خیال و خامہ
o
آئے وہ جب کنار جو لطف خرام کے لیے
پھر وہی مے کدہ بھی تھا شرب مدام کے لیے
تیرے جہاں میں اب کہاں پھر وہ جہاں کہ جس میں تھے
میرے تمام روز و شب تیرے ہی نام کے لیے
ہر سو حریف تھے مگر تو نے بچا کے سینت لیں
علم و نظر کی ندرتیں اپنے غلام کے لیے
تجھ کو خبر نہیں ہے کیا ، صدیوں سے رایگاں ہے کیوں
انجم شب کی جستجو ماہ تمام کے لیے
رات کی نیند اڑ گئی ، پھوٹ رہی ہے پو کہیں
پھر کوئی بے قرار ہے جلوۂ عام کے لیے
ایک نگاہ تھی مگر ہر شے حرام کر گئی
آئے تھے ہم بھی ساقیا ، بادہ و جام کے لیے
ہے یہی زندگی تو پھر میرے وجود میں نہاں
آئی کہاں سے یہ تڑپ عیش دوام کے لیے
____________