HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

عورت کی دیت (۲)

عورت کی آدھی دیت کے حق میں دلائل کا جائزہ

’’سنن البیہقی الکبریٰ‘‘(۸/ ۱۶۶) میں حضرت معاذ بن جبل سے مرفوعاً روایت ہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت کا نصف ہے۔ امام بیہقی نے اس حدیث کے فوراً بعد لکھا ہے کہ یہ روایت عباد بن قصی سے بھی مروی ہے، مگر اس میں ضعف ہے۔ امام بیہقی خود اس حدیث کے بارے میں باب ’ما جاء فی جراح المرأۃ‘ (۸/ ۱۶۸) میں فرماتے ہیں: ’إسنادہ لا یثبت مثلہ‘ (اس کی اسناد ایسی ہیں جن کو بطور ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا)۔ ائمۂ اربعہ میں سے کسی نے اس حدیث کی بنیاد پر عورت کی دیت کو مرد کی دیت سے نصف قرار نہیں دیا۔

حافظ بیہقی نے ’’السنن الکبریٰ‘‘ (۸/ ۱۶۶) میں شعبی سے روایت کی ہے کہ حضرت علی کہا کرتے تھے کہ عورتوں کے زخموں کی دیت مرد کی دیت سے آدھی ہو گی، خواہ زخم چھوٹا ہو یا بڑا۔ نفس کی دیت کو بھی زخموں کی دیت پر قیاس کیا گیا ہے۔ یوسف القرضاوی کا قول ہے کہ اس اثر کی سند مشکوک ہے، کیونکہ شعبی نے اگرچہ حضرت علی کا زمانہ پایا، مگر دارقطنی کے قول کے مطابق ان سے ایک حرف بھی روایت نہیں کیا۔ علاوہ ازیں یہ اثر دوسرے صحابہ کے اقوال سے متعارض ہے کہ ایک تہائی سے کم زخموں میں دیت برابر ہو گی۔

امام بیہقی نے ابراہیم النخعی کی سند سے یہ بھی بیان کیا ہے کہ حضرت عمر اور حضرت علی کا قول ہے کہ عورت کا عاقلہ (جو دیت باپ کی جانب کے رشتہ دار، یعنی عصبہ ادا کریں) مرد کے عاقلہ کا نصف ہے، نفس میں بھی اور اس کے علاوہ جراحات میں بھی۔ پھر بیہقی خود فرماتے ہیں کہ ابراہیم کی روایت میں انقطاع ہے، لیکن اس سے مذکورہ شعبی کی روایت کی تائید ہوتی ہے، لیکن ایک ضعیف روایت دوسری ضعیف روایت کی تائید نہیں کر سکتی، اسی لیے ابن قدامہ ’’المغنی‘‘ میں کہتے ہیں کہ حضرت علی کے اس اثر کا ہمیں کوئی ثبوت معلوم نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ضعیف اور منقطع روایت نہ تائید کر سکتی ہے، نہ بطور ثبوت پیش کی جا سکتی ہے۔

بیہقی نے ’’السنن الکبریٰ‘‘ (۸/۱۷۹) میں خود کہا ہے کہ ذمی کا عاقلہ عہد نبوت، عہد ابوبکر، عہد فاروقی، عہد عثمانی اور عہد علی میں مسلمانوں کے عاقلہ کے برابر تھا۔ امیر معاویہ کے عہد میں بیت المال کے نصف، یعنی ۵۰۰ دینار مقتول کے اہل کو دے دیے جاتے تھے۔ استدلال ان کا یہ تھا کہ جس طرح مقتول کے اہل پر مصیبت نازل ہوئی، بعینہٖ اسی طرح مسلمانوں کے بیت المال پر بھی مصیبت نازل ہوئی ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے دوبارہ ذمی کے عاقلہ کو عہد نبوت کے مطابق کر دیا۔ کیا مسلمان عورت کا مقام و مرتبہ ذمی سے بھی کم تر ہے؟ علاوہ ازیں ’’التمہید‘‘ میں عکرمہ سے ابن عباس کی روایت ہے کہ نبی پاک نے بنو قریضہ اور بنی نظیر کے قضیہ میں پوری پوری برابر دیت کا فیصلہ صادر فرمایا۔

اس کے علاوہ بیہقی نے ’’السنن الکبریٰ‘‘ (۸/ ۱۶۶۔۱۷۹) میں مختلف آثار کا ذکر کیا ہے جن میں عورت کی نصف دیت کا ذکر ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی نے ’’دیۃ المرأۃ فی الشریعۃ الإسلامیۃ‘‘ میں ان آثار کا ایک ساتھ ذکر کیا ہے۔ ایک اثر حضرت عمر سے مروی ہے کہ عورت کی دیت پانچ سو دینار ہے یا ۶ ہزار درہم۔ یہ اثر ضعیف ہے، کیونکہ اس میں مسلم بن خالد زنجی ہے جس کے بارے میں امام بخاری اور ابوزرعہ کا قول ہے کہ وہ منکر الحدیث ہے۔ ابن معین، ابن المدینی اور نسائی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ اسی طرح بیہقی نے عمرو کے حوالہ سے شُریح سے روایت کی ہے کہ انھوں نے حضرت عمر کی طرف خط بھیج کر پانچ ایسے مسائل کے بارے میں راے طلب کی جن کے بارے میں قرآن کی نص موجود نہیں اور جن کے بارے میں ائمہ اور امرا اجتہاد کر کے راے قائم کر سکتے ہیں اور ان پانچ مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ مرد اور عورت کے زخموں کی دیت مرد کی دیت کے ایک تہائی تک برابر ہے۔ اس اثر کی سند میں جابر الجعفی ہے جو جھوٹ سے متہم ہے۔ ابن معین کا قول ہے کہ اس کی حدیث کو نہ لکھا جائے اور نہ اس کی تعظیم کی جائے۔ اس کے بارے میں محدثین کا قول ہے کہ وہ متروک اور مطعون ہے، بہت زیادہ ضعیف اور جھوٹا ہے۔ ایسا شخص جب کسی حدیث یا اثر کی سند میں موجود ہو تو یقینی طور پر نہ اسے بطور حجت پیش کیا جا سکتا ہے اور نہ اس پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ پھر اس مضمون کے آثار باہم متعارض ہیں، جیسے حضرت علی سے روایت ہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت سے نفس (جان) یا اس سے کم زخموں میں نصف ہے اور زید بن ثابت سے روایت ہے کہ مردوں اور عورتوں کے زخموں کی دیت ایک تہائی تک برابر ہے اور اس سے اوپر نصف۔ ابن مسعود سے روایت ہے کہ دانت اور ایسے زخم میں، جس سے ہڈی نظر آنے لگے، مرد اور عورت کی دیت برابر ہے اور اس سے زیادہ میں عورت کی دیت نصف ہے۔

