HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: یوسف ۱۲: ۲۳- ۳۴ (۲)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


وَرَاوَدَتْہُ الَّتِیْ ھُوَ فِیْ بَیْتِھَا عَنْ نَّفْسِہٖ وَغَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَقَالَتْ ھَیْتَ لَکَ قَالَ مَعَاذَ اللّٰہِ اِنَّہٗ رَبِّیْٓ اَحْسَنَ مَثْوَایَ اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ{۲۳} وَلَقَدْ ھَمَّتْ بِہٖ وَھَمَّ بِھَا لَوْلَآ اَنْ رَّاٰبُرْھَانَ رَبِّہٖ کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْٓئَ وَ الْفَحْشَآئَ اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ{۲۴}
وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِیْصَہٗ مِنْ دُبُرٍ وَّاَلْفَیَا سَیِّدَ ھَا لَدَا الْبَابِ قَالَتْ مَا جَزَآئُ مَنْ اَرَادَ بِاَھْلِکَ سُوْٓئً اِلَّآ اَنْ یُّسْجَنَ اَوْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ{۲۵} قَالَ ھِیَ رَاوَدَتْنِیْ عَنْ نَّفْسِیْ وَشَھِدَ شَاھِدٌ مِّنْ اَھْلِھَا اِنْ کَانَ قَمِیْصُہٗ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَھُوَ مِنَ الْکٰذِبِیْنَ{۲۶} وَاِنْ کَانَ قَمِیْصُہٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَکَذَبَتْ وَھُوَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ{۲۷} فَلَمَّا رَاٰ قَمِیْصَہٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ اِنَّہٗ مِنْ کَیْدِکُنَّ اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ{۲۸} یُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا وَاسْتَغْفِرِیْ لِذَنْبِکِ اِنَّکِ کُنْتِ مِنَ الْخٰطِئِیْنَ{۲۹}
وَقَالَ نِسْوَۃٌ فِی الْمَدِیْنَۃِ امْرَاَتُ الْعَزِیْزِ تُرَاوِدُ فَتٰھَا عَنْ نَّفْسِہٖ قَدْ شَغَفَھَا حُبًّا اِنَّا لَنَرٰھَا فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ{۳۰} فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَکْرِھِنَّ اَرْسَلَتْ اِلَیْھِنَّ وَاَعْتَدَتْ لَھُنَّ مُتَّکَاً وَّاٰتَتْ کُلَّ وَاحِدَۃٍ مِّنْھُنَّ سِکِّیْنًا وَّ قَالَتِ اخْرُجْ عَلَیْھِنَّ فَلَمَّا رَاَیْنَہٗٓ اَکْبََرْنَہٗ وَقَطَّعْنَ اَیْدِیَھُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلّٰہِ مَا ھٰذَا بَشَرًا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا مَلَکٌ کَرِیْمٌ{۳۱} قَالَتْ فَذٰلِکُنَّ الَّذِیْ لُمْتُنَّنِیْ فِیْہِ وَلَقَدْ رَاوَدْتُّہٗ عَنْ نَّفْسِہٖ فَاسْتَعْصَمَ وَلَئِنْ لَّمْ یَفْعَلْ مَآ اٰمُرُہٗ لَیُسْجَنَنَّ وَلَیَکُوْنًا مِّنَ الصّٰغِرِیْنَ{۳۲} قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْٓ اِلَیْہِ وَاِلَّا تَصْرِفْ عَنِّیْ کَیْدَھُنَّ اَصْبُ اِلَیْھِنَّ وَاَکُنْ مِّنَ الْجٰھِلِیْنَ{۳۳} فَاسْتَجَابَ لَہٗ رَبُّہٗ فَصَرَفَ عَنْہُ کَیْدَھُنَّ اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ{۳۴} 
