HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : معز امجد

مرحومہ ماں کی طرف سے صدقہ

ترجمہ و تدوین: شاہد رضا

عَنْ عَاءِشَۃَ أَنَّ رَجُلاً أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، إِنَّ أُمِّیَ افْتُلِتَتْ نَفْسُہَا وَلَمْ تُوْصِ وَأَظُنُّہَا لَوْ تَکَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ أَفَلَہَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْہَا؟ قَالَ: نَعَمْ.
حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسول اللہ، بے شک، میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا ہے اور (اپنی وفات سے پہلے) انھوں نے کوئی وصیت بھی نہیں کی۔ میرا خیال ہے کہ اگر وہ (اپنی وصیت کے متعلق) بات کر پاتیں تو وہ کچھ نہ کچھ ضرور صدقہ کرتیں۱۔ اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کر دوں تو کیا انھیں اس کا ثواب ملے گا؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: ہاں (ملے گا)۔۲
حواشی کی توضیح

۱۔ بالبداہت واضح ہے کہ اس معاملے میں واضح قرائن موجود ہیں کہ اگر اس خاتون کو اپنی وفات سے پہلے موقع ملتا تو وہ اپنی دولت کا بعض حصہ بطور صدقہ ضرور دیتی۔

۲۔ قرآن مجید کے مطابق آخرت میں جزا و سزا کا بنیادی اصول ’لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی‘* (انسان کو (آخرت میں) وہی ملے گا جو اس نے (دنیا میں) کمایا ہے) کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ مزید برآں، چونکہ اس دنیوی زندگی میں ہم صرف اچھائی اور برائی کے معاملے میں اپنے ارادوں پر عمل کے بجاے صرف ارادوں پر اختیار رکھتے ہیں، اس لیے آخرت میں ہمارے ارادے اور کوششیں ہی ہیں جو ثمر بار ہوں گی۔ ان اصول کی روشنی میں اب ہم روایت میں مذکور واقعے کا جائزہ لیتے ہیں:

چونکہ بہ ظاہر تو خاتون نے اپنے مال میں سے بعض صدقہ کرنے کا ارادہ کر لیا تھا، مگر اپنی وفات کے باعث ایسا کرنے سے قاصر رہیں، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاتون کے بیٹے کو اس کی طرف سے صدقہ کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی اور اس کے بیٹے کو فرمایا کہ یہ صدقہ اگرچہ اس نے کیا ہے، مگر اس خاتون کو اس کا اجر ملے گا۔ یہ بات ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ آدمی صرف اپنے اعمال کے نتیجے میں اجر کا مستحق ٹھہرے گا۔ تاہم جن معاملات میں آدمی عمل صالح کا ارادہ تو کرتاہے، مگر اس کے حالات اس کے ارادوں کی تکمیل کی اجازت نہیں دیتے، تو وہ عمل صالح کے ارادے کی بنا پر ہی اپنے عمل کا اجر پائے گا۔ اس صورت میں اگر کوئی دوسرا شخص اس کے اچھے عمل کے ارادے پر عمل پیرا ہوتا ہے تو یہ عمل اس کے ارادے اور نیت کے سبب سے اس کے لیے سود مند ثابت ہو گا۔

متون

یہ روایت بعض اختلافات کے ساتھ بخاری، رقم ۱۳۲۲، ۲۶۰۹؛ مسلم، رقم۱۰۰۴ا، ۱۰۰۴ب، ۱۰۰۴ج، ۱۰۰۴د، ۱۰۰۴ہ؛ ابوداؤد، رقم۲۸۸۱؛ نسائی، رقم۳۶۵۴؛ ابن ماجہ، رقم ۲۷۱۷؛ احمد، رقم۲۴۲۹۶؛ ابن حبان، رقم۳۳۵۳؛ بیہقی، رقم۶۸۹۵، ۲۲۴۰۹، ۱۲۴۱۰؛ موطا امام مالک، رقم۱۴۵۱؛ مسند ابویعلیٰ، رقم۲۵۱۵، ۴۴۳۴؛ مسند حمیدی، رقم۲۴۳؛ ابن خزیمہ، رقم۲۴۹۹؛ عبدالرزاق، رقم۱۶۳۴۳؛ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۶۴۷۶ اور ابن ابی شیبہ، رقم۱۲۰۷۷ میں روایت کی گئی ہے۔

بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم۶۸۹۵ میں ’ولم توص‘ (اور اس نے وصیت نہیں کی) کے الفاظ محذوف ہیں۔

بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم۲۶۰۹ میں ’وأظنہا‘ (اور میرا خیال ہے) کے الفاظ کے بجاے ’وأراہا‘ (میری رائے ہے) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً عبدالرزاق، رقم۱۶۳۴۳ میں یہ الفاظ ’وقد علمت‘ (اور میں جانتا ہوں) روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً ابن خزیمہ، رقم۲۴۹۹ میں ’لو تکلمت تصدقت‘ ( اگر وہ (اپنی وصیت کے متعلق) بات کر پاتیں تو وہ کچھ نہ کچھ ضرور صدقہ کرتیں) کے الفاظ کے بجاے ’لو تکلمت أوصت بصدقۃ‘ (اگر وہ بات کر پاتیں تو صدقہ کی وصیت کرتیں) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۱۰۰۴ج میں ’أفلہا أجر إن تصدقت عنہا‘ (اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کر دوں تو کیا انھیں اس کا ثواب ملے گا؟) کے الفاظ کے بجاے ’فلی أجر أن أتصدق عنہا‘ (اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کر دوں تو کیا مجھے اس کا ثواب ملے گا؟) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ بخاری، رقم۱۳۲۲ میں ان کے مترادف الفاظ ’فہل لہا أجر إن تصدقت عنہا‘ (اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کر دوں تو کیا انھیں اس کا ثواب ملے گا؟) روایت کیے گئے ہیں؛ بیہقی، رقم۱۲۴۰۹میں ان کے مترادف الفاظ ’فہل لہا أجر فی أن أتصدق عنہا‘ (اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کر دوں تو کیا انھیں اس کا ثواب ملے گا؟) روایت کیے گئے ہیں؛ بخاری، رقم ۲۶۰۹ میں ان الفاظ کے بجاے ’أفأتصدق عنہا‘ (کیا مجھے ان کی طرف سے صدقہ کرنا چاہیے) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ ابن ماجہ ،ر قم۲۷۱۷ میں یہ الفاظ ’فلہا أجر إن تصدقت عنہا ولی أجر؟‘ (اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کر دوں تو کیا انھیں اور مجھے اس کا ثواب ملے گا؟) روایت کیے گئے ہیں؛ مسند حمیدی، رقم۲۴۳ میں ان الفاظ کے مترادف الفاظ ’فہل لہا من أجر إن تصدقت عنہا‘ (اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کر دوں تو کیا انھیں اس کا ثواب ملے گا؟) روایت کیے گئے ہیں۔

بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم۲۶۰۹ میں لفظ ’نعم‘ (ہاں) کے بجاے ’نعم، تصدق عنہا‘ (ہاں، ان کی طرف سے صدقہ کر دو) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔

ابوداؤد، رقم ۲۸۸۱ میں یہ واقعہ قدرے مختلف الفاظ میں روایت کیا گیا ہے:

عن عائشۃ أن امرأۃ قالت: یا رسول اللّٰہ، إن أمی افتلتت نفسہا ولولا ذلک لتصدقت وأعطت. أفیجزء أن أتصدق عنہا؟ فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: نعم، فتصدقی عنہا.
’’حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے کہ ایک عورت نے عرض کیا: یارسول اللہ، بے شک، میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ ضرور صدقہ کرتیں اور اپنا مال دیتیں۔ اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کر دوں تو کیا یہ ان کے لیے کافی ہو گا؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاں، ان کی طرف سے صدقہ کر دو۔‘‘

مسلم، رقم۱۶۳۰ میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ درج ذیل مختلف الفاظ میں روایت کیا گیا ہے:

روی أن رجلاً قال للنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن أبی مات وترک مالاً ولم یوص فہل یکفر عنہ أن أتصدق عنہ؟ قال: نعم.
’’روایت کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: (یارسو ل اللہ)، بے شک، میرا باپ فوت ہو گیا ہے اور مال بھی چھوڑا ہے، مگر وصیت نہیں کی ہے۔ اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کر دوں تو کیا یہ ان کی طرف سے (گناہوں کا) کفارہ ہو گا؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: ہاں۔‘‘

بعض اختلافات کے ساتھ یہ روایت نسائی، رقم ۳۶۵۲؛ ابن ماجہ، رقم۲۷۱۶؛ احمد، رقم۲۸۸۸؛ بیہقی، رقم۱۲۴۱۴؛ ابویعلیٰ، رقم۶۴۹۴ اور ابن خزیمہ، رقم۲۴۹۸ میں بھی روایت کی گئی ہے۔

_____

* النجم ۵۳: ۳۹۔

____________

 

B