رضوان اللہ
دین اسلام موت اوراس کے بعدکی زندگی کے بارے میں بڑی تفصیل سے بات کرتاہے۔ احیا چونکہ موت ہی سے متعلق ایک مسئلہ ہے ،اس لیے اس کوبھی نہایت وضاحت کے ساتھ اس نے بیان کیااوراس کے تمام مرحلوں پرسیرحاصل گفتگوکی ہے۔اسلام کے بنیادی ماخذ،قرآن میں اس کی جزئیات تک کو ذکر کرنے کااس قدراہتمام ہے کہ اس کے بارے میں کوئی سوال یااِبہام باقی رہ جائے، یہ ممکن نہیں ہے، حتیٰ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ساری زندگی اسی کی منادی کی اور اس کومخاطبین کے فکراوران کے عمل کاحصہ بنادینے میں کوئی کسراٹھانہیں رکھی کہ نبی کونبی (خبر دینے والا) کہتے ہی اس لیے ہیں کہ وہ لوگوں کوآخرت اوراس کے احوال کی خبردیتا ہے۔غرض یہ کہ اگرکہاجائے کہ احیاکاعقیدہ اسلام کی سب تعلیمات کااصل ہدف اوراس کے تمام احکامات کا مرکزی نقطہ ہے توایساکہنابالکل بھی بے جانہیں ہے۔سواس عقیدے کی اسلام میںیہ مرکزیت ہے جوتقاضاکرتی ہے کہ ہم بھی اس کوذرا تفصیل سے بیان کریں۔ زیر نظر مضمون میں ہم کوشش کریں گے کہ اس کے ہر ہر پہلو کو نمایاں کریں اور تفہیم مدعاکے لیے اس کے احوال کی زمانی ترتیب کوبھی ملحوظ رکھیں اوراس بات کابھی خصوصی طورپرخیال رکھیں کہ اس کے بیان میں انھی دلائل کا سہارا لیں جن پرسنی سنائی یاگھڑی ہوئی بات کی کوئی پھبتی چست نہ کی جاسکے ۔
قرآن مجید کی روشنی میں دیکھاجائے تو زندگی اورموت کے سلسلے کو چار ادوارمیں تقسیم کیا جاسکتا ہے:عالَم نفوس، عالم دنیا، عالم برزخ اورعالم حشر۔ ذیل کی آیت ان چاروں ادوار کو بہ خوبی بیان کررہی ہے :
کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ. (البقرہ۲: ۲۸)
’’لوگو،(قیامت کا انکار کرکے)تم اللہ کے منکر کس طرح ہوتے ہو،دراں حالیکہ تم مردہ تھے تو اس نے تمھیں زندگی عطا فرمائی ،پھروہی مارتا ہے،اس کے بعد زندہ بھی وہی کرے گا،پھر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘۱
یہ وہ دنیاہے جس میں انسان کی ذات مادی وجود پالینے سے پہلے مجردحالت میں ، یعنی جسم کے بغیررکھی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آیت میں اس کے لیے ’موت‘ کالفظ لایاگیاہے۔ قرآن کے دوسرے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم سے لے کرقیامت تک جتنے لوگوں کوپیدا ہوناتھا،ان کی روحوں کوایک ہی مرتبہ پیدا کر دیا گیا ہے۔ ۲ اب ہوتاصرف یہ ہے کہ جب کسی کا دنیامیں آنامقدّرہو،اس وقت اس کی روح کودنیامیں تیارہوجانے والے مادی جسم میں پھونک دیاجاتا ہے ۔ ۳ گویا روحیں اُس دنیامیں بس قطارمیں لگی ہوئی ہیں اوراِس دنیا میںآنے کی منتظر ہیں۔
اس عالم سے مراد وہ دنیاہے جس میں ہم اس وقت رہ رہے اوراپنے حواس سے اس کو محسوس کررہے ہیں۔ یہاں کچھ عرصہ رہنے اورپھراگلی دنیامیں چلے جانے کاایک مسلسل عمل جوہم دیکھ رہے ہیں، عرف عام میں اس کے لیے زندگی اورموت کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ان میں سے جوزندگی ہے، وہ اپنی حقیقت میں مادی بھی ہوتی ہے اور روحانی بھی، اوراسی طرح موت کا معاملہ ہے۔