اور یوسف جس عورت کے گھر میں تھا، وہ اُس پر ڈورے ڈالنے لگی۔ اُس نے (ایک دن) دروازے بند کر لیے اور بولی:آجائو۔ یوسف نے کہا: خدا کی پناہ، وہ میرا آقا ہے۳۴؎، اُس نے مجھے خاطر سے رکھا ہے۔(میں یہ کروں تو جانتا ہوں کہ) ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پایا کرتے۔ (حقیقت یہ ہے کہ) اُس عورت نے تو یوسف کا ارادہ کر ہی لیا تھا، وہ بھی اگر اپنے پروردگار کی برہان۳۵؎ نہ دیکھ لیتا تو اُس کا ارادہ کر لیتا۳۶؎۔ اِسی طرح ہوا تاکہ ہم اُس سے برائی اور بے حیائی کو دور رکھیں، اِس لیے کہ وہ ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے تھا۔ ۲۳-۲۴
وہ دونوں آگے پیچھے دروازے کی طرف بھاگے ۳۷؎اور (یوسف کو روکنے کی کوشش میں) عورت نے اُس کا کرتا پیچھے سے (کھینچ کر) پھاڑ دیا۳۸؎۔دروازے پر دونوں نے اُس کے شوہر کو موجود پایا۔ (اُسے دیکھتے ہی) عورت نے کہا: جو تیری بیوی کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے، اُس کی سزا اِس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ قید کیا جائے یا اُسے کوئی اور دردناک سزادی جائے؟ یوسف نے کہا: اِسی نے مجھے پھانسنے کی کوشش کی تھی۔ (معاملہ آگے بڑھا تو) عورت کے اپنے خاندان کے لوگوں میں سے ایک شخص نے (قرینے کی) شہادت پیش کی کہ اگر یوسف کا کرتا آگے سے پھٹا ہو تو عورت سچی ہے اور وہ جھوٹا ہے، اور اگر اُس کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہو تو عورت جھوٹی ہے اور وہ سچا ہے۔ پھر جب شوہر نے دیکھا کہ یوسف کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہے تو بول اٹھا کہ یہ تم عورتوں کے فریب ہیں، اِس میں شبہ نہیں کہ تمھارے فریب بڑے غضب کے ہوتے ہیں۳۹؎۔ یوسف، اِس بات کو جانے دو، اوراے عورت،تو اپنے گناہ کی معافی مانگ، اصل میں تو ہی خطا کار ہے۔ ۲۵-۲۹
شہر کی عورتیں (آپس میں) چرچا کرنے لگیں کہ عزیز کی بیوی اپنے غلام پر ڈورے ڈال رہی ہے۔ وہ اُس کی محبت میں فریفتہ ہو گئی ہے۔ ہمارے نزدیک تو وہ کھلی حماقت میں مبتلا ہے۴۰؎۔ (شاید نہیںجانتی کہ اِس طرح کے لوگ فریب سے رام کیے جاتے ہیں)۔ سو اُن کے اِس فریب کا حال جب اُس عورت نے سنا تو اُس نے اُنھیں بلا بھیجا۴۱؎ اور اُن کے لیے ایک مجلس آراستہ کی۴۲؎ اور اُن میں سے ہر ایک کو ایک ایک چھری دی۴۳؎ اور یوسف سے کہا کہ اِن کے سامنے آجائو۔ پھر جب عورتوں نے اُس کو دیکھا تو اُس کی عظمت سے مبہوت ہو گئیں۴۴؎ اور (اپنی بات اُس سے منوانے کے لیے) اپنے ہاتھ جگہ جگہ سے زخمی کر لیے،۴۵؎ (لیکن ناکام رہیں) اور بالآخر پکار اُٹھیں کہ حاشا للہ،۴۶؎ یہ آدمی نہیں ہے، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے۴۷؎۔ اُس نے کہا: یہی ہے جس کے بارے میں تم مجھے ملامت کر رہی تھیں۔ بے شک، میں نے اِسے رجھانے کی کوشش کی تھی، مگر یہ بچ نکلا۔ تاہم میں جو کرنے کے لیے اِسے کہہ رہی ہوں، اِس نے اگر نہیں کیا تو ضرور قید کیا جائے گا اور ذلیل ہو گا۴۸؎۔ (اِس پر) یوسف نے دعا کی کہ پروردگار، قید خانہ مجھے اُس چیز سے زیادہ پسند ہے جس کی یہ مجھے دعوت دے رہی ہیں۔ اِن کے فریب کو اگر تو نے مجھ سے دفع نہ کیا تو میں اِن کی طرف مائل ہو جائوں گا اور اُن لوگوں میں شامل ہورہوں گا جو جذبات سے مغلوب ہو جاتے ہیں۴۹؎۔ سواُس کے پروردگار نے اُس کی یہ دعا قبول کر لی اور اُن کا فریب اُس سے دفع کر دیا۔ بے شک ،وہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ ۳۰-۳۴

