HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : رضوان اللہ

بعد از موت

رضوان اللہ

زندگی اور موت، ان دونوں کی حقیقت کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب ہر کوئی اپنے اپنے انداز اور علم وتجربہ سے دیتاہے۔عام لوگوں کے نزدیک اگرکوئی انسان اُٹھتا بیٹھتا،چلتا پھرتا،کھاتا پیتا ، دوسروں کی سنتا اوراپنی سناتاہے،یا دوسرے لفظوں میں، جب تک اس میں ذراسی بھی حرکت محسوس ہوتی ہو، وہ زندوں میں شمار ہوتا ہے۔ اوریہ جان لینے کے بعد کہ زندگی کیاہے ، موت کو جان لینا اب ان کے لیے کچھ مشکل نہیں ہوتا۔اس لیے کہ زندگی اورموت،باہم متضاد صفات ہیں ، ان میں سے ایک کوسمجھ لیا جائے تو دوسری خود بخود واضح ہوجاتی ہے۔جیسے روشنی اور اندھیرے کی مثال میں ہم دیکھتے ہیں کہ روشنی کو جان لینے کے بعد اندھیرے کو آسانی سے جان لیا جا سکتا ہے کہ اندھیرا کچھ بھی نہیں،محض روشنی کا نہ ہوناہے۔چنانچہ زندگی اگرحرکت کانام ہے تو پھر موت بھی ان لوگوں کے ہاں بس جمود ہے ،اس کے سواکچھ نہیں ۔

بعض حضرات کے نزدیک ان حرکات وسکنات سے قطع نظر ،دماغی حیات اصل زندگی ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ انسان کا دماغ جب تک شعور ی کیفیت میں ہوتااورسمجھ بوجھ کا عمل کرتارہتا ہے ، اس وقت تک وہ زندہ ہے۔جب تمام شعوری احساسات ختم ہو جائیں، اُس وقت اس کے جسم کی حالت کیسی ہی کیوں نہ ہو،وہ حقیقت میں مردہ ہی ہے۔ ایسے شخص پر زندگی کے تمام حکم ساقط ہو جاتے اور اس کی اپنی ہر بات بھی معطل ہوکر رہ جاتی ہے۔

کچھ لوگ ایسے شخص کو بھی کہ جس کی دماغی موت کااعلان ہوچکاہو،اس وقت تک زندہ جانتے ہیں جب تک دل دھڑک کر اورپھیپھڑے سکڑپھیل کراپنی ہستی کااحساس دلاتے رہیں ۔ان کے نزدیک جب دھڑکنیں تھم جائیں اور سانسیں رک جائیں ،تب جاکرزندگی ختم اوراس کامسافر عازم عدم ہوتاہے۔

زندہ کون ہوتاہے اور مردہ کسے کہتے ہیں ،یہ جان لینے کے بعد دوسرا سوال اٹھتا ہے کہ ہر زندہ کو کیا ضرورہی مرنا ہے؟ اس کے جواب میں ہرکوئی ایک ہی بات کرے گاکہ موت زندگی کی تلخ ہی سہی، مگراٹل حقیقت ہے۔ ان دونوں کا رشتہ ایسالازوال ہے کہ صدیاں بیت گئیں ،مگرزندگی موت سے بے پرواہوئی اورنہ موت نے اسے اپنے چنگل سے آزادکیا۔اس کش مکش میں فاتح بھی ہمیشہ موت ہی رہی۔یعنی یہ توبارہاہواکہ زندگی ہردم بھاگتی رہی اورموت اس کے تعاقب میں رہی،یا کبھی زندگی موت کی موت بن کر اس کے مقابل میں بھی آن کھڑی ہوئی، مگر جیت بالآخرموت ہی کے حصے میں آئی۔یہی وجہ ہے کہ ماضی کی ہرداستان اس کی فتح کوبیان کرتی،موجودہ دوراسی کے تسلط کی شہادت دیتا، حتیٰ کہ مستقبل بھی اسی کی برتری کی دہائی دیتا نظر آتاہے۔