مادی زندگی
دین اصل میں مابعدالطبیعیاتی اساس رکھتے ہیں،اس لیے مادی زندگی کیاہے اوراس کی مادی تعبیرات کیا ہیں، بالعموم وہ ان کے بیان میں گریزکرتے ہیں۔تاہم دین ہی کے تقاضوں کے تحت بیان ہوئی تفصیلات میں ضمنی طور پر ان کے بارے میں کچھ اشارے مل جاتے ہیں۔قرآن میں یہی ہواہے۔اس کے مطابق نطفۂ انسانی کے رحم مادرمیں قرار پا جانے سے زندگی کامادی پہلوشروع ہوتاہے ۔بعدازاں لوتھڑے ،بوٹیو ں،ہڈیوں اورگوشت پوست کے مراحل گزرتے ہیں اوراس طرح حیوانی وجودکی تکمیل ہوجاتی ہے۔جیساکہ ارشادہواہے :
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ، ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ، ثُمَّ خَلَقْنَا الْنُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا. (المومنون ۲۳: ۱۲۔۱۴)
’’اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا، پھرہم نے پانی کی ایک بوند کی شکل میں اسے ایک محفوظ مستقر میں رکھا،پھرہم نے پانی کی اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی ،پھر اس لوتھڑے کو بوٹی بنایا، پھر اس بوٹی میں ہڈیاں پیدا کیں،پھر ہڈیوں کو گوشت کا جامہ پہنا دیا۔‘‘
روحانی زندگی
انسان کامادی وجود جب مذکورہ بالاتمام مرحلوں سے گزرجاتاہے تواس میں اتنی استعداد پیدا ہوجاتی ہے کہ انسانی شخصیت کا، جو کہ ایک غیرمادی حقیقت ہے ،تحمل کرسکے۔چنانچہ فرمایاہے:
ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ.(المومنون۲۳: ۱۴)
’’پھر اس کو بالکل ہی مختلف مخلوق کی شکل میں مشکّل کر دیا۔پس بڑا ہی با برکت ہے اللہ ،بہترین پیدا کرنے والا۔‘‘
آیت میں ’ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا آخَرَ‘ کے الفاظ اصل میں زندگی کی غیر طبعی جہت متعین کررہے ہیں ،جو نتیجہ ہوتی ہے انسانی جسم میں اُس روح کے پھونک دیے جانے کاکہ جس کا ذکر خدانے اپنی طرف نسبت دیتے ہوئے ان الفاظ میں کیا ہے:
فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ.(الحجر ۱۵: ۲۹)
’’سوجب میں اس کوپورا بنالوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں توتم سب اس کے آگے سجدہ ریزہوجانا۔‘‘
ان آیتوں سے بہ خوبی واضح ہے کہ یہ روح یزدانی اُس طبعی اور مادی روح سے یک سرمختلف ہے جوصرف اور صرف مادی زندگی کی ضامن ہوتی ہے۔اصل میں یہی روح ہے کہ جس کے پھونک دیے جانے سے ایک جان دارانسان ہو جاتا اوریہی ہے کہ جس کی وجہ سے وہ خداکی شریعت کامکلف ٹھیرتاہے۔اوراگریہ نہ ہوتووہ اپنی حیوانی حیثیت میں چاہے زندہ ہو،مگرمردوں میں سے گناجاتاہے۔
مادی موت
