HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت ابو فکیہہ یسار رضی اﷲ عنہ

حضرت یسار (یا افلح بن یسار)اپنے نام کے بجاے اپنی کنیت ابو فکیہہ سے مشہور ہوئے۔ان کا تعلق بنو ازد سے تھا، لیکن قبیلۂ بنو عبدالدار کی غلامی میں آ گئے۔ وہ کٹر مشرک صفوان بن امیہ جمحی کے غلام بھی رہے۔

حضرت ابوفکیہہ کا شمار ’السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ‘* میں ہوتا ہے۔ مکہ کی گھاٹیوں میں آفتاب اسلام طلوع ہوا ہی تھا کہ ایمان کی سعادت حاصل کر لی۔ حضرت ابوفکیہہ اور سیدنا بلال (بلال رضی اللہ عنہما) نے ایک ساتھ اسلام قبول کیا اور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیعت کی۔ حضرت ابوفکیہہ ان مستضعفین میں شامل تھے جو قریش کی ایذاؤں کا خصوصی نشانہ بنے، پھر بھی ان کے پاے استقلال میں لغزش نہ آئی۔ سخت گرمیوں میں دوپہر کے وقت جب سورج آگ برسا رہا ہوتا، بنوعبدالدار کے لوگ انھیں ننگے بدن ، پاؤں میں لوہے کی بیڑیاں ڈال کر تپتے ہوئے کنکروں پر اوندھے منہ لٹا دیتے اور ان کی کمر پر بھاری پتھر رکھ دیتے۔ شدت تکلیف سے ان کا ذہن ماؤف ہو جاتا ، منہ ڈھیلا ہو جاتا اور زبان باہر نکل آتی ۔وہ یہ سختیاں کتنی ہی دیر سہتے رہے، کیونکہ غلام ہونے کی وجہ سے کوئی انھیں چھڑانے والا نہ تھا۔ ایک بار امیہ بن خلف نے ان کے پاؤں میں رسی باندھی اور گھسیٹتے ہوئے جلتی ریت پر ڈال دیا۔ایک سیاہ فام پاس سے گزرا تو امیہ نے پوچھا: یہ تمھارا رب نہیں؟ حضرت ابوفکیہہ نے جواب دیا: اﷲ میرا رب ہے جس نے مجھے، تمھیں اور اس سیاہ فام کو پیدا کیا۔امیہ کو غصہ آگیا،وہ زور سے حضرت ابوفکیہہ کا گلا گھونٹنے لگا۔اس کا بھائی ابی بن خلف بھی ساتھ تھا،اس نے کہا: اسے اوربھینچو، حتیٰ کہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) آ جائے اور اپنے جادو سے اس کو چھڑا لے ۔ دونوں حضرت ابوفکیہہ کواس وقت تک ایذائیں دیتے رہے جب تک انھیں مرا ہوا نہ سمجھ لیا۔اس موقع پر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ گزرے، انھوں نے حضرت ابوفکیہہ کو خرید کر آزاد کر دیا۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم حرم میں تشریف لاتے تو حضرت خباب، حضرت عمار، حضرت ابوفکیہہ اور حضرت صہیب جیسے مسکین مسلمان آپ کے پاس آ کر بیٹھ جاتے۔قریش کے متمردین ٹھٹھا کرتے اور کہتے: دیکھو، یہ ہیں محمد کے ساتھی،یہی ہیں وہ لوگ جنھیں اﷲ نے ہدایت و حق کے لیے ہمارے بیچ میں سے چن لیا ہے۔ اگر اس دعوت میں کوئی بھلائی ہوتی تو ہمارے بجاے یہ لوگ اس کی طرف سبقت نہ کرتے۔ان نام نہاد سرداروں نے آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب سے رجوع بھی کیا کہ اگر آپ کا بھتیجا ہمارے غلاموں اور خدمت گاروں کواپنے پاس نہ بیٹھنے دے تو ہوسکتا ہے کہ ہمارے دل اس کی طرف مائل ہو جائیں۔ تب اﷲ تعالیٰ نے یہ آیات نازل کیں:

وَلاَ تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِہِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْہِمْ مِّنْ شَیْءٍ فَتَطْرُدَہُمْ فَتَکُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ، وَکَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلوْٓا اَہٰٓؤُلَآءِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنْ بَیْْنِنَا اَلَیْْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰکِرِیْنَ.(الانعام۶: ۵۲۔۵۳)
’’(اے نبی)، ان لوگوں کو نہ دھتکاریے جو اپنے رب کی خوشنودی چاہنے کے لیے صبح و شام اسے پکارتے ہیں۔ ان کے حساب کتاب میں سے آپ پر کچھ عائد نہیں ہوتا اور آپ کے اسوۂ حسنہ کے حساب کی ان پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ایسا نہ ہو کہ انھیں دھتکار کر آپ ظالموں میں سے ہو جائیں۔ اسی طرح ہم نے ان میں سے ایک کو دوسرے کے ذریعے سے آزمایا ہے تاکہ کہیں کہ ہمارے بیچ یہی ہیں وہ لوگ جن پراﷲ نے انعام کر دیا ہے؟کیا اﷲ شکر کرنے والوں کاخوب علم نہیں رکھتا؟‘‘

