HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : امام امین احسن اصلاحی

مال کے ضائع کرنے اور دوہرا چہرہ رکھنے کے بارے میں

ترتیب و تدوین: خالد مسعود۔ سعید احمد

(مَا جَاءَ فِیْ إِضَاعَۃِ الْمَالِ وَذِی الْوَجْھَیْنِ)

حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ عَنْ سُھَیْلِ بْنِ أَبِیْ صَالِحٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی یَرْضٰی لَکُمْ ثَلَاثًا وَ یَسْخَطُ لَکُمْ ثَلَاثًا: یَرْضٰی لَکُمْ أَنْ تَعْبُدُوْہُ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہِ شَیْءًا وَ أَنْ تَعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَ أَنْ تَنَاصَحُوْا مَنْ وَلَّاہُ اللّٰہُ أَمْرَکُمْ وَ یَسْخَطُ لَکُمْ قِیْلَ وَقَالَ وَإِضَاعَۃَ الْمَالِ وَکَثْرَۃَ السُّؤَالِ.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمھارے لیے تین باتوں کو پسند اور تین باتوں کو ناپسند کرتا ہے: وہ تمھارے لیے یہ پسند کرتا ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑو اور تمھارے معاملات پر اللہ نے جن لوگوں کو مقرر کر دیا ہے، ان کی خیر خواہی کرو۔ وہ تمھارے لیے قیل و قال، مال کو ضائع کرنے اور کثرت سوال کو ناپسند کرتا ہے۔
وضاحت

حبل اللّٰہ‘ سے مراد قرآن مجید ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ اور ہمارے درمیان رسی ہے جو تعلق کا ذریعہ ہے۔ اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنے کے معنی ہیں کہ حق و باطل میں امتیاز کی یہی کسوٹی ہو گی۔ کسی چیز کے حق یا باطل ہونے میں جب بھی کوئی نزاع پیدا ہو گا تو اسی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔ اس کسوٹی پر جو چیز پوری نہ اترے تو نہیں لی جائے گی۔

معاملات پر مامور لوگوں سے مراد حکمران ہیں۔ حکمرانوں کی خیر خواہی کے معنی ہیں کہ آپ ان کو نیک مشورے دیں۔ خوشامد سے انھیں بیوقوف نہ بنائیں اور آسمان پر نہ چڑھائیں، غلط رہنمائی نہ کریں اور ان کی حمایت محض اس لیے نہ کریں کہ ان سے آپ کی کوئی غرض وابستہ ہے۔ یہ چیزیں نصیحت اور خیر خواہی کے بالکل خلاف ہیں۔ جب بھی موقع ملے، ان کو صحیح بات بتانی چاہیے، لیکن ادب اور وقار ملحوظ رہنا چاہیے۔ ان کو بدنام کرنے اور ذلیل کرنے کے لیے اہل سیاست کے طریقے پر بیان بازی نہیں کرنی چاہیے۔ ہمیشہ ان کی اصلاح مدنظر رہنی چاہیے، اس لیے کہ آپ کی عزت، آبرو، مال اور جان کی حفاظت ان لوگوں کی ذمہ داری ہے۔

قیل و قال‘ سے مراد بکواس، مناظرہ بازی، کٹ حجتی، مین میکھ نکالنا اور فضول قسم کی کرپزی کرنا ہے۔ مال زندگی کے قیام و بقا کا ذریعہ ہے، اس لیے اپنے مال کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ زیادہ سوال کرنے سے مطلب مانگنا نہیں، بلکہ غیر متعلق اور اناپ شناپ سوال کرنا ہے۔ اس کی ممانعت قرآن مجید میں بھی آئی ہے۔ سوال وہی کرنا چاہیے جو واقعی پیدا ہو، خواہ مخواہ سوالات پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ یہ طرزعمل دین کو یہودیت کا مجموعہ بنا دیتا ہے۔

وَحَدَّثَنِیْ مَالِکٌ عَنْ أَبِی الزَّنَادِ عَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مِنْ شَرِّ النَّاسِ ذُوالْوَجْھَیْنِ الَّذِیْ یَأْتِیْ ھٰؤُلَاءِ بِوَجْہٍ، وَھٰؤُلَاءِ بِوَجْہٍ.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدترین خلائق دو رخا آدمی ہے، جو ایک کے پاس آئے تو ایک شکل میں آئے اور دوسرے کے پاس جائے تو کچھ اور بن کر جائے۔
وضاحت

آدمی کو بالکل دو ٹوک ہونا چاہیے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ

باما شراب خورد و با زاہد نماز کرد

آدمی کو اس حد تک صاف گو ہونا چاہیے کہ ہر ذہین آدمی اس کے معاملے میں اندازہ کر لے کہ اس کا موقف کیا ہو گا اور وہ کیا طریقہ اختیار کرے گا۔ اگر اس سے کوئی بات کہی جائے تو کیا جواب دے گا۔

(تدبر حدیث ۵۱۶۔۵۱۸)

_______

B