اس کے بعدزندگی کاسفرشروع ہوتاہے۔وہی انسان جس نے ایک ناتواں انکھوے کے مانند آنکھ کھولی تھی،وہ وقت آتاہے جب طاقت کاجوبن اورعقل کی اُٹھان اس سے سنبھالے نہیں سنبھلتی۔اس کی نگاہ پاتال کی گہرائیوں میں اترجاتی اورہر گام آکاش کی پہنائیوں میں راہ پانے لگتا ہے۔وہ جس طرف جانا چاہتا ہے، دھرتی اپناسینہ چاک کیے اس کوراستہ دیتی اور ہوائیں اسے اپنے دوش پرلیے ہر سو اڑتی پھرتی ہیں۔فلک بوس پہاڑاس کے عزم ا ورحوصلے کے سامنے جھک جھک جاتے توبحربے کنارمحض ایک کوزے کے مانند ہوجاتے ہیں۔لیکن یہ قدرت کا قانون ہے کہ بحروبر کافاتح یہ خاکی پتلا، انتہاؤں کو چھولینے کے بعدمائل بہ زوال ہونے لگتا ہے۔اس کے حوصلے پست ہوجاتے، اس کی ہمت جواب دے جاتی اوراس کی ہرامنگ بے ترنگ رہ جاتی ہے۔اور آخر کاروہ مقام آتاہے جب موت کے سائے اس پرچھانے لگتے اوراس کی ہول ناکیاں اس کے دامن سے لپٹ کررہ جاتی ہیں۔قرآن کااعلان ہے:
کُلُّ نَفْسٍ ذَآءِقَۃُ الْمَوْتِ.(اٰل عمرٰن ۳: ۱۸۵)
’’ہرجان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔‘‘
انسان ویسے توجسم اورجان اورایک شخصیت سے عبارت ہے،مگران تینوں میں سے موت کے اترنے کی اصل جگہ اس کاجسم ہے۔موت اترنے کایہ عمل جب شروع ہوتاہے تو اس کے آخری اثر کے طورپرانسان جان سے بھی ہاتھ دھوبیٹھتاہے۔گویاجسم کیامعطل ہوتا ہے جان بھی روٹھ جاتی ہے۔اب وہ لاکھ چاہے کہ کسی طرح موت سے کنارہ کش ہورہے ،مگراس کو زندوں کا ساتھ چھوڑنا اورآخرکار مردوں کے ہمسایہ میں جاناہی پڑتا ہے، حالاں کہ موت کے وقت سب انصارو اعوان اس کے آس پاس جمع ہوتے اور اس کو بچانے کے تمام وسائل بھی مہیاہوتے ہیں،مگر یہ سب کچھ دھرے کا دھرارہ جاتا ہے۔سر توڑ کوششوں کے باوجود اور سب کی نگاہوں کے بالکل سامنے وہ موت کے چنگل میں جا پھنستا ہے۔کسی کی مجال نہیں ہوتی کہ موت کوشکست دے اوراس کے ظالم جبڑوں سے اس کوچھڑا لے جا سکے۔ یہ حددرجہ بے بسی اصل میں اس بات کی واضح دلیل ہوتی ہے کہ موت دینے کے اس خدائی فیصلے میں وہ سراسر محکوم ہے اورمجبور محض ہے:
فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ، وَاَنْتُمْ حِیْنَءِذٍ تَنْظُرُوْنَ، وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْکُمْ وَ لٰکِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ، فَلَوْلَآ اِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَ، تَرْجِعُوْنَھَآاِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ. (الواقعہ ۵۶: ۸۳۔۸۷)
’’(اگرتمھارا یہ گمان ہے کہ تم کسی کے محکوم نہیں) تو کیوں نہیں اس وقت کہ جب جان حلق میں پہنچتی ہے، اور تم اس وقت دیکھ رہے ہوتے ہواور ہم جان کنی میں مبتلا اس شخص سے تمھاری نسبت زیادہ قریب ہوتے ہیں، لیکن تم دیکھ نہیں پاتے، اگر تم غیر محکوم ہوتو کیوں نہیں اس جان کو لوٹالیتے، اگر تم سچے ہو۔‘‘
روحانی موت
انسان پرجب موت واردہوجاتی اوراس کے نتیجے میں جسم اورجان کارشتہ ٹوٹ رہاہوتاہے تو اسی دوران میں کسی وقت اس کی روح بھی داغ مفارقت دے جاتی اورفرشتوں کے ہاتھ جا لگتی ہے۔ یہ روح یزدانی جس کو نفس، شخصیت، ہستی، ذات یاپھرکچھ بھی کہہ لیں،اس کاجسم میں داخل ہوجاناجس طرح انسان کی روحانی زندگی کی دلیل تھا ،اسی طرح اس کاجسم سے نکل جانااس کی روحانی موت کی دلیل ہوجاتاہے:
وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآءِکَۃُ بَاسِطُوْٓا اَیْدِیْھِمْ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَکُمْ. (الانعام ۶: ۹۳)
’’اور کبھی تم دیکھتے ،جب یہ ظالم موت کی بے ہوشی میں ہوں گے اورفرشتے ہاتھ بڑھائے ہوئے مطالبہ کر رہے ہوں گے کہ لاؤ،اپنی جانیں ہمارے حوالے کر دو۔‘‘
فرشتے نفس انسانی کواس وقت نکالتے ہیں جب کوئی حالت نزع میں ہوتاہے ،یہ بات توواضح ہے ،اس کے ساتھ ضمنی ،مگرموضوع سے متعلق مزیدکچھ باتیں بھی اس آیت سے سامنے آتی ہیں۔ مثال کے طور پر فرشتوں کا ’اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَکُمْ‘ کہنا کہ اپنا نفس ہمارے حوالے کر دو، ظاہر ہے اسی صورت میں صحیح ہو سکتا ہے جب ہم کچھ باتوں کو تسلیم کریں: پہلی یہ کہ انسانی جان اس کے نفس سے علیحدہ شے ہے، اسی لیے تونفس کے نکالنے میں وہ فرشتوں کی مخاطَب ہے۔دوسرے یہ کہ نفس کا جسم میں داخل ہونا اور نکلنا،مادی موت اورزندگی سے متصل ضرور ہوتا ہے،مگر یہ انسان کے جینے اور مرنے کی دلیل نہیں ہوتا۔ تیسرے یہ کہ نفس ہی دین کااصل مخاطب ہے کہ جس وقت یہ جسم و جان سے رشتہ توڑنے جاتاہے توساتھ ہی امتحان کادورانیہ ختم اورغیب کے پردے اٹھنے لگتے ہیں۔
موت کے بعدکیامعاملہ ہوتاہے؟قرآن کی روسے ایسانہیں ہے کہ انسان مرکے مٹی ہوجاتا اور قصہ تمام ہو جاتا ہو، بلکہ اس کواب ایک نئے سفرپرجاناہوتاہے کہ جس کی ہرراہ اسے رب العٰلمین کی طرف لیے جاتی ہے:
کَلَّآ اِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِیَ، وَ قِیْلَ مَنْ رَاقٍ، وَّظَنَّ اَنَّہُ الْفِرَاقُ، وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ، اِلٰی رَبِّکَ یَوْمَءِذِنِ الْمَسَاقُ. (القیٰمہ ۷۵: ۲۶۔۳۰)
’’(نہیں،تم اس کو نہیں جھٹلا سکتے)، ہر گز نہیں،اُس دن، جب جان ہنسلی میں آپھنسے گی اور کہا جائے گا کہ اب کون ہے جھاڑنے والا؟اور وہ(مرنے والا) سمجھ لے گا کہ اب چل چلاؤ کا وقت ہوا،اور پنڈلی پنڈلی سے لپٹ جائے گی،وہ دن تیرے رب کی طرف جانے کا دن ہوگا۔‘‘
اس سفرمیں روح پرکیاگزرتی ہے؟ہم وضاحت سے بیان کرچکے ہیں کہ عقیدۂ احیاکے مطابق یوں نہیں ہوتاکہ یہ روح خداسے جاملے یاگھاس پھوس اورحیوان کے جسم کواپنامسکن بنا لے،بلکہ اس کو اُس وقت تک کے لیے ایک خاص دنیا میں جگہ دی جاتی ہے، جب تک سب مردوں کی زندگی اوران کی جزاوسزا کا مرحلہ نہیں آجاتا۔ اسلامی اصطلاح میں اس عالم کوجس میں مردے اکٹھے کیے جاتے ہیں،’ برزخ‘ کہا جاتا ہے اوریہ موت اورزندگی کے سلسلے کا تیسراعالم ہے۔