بعض محققین کی نظر میں حضرت عثمان کا اثر، جسے بیہقی نے امام شافعی کے حوالہ سے نقل کیا ہے، سب آثار سے بڑھ کر قابل قبول ہے۔ ایک آدمی نے مکہ میں ایک عورت کو کچل دیا۔ حضرت عثمان نے اس کی ۸ ہزار دیت (دیت اور ایک تہائی) کا فیصلہ صادر کیا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ حضرت عثمان نے زیادہ دیت اس لیے مقرر کی کہ عورت حرم کے اندر قتل ہوئی تھی۔ اس اثر کی سند میں ابن ابی نجیع پر تدلیس کی تہمت ہے، جیسا کہ نسائی کا قول ہے، اسی لیے اس کا ذکر ذہبی نے طبقات المدلسین میں کیا ہے۔ ایک دوسرا راوی ربیع بن سلیمان ہے، اس میں ضبط کی کمی ہے۔ اور شدید غفلت سے معروف تھا۔ اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ سچا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس سند کے ساتھ ایک ایسی روایت کو متنازع معاملات میں بطور حجت پیش نہیں کیا جا سکتا۔

اگر ہم حضرت عثمان کے اثر کو قبول بھی کر لیں تو اسے حاکم کا تصرف سمجھا جائے جو عوام الناس کی مصلحت کے پیش نظر حکومت چلانے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے، لیکن اسے قیامت تک عام شریعت تصور نہیں کیا جائے گا۔ حضرت عثمان نے حالات کے تقاضوں کے مطابق دیت کو بڑھایا، حالاں کہ اس سلسلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بھی مروی نہیں۔ اسی طرح حضرت عمر نے اپنے اجتہاد سے عاقلہ (دیت) کو قبیلے سے دیوان (رجسٹر) کی طرف منتقل کر دیا۔ جو لوگ دیوان سے وظیفہ لیتے تھے، ان کو قبیلہ تصور کیا گیا۔ جس کی اساس عہد نبوت میں قبیلہ تھی، اس کی اساس دیوان کو بنا دیا گیا۔ احناف نے بھی یہی مسلک اختیار کیا اور ابن تیمیہ نے اس کی تائید کر دی۔

جس طرح زمانۂ جاہلیت میں عورت کی دیت آدھی تھی، اسی طرح اسے شوہر کی دیت میں سے حصہ بھی نہیں دیا جاتا تھا۔ ’’تفسیر کشاف‘‘ میں حضرت عمر کی روایت بیان کی گئی ہے کہ انھوں نے ایک مقتول کی دیت کا فیصلہ دیا۔ اس کی بیوی نے آ کر شوہر کی دیت میں سے اپنا حصہ مانگا۔ آپ نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں کہ تمھارا کوئی حصہ بنتا ہے، کیونکہ دیت تو صرف عصبہ (باپ کی جانب سے رشتہ دار) کے لیے ہوتی ہے۔ اس پر ضحاک بن سفیان کلابی نے کھڑے ہو کر کہا کہ مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھ کر حکم دیا کہ میں اشیم الضابی کی بیوی کو اس کے شوہر کی دیت سے حصہ دوں۔ چنانچہ حضرت عمر نے اس عورت کو حصہ دے دیا۔

شیخ ناصر الدین البانی نے ’’ارواء الغلیل‘‘ جلد ہفتم میں حدیث نمبر ۳۲۵۰ کے تحت یوں تبصرہ کیا ہے:

’’ ’دیۃ المرأۃ علی النصف‘ میں ’دیۃ الرجل‘ ضعیف ہے۔ غلطی سے اسے عمرو بن حزم کی تحریر کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ حافظ ابن حجر اس کی تخریج میں کہتے ہیں کہ یہ جملہ عمرو بن حزم کی طویل حدیث میں نہیں ہے، اسے بیہقی نے معاذ بن جبل سے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند بھی مضبوط نہیں ............ (اس کے بعد شیخ نے روایت کی سند کا حوالہ دے کر اس کے راویوں پر تنقید کی ہے)۔‘‘

آخر میں شیخ البانی نے فرمایا ہے کہ ایک اور طریقے سے ابن ابی شیبہ (۱۱/ ۲۸ / ۲) نے شریح سے روایت کی ہے، میرا قول ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔ شیخ زیادہ تر سند کی طرف دھیان دیتے ہیں اور متن کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہی اعتراض ان پر زاہد الکوثری جیسے ناقدین نے کیا ہے۔ انھوں نے یہ نہیں دیکھا کہ اس حدیث کا متن قرآن حکیم سے اور صحیح احادیث سے متصادم ہے۔