مذکورہ بالاسطور سے دو چیزیں مزید معلوم ہوتی ہیں:

ایک یہ کہ کون زندہ ہے اور کون مردہ،یہ جانناانسانی عقل وتجربہ اوراس کے مشاہدے ہی کی چیز ہے ا ورعلم کے انھی ذرائع کی بنیاد پرہمیشہ سے کسی کے جینے اورمرنے کافیصلہ ہوتاآیاہے۔یہ تجربہ اور معاینہ جتنا بھی مختلف فیہ ہو جائے، بہرحال، زندہ وہی ہے جسے لوگ زندہ سمجھیں اور مردہ وہی ہے جو ان کے ہاں مردہ قرارپائے۔

دوسرے یہ کہ انسان دنیا میں جیتا ہے اور کچھ وقت گزارکرموت سے جاملتاہے،یہ بات جس طرح ہر شک سے بالاتر ہے،اسی طرح اسے حقیقت ماننے والے لوگ صرف وہی نہیں جو کسی نہ کسی درجے میں مذہب سے متعلق ہیں۔ کوئی مذہب پسند ہے یا مذہب بے زار،ہر کوئی اس کی ایسے ہی تصدیق کرتاہے جیسے چمکتے سورج کا مشاہدہ کرنے والے باہم مختلف لوگ ،بلا تفریق ،اس کے روشن ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔

لیکن موت کوطے شدہ امرمان لینے کے بعدمعاملہ اس وقت نزاع کاشکارہوجاتاہے،جب بات طبیعات سے اٹھ کر مافوق چلی جاتی ہے ۔یہاں دوقسم کی آراوجودمیں آتی ہیں: بعض لوگوں کے خیال میں انسان مرتاہے اورقصہ ختم ہوجاتا ہے،مگربعض کے نزدیک یہ موت اصل میں ایک نئے دورکی ابتداہے کہ جس میں اسے پھرسے زندگی دی جانی ہے۔موت کے بعد زندگی دیے جانے کایہ دعویٰ،کم وبیش ہر مذہب کامتفقہ عقیدہ ہے ۔ قرآن کریم میں بھی دُنیوی زندگی اور موت کا ذکر کرنے کے بعد اسے یوں بیان کیا گیاہے :

ثُمَّ اِنَّکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ تُبْعَثُوْنَ. (المومنون ۲۳: ۱۶)
’’(مرنے کے بعد) پھر تم قیامت کے روزضرور اٹھائے جاؤ گے۔‘‘

یہ وہ مقام ہے جہاں لامذہبیت مذہب سے جداہوجاتی اوربعدازموت زندگی کا شدت سے ردّ کرتی ہے۔تاہم اس کااس عقیدے کوردّکرنا، خواب وخیال سمجھنا یا پھراسے ذہنی افیون قرار دے ڈالنا،یہ سب سمجھ میں آنے والی باتیں ہیں۔اس لیے کہ لامذہبیت جس علم پر سو فی صداعتمادکرتی ہے،وہ علم اپنی تمام وسعتوں کے باوجود،محض حواس کاپروردہ اورقیاس کالے پالک ہے۔ان میں سے حواس کی حالت تویہ ہے کہ وہ اس بات کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے کہ مادے سے ماورا کسی شے کا احاطہ کرسکیں اورنہ عقل اتنی پرواز رکھتی ہے کہ ان سے حاصل ہوئے علم سے اوپر اٹھ کر کسی شے کا تصور کرسکے۔چنانچہ صرف تجربوں اوراندازوں کوعلم سمجھنے والوں سے یہ توقع ہرگزنہیں ہونی چاہیے کہ وہ مو ت کے بعدزندگی کو تسلیم کرلیں گے کہ یہ کسی اندھے سے دیکھنے اورکسی لنگڑے سے بھاگنے کی امید باندھ لینے والی بات ہوگی۔تاہم، عقل کے پجاریوں اور حواس خمسہ کے ان قیدیوں کوکم سے کم یہ ضرورچاہیے کہ وہ انکاراورناواقفیت کے درمیان میں حد فاصل قائم رکھیں۔ اس لیے کہ جس شے کا علم نہ ہو، اس کے وجودہی سے ہم منکر ہو جائیں،یہ کوئی علمی رویہ نہیں۔ماضی قریب میں بہت سی مادی چیزیں ایسی تھیں جن کے بارے ہم قطعی طورپرناواقف تھے،حالاں کہ وہ ایک حقیقت تھیں اورباقاعدہ طورپر اپناوجودرکھتی تھیں،ہاں، اپنی رونمائی میں جہل کے پردے سرک جانے اورلاعلمی کے اندھیرے چھٹ جانے کی وہ منتظر ضرورتھیں۔