یہودیت اورمسیحیت کی بیان کردہ Sheol اور یونانیوں کے ہاں پائی جانے والی Hades کی اصطلاحات، عالم برزخ کاتصوریہ دیتی ہیں کہ یہ پاتال میں قائم کوئی دنیاہے۔لیکن قرآن مجید نے ہمارے لیے برزخ کے مقام کا تعین کیااورنہ اس کی تفصیلات بیان کی ہیں،اس کی وجہ نہایت معقول ہے۔ اول تواس مقام کاتعین کیاجائے، اس کی ضرورت ہی کیاہے؟کیونکہ دین میں اصل مقصود برزخی زندگی کاشعوردیناہے نہ کہ اس کے جغرافیے اورمحل وقوع کی تفصیلات کوبیان کرنا۔دوسرے یہ کہ برزخ ایک ایسا عالم ہے کہ جس کے اصول ہماری دنیاکے اصولوں سے یک سر مختلف ہیں۔اب اس عالم کی تفصیلات بیان کرنے سے کیافائدہ کہ جس کی حقیقت کوہم پاسکیں اورنہ کچھ اس کاادراک ہی کرسکیں۔
تاہم،’برزخ‘ کالفظ جوفارسی لفظ ’پردہ ‘ کا معرّ ب ہے ،ہمیں یہ ضروربتاتاہے کہ یہ دنیاکہیں بھی پائی جائے، بہرحال، ہم سے اوٹ میں ہے۔نیزیہ بھی اس لفظ کے مفہوم ہی کالحاظ ہے کہ قرآن نے اُس دنیاکوایک روک قرار دیا ہے جو مردوں کوہماری اِس دنیا میں واپس نہیں آنے دیتی۔بیان ہواہے کہ مرنے کے بعدجب کچھ لوگ تمناکریں گے کہ اس دنیامیں لوٹ آئیں تو ان کو دوٹوک اندازمیں جواب دیا جائے گا:
کَلَّا اِنَّھَا کَلِمَۃٌ ھُوَ قَآءِلُھَا، وَمِنْ وَّرَآءِھِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ.(المومنون ۲۳: ۱۰۰)
’’ہرگز نہیں،(یہ نہیں ہوسکتا)یہ تو ایک (حسرت بھرا) کلمہ ہے جسے وہ کہے گا، وگرنہ ان کے آگے ایک پردہ ہے اس دن تک کے لیے،جب وہ اٹھائے جائیں گے۔‘‘
آیت میں ’اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ‘ کے الفاظ واضح طورپر اشارہ کررہے ہیں کہ مردوں کوبرزخ میں جمع کرنے کا عمل اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک سب مردوں کواٹھاکرکھڑانہیں کردیا جاتا۔ ہونے کو تو یہ بھی ہوسکتاتھاکہ جس کسی کوموت آن لیتی ،اس کی عدالت فوراً لگادی جاتی،عملوں کا ناپ تول ہوتا اوراس کی کامیابی اورناکامی کافیصلہ سنادیاجاتا،مگرایساکچھ نہیں ہوا اوریہ ساری کارروائی آخر وقت تک کے لیے مؤخرکردی گئی، کیونکہ اس طرح ، جیسا کہ ہم نے عقیدۂ تناسخ کا رد کرتے ہوئے بیان کیا،بہت سے وہ عمل جوموت کے بعدبھی اپنے اثرات چھوڑ جاتے ہیں ، انھیں مقدمے کی کارروائی میں زیربحث لانے کی کوئی صورت نہ ہوتی۔ چنانچہ پروردگارعالم کی صفت عدل اور اس کی بے پایاں رحمت کا بدیہی تقاضا ہوا کہ لوگوں کے فیصلوں کو اس وقت تک مؤخر کردیا جائے جب تک مقدمے کا ہرفریق اپنے اپنے عمل اوراس کے اثرات ونتائج کے ساتھ وہاں حاضری کے قابل نہ ہو جائے ۔
عالم برزخ میں لوگوں کے ساتھ تین طرح سے معاملہ کیاجائے گا:
ایک وہ لوگ ہوں گے جودنیامیں نیکی بھی کرتے رہے اوربدی میں بھی ملوث رہے ۔نیکی اور بدی کے اس اختلاط کی وجہ سے ان کامعاملہ ایسانہیں ہوگاکہ ان کے بارے میں کوئی فیصلہ دیا جاسکے۔ ضروری ہوگاکہ اس طرح کے لوگوں کے لیے ترازوکھڑے کیے جائیں اوران کاباقاعدہ حساب ہو۔چنانچہ ان کوحساب کے وقت،یعنی قیامت تک کے لیے بس سلادیاجائے گا۔