حاصل بحث

۱۔ لغوی طور پر ثابت ہو گیا ہے کہ دیت بہنے والے خون کا بدلہ (blood wit) ہے۔ چنانچہ عورت اور مرد کی بحث میں معاشی نفع و نقصان کے بجاے انسانیت کے پہلو کو پیش نظر رکھا جائے گا اور جس طرح بدنی قصاص میں مساوات کا اصول کارفرما ہو گا، بالکل اسی طرح مالی قصاص میں یہی اصول کارفرما ہو گا۔

۲۔ صحاح ستہ میں عورت کی دیت کے بارے میں ایک حدیث تک موجود نہیں۔

۳۔ عہد رسالت سے لے کر عہد فاروقی تک سب کے لیے دیت سو اونٹ تھی، کہیں بھی ’دیۃ الرجل‘ اور ’دیۃ المرأۃ‘ کا ذکر الگ سے موجود نہیں۔

۴۔ زمانۂ جاہلیت میں جس طرح عورت کی دیت نصف تھی، اسی طرح شوہر کی دیت میں سے اسے حصہ نہیں ملتا تھا۔ اسلام نے ان دونوں قبیح رسموں کا خاتمہ کر دیا۔

عورت کی دیت فقہ کی روشنی میں

’’تفسیر کبیر‘‘ (۱۰/ ۲۳۳) میں امام رازی فرماتے ہیں: اکثر فقہا کا مذہب ہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت سے آدھی ہے۔ ابوبکر الاصم اور ابن عطیہ (اصل میں ابن علیہ ہے جسے غلطی سے ابن عطیہ لکھ دیا گیا ہے) کا قول ہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت کے مانند ہے۔ فقہا کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر، علی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم نے یہی فیصلہ دیا ہے، کیونکہ عورت میراث اور شہادت میں مرد سے آدھی ہے۔ اسی طرح وہ دیت میں بھی آدھی ہے۔ الاصم کی دلیل اللہ کا یہ قول ہے: ’وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَءًا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَّدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلآی اَہْلِہٖٓ‘، ’’اور جو بھول کر مومن کو مار ڈالے تو (ایک تو) مسلمان غلام آزاد کرے اور (دوسرے) مقتول کے وارثوں کو خون بہا ادا کرے‘‘ (النساء ۴: ۹۲)، اور اس پر اجماع ہے کہ اس آیت کا حکم مرد اور عورت دونوں کے لیے ہے۔ چنانچہ لازمی ہے کہ حکم کا اطلاق دونوں پر ہو۔ گویا امام رازی نے بتا دیا ہے کہ ابوبکر الاصم اور ابن علیہ کا استدلال قوی ہے، کیونکہ نص قرآنی پر مبنی ہے جبکہ جمہور فقہا کا استدلال آثار پر مبنی ہے جن کی سند اور ثقاہت کے بارے میں پہلے بحث ہو چکی ہے۔ پھر میراث اور شہادت پر قیاس بھی محل نظر ہے جس پر آیندہ صفحات میں بحث ہو گی۔

’’المغنی‘‘ (۷/ ۷۵۶) میں ابن قدامہ کا قول ہے کہ ابن منکدر اور ابن عبدالبر کا قول ہے کہ اس پر اہل علم کا اجماع ہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت سے نصف ہے۔ ان دونوں کے علاوہ دوسروں نے ابن علیہ اور الاصم سے روایت کی کہ عورت کی دیت مرد کی دیت کے برابر ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’فی النفس المؤمنۃ ماءۃ من الإبل‘ ( مومن نفس کی دیت ایک سو اونٹ ہے)۔ ظاہر ہے مومن نفس میں عورت بھی شامل ہے۔ ابن قدامہ کا قول ہے کہ یہ حدیث مطلق ہے اور اس کی تقیید اس روایت سے ہوتی ہے جو عمرو بن حزم کی تحریر میں ہے، یعنی ’دیۃ المرأۃ علی النصف من دیۃ الرجل‘ یعنی عورت کی دیت مرد کی دیت سے آدھی ہے۔ یہاں بھی ابوبکر الاصم اور ابن علیہ کی دلیل قوی ہے، کیونکہ وہ صحیح حدیث پر مبنی ہے، جبکہ اکثر فقہا نے ایک ضعیف حدیث کے ساتھ اس مطلق حکم کی تقیید کی ہے۔ امام ابن حزم ’’المحلٰی‘‘ (۱۰/ ۳۵۶) میں فرماتے ہیں: ’’رہی یہ بات کہ لوگ ابن المنکدر اور ربیعہ کی ابن السلیمان سے روایت کو دلیل بناتے ہیں۔ یہ روایت مرسل ہے اور مرسل کو بطور حجت پیش نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ’’المحلٰی‘‘ (۱۰/ ۴۰۵) میں فرماتے ہیں: اگر بطور حجت پیش کی جانے والی نص کی سند صحیح ہے تو اس پر عمل فرض ہے اور اطاعت واجب ہے اور اگر اس کی سند صحیح نہیں، جیسا کہ صحیفہ ابن حزم اور صحیفہ عمرو بن شعیب کی سند ہے، تو اس سے کسی قسم کی دلیل نہیں لی جا سکتی۔ ’’المحلٰی‘‘ (۱۰/ ۴۱۲) میں بھی فرماتے ہیں کہ ’’رہی بات عمرو بن حزم کی روایت کی تو وہ ایک ایسا صحیفہ ہے جس کی اسناد کوئی چیز نہیں، کیونکہ اسے صرف سلیمان بن داؤد جزری اور سلیمان بن قرم کی سند سے روایت کیا گیا ہے اور یہ دونوں کوئی چیز نہیں۔ یحییٰ بن معین کو سلیمان الجزری کے بارے میں پوچھا گیا (جس سے زہری اور یحییٰ بن حمزہ روایت کرتے ہیں) تو آپ نے فرمایا: ’لیس بشئ‘ (کوئی چیز نہیں)۔ رہا سلیمان بن قرم تو وہ مکمل طور پر ساقط ہے اور اسی طرح مالک بن عبداللہ بن ابی بکر کی سند ہے، مرسل کو بطور حجت پیش نہیں کیا جا سکتا تو یہ تحریر ساری کی ساری ساقط ہے۔‘‘

