کوسرسبزرکھنے کا یہ انتظام ہوگاکہ وہاں نہریں بہتی اورندیاں جھومتی ہوں گی۔کہیں چشمے پھوٹ کر بہ رہے ہوں گے توکہیں دورگرنے والے جھرنے بھی اپنااپناترنم سنارہے ہوں گے۔اوریہ سب کچھ جنت کی رونق کوبھی بڑھائے گا،اور جنتیوں کی تسکین بصارت کا بھی باعث ہوگا:

وَََعَدَ اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ.(التوبہ ۹: ۷۲)
’’اِن مومن مردوں اورمومن عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے ان باغوں کے لیے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔‘‘
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ.(الحجر ۱۵: ۴۵)
’’جو خدا سے ڈرنے والے ہیں، وہ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔‘‘

بلندی پرموجودباغ جس طرح موسم کی سختیوں اور آفتوں سے محفوظ ہوتے ہیں،اسی طرح دیکھنے میں بھی بھلے معلوم ہوتے ہیں۔اہل عرب کے ہاں اچھے باغ کاتصور یہی تھا کہ وہ بلندی پر ہواوراس کے کناروں پرکھجورکے درختوں کی باڑھ ہو۔اس سے یہ بادسموم اورسیلاب کی تباہ کاریوں سے بچے رہیں اورنظروں کے لیے بھی نہایت جاذب ہوں۔چنانچہ فرمایاہے:

وُجُوْہٌ یَّوْمَءِذٍ نَّاعِمَۃٌ، لِّسَعْیِھَا رَاضِیَۃٌ، فِیْ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ.(الغاشیہ ۸۸: ۸۔۱۰)
’’کتنے چہرے اُس دن پُررونق ہوں گے،اپنی سعی پر راضی،ایک اونچے باغ میں۔‘‘


ان باغات کاموسم بڑاہی خوش گواراورمعتدل ہوگا۔وہاں تھپک تھپک کرسلادینے والی نرم رَو ہوائیں بھی ہوں گی اور صبح دم سہانے خوابوں سے جگادینے والی بادصبا بھی ہوگی،مگرچہروں کوجھلس دینے والی لو،بیخ وبُن سے اکھاڑدینے والی صرصر،خون کوجمادینے والی خنک ہواؤں اور سنسناتے ہوئے جھکڑوں کاوہاں گزرتک نہ ہوگا۔وہاں کاسورج جنتیوں کو روشنی اورقوت بخش حرارت تومہیا کرے گا،مگر اس میں جلادینے والی تمازت اورآگ برساتی ہوئی حدت بالکل نہ ہوگی:

لاَ یَرَوْنَ فِیْھَا شَمْسًا وَّلاَ زَمْھَرِیْرًا.(الدھر ۷۶: ۱۳)
’’وہ نہ اُس میں دھوپ کی حدت دیکھیں گے، نہ سرما کی شدت۔‘‘


جنت کے باغات اپنے حسن ،دل فریبی اورموسموں میں توبے نظیرہوں گے،ان میں امن وسلامتی کی بادبہاری بھی چلتی ہوگی۔وہاں نفرت ہوگی نہ کدورت۔بغض ہوگااورنہ کسی قسم کا عناد۔ عیب جوئیوں اوربدگمانیوں کاکوئی نشان تک نہ ہوگا۔یہ توسپنوں بھری وہ دنیا ہوگی کہ جس میں ہردم محبت اورالفت کے نغمے گونجتے ہوں گے، یہاں تک کہ فرشتے جنت کی ہرسمت کے دروازوں میں سے جب جب ان پرداخل ہواکریں گے، سلامتی کی دعائیں کرتے ہوئے داخل ہواکریں گے:

لاَ یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا وَّلَا تَاْثِیْمًا، اِلاَّ قِیْلاً سَلٰمًا سَلٰمًا.(الواقعہ ۵۶: ۲۵۔۲۶)
’’وہ اُس میں کوئی بے ہودہ بات اورکوئی گناہ کی بات نہ سنیں گے۔ صرف مبارک سلامت کے چرچے ہوں گے۔‘‘
وَالْمَلآءِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ، سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ.(الرعد ۱۳: ۲۳۔۲۴)
’’ فرشتے ہر دروازے سے اُن کے پاس آئیں گے۔ (اور کہیں گے): تم لوگوں پر سلامتی ہو، اس لیے کہ تم ثابت قدم رہے۔ سو کیاہی خوب ہے انجام کارکی یہ کامیابی!‘‘


