بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
وَاِنْ کَانَ اَصْحٰبُ الْاَیْکَۃِ لَظٰلِمِیْنَ(۷۸) فَانْتَقَمْنَا مِنْھُمْ وَاِنَّھُمَا لَبِاِمَامٍ مُّبِیْنٍ(۷۹) وَلَقَدْ کَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِیْنَ(۸۰) وَاٰتَیْنٰھُمْ اٰیٰتِنَا فَکَانُوْا عَنْھَا مُعْرِضِیْنَ(۸۱) وَکَانُوْا یَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا اٰمِنِیْنَ(۸۲) فَاَخَذَتْھُمُ الصَّیْحَۃُ مُصْبِحِیْنَ(۸۳) فَمَآ اَغْنٰی عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ(۸۴)
وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَآ اِلاَّ بِالْحَقِّ وَاِنَّ السَّاعَۃَ لَاٰتِیَۃٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیْلَ(۸۵) اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِیْمُ(۸۶) وَلَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ(۸۷) لَاتَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْھُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْھِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ(۸۸) وَقُلْ اِنِّیْٓ اَنَا النَّذِیْرُ الْمُبِیْنُ(۸۹) کَمَآ اَنْزَلْنَا عَلَی الْمُقْتَسِمِیْنَ(۹۰) الَّذِیْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِیْنَ(۹۱) فَوَرَبِّکَ لَنَسْءَلَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ(۹۲) عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۹۳) فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ(۹۴) اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِءِ یْنَ(۹۵) الَّذِیْنَ یَجْعَلُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ(۹۶) وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّکَ یَضِیْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ(۹۷) فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَکُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ(۹۸) وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ(۹۹)
(اِسی طرح) بن والے۹۱؎ بھی یقینا ظالم تھے۹۲؎۔ سو ہم نے اُن سے بھی انتقام لیا۔ یہ دونوں بستیاں ۹۳؎ کھلی شاہ راہ پر واقع ہیں۔ اور حِجر والے بھی رسولوں کو جھٹلا چکے ہیں ۹۴؎۔ ہم نے اُن کو اپنی نشانیاں دیں، مگر وہ اُن سے منہ پھیرتے رہے۔ وہ پہاڑوں کو تراش کر گھر بناتے تھے کہ اُن میں چین سے رہیں ۹۵؎۔ پھر اُن کو صبح ہوتے ہماری ڈانٹ۹۶؎ نے آ پکڑا تو اُن کے کچھ کام نہ آیا جو کچھ وہ کرتے رہے تھے۔۷۸-۸۴
ہم۹۷؎ نے، (اے پیغمبر)، زمین اور آسمانوں کو اور اُن کے درمیان سب چیزوں کو مقصد کے ساتھ ہی پیدا کیا ہے۹۸؎۔ اِس میں کچھ شک نہیں کہ قیامت آنے والی ہے۔ اِس لیے اِن کے ساتھ خوبی سے درگذر کرو۹۹؎۔یقینا تمھارا پروردگار ہی سب کو پیدا کرنے والا اور بڑے علم والا ہے۱۰۰؎۔ ہم نے تم کو سات مثانی، یعنی قرآن عظیم عطا کر دیا ہے۱۰۱؎۔ تم اُن چیزوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھو جو ہم نے اِن کے مختلف گروہوں کو دے رکھی ہیں اور اِن کی حالت پر غم نہ کرو۔ تم اپنے شفقت کے بازو اہل ایمان پر جھکائے رکھو اور (نہ ماننے والوں سے) کہہ دو کہ میں ایک کھلا ہوا خبردار کرنے والا ہوں۔ ہم نے اِسی طرح اُن بانٹ دینے والوں پر بھی اتارا تھا جنھوں نے اپنے اُس قرآن کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۱۰۲؎۔ سو تیرے پروردگارکی قسم، ہم اُن سب سے ضرور پوچھیں گے جو وہ کرتے رہے ہیں۔ (یہ اِسی لیے اب تم پر اتارا گیا ہے) تو، (اے پیغمبر)، تمھیں جو حکم ملا ہے، اُس کو کھول کر سنا دو اور اِن مشرکوں سے اعراض کرو۔ تمھاری طرف سے ہم اِن مذاق اڑانے والوں (سے نمٹنے) کے لیے کافی ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو بھی شریک قرار دیتے ہیں۔ سو وہ عنقریب جان لیں گے۔ ہمیں معلوم ہے کہ جو کچھ یہ کہتے ہیں، اُس سے تمھارا دل تنگ ہوتا ہے۔ سو اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو اور سجدہ کرنے والوں میں سے بنو اور اُس کی بندگی میں لگے رہو، یہاں تک کہ تمھارے پاس یقین کی گھڑی آپہنچے۔۱۰۳؎ ۸۵-۹۹
۹۱؎ اِس سے قوم شعیب مراد ہے۔ پچھلی سورتوں میں بیان ہو چکا ہے کہ شعیب علیہ السلام مدین والوں کی طرف بھیجے گئے تھے۔ اِس بستی کے قریب ایک بہت بڑا بن تھا۔ عربی زبان میں جھاڑی اور بن کے لیے ’اَیْکَۃ‘ کا لفظ آتا ہے۔ یہاں چونکہ مخاطبین کو عذاب الہٰی کے اُن زمینی نشانات کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے جنھیں وہ اپنے تجارتی سفروں میں دیکھتے تھے، اِس لیے قوم شعیب کا ذکر ’اَصْحٰبُ الْاَیْکَۃِ‘ کے الفاظ سے ہوا ہے۔ آگے قوم ثمود کو ’اَصْحٰبُ الْحِجْرِ‘ کہا گیا ہے۔ اُس کی وجہ بھی یہی ہے۔
۹۲؎ یعنی ’ظالمین أنفسھم‘(اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے)۔ یہ کفر و شرک اور صراط مستقیم سے انحراف کے لیے قرآن کی خاص تعبیر ہے۔
۹۳؎ یعنی قوم لوط اور قوم شعیب کی بستیاں۔
۹۴؎ ’حجر‘شمالی عرب اور شام کے درمیانی علاقے کو کہتے ہیں۔ یہ قوم ثمود کا مسکن تھا۔ صالح علیہ السلام کی بعثت اِسی علاقے کے اندر ہوئی۔ اُس وقت جو شہر یہاں آباد تھا، اُس کے کھنڈر مدینہ کے شمال مغرب میں موجودہ شہر العلاء سے چند میل کے فاصلے پر واقع ہیں۔ اِس قوم کی طرف ایک ہی رسول کی بعثت ہوئی تھی، مگر کوئی رسول بھی یہ دعوت اُن کے سامنے پیش کرتا، اُس کے ساتھ اُن کا معاملہ وہی ہوتا جو صالح علیہ السلام کے ساتھ ہوا۔قرآن نے اِسی بنا پر لفظ ’مُرْسَلِیْن‘ جمع استعمال کیا ہے۔ اِس سے جرم کی سنگینی اور شدت ظاہر ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اُنھوں نے جب ایک رسول کو جھٹلایا تو گویا سب کو جھٹلا دیا۔
۹۵؎ مطلب یہ ہے کہ کمال فن سے بنائے ہوئے نہایت شان دار اور مستحکم مکانات میں اپنی جگہ بالکل بے خوف اور مطمئن بیٹھے تھے اور یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اُن کے یہی مستحکم اور شان دار مکانات کسی وقت اُن کی قبروں میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔
۹۶؎ یہ لفظ کیوں استعمال ہوا ہے؟ اِس کی وجہ پیچھے قوم لوط کے ذکر میں بیان ہو چکی ہے۔
۹۷؎ یہاں سے آگے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تسکین و تسلی کے لیے خطاب التفات ہے۔ یہ خاتمہئ سورہ کی آیات ہیں۔ انذار عام اور اتمام حجت کی سورتوں کا خاتمہ بالعموم اِسی مضمون پر ہوتا ہے۔