۳۴؎ یعنی تمھارا شوہر میرا آقا ہے۔ اِس کے لیے اصل میں لفظ ’رَبِّیْ‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے لیے آتا ہے، اُسی طرح مالک اور آقا کے لیے بھی آتا ہے۔عربی زبان میں ’رب المال‘،’رب البیت‘ اور ’رب الدار‘ وغیرہ کی ترکیبیں عام استعمال ہوتی ہیں۔ زبان میں ایسے الفاظ کی مثالیں کم نہیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیںاور بندوں کے لیے بھی، لیکن دونوں صورتوں میں اُن کے مفہوم بالکل الگ الگ ہوتے ہیں۔ تاہم یہ سوال ضرور کیا جا سکتا ہے کہ یوسف علیہ السلام نے اِس موقع پر خدا کا حوالہ دینے کے بجاے زلیخا کو اُس کے شوہر کا حوالہ کیوں دیا؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’۔۔۔حضرت یوسف کے اِس فقرے پر غور فرمائیے تو معلوم ہو گا کہ اِس میں بڑی نفسیاتی بلاغت ہے۔ جذبات سے اندھی اور خدا اور آخرت سے ایک بے خبر عورت کے سامنے خدا اور آخرت کا وعظ، ظاہر ہے کہ بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف تھا۔ اُس کے ہیجان کو اگر کچھ ٹھنڈا کیا جا سکتا تھا تو اِسی فقرے سے کیا جا سکتا تھا جو حضرت یوسف نے فرمایا۔ اُس میں اگر شرافت کی رمق بھی ہوتی تو وہ ضرور سوچتی کہ ایک یہ نوجوان ہے جو اپنے آقا کی معمولی سی مہربانی سے اتنا متاثر اور اُس کی آقائی کا اِس کو اتنا اہتمام و لحاظ ہے کہ میری بے محابا دعوت کے باوجود اُس کے ساتھ کوئی بے وفائی کرنا اپنی دنیا اورعاقبت، دونوں کی بربادی تصور کرتا ہے اور ایک میں ہوں کہ اُس کی بیوی ہوں، میں نے اپنے آپ کواُ س کی زوجیت میں دیا ہے، اپنی عصمت کا اُس کو مالک بنایا ہے، اُس کے گھر کی ملکہ بنی بیٹھی ہوں، اُس کے مال پر مالکانہ متصرف ہوں، لیکن اُس کے ساتھ وفاداری کا یہ حال ہے کہ اُس کے زرخرید غلام کو اِس طرح ہوس سے اندھی ہو کر دعوت عشق دے رہی ہوں۔‘‘(تدبرقرآن۴/ ۲۰۵)

۳۵؎ اِس سے وہ نور یزدانی مراد ہے جو ہر انسان کی فطرت میں ودیعت ہے، لیکن اِس طرح کے موقعوں پر نمودار اُنھی کے لیے ہوتا ہے جو اُس کی قدر کرتے اور زندگی کے ہر موڑ پر اُس کی رہنمائی قبول کرتے ہیں۔ اُن کے لیے یہ اِس قدر قوی ہوجاتا ہے کہ اِس طرح کی صورت حال میں اُنھیں نفس اور شیطان کے حملوں سے بچا لیتا ہے جو زلیخا کی ترغیب کے نتیجے میں ایک ۱۸، ۲۰ سال کے غیرشادی شدہ نوجوان کے لیے پیدا ہو گئی۔