حضرت عکرمہ نے حضرت ابوفکیہہ اور دوسرے مستضعفین کا استہزا کرنے والے قریش کے سرداروں کے نام یہ بتائے ہیں: عتبہ بن ربیعہ ،شیبہ بن ربیعہ، حرث بن نوفل، قرظہ بن عبد عمرواور مطعم بن عدی۔ اس واقعے میں حضرت خباب کا ذکر آیاہے، وہ بھی مستضعف مسلمانوں میں شامل تھے، لیکن جو روایت انھوں نے بیان کی، ذرا مختلف ہے۔بتاتے ہیں کہ ایک بار (مدینہ میں) بنو تمیم کے سردار اقرع بن حابس اوربنو فزارہ کے لیڈرعیینہ بن حصن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ملنے آئے تو دیکھا کہ آپ غریب اہل ایمان، حضرت صہیب، حضرت بلال، حضرت عمار اور حضرت خباب کے ساتھ تشریف فرما ہیں۔ انھوں نے ان مساکین کو نظر حقارت سے دیکھا اور آپ کو الگ لے جا کر کہا: ’’ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے لیے ایسی مجلس ترتیب دیں جس سے عربوں کوہماری فضیلت کا احساس ہو۔ آپ کے پاس عربوں کے وفد آ رہے ہیں، ہمیں شرم آتی ہے کہ عرب ہم کو ان غلاموں کے ساتھ بیٹھا دیکھیں۔ ہم آئیں تو آپ ان کے پاس سے اٹھ جائیں اور جب ہم فارغ ہو جائیں تو آپ چاہیں تو ان کے پاس بیٹھ جائیں۔‘‘ حضرت خباب کہتے ہیں کہ سورۂ انعام کی یہ آیات اس موقع پر نازل ہوئیں۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ روایت غریب ہے، کیونکہ اقرع اور عیینہ ایک مدت کے بعد مدینہ میں ایمان لائے، جبکہ یہ ارشاد ربانی مکہ میں نازل ہو چکا تھا۔ انھی آیات کے بارے میں حضرت سعد بن ابی وقاص کا کہنا ہے: یہ ہم چھ مسلمانوں کے باب میں نازل ہوئیں،مشرکوں نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ ان لوگوں کو اپنے پاس سے ہٹا دیں ،یہ ہمارے مقابلے میں نہ آنے پائیں۔ حضرت سعدنے ان میں سے تین کے ناموں کی صراحت کر دی ہے: خود حضرت سعد، حضرت عبداﷲ بن مسعود اور حضرت بلال۔ ایک کی طرف اشارہ کیا کہ وہ بنو ہذیل سے تعلق رکھتا تھا اور دو کے بارے میں کہہ دیا کہ میں ان کا نام نہ لوں گا(مسلم، رقم ۶۳۲۰)۔

ابن سعد ،ابن اثیر اور ابن جوزی کہتے ہیں کہ حضرت ابوفکیہہ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ابن جوزی نے مہاجرین حبشہ کی ایک سو سات افراد کی جو فہرست مرتب کی، اس میں حضرت ابوفکیہہ کا نام شامل ہے، تاہم ابن ہشام اورطبری کی بیان کردہ تراسی عازمین حبشہ کی فہرست میں ان کا نام نہیں ملتا۔ حضرت ابوفکیہہ حبشہ سے کب لوٹے اور ان کی بقیہ زندگی کیسی گزری؟ان سوالوں کا جواب دینے کے لیے ہمیں کہیں سے مدد نہ مل سکی ۔

حضرت ابوفکیہہ کی وفات جنگ بدر سے پہلے ہی ہو گئی۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ اسلامی میں ان کے بارے میں بہت کم معلومات ملتی ہیں، حالاں کہ وہ اسلام کی طرف سبقت کرنے والے اور اﷲ کی راہ میں آزمایشیں برداشت کرنے والے عظیم مسلمان تھے۔

مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویۃ (ابن ہشام)،الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، جامع البیان عن تأویل آی القرآن (طبری)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبدالبر)، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)،اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، البداےۃ والنہاےۃ (ابن کثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)۔

_____

* التوبہ ۹: ۱۰۰۔

____________

 

B