ثابت ہوا کہ جمہور فقہا کی دلیل کمزور ہے، کیونکہ اس کا ماخذ ضعیف حدیث اور ضعیف آثار ہے، جبکہ ابوبکر الاصم اور ابن علیہ کی دلیل قوی ہے، کیونکہ اس کا ماخذ قرآنی نص اور صحیح حدیث ہے۔

علامہ رشید رضا ’’تفسیر المنار‘‘ (۵/ ۳۲۲۔۳۳۳) میں دیت کے بارے میں تمام روایات کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’مختصر یہ ہے کہ قولی اور عملی روایات کا ایک دوسرے سے اختلاف ہے اور ایک دوسرے سے متعارض بھی ہیں، اسی وجہ سے فقہا کا آپس میں اختلاف ہے۔ آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دیت کا مدار دستور اور باہمی رضامندی پر ہے اور قرین قیاس یہی ہے کہ فقہا کا باہمی اختلاف بھی اسی وجہ سے تھا۔‘‘

اسی قول کی بنیاد پر ہم سب سے پہلے فقہا کے اختلاف کوبیان کریں گے۔

کتاب ’’الفقہ علی المذاہب الاربعۃ‘‘ (۵/ ۳۷۰) میں ایک عنوان باندھا گیا ہے: ’دیۃ المرأۃ والمسیحی والیہودی‘، گویا کہ عورت کے ایمان کو درخور اعتنا نہ سمجھ کر ہر عورت کو یہودی اور عیسائی کے ساتھ نتھی کر دیا گیا ہے۔

شافعیوں کے نزدیک آزاد عورت اور ہیجڑے کی دیت نفس یا جراحات کے بارے میں آزاد مرد کی دیت سے آدھی ہے، کیونکہ بیہقی نے روایت کی ہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت سے نصف ہے اور بیہقی نے اپنی طرف سے نفس کے ساتھ جراحات اور مخنث (ہیجڑے) کا الحاق خود ہی کر لیا ہے، کیونکہ اس کا یہ الحاق مشکوک ہے۔ یہودی، عیسائی اور ذمی کی دیت مسلمان کی دیت کا ایک تہائی ہے۔ مجوسی کی دیت مسلمان کی دیت کا تیرھواں حصہ ہے۔

حنفیوں کے نزدیک عورت کی دیت مرد سے آدھی ہے۔ اس لفظ کے ساتھ یہ روایت امام علی سے موقوفاً مروی ہے۔ اور زید بن ثابت نے اسے مرفوعاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ دیت کا ایک تہائی یا اس سے اوپر نصف ہو گی اور اس سے جو کم ہو گی، وہ نصف نہیں ہو گی۔ اسی پر امام شافعی نے عمل کیا ہے، کیونکہ نبی کریم سے روایت ہے کہ عورت کا عاقلہ ایک تہائی تک مرد کے برابر ہو گا۔

احناف کا قول ہے کہ مسلم اور ذمی کی دیت برابر ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔ امام شافعی کی روایت کا حدیث کی کتابوں میں کوئی ذکر نہیں اور احناف کی روایت امام مالک کی روایت سے مشہور تر ہے، کیونکہ صحابہ نے اسی روایت پر عمل کیا ہے۔ امام ابوحنیفہ نے مجوسی کی دیت کو بھی سو اونٹ قرار دیا ہے، کیونکہ خون سب کے برابر ہیں۔

مالکیوں کاقول ہے کہ عورت، یہودی اور نصرانی کی دیت مرد کی دیت سے قتل عمد و خطا میں نصف ہے۔ ان میں کوئی فرق نہیں، یہ چھ ہزار درہم اور پانچ سو دینار ہے۔ رہی مجوسی کی دیت، خواہ وہ ذمی ہو یا مرتد، وہ مسلمان کی دیت کا پندرھواں حصہ ہے۔

حنبلیوں کا قول ہے کہ اگر نصرانی یا یہودی معاہد ہو اور اسے مسلمان عمداً قتل کر دے تو اس کی دیت مسلمان کی دیت کے برابر ہو گی اور قتل خطا میں مسلمان کی دیت کاآدھا ہو گی۔ حنبلیوں کا مسلک علیحدہ بیان کرتے وقت عبدالرحمن الجزیری نے عورت کی دیت کا ذکر نہیں کیا۔

آپ نے دیکھا کہ دیت کے بارے میں ائمۂ اربعہ کا آپس میں کتنا اختلاف ہے۔ یہودی، عیسائی اور مجوسی کی دیت میں یہ اختلاف نمایاں ہے، مگر عورت کی دیت کے بارے میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں، کیونکہ وہ سب اسے پورا انسان نہیں سمجھتے، حالاں کہ قرآن نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کا ایک ساتھ ذکر کیا ہے۔ جزا اور سزا میں دونوں برابر ہیں، مگر اپنے فقہا اپنے معاشرتی دباؤ کے تحت ان دونوں کو برابر تصور نہیں کرتے۔ حیرت کی بات ہے کہ احناف یہودی، عیسائی اور مجوسی کی دیت کو انسانیت کے ناتے مسلمان کی دیت کے برابر سمجھتے ہیں، مگر جنسی تعصب کی وجہ سے احناف مومن عورت کو یہودیوں، عیسائیوں اور مجوسیوں کے برابر بھی نہیں سمجھتے، حالاں کہ انسانیت ان سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ عورت کو بھی ان کے برابر سمجھیں۔ دین کے واسطے سے نہ سہی انسانیت کے واسطے سے سہی۔