بہرکیف،مرنے کے بعدزندگی ہرمذہب کابنیادی موضوع ہے اور اس کے پاس اسے ثابت کرنے کے لیے دلائل کی بھی ایک دنیاہے۔اس لیے کہ دین صرف محسوسات کو ماننے کا نام نہیں، یہ ا ن سے ماورا حقائق کو عقل اورفکرکے ذریعے سے سمجھنے اورانھیں مان لینے کابھی داعی ہے۔نیز ضروری نہیں کہ دلیل وہی ہوتی ہو جسے حِس، مشاہدے اورتجربے کی بنیاد حاصل ہویا جسے کھلی آنکھوں سے دیکھاجاسکتااور مَعمل میں آزمایا جا سکتاہو ، بلکہ ہروہ بات دلیل ہوسکتی ہے جو معلوم سے غیرمعلوم تک اورمحسوس سے غیرمحسوس تک لے جاسکتی ہو۔مذہب کادامن اس طرح کے دلائل سے بھراہواہے اوربعد از موت زندگی کوثابت کرنے کے لیے وہ ان سے ہٹ کرکسی اور دلیل کا بالکل بھی محتاج نہیں۔چنانچہ اس مقام پرمذہب اپنا مقدمہ الگ سے قائم کرتاہے اوراس کی تائید میں بہت سے عقلی ا ور فطری دلائل بھی مہیا کرتا ہے۔

مذہبی دنیا اس عقیدے پریقین کیوں رکھتی ہے ،اس کے وجوہ بھی نہایت معقول ہیں:

مذہب ان تعلیمات کاداعی ہوتاہے جواعلیٰ اقدار یابنیادی اخلاقیات سے پھوٹتی،منہ زور خواہشات کولگام دیتی اوراس مقصدکے لیے جان ومال کی قربانی کاتقاضاکرتی ہیں،چنانچہ ان پر عمل کی تحریک پیداکرنے کے لیے مذہب کے پاس سب سے بڑامحرک یہی ہوتاہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ایک نئی زندگی کااثبات کرے۔

دوسرے یہ کہ مذہبی احکام ماننے کی صورت میں مذہب کے پیرووں کوجونقصان جانب نفس اٹھانا پڑتا ہے، اس کی تلافی کی واحد صورت بھی یہی ہے کہ انھیں نئی زندگی کی نوید دی جائے۔ اُس زندگی کی نویدکہ جواِن کی قربانیوں کاحاصل،ان کی ریاضتوں کاثمرہ اوران کی تمام عزیمتوں کا صلہ ٹھیرے۔سواسی طرح کے دیگر وجوہ ہیں کہ تاریخ عالم کے ہر اہم مذہب میں ،وہ عالمی ہویا علاقائی، مرنے کے بعد زندگی کا عقیدہ بنیادی حیثیت کا حامل رہا ہے۔