۳۶؎ اِس لیے کہ یوسف علیہ السلام بھی انسان ہی تھے اور اگرچہ نبوت کے لیے منتخب ہو چکے تھے، مگر اِس کے نتیجے میں انسانی خواہشات ، جذبات اور احساسات اُن سے سلب نہیں کر لیے گئے تھے۔

۳۷؎ یعنی یوسف اپنے آپ کو فتنے سے بچانے کے لیے بھاگے تو عورت بھی پیچھے دوڑی تاکہ اُنھیں روک لے۔

۳۸؎ دوڑتے ہوئے کسی شخص کا کرتا پکڑ کر اُسے روکنے کی کوشش کی جائے گی تو پورا امکان ہے کہ یہی صورت پیش آجائے۔

۳۹؎ یہ واضح طور پر اِس بات کا ثبوت تھا کہ اقدام یوسف علیہ السلام کی طرف سے نہیں، بلکہ زلیخا کی طرف سے ہوا ہے۔ اِس پر شوہر کو جیسا کچھ غصہ آیا ہو گا، اُس کا اظہار اُس نے اِس آخری جملے میں کیا ہے۔استاذ امام کے الفاظ میں، گویا زلیخا کے اِس فعل نے تنہا اُس کو نہیں، بلکہ اُس کی پوری جنس کو اُس کے شوہر کی نگاہوں میں کیاد اور مبغوض بنا دیا۔

۴۰؎ اِس فقرے میں ملامت، شماتت اور ادعا کے جو پہلو مضمر ہیں، وہ ہم نے اِس کے بعد قوسین کی عبارت سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِن کی تفصیل فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ اُن کا مطلب یہ تھاکہ اول تو یہی بات بڑی عجیب ہے کہ ایک اعلیٰ عہدہ دار کی بیگم ہو کر اپنے غلام کے پیچھے اپنے کو خوار کرے۔ پھراِ س سے بھی عجیب تر ماجرا یہ کہ اُس کو بھی رام نہ کر سکے۔ یہیں سے اِس ملامت کے اندر یہ مضمون بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ یہ عورت احمق ہے کہ بدنام بھی ہوئی اور نامراد بھی رہی، اگر کہیں ہم ہوتے تو ایک ہی غمزے میں یوسف کو ایسی پٹخنی دیتے کہ اُن کی پارسائی کی ساری دھوم ختم ہو جاتی۔‘‘(تدبرقرآن۴/ ۲۰۸)

۴۱؎ اِس لیے بلا بھیجا کہ یہ عورتیں بھی اپنے ہنر آزما دیکھیں تاکہ اِنھیں اندازہ ہو جائے کہ جس شخص کے مقابل میں وہ ناکام رہی ہے، اُس کے لیے اِن کے عشوے، غمزے، چرتر اور فریب کیا حیثیت رکھتے ہیں۔

۴۲؎ اصل میں لفظ ’مُتَّکَاً‘ آیا ہے۔ یہ اُس مجلس کے لیے آتا ہے جو گائو تکیوں سے آراستہ کی جائے۔ اُس زمانے کے مصر میں امرا کی مجلسیں بالعموم اِسی طریقے سے آراستہ کی جاتی تھیں۔

۴۳؎ آگے کے مضمون سے واضح ہے کہ یہ چھری اُنھی عورتوں کی فرمایش پر اور اُس چرتر کے لیے دی گئی جس سے وہ یوسف علیہ السلام کو رام کرنا چاہتی تھیں۔

۴۴؎ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت یوسف کیسے جوان رعنا تھے اور سیرت و اخلاق کی پاکیزگی نے اُن کی رعنائی شخصیت کو دلربائی کے کس مقام تک پہنچا دیا تھا۔

۴۵؎ اصل میں فعل ’قَطَّعْنَ‘ آیا ہے۔ یہ ’قطع‘سے تفعیل ہے جو تکثیر کے لیے آگیا ہے۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔

۴۶؎ یہ تنزیہ کا کلمہ ہے اور اُس وقت بولا جاتا ہے، جب کسی الزام سے براء ت مقصود ہو۔