ابن عطیہ بھی اپنی تفسیر (۵/۱۹) میں کہتے ہیں کہ ذمی کی دیت میں اختلاف ہے۔ ابوحنیفہ اور ان کے ساتھیوں کاقول ہے کہ اس کی دیت مسلمان کی دیت کے مانند ہے۔ یہی بات حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جبکہ امام مالک اور ان کے ساتھیوں کا قول ہے کہ اس کی دیت مسلمان کی دیت سے آدھی ہے، اور امام شافعی اور ابو ثور کا قول ہے کہ اس کی دیت مسلمان کی دیت کا ایک تہائی ہے۔ مگر یہاں پر ابن عطیہ نے عورت کی دیت کا ذکر الگ سے نہیں کیا۔ امام رازی، ابن قدامہ اور وھبہ الزحیلی نے ’’الفقہ الاسلامی وادلتہ‘‘ (۷/۵۷۱) میں بھی کہا ہے کہ جمہور فقہا کے نزدیک عورت کی دیت مرد سے آدھی ہے۔ سبھی نے بیہقی کی روایت اور آثار صحابہ سے استدلال کیا ہے۔ ابن قدامہ اور وھبہ الزحیلی نے اسے عورت کے آدھے ورثہ اور آدھی گواہی پر قیاس کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے برعکس ابوبکر الاصم اور ابن علیہ نے عورت کی دیت کو مرد کی دیت کے برابر قرار دیا ہے۔ انھوں نے قرآن حکیم کی سورۂ نساء (۴) کی آیت ۹۲ کے عمومی حکم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کو دلیل بنایا ہے۔ آیت مبارکہ میں ’مَن‘، ’مُؤْمِن‘، ’رَقَبَۃٌ مُّؤْمِنَۃ‘ اور ’دِیَۃ‘ کے الفاظ مطلق ہیں جن میں مرد اور عورت، دونوں شامل ہیں۔ انھوں نے جس حدیث سے استدلال کیا ہے، وہ بھی صحیح ہے۔

ہم ایک نظر ابوبکر الاصم اور ابن علیہ پر ڈالتے ہیں کہ یہ کون تھے اور ان کا مرتبہ و مقام کیا تھا؟

امام ذہبی ’’سیر اعلام النبلاء‘‘ (۸/۱۶۶) میں لکھتے ہیں:

۱۔ ابوبکر الاصم معتزلہ کے شیخ تھے، بہت ہی باوقار، فقر کے باوجود صابر اور حکومت سے گریزاں۔ اہل سنت معتزلہ علما سے استدلال کرتے ہیں۔ اس کی واضح مثال علامہ زمخشری ہیں جن کی ’’الکشاف‘‘ کا حوالہ تمام اہل سنت کی کتابوں میں پایا جاتا ہے۔

۲۔ ابن علیہ کے بارے میں امام ذہبی فرماتے ہیں کہ ان کا نام اسماعیل بن ابراہیم بن مِقسم ابن عُلَیّہ ہے۔ یہ امام، علامہ، حافظ، ثقہ اور حجت ہیں۔ ۱۱۰ ھ میں حسن البصری فوت ہوئے، ابن علیہ اسی سال پیدا ہوئے۔

ابوبکر محمد بن المنکدر التیمی، ابوبکر بن عتیمہ اور حمید الطویل ان کے شیوخ تھے۔ امام ذہبی نے ان کے شیوخ میں تیس نام اور گنوائے ہیں۔ ابن جریج اور شعبہ نے ان سے روایت کی ہے، حالاں کہ وہ ان کے شیخ تھے۔ اس کے علاوہ حماد بن زید، امام احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین نے ان سے روایت کی ہے۔ وہ فقیہ تھے، امام تھے، مفتی تھے۔ ان کا شمار ائمۂ حدیث میں ہوتا ہے۔ غندر کا قول ہے کہ میں حدیث میں پلا بڑھا ہوں۔ کسی کو حدیث میں ابن علیہ پر فوقیت حاصل نہ تھی۔ ابوداؤد سجستانی کا قول ہے کہ اسماعیل بن علیہ اور بشر بن المفضل کے سوا ہر محدث سے خطا سرزد ہوئی ہے۔ یحییٰ بن معین کا قول ہے کہ ابن علیہ ثقہ، متقی اور پرہیز گار تھا۔ یونس بن بکر کا قول ہے کہ میں نے شعبہ کو کہتے سنا ہے کہ اسماعیل بن علیہ محدثین کے سردار ہیں۔ ’’میزان الاعتدال‘‘ (۱/ ۲۲۰) میں حافظ ذہبی فرماتے ہیں کہ ابن علیہ کی امامت غیرمتنازع ہے۔ علی بن سعید نے شعبہ سے روایت کی ہے کہ ابن علیہ ریحانۃ الفقہاء ہیں۔ امام احمد بن حنبل کے بیٹے اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ بصرہ میں اسماعیل ثقاہت کی انتہا تک پہنچا ہوا ہے۔ امام نسائی فرماتے ہیں کہ ابن علیہ ثقہ اور حجت ہے۔ ’’الطبقات الکبریٰ‘‘ میں ابن سعد فرماتے ہیں کہ ابن سعد ثقہ اور حجت ہے۔ ابن علیہ کی وفات ۱۹۳ھ میں ہوئی۔ ابن علیہ کے تین فاضل بیٹے تھے: ایک کا نام حماد بن اسماعیل تھا جو امام مسلم کے شیوخ میں سے تھے۔ دوسرے کا نام محمد بن اسماعیل ہے جو امام نسائی کے شیخ اور دمشق کے قاضی تھے۔ تیسرے کا نام ابراہیم بن اسماعیل ہے۔ وہ خلق قرآن کے قائل تھے اور مناظر تھے۔ انھی کے بارے میں ڈاکٹر طاہر القادری کو مغالطہ لگا ہے کہ ابن علیہ کے نام کے دو الگ الگ شخص ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسماعیل ابراہیم باپ اور ابراہیم بن اسماعیل بیٹے تھے۔ ان کے بیٹے خلق قرآن کے قائل تھے۔ امام رازی نے غلطی سے ابن علیہ کو ابن عطیہ لکھ دیا ہے۔ وھبہ الزحیلی نے ابوبکر الاصم اور ابن علیہ، دونوں کو قیاس کا مخالف لکھا ہے۔ ابن علیہ کے بارے میں ان کا الزام قطعی غلط ہے۔ علم حدیث میں ان کا نام بہت بڑا ہے۔ محدثین کے مانند ان کا استدلال فقہا کے مقابلہ میں قوی ہے۔ ’’سیر اعلام النبلاء‘‘ میں یعقوب السدوسی کی ہیثم بن خالد سے روایت موجود ہے کہ بصرے کے حفاظ اکٹھے ہوئے تو اہل کوفہ نے کہا کہ ان میں سے اسماعیل بن ابراہیم ابن علیہ کو الگ کر دو، باقی جو عالم چاہو ہمارے مقابلہ میں لے آؤ۔

