HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : امام امین احسن اصلاحی

جہنم کی خصوصیات کے بارے میں روایات

ترتیب و تدوین: خالد مسعود ۔ سعید احمد

(مَا جَاءَ فِیْ صِفَۃِ جَھَنَّمَ)
حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ عَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: نَارُ بَنِیْ آدَمَ الَّتِیْ یُوْقِدُوْنَ جُزْءٌ مِّنْ سَبْعِیْنَ جُزْأً مِنْ نَّارِ جَھَنَّمْ: فَقَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، إِنْ کَانَتْ لَکَافِیْۃً؟ قَالَ: إِنَّھَا فُضِّلَتْ عَلَیْھَا بِتِسْعَۃٍ وَ سِتِّیْنَ جُزْأً.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی آدم جو آگ جلاتے ہیں جہنم کی آگ کے مقابل میں اس کی حرارت ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ صحابہ نے کہا: یارسول اللہ، اگر یہی آگ ہوتی تو جلانے کے لیے وہ بھی کافی تھی؟ تو آپ نے فرمایا: اس کو اس کے اوپر انھتر گنا ترجیح دی گئی ہے۔‘‘
وضاحت

یہاں سوال اور جواب میں مطابقت نہیں، لیکن بات اپنی جگہ پر بالکل ٹھیک ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہاں کی آگ کو اور وہاں کی آگ کو ایک سا نہ سمجھو۔ شارحین بھی یہی لکھتے ہیں کہ یہ بات سمجھانے کے لیے ہے۔

حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ عَنْ عَمِّہِ أَبِیْ سُھَیْلِ ابْنِ مَالِکٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّہُ قَالَ: أَتَرَوْنَھَا حَمْرَاءَ کَنَارِکُمْ ھٰذِہِ، لَھِیَ أَسْوَدُ مِنَ القَارِ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ آگ تمھاری اس آگ کی طرح سرخ ہو گی، وہ تو تارکول سے بھی زیادہ سیاہ ہو گی۔‘‘
وضاحت

یہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ محدثین کے ہاں یہ طریقہ رہا ہے کہ صحابی نے اگر بات کی ہو گی تو اس طرح کی بات وہ پیغمبر سے سنے بغیر نہیں کہہ سکتا، اس لیے وہ ایسی روایت کو مرفوع قرار دیتے ہیں، لیکن یہ تجاوز ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی طرف سے ذہن کی ایک بات کہہ دی۔ اس کو اگر مرفوع کا درجہ دے دیا جائے تو پھر حدیث اور اس میں کیا فرق رہا۔ بہت سی مثالیں ایسی ہیں جن پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کی بات کو اگر مرفوع کا درجہ دے دیا جائے تو حقیقت بالکل متغیر ہو جاتی ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوتی تو وہ اسے اپنی بات کی حیثیت سے کہنے کے بجاے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کر دیتے تو ان کی بات بڑی اہمیت رکھنے والی ہوتی اور ان کی عزت بھی بہت بڑھتی، لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ اگر انھوں نے نہیں کیا تو خواہ مخواہ ان کے سر مڑھنے کی کیا ضرورت ہے۔

(تدبر حدیث ۵۲۴۔۵۲۵)

________

B