دنیاے مذہب میں حیات بعدازموت کوبنیادی نظریہ تسلیم کرلینے کے بعداب سوال پیداہوتا ہے کہ یہ نظریہ کیاہر مذہب میں ایک جیسی اساسات اور تفصیلات رکھتا ہے یا پھردوسرے نظریات کی طرح اختلاف و انتشار کا شکار اوررطب ویابس کا ایک مجموعہ بن کر رہ گیا ہے ؟آج کے معروف اور زندہ ادیان کااگرمطالعہ کیاجائے تو اس سوال کا جواب نہایت مایوس کن ملتا ہے اور ادیان کاباہمی اختلاف اس میں بھی اپنارنگ جماتادکھائی دیتاہے ۔اس کے بارے میں ایسی پُرپیچ اور اُلجھی ہوئی تعلیمات ملتی ہیں کہ کسی طالب حق کے لیے گوہرمرادکوپالیناایسے ہی ہے جیسے گھاس کے ایک بڑے ڈھیرمیں سے کوئی باریک سوئی ڈھونڈ نکالنا۔لیکن اختلاف کی ان بھول بھلیاں سے دامن بچاتے اورفروعی چیزوں سے صرف نظرکرتے ہوئے اگرہم اصولی طورپر دیکھیں تواس مسئلے میں بناے اختلاف صرف ایک سوال ہے، وہ یہ کہ موت کے بعدانسان کی روح کے ساتھ کیامعاملہ ہوتااور اس پرکیاکیااحوال گزرتے ہیں؟

اس سوال کے جواب میں بعض لوگوں کاخیال ہے کہ روح انسانی جسم سے علیحدہ ہوکرخدامیں ضم ہوجاتی ہے اوربعض کے نزدیک ایسانہیں ہے۔پھرجن کے ہاں ایسانہیں ہے، ان میں سے بعض کی راے ہے کہ جسم سے الگ ہوجانے کے بعدوہ پھرکسی مادی جسم میں لوٹادی جاتی ہے اور بعض کاکہناہے کہ اسے جسم توضرورملے گا،مگر ابھی اوراس دنیامیں نہیں،بلکہ یہ سب کچھ ایک نئی دنیا میں واقع ہوگا۔ موضوع کی اس تقسیم کواگرمان لیاجائے تو اس ساری بحث کوہم تین بنیادی عنوانات کے تحت پڑھ سکتے ہیں:

وصال ، تناسخ اوراِحیا۔

ان تینوں میں سے وصال کو اس لیے خارج از بحث کیاجاسکتاہے کہ اس کی حیثیت ایک مستقل نظریے کی نہیں،بلکہ ایک ضمنی اورجزوی ، فکری انحراف کی سی ہے ۔یہ عقیدہ جہاں بھی پایا جاتا ہے، طفیلی صورت ہی میں پایا جاتا ہے اور اس لحاظ سے یہ تناسخ کاعقیدہ رکھنے والوں کے ہاں بھی ملتا ہے اوراحیاکو ماننے والوں کے ہاں بھی۔ دوسرے یہ کہ اس کے مطابق موت کے بعدروح اپنا جسد خاکی چھوڑ کرکسی اور سے نہیں ،خوداپنے خالق سے جاملتی ہے۔ اوراس کی دلیل ان کے پاس اگرکوئی ہے تووہ صرف یہ کہ انسان کی روح خداہی کاایک جزیااس کاعکس ہے کہ جسے کچھ وقت کے لیے دنیامیں بھیجاگیاتھا،اس لیے ضروری ہے کہ جسم سے آزاد ہونے کے بعدیہ پھراپنی اصل کی طرف لوٹ جائے۔گویااہل وصال کے نزدیک دنیامیں اصلاً کچھ بھی نہیں، صرف خداہے اور اسی کے ایک لازمی نتیجے کے طورپر، یہاں جوکچھ بھی ہے ، وہ سب خداہے۔ اب مذہب جو کہ عابد اور معبود کی تقسیم کومانتا اوراس بنیادپر اطاعت کاحکم دیتاہے ،اسے کس طرح تسلیم کرسکتاہے۔ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ مان لینے کے بعدتومذہب کی بنیادڈھے جاتی اوریہ اپنے وجودکی علت ہی کھو بیٹھتا ہے۔لہٰذا، وصال کا اس قدرنامعقول ہونا،یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہم اس کی تفصیل سے صرف نظر کریں گے اور اپنی بحث کو صرف دو عنوانات تک محدود رکھیں گے،اور وہ یہ ہیں :

تناسخ اور اِحیا۔

[باقی]

________

B