جنتیوں کے رہنے کے لیے بنائے گئے قصر وایوان بھی اپنی مثال آپ ہوں گے۔ان کثیر منزلہ عمارتوں کو صرف اینٹ گارے سے بناکر نہ چھوڑ دیاگیا ہوگا، بلکہ ان میں ہر طرح کی سہولیات میسر اورانھیں ہر طرح کی آرایش سے باقاعدہ مزین کیاگیاہوگا۔ ان دودھ دُھلے،موتیوں سجے اور سونے چاندی سے ڈھلے ہوئے محلوں میں موجود بالا خانے، ان کے تعمیری حسن میں بھی اضافہ کریں گے اورجنتیوں کی تفریح اور ان کی ہوا خوری کابھی خوب سامان کریں گے:

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُبَوِّءَنَّھُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ غُرَفًا.(العنکبوت ۲۹: ۵۸)
’’ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے، ہم انھیں جنت کے بالا خانوں میں جگہ دیں گے۔‘‘
لٰکِنِ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّھُمْ لَھُمْ غُرَفٌ مِّنْ فَوْقِھَا غُرَفٌ مَّبْنِیَّۃٌ.(الزمر ۳۹: ۲۰)
’’البتہ جو اپنے رب سے ڈرے اُن کے لیے بالاخانے ہوں گے اوران کے اوپر مزید بالاخانے جو آراستہ کیے گئے ہوں گے۔‘‘

جنت کی آرایش کا ذکرکرتے ہوئے فرمایاہے کہ باغوں کے اندرسے بھی چشمے گزررہے ہوں گے۔بیٹھنے کے لیے بادشاہوں کے تخت کی طرح اونچی اونچی مسندیں ہوں گی۔ان کے سامنے بڑے سلیقے سے ظروف سجادیے گئے ہوں گے۔غالیچے اور قالین آپس میں اس طرح پیوستہ بچھے ہوں گے کہ ان کے درمیان میں کوئی جگہ خالی نہ رہ جائے گی اورمزید یہ کہ اُن پرتکیے اور نہالچے ہرطرف بکھرے پڑے ہوں گے:

فِیْھَا عَیْنٌ جَارِیَۃٌ، فِیْھَا سُرُرٌ مَّرْفُوْعَۃٌ، وَّاَکْوَابٌ مَّوْضُوْعَۃٌ، وَّنَمَارِقُ مَصْفُوْفَۃٌ، وَّ زَرَابِیُّ مَبْثُوْثَۃٌ.(الغاشیہ ۸۸: ۱۲۔۱۶)
’’اُس میں چشمہ رواں ہوگا۔اُس میں اونچی مسندیں بچھی ہوں گی اور ساغر قرینے سے رکھے ہوئے اور غالیچے ترتیب سے لگے ہوئے اور نہالچے ہر طرف پڑے ہوئے۔‘‘

[باقی]

________

۱؂ درجات کے اس فرق کو قرآن کے اس ایک مقام سے بخوبی سمجھ لیاجاسکتاہے جہاں جنتیوں کے پینے کا ذکر ہوا تو کسی کے لیے ارشادہواکہ وہ خود پئیں گے،کسی کوپلائے جانے کاذکر ہوااورکسی کے بارے میں کہاگیاکہ انھیں ان کارب پلائے گا:

اِنَّ الْاَبْرَارَ یَشْرَبُوْنَ مِنْ کَاْسٍ، کَانَ مِزَاجُھَا کَافُوْرًا.(الدھر ۷۶: ۵)
’’وفاداربندے شراب کے جام پئیں گے جن میںآب کافورکی ملونی ہوگی۔‘‘
وَیُسْقَوْنَ فِیْھَا کَاْسًا کَانَ مِزَاجُھَا زَنْجَبِیْلاً.(الدھر ۷۶: ۱۷)
’’انھیں ایسی شراب کے جام پلائے جائیں گے جن میں آب زنجبیل کی ملونی ہوگی۔‘‘
وَسَقٰھُمْ رَبُّھُمْ شَرَابًا طَھُوْرًا.(الدھر ۷۶: ۲۱)
’’ان کاپروردگارانھیں خود(اپنے حضورمیں)شراب طہورپلائے گا۔‘‘

____________

 

B