۴۷؎ یہ قرآن نے اپنے اسلوب کے مطابق چند فقروں میں ایک پوری داستان سمیٹ دی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام سامنے آئے تو حسن و جمال اور پاکیزگی و تقدس کے ایک پیکر کو اپنے سامنے کھڑا دیکھ کر پہلے تو دنگ رہ گئیں، پھر ذرا سنبھلیں اور چونکہ بڑے دعوے اور طنطنے کے ساتھ آئی تھیں، اِس لیے اپنے چلتر آزمانا شروع کیے۔ جب اندازہ ہو گیا کہ اُن کی سب ادائیں، غمزے اور عشوے ناکام ہو رہے ہیں تو دھمکی دی کہ نہیں مانو گے تو ہم یہیں جان دے دیں گی۔ چنانچہ اپنی اِس دھمکی کو سچ ثابت کرنے کے لیے اُن میں سے بعض نے اپنے ہاتھ جگہ جگہ سے زخمی کر لیے۔ لیکن جب یہ حربہ بھی کامیاب نہیں ہوا تو پکار اُٹھیں کہ یہ آدمی نہیں ہے، یہ تو کوئی فرشتۂ یزدانی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’ ان بیگمات کا یہ اعتراف حضرت یوسف کی کمال درجہ تعریف بھی ہے اور اپنی شکست کے لیے ایک عذر بھی۔ اِس کے اندر یہ مضمون بھی مضمر ہے کہ اگر ہم اُن کو جیت نہ سکے تو اِس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہمارے فن یا ہمارے حسن و جمال میں کوئی نقص تھا، بلکہ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں مقابلہ ایک معزز فرشتہ سے کرنا پڑا، جبکہ ہمارے سارے اسلحے صرف انسانوں ہی پر کارگر ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘(تدبرقرآن۴/ ۲۱۰)

یہ سرگذشت اِس درجہ ایجاز و اختصا رکے ساتھ کیوں نقل کی گئی ہے؟ا ِس کا سبب غالباً یہ ہے کہ قرآن نے اِسے اپنے شایان شان نہیں سمجھا کہ اُن خرافات کی تفصیل کرے جو حضرت یوسف کا دل جیتنے کے لیے وہاں ہوئی ہوں گی۔

۴۸؎ یہ ایک مزید دھمکی ہے۔ زلیخا نے پہلے بڑے تیکھے انداز میں عورتوں کے ادعا کا جواب دیا ہے، پھر صاف کہہ دیا ہے کہ میں اِس کی جان چھوڑنے والی نہیں ہوں۔ اِس لیے یہ اپنی روش پر قائم رہا تو لازماً جیل کی ہوا کھائے گا۔ اِس کے معنی یہ تھے کہ ہوس کی محبت دھمکی بھی دے رہی ہے اور اپنے سب حربوں میں ناکام ہو جانے کے بعد اپنی ناکامی کا انتقام لینے کا فیصلہ بھی کر رہی ہے۔ حضرت یوسف کے لیے یہ ایک نئی آزمایش تھی جس سے وہ اب دوچار ہونے والے تھے۔ زنان مصر کی اِس مجلس سے اُس زمانے کے مصر کی اخلاقی حالت کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اِس طرح کے معاملات میں وہ دور حاضر کی تہذیب سے کسی طرح کم ’’ترقی یافتہ‘‘نہیں تھے۔

۴۹؎ یہ بڑے عجز کے ساتھ خدا سے مدد کی التجا ہے جو اپنے ایمان و اخلاق کو بچانے کے لیے پوری طاقت نچوڑ دینے کے بعد اُن کی زبان پر آگئی ہے۔ آگے وضاحت ہے کہ یہ دعا فوراً قبول ہوگئی۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جب بندہ شیطان کے مقابلے میں اِس حد تک استقامت دکھانے کے بعد اپنے آپ کو اپنے پروردگار کے آگے ڈال دیتا ہے تو اُس کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے اور فوراً قبول ہوتی ہے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B