۹۸؎ یہ آگے کی بات کے لیے تمہید ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا نے یہ دنیا غایت و حکمت کے ساتھ پیدا کی ہے۔ اِس کا لازمی تقاضا ہے کہ یہ اپنے انجام کو پہنچے اور اِس میں جو کچھ ہوا ہے، خدا کی عدالت انصاف کے ساتھ اُس کا فیصلہ سنا دے۔ یہ کوئی بازیچہئ اطفال نہیں ہے کہ لوگ اِس میں جو چاہے، کرتے پھریں اور اُن سے کوئی باز پرس نہ ہو۔
۹۹؎ اِس سے کیا مراد ہے؟ استاذ امام لکھتے ہیں:
”...خوبصورتی کے ساتھ درگذر کا مطلب یہ ہے کہ نہ اِن کی شرارتوں سے بد دل اور مایوس ہو، نہ اِن کی بے ہودہ باتوں کا جواب دو اور نہ اپنے فرض دعوت و تبلیغ سے دست کش ہو، بلکہ اپنے کام میں لگے رہو اور اِن کے معاملے کو اللہ پر چھوڑ و۔“ (تدبرقرآن ۴/ ۳۷۶)
۱۰۰؎ اوپر فرمایا ہے کہ قیامت آنے والی ہے۔ یہ اُس کی دلیل ہے کہ خدا خالق ہے تو پھر کیا مشکل ہے،وہ جب چاہے، اِسی طرح دوبارہ پیدا کر سکتا ہے۔ یہ دوسری پیدایش اگر احتساب کے لیے ہے تو اِس میں بھی کچھ مشکل نہیں، اِس لیے کہ وہ علیم بھی ہے۔ زمین و آسمان کی کوئی چیز اُس سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ وہ جب فیصلہ کر لے گا کہ تمھیں جواب دہی کے لیے بلانا ہے تو تمھارا سب کچا چٹھا نکال کر تمھارے سامنے رکھ دے گا۔
۱۰۱؎ یعنی قرآن جیسی دولت گراں مایہ اور نعمت عظمیٰ عطا کر دی ہے جو سات مثانی کا مجموعہ ہے۔ لفظ ’مَثَانِیْ‘ ’مثنٰی‘ کی جمع ہے اور اِس کے معنی ہیں:وہ چیز جو دو دو کرکے ہو۔ آیت میں حرف ’مِنْ‘ اضافت کو ظاہر کر رہا ہے اور حرف ’و‘تفسیر کے لیے ہے۔چنانچہ سات مثانی سے ہمارے نزدیک قرآن میں سورتوں کے وہ مجموعے مراد ہیں جن کی ہر سورہ مضمون کے لحاظ سے اپنا ایک جوڑا اور مثنیٰ رکھتی ہے اور دونوں میں اُسی طرح کی مناسبت ہے، جس طرح کی مناسبت زوجین میں ہوتی ہے۔ اِس سے مستثنیٰ چند سورتیں ہیں جن میں سے فاتحہ پورے قرآن کے لیے بمنزلۂ دیباچہ اور باقی تتمہ و تکملہ یا خاتمۂ باب کے طور پر آئی ہیں۔ یہ مجموعے تعداد میں سات ہیں۔ اِنھیں ہم قرآن کے ابواب بھی کہہ سکتے ہیں۔ قرآن کی تمام سورتیں آپس میں توام بنا کر اور اِنھی ابواب کی صورت میں مرتب کی گئی ہیں*۔
قرآن کے بارے میں یہی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس ارشاد سے بھی واضح ہوتی ہے جس میں آپ نے سورۂ فاتحہ کو سبع مثانی اور قرآن عظیم قرار دیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”...سورۂ فاتحہ کی حیثیت پورے قرآن کے دیباچہ کی ہے اور اِس میں وہ تمام مطالب بالاجمال سمٹ آئے ہیں جو پورے قرآن میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ گویا اِس نگینے کے اندر قرآن عظیم کا پورا شہرستان معانی بند ہے۔ اِس پہلو سے یہ سبع مثانی بھی ہے اور قرآن عظیم بھی۔“ (تدبرقرآن۴/ ۳۷۸)
۱۰۲؎ یہ اشارہ یہود کی طرف ہے جنھوں نے اپنے قرآن، یعنی تورات کو حصوں میں بانٹ دیا، پھر بعض کو چھپایا اور بعض کو ظاہر کیا۔ یہ وہی فعل ہے جسے سورۂ انعام (۶) کی آیت ۹۱ میں ’تَجْعَلُوْنَہٗ قَرَاطِیْسَ‘(جس کو ورق ورق کرکے اُنھیں دکھاتے ہو)سے تعبیر فرمایا ہے۔
۱۰۳؎ یعنی خدا کا فیصلہ صادر ہو جائے اور ہر وہ بات واقعہ بن جائے جس کی تم لوگوں کو خبر دے رہے ہو۔
کوالالمپور
۲۲/اگست۲۰۱۲ء
_______
* اِس کی تفصیل کے لیے دیکھیے، اِسی کتاب کا ”مقدمہ“۔
______________________