ابن قدامہ نے ابوبکر الاصم کے قول کو شاذ قرار دیا ہے، حالاں کہ یہ شاذ نہیں۔ پیچھے صحیح احادیث گزر چکی ہیں کہ مومن نفس کی دیت سو اونٹ ہے۔ اور عہد رسالت میں دیت تھی ہی سو اونٹ۔ حدیث ’المؤمنون تتکافأ دماء ھم‘ کی شرح جن لوگوں نے کی ہے، وہ سب کے سب جانی قصاص اور مالی قصاص میں مساوات کے قائل ہیں۔ نسائی کے شارح جلال الدین السیوطی، محمد فواد عبدالباقی شارح ابن ماجہ اور شیخ محمد بن عبداللہ الحلوی شارح ابن ماجہ کا قول یہی ہے کہ قصاص اور دیت میں مرد اور عورت، دونوں برابر ہیں۔ ابن اثیر نے ’’جامع الاصول من احادیث الرسول‘‘ (۱۱/ ۱۸۹) کا حوالہ دیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ’تکافؤ‘ کے معنی ’التماثل‘ (مماثلت) اور ’التوافی‘ پورا پورا دینا ہیں اور قصاص و دیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق مرد اور عورت، امیر اور غریب، اعلیٰ اور ادنیٰ سب برابر ہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی ’’اشعۃ اللمعات‘‘ (۳/۲۳۳) کا حوالہ دیا ہے کہ اس حدیث میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص اور دیت میں تمام لوگوں کو برابر قرار دیا ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ ابوبکر الاصم اور ابن علیہ کا قول شاذ نہیں، بلکہ سب محدثین نے اس کی تائید کی ہے۔

اگر مذکورہ آثار صحابہ کو صحیح بھی مان لیا جائے تو بھی قول صحابہ حجت نہیں۔ امام شوکانی نے ’’ارشاد الفحول إلٰی تحقیق علم الأصول‘‘ میں لکھا ہے:

’’جان لیجیے یہ بات متفق علیہ ہے کہ اجتہادی مسائل میں ایک صحابی کا قول دوسرے صحابی کے لیے حجت نہیں۔ اس بات میں اختلاف ہے کہ وہ تابعین اور تبع تابعین کے لیے حجت ہے۔ ایک قول تو یہ ہے کہ وہ مطلقاً حجت نہیں۔ یہ جمہور کا قول ہے ..... اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے صرف نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا ہے۔ ساری امت اللہ کی کتاب اور سنت رسول کی اتباع کی مکلف ہے۔ صحابہ اور بعد میں آنے والوں میں کوئی فرق نہیں۔ سب کتاب و سنت کے اتباع کے مکلف ہیں۔ اور جو یہ کہتا ہے کہ کتاب و سنت کے علاوہ صحابہ کا قول حجت ہے، وہ اسلامی شریعت میں ایک ایسی شریعت ثابت کرنا چاہتا ہے جس کا اللہ نے کوئی حکم نہیں دیا۔ علماے اصول نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے تصرفات کے بارے میں کلام کیا ہے جن کا تعلق امامت اور ریاست سے تھا اور کہا ہے کہ ایسے تصرفات کو بھی عام اور دائمی شریعت کا درجہ حاصل نہیں۔ اگر رسول کے تصرف کا یہ حال ہے تو ائمہ و خلفا کے تصرف کس قطار و شمار میں ہیں؟‘‘ (۱/ ۴۰۵)
مصلحت اور حکمت

ابن قدامہ نے ’’المغنی‘‘ میں اور وھبہ الزحیلی نے ’’الفقہ الاسلامی وادلۃ‘‘ میں کہا ہے کہ عورت کی دیت مرد سے آدھی ہے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ مرد عورت سے زیادہ نفع رساں ہوتا ہے۔ وہ خاندان کا مالی کفیل ہوتا ہے۔ اس کی موت کا خسارہ عورت کی موت سے زیادہ ہوتا ہے۔ جس طرح میراث اور گواہی میں عورت مرد سے آدھی ہے، یہاں بھی آدھی ہو گی۔