دوسرے وہ ہوں گے جنھوں نے خداسے اپنا تعلق صحیح طورپرقائم کیے رکھا، حتیٰ کہ اس کے تقاضوں کوپوراکرنے کے لیے وہ آخری حدتک گئے ہوں گے۔ان کے معاملے میں کوئی ابہام نہیں ہوگاکہ ان کاحساب پوچھنے اوران کی نیکیوں اوربدیوں کوتولنے کی ضرورت ہو،چنانچہ ان کوایک طرح کاثواب دینے کا عمل برزخ ہی میں شروع کر دیا جائے گا۔ مثال کے طورپررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ساتھی جنھوں نے خداکے ساتھ باندھے ہوئے عہد وفاداری کو خوب نبھایااوراس کی خاطر اپنی جان تک کی پروانہ کی،قرآن نے ان کی برزخی زندگی کی تصویرکچھ یوں کھینچی ہے:
وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا، بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ. (اٰل عمرٰن ۳: ۱۶۹)
’’جولوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے، انھیں ہرگز مردہ خیال نہ کرو۔(وہ مردہ نہیں)،بلکہ اپنے پروردگار کے حضور زندہ ہیں،انھیں روزی مل رہی ہے۔‘‘
تیسرے وہ لوگ ہوں گے جن کی خداسے بغاوت ،اس کے سامنے تکبراوراس کے بتائے ہوئے حدود سے سرکشی اس قدرواضح ہوگی کہ ضروری نہیں ہوگاکہ ان کاحساب کتاب لیاجائے، چنانچہ ان پربرزخ ہی میں ایک طرح کا عذاب شروع کردیا جائے گا۔جیساکہ قرآن مجیدنے فرعون اوراس کے ہم نواؤں کاذکرکرتے ہوئے بیان کیاہے :
وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓءُ الْعَذَابِ، اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا. (المومن ۴۰: ۴۵۔۴۶)
’’اور فرعون کے ساتھی بد ترین عذاب کے پھیرے میں آگئے،دوزخ کی آگ ہے جس پرصبح وشام وہ پیش کیے جاتے ہیں۔‘‘
برزخ میں دی جانے والی زندگی کس نوعیت کی ہوگی؟قرآن کابیان ہے کہ یہ عالم نفوس ہی کی طرح ،یعنی جسم کے بغیرایک طرح کی زندگی ہو گی۔۴ اس میں ہماری روح ویسے ہی شعور اور احساس کی مالک ہو گی، جیسا شعور اور احساس ہمیں نینداورخواب کی حالت میں ہواکرتا ہے۔نیز یہ حالت اس وقت تک قائم رہے گی جب تک برزخ سے اگلا مرحلہ آ جاتااوراس کے لیے صورنہیں پھونک دیاجاتا۔برزخی حیات کے ان دونوں پہلوؤں کابیان ذیل کی آیت میں اس طرح ہواہے:
وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا ھُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰی رَبِّھِمْ یَنْسِلُوْنَ قَالُوْا یٰوَیْلَنَا مَنْم بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا ھٰذَا.(یٰسٓ ۳۶: ۵۱۔۵۲)
’’اورجب صورپھونک دیاجائے گاتووہ یکایک قبروں سے نکل کراپنے رب کی طرف چل پڑیں گے، اور کہیں گے: ہائے ہماری بدبختی،یہ ہماری خواب گاہوں سے ہمیں کون اٹھالایا ہے۔‘‘
[باقی]
_____
۱ مذکورہ آیت یہ بات بھی بیان کررہی ہے کہ موت وحیات کے اس سفرسے پہلے انسانی ذات مجرد حالت میں ہوتی ہے، پھر اسے جسم کاایک مرکب دیاجاتاہے،سفرکے اختتام پروہ مرکب اس سے چھین لیا جاتا اور پھر نئے سفرکے لیے نئی سواری کاانتظام کیا جاتا ہے۔ مزیدیہ کہ اس سفرکی یہ خصوصیت ہے کہ اس کا ہرراستہ آگے کوجانے کے لیے بناہے،چنانچہ روحوں کا دنیامیں واپس آنا،زندوں کو ڈرانا اورکچھ لے دے کر راضی ہوجانا، اسلام کے نزدیک باطلِ محض ہے۔
۲ الاعراف ۷: ۱۷۲۔
۳ المومنون ۲۳: ۱۴۔
۴ البقرہ ۲: ۲۸۔
________