’’قرآنیات‘‘ میں حسب روایت جناب جاوید احمد غامدی صاحب کا ترجمۂ قرآن ’’البیان‘‘ شائع کیا گیا ہے۔ یہ قسط سورۂ یوسف (۱۲) کی آیات ۲۳۔۳۴ کے ترجمہ اور حواشی پر مشتمل ہے۔ ان آیات میں بیان ہوا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو عزیز مصر کی بیوی کی طرف سے ایک فتنے کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی وجہ سے انھیں بے قصور جیل میں ڈال دیا گیا۔ اللہ کی مدد سے حضرت یوسف علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب رہے۔
’’معارف نبوی‘‘ میں ’’موطا امام مالک‘‘ کی جس روایت کا انتخاب کیا گیا ہے، اس میں جہنم کی خصوصیات کو بیان کیا گیا ہے کہ جہنم کی آگ اس دنیا کی آگ کے مقابلے میں ستر گنا زیادہ حرارت والی ہے۔ اس آگ کا رنگ تارکول سے بھی زیادہ سیاہ ہے۔
’’سیر و سوانح‘‘ کے تحت محمد وسیم اختر مفتی صاحب کے مضمون میں جلیل القدر صحابی حضرت ابو حذیفہ بن عتبہ رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے، ان کے حالات زندگی اور غزوات میں ان کی شرکت کا ذکر ہے۔
’’مقالات‘‘ میں ’’علامہ اقبال اور بیداریِ امت‘‘کے زیر عنوان شاہد رضا صاحب کا مضمون شائع کیا گیا ہے۔ اس میں انھوں نے علامہ اقبال علیہ الرحمۃ کے شعری اور نثری محاسن کو بیان کیا ہے۔ نیز اس تحریر میں امت مسلمہ کی بیداری کے لیے ان کے پیغام کو واضح کیا ہے۔
’’یسئلون‘‘ میں مولانا اصلاحی صاحب سے پوچھا گیا یہ سوال نقل کیا گیا ہے کہ قرآن مجید میں جو آیات متشابہات ہیں، ان کے بیان میں کیا مصلحت ہے؟ انھوں نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ متشابہات کی حقیقت سے اگرچہ ہم واقف نہیں، مگر ان کے تصور سے ہمارے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان پر اجمالاً ایمان ضروری ہے، تفصیلات سے آگاہی ضروری نہیں۔
’’نقطۂ نظر‘‘ کے تحت پروفیسر خورشید عالم صاحب نے اپنے مضمون ’’عورت کی دیت‘‘ کے دوسرے حصے میں عورت کی آدھی دیت سے متعلق روایات کے دلائل کا جائزہ پیش کیا ہے۔نیز فقہ کی روشنی میں اس پر بحث کی ہے۔ ’’نقطۂ نظر‘‘ ہی کے تحت رضوان اللہ صاحب نے اپنے مضمون ’’بعد از موت‘‘ کے چوتھے حصے میں بیان کیا ہے کہ دین اسلام موت اوراس کے بعدکی زندگی کے بارے میں جامع گفتگو کرتا ہے۔ انھوں نے اسلام کی روشنی میں عقیدۂ اِحیا کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔
’’ادبیات‘‘ میں علامہ محمد اقبال کی ولولہ انگیز نظم ’’روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘‘ میں دنیا کی روح انسان سے مخاطب ہے۔ جب آدم علیہ السلام کو جنت سے بے دخل کرکے زمین پر اتارا گیا تو وہ بہت رنجیدہ ہوئے۔ لیکن اقبال کی دور رس نگاہ اور بلندیِ تخیل نے دیکھا کہ آدم کی اس افتاد میں اُس کی شہنشاہیت اور لامحدود خود مختاری موجود ہے۔ اقبال اس نظم میں انسان کو خودی اور جہد مسلسل سے اس دنیا کواپنے لیے جنت نظیر بنانے کی تعلیم دے رہے ہیں۔
________