دیت کے بارے میں معاشی نفع اور نقصان کا پہلو غیر معقول ہے، کیونکہ ایک بچے کی دیت بھی اتنی ہے، جتنی اس کے باپ کی۔ ایک عاجز اور درماندہ کی دیت بھی اتنی ہے، جتنی طاقت ور کمانے والے کی۔ ایک آدمی جو روزانہ ایک درہم کماتا ہے، اس کی دیت اتنی ہی ہے جتنی ایک ہزار درہم کمانے والے کی۔ ایک ان پڑھ خاکروب کی دیت اتنی ہی ہے جتنی یونیورسٹی کے پروفیسر کی۔ دوسرے تمام اعتبارات سے قطع نظر یہاں سارا دارومدار نفس انسانی پر ہے۔

اگر باپ موجود ہو یا فوت ہو جائے اور ماں ہی اپنے بچوں کی مالی کفالت کرے۔ اگر وہ قتل ہو جائے ، آیا اس کی دیت مرد کے برابر ہو گی یا آدھی؟ ہمارے گھروں میں کام کاج کرنے والی عورتوں کے شوہر گھر میں بے کار بیٹھ کر نشہ کرتے ہیں، کیا اسی مرد کی دیت پوری ہو گی اور عورت کی آدھی؟

جہاں تک اس دعویٰ کا تعلق ہے کہ عورت کی آدھی دیت پر صحابہ کا اجماع ہے، جیسا کہ ابن قدامہ نے ’’المغنی‘‘ میں کہا ہے، تو علامہ یوسف القرضاوی شیخ ابوزہرہ کی کتاب ’’الجریمۃ والعقوبۃ فی الفقہ الاسلامی: العقوبۃ‘‘ کے حوالہ سے ’’عورت کی دیت‘‘ کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں:

’’ابن قدامہ نے ’’المغنی‘‘ میں کہا ہے کہ ابن المنذر اور ابن عبدالبر کا قول ہے کہ اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت سے آدھی ہے۔ دوسرے لوگوں نے ابن علیہ اور الاصم سے روایت کی ہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت کے برابر ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے: ’فی النفس المؤمنۃ ماءۃ من الإبل‘ (مومن نفس کی دیت سو اونٹ ہے)، یہ شاذ قول ہے اور صحابہ کے اجماع اور نبی کریم کی سنت کے مخالف ہے، کیونکہ عمرو بن حزم کی تحریر میں ہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت سے آدھی ہے۔ یہ حدیث مذکورہ حدیث کی تخصیص کرتی ہے۔ یہ دونوں حدیثیں ایک ہی تحریر میں ہیں تو ہم نے جس حدیث کا ذکر کیا ہے، وہ پہلی حدیث کی تفسیر کرتی ہے اور تخصیص بھی۔‘‘

اوپر ثابت ہو چکا ہے کہ یہ صلہ عمرو بن حزم کی تحریر میں موجود نہیں۔ یہ ’’المغنی‘‘ کی عبارت ہے جس میں اجماع کا دعویٰ ہے۔ ’’البدائع الصنائع‘‘ کے مصنف نے اس اجماع کے مفہوم کے بارے میں کہا ہے کہ بے شک، بعض صحابہ اپنی راے کا اعلانیہ اظہار کرتے تھے اور باقی سب صحابہ اعلانیہ اس کا انکار نہیں کرتے تھے، یہ اجماع سکوتی ہوتا تھا۔ اکثر علما اجماع سکوتی کو حجت تسلیم نہیں کرتے۔

’’المغنی‘‘ نے اس نظریہ کی تائید میں دو دلائل اور دیے ہیں:

۱۔ عورت کوورثہ کا نصف ملتا ہے تو مالی لحاظ سے اس پر قیاس کر کے اسے مرد کی دیت سے نصف دیت ملے گی۔

۲۔ دیت جانے والے کا معاوضہ ہے۔ سوسائٹی میں جانے والے کے نقصان سے اس کا اندازہ لگا یا جائے گا۔ یہ بات متقاضی ہے کہ عورت کے جانے سے ہونے والا نقصان مردے سے آدھا ہو، کیونکہ عورت مرد سے کم نفع رساں ہے۔ اس معاوضہ کا اندازہ بھی میراث کے اندازے کی طرح نصف ہو گا۔

یہ دلائل بیان کرنے کے بعد شیخ ابوزہرہ فرماتے ہیں:

’’ہماری راے میں ’’المغنی‘‘ نے صرف مالی پہلو کو پیش نظر رکھا ہے، انسانیت کے پہلو کو نظرانداز کر دیا ہے اور ساتھ ہی مجرم کی زجر و توبیخ کے پہلو سے اعراض کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مجرم کے نفس میں جرم کے داعیہ کی قوت کی سزا اور نفس انسانی پر زیادتی کی سزا ایک ہے۔ سب اسے قدر مشترک تسلیم کرتے ہیں اور نوع کے اختلاف سے اس میں اختلاف واقع نہیں ہوتا۔ پس دیت بھی حقیقت میں بہ یک وقت مجرم کی سزا بھی ہے اور وارثوں کے لیے معاوضہ بھی، اس لیے مناسب یہی ہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت کے برابر ہو، کیونکہ یہ خون کی سزا ہے اور معتدی سے جس طرح عورت کے قتل کا ارتکاب ہوا، بالکل اسی طرح مرد کے قتل کا ارتکاب ہوا ہے، اس لیے ہم (شیخ ابوزہرہ) ابوبکر الاصم کے کلام کو ترجیح دیتے ہیں۔ احادیث زیادہ تر خبر واحد ہیں، ان میں توفیق ممکن ہے۔ ایک خبر کو دوسری خبر پر ترجیح نہیں دی جا سکتی، جبکہ آیت مبارکہ میں صراحت سے قتل خطا کے سلسلہ میں دیت کے احکام عام ہیں، کیونکہ اللہ کا قول ہے: ’فَدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلآی اَہْلِہٖ وَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ‘ (النساء ۴: ۹۲)۔ مقتول کے وارثوں کو خون بہا (خواہ مقتول مرد ہو یا عورت) ’دیت‘ کا لفظ بھی عام ہے، یعنی سو اونٹ اور مومن گردن (خواہ مرد ہو یا عورت) آزاد کرے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت کو سب کے لیے ایک سو اونٹ مقرر کیا۔‘‘

یہ ہے عصر حاضر کے ایک بڑے فقیہ شیخ ابوزہرہ کی راے۔

شیخ محمد غزالی اپنی کتاب ’’السنۃ بین اہل الفقہ واہل الحدیث‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’قرآن میں عورت اور مرد کے لیے ایک جیسی دیت ہے اور یہ خیال کہ عورت کا خون مرد سے ارزاں ہے اور اس کا حق کم تر ہے، ایک جھوٹا خیال ہے جو ظاہراً کتاب اللہ سے متصادم ہے۔‘‘

ازہر کے شیخ محمود الشلتوت نے اپنی کتاب ’’الاسلام عقیدۃ و شریعۃ‘‘ میں عنوان باندھا ہے کہ ’’عورت اور مرد کی دیت برابر ہے‘‘۔ اس میں وہ رقم طراز ہیں:

’’جب عورت اور مرد انسانیت میں ایک دوسرے کا جز ہیں اور اس کا خون مرد کے خون کے مانند ہے۔ آدمی عورت سے ہے اور عورت آدمی سے۔ اور قصاص کا ان کے مابین نفس پر اعتدا کے بارے میں ایک حکم ہے۔ اسی طرح آخرت میں جہنم اور اس میں دائمی قیام اس کی سزا ہے۔ اور اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے۔ آخرت کی یہ سزاجس طرح عورت کے قتل کے بارے میں ہے، بالکل اسی طرح یہ سزا مرد کے قتل کے بارے میں ہے، کیونکہ آیت جس طرح غلطی سے عورت کے قتل کے بارے میں ہے، بالکل اسی طرح وہ مرد کے قتل کے بارے میں ہے۔‘‘

مولانا امین احسن اصلاحی ’’تدبرقرآن‘‘ (۱/ ۴۳۳) میں زیرنظر آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

’’جانی قصاص اور مالی قصاص میں مساوات کا اصول کارفرما ہے۔‘‘
بحث کا ماحصل

۱۔ فقہا کا استدلال بیہقی کی ضعیف حدیث اور منقطع آثار پر مبنی ہے، جبکہ محدثین، ابوبکر الاصم اور ابن علیہ کا استدلال نص قرآنی اور صحیح حدیث پر مبنی ہے۔ محدثین نے حدیث ’المؤمنون تتکافأ دماء ھم‘ کی تشریح میں اور عصر حاضر کے ایک بہت بڑے عالم شیخ ابوزہرہ (جن کا اقتباس اوپر نقل ہو چکا ہے) ’’المغنی‘‘ کے قول کی تردید کرتے ہوئے یہی بات کہی ہے۔

۲۔ یہ جو کہا گیا ہے کہ عورت کی آدھی دیت پر صحابہ کا اجماع ہے، یہ اجماع سکوتی ہے جو قابل حجت نہیں۔

۳۔ یہ جو فقہا کا قول ہے کہ وراثت پر قیاس کرتے ہوئے عورت کی دیت آدھی ہے، کیونکہ مرد کے جانے سے معاشی نقصان زیادہ ہوتا ہے، یہ قطعی غلط ہے، کیونکہ دیت بہتے ہوئے خون کا بدلہ ہے، اس لیے انسانی پہلو کو نظرانداز کرتے ہوئے منفعت کے پہلو کو پیش نظر رکھنا قطعی غلط ہے۔ خون مرد کا ہو یا عورت کا ایک جیسا ہے۔ دیت بھی کم کمانے والے اور زیادہ کمانے والے کی یکساں ہے۔

۴۔ عصر حاضر کے بڑے بڑے فقہا جیسا کہ شیخ ابوزہرہ، شیخ محمود الشلتوت، شیخ محمد الغزالی اور علامہ یوسف القرضاوی کی تحقیق یہ ہے کہ مرد اور عورت کی دیت برابر ہے، کیونکہ سورۂ نساء (۴) کی آیت ۹۲ کا حکم عمومی ہے، اس آیت میں حرف ’مَنْ‘، ’مُؤْمِن‘ ’دِیَۃ‘ اور ’رَقَبَۃٌ مُّؤْمِنَۃ‘ کا اطلاق عورت اور مرد، دونوں پر ہوتا ہے۔

۵۔ دیت کے مسئلہ میں سورۂ نساء کی آیت اور حدیث ’المؤمنون تتکافأ دماء ھم‘ قرینۂ قاطعہ ہیں۔

۶۔ قرینۂ قاطعہ کی موجودگی میں ائمۂ اربعہ کے نقطۂ نظر سے ہٹ کر راے اختیار کرنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اسلامی ممالک کے علاوہ خود پاکستان میں وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے علاوہ رائج الوقت اسلامی بین الاقوامی قوانین میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ ان میں سے ایک مثال ایک ہی مجلس میں تین طلاقوں کی ہے۔

________

 

B