HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت عمیر بن ابی وقاص ر ضی اللہ عنہ

حضرت عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ مشہور صحابی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے چھوٹے اور سگے بھائی تھے، بنو زہرہ بن کلاب سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد کا نام مالک بن وہیب(یا اہیب) تھا، لیکن اپنی کنیت ابو وقاص سے مشہور تھے۔ عبد مناف حضرت عمیر کے پڑدادا تھے۔ حضرت عمیر کے داداوہیب آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے نانا وہب کے بھائی تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کا نام آمنہ بنت وہب بن عبدمناف تھا،اس لحاظ سے حضرت عمیر اور ان کے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاص آپ کے ماموں ہوئے۔ پانچویں جد کلاب بن مرہ پر حضرت عمیرکا شجرہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے سلسلۂ نسب سے مل جاتا ہے۔ حضرت عمیرکی والدہ کا نام حمنہ بنت سفیان تھا ،پانچویں پشت قصی پران کا شجرۂ نسب بھی آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے شجرہ سے جا ملتا ہے ۔

حضرت عمیر بن ابی وقاص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دعوت پر مسلمان ہوئے۔ ایمان کی طرف لپکنے والے اصحاب رسول کی فہرست میں جنھیں قرآن مجید نے ’السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ‘ * کا نام دیا ہے ،ان کا نمبراکیسواں تھا، جبکہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم ابھی دار ارقم میں منتقل نہ ہوئے تھے۔ابن اسحاق کی بیان کردہ اس ترتیب میں حضرت عمیرکے بڑے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاص آٹھویں اور حضرت عامر بن ابی وقاص گیارھویں نمبر پر آتے ہیں۔ حضرت سعد اور حضرت عامر کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے مؤرخین نے بتایا ہے کہ کس طرح ان کی والدہ نے اپنے بیٹوں کے قبول اسلام پر واویلا کیا اور بھوک ہڑتال کرکے دین آبا کی طرف رجوع کرنے پر مجبور کیا۔ حضرت عمیر بن ابی وقاص کے ترجمہ میں ایسا کوئی واقعہ ذکر نہیں کیا گیا۔ حضرت عمیر اپنے بھائیوں کے قبول اسلام کے کچھ دنوں بعد ایمان لائے ۔شاید تب تک ان کی والدہ کا جوش ٹھنڈا پڑ گیاتھایا اس کی طرف سے دوبارہ یہ رد عمل اس لیے دیکھنے میں نہیں آیا کہ حضرت عمیراس وقت بہت چھوٹی عمر کے تھے ۔ جنگ بدر میں شمولیت کے وقت ان کی عمر سولہ سال بتائی گئی ہے،قبول اسلام کے وقت لامحالہ ۷/ ۸ برس کے رہے ہوں گے، یہی وجہ ہے کہ وہ شدائد سے محفو ظ رہے اور انھیں اپنے بڑے بھائی حضرت عامر بن ابی وقاص کی طرح حبشہ ہجرت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔

السابقون الاولون کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ حضرت علی دس سال کے تھے کہ نعمت ایمان سے مالا مال ہوئے، حضرت زبیر بن عوام نے سولہ برس کی عمر میں اور حضرت ابوعبیدہ بن جراح نے سترھویں سن میں یہ نعمت پائی۔ حضرت عمیر کے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاص قبول اسلام کے وقت سترہ یا انیس برس کے تھے۔یہی وجہ ہے کہ مشرکین مکہ کی طرف سے رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم پر الزام لگایا گیا کہ آپ ہمارے نوجوانوں کوبرانگیخت کرتے ہیں۔نوجوان سچائی کو جلد قبول کر لیتے ہیں، تاریخ شاہد ہے کہ ہر پیغمبر کی دعوت پر سب سے پہلے نوخیزوں ہی نے لبیک کہا۔ چنانچہ عہد نبوی کے زیادہ تر بوڑھے بھی دین حق کی طرف مائل نہ ہوئے۔ کسی دانا نے جوانی کے ایک طاقت ہونے کی کیا خوب مثا ل دی ہے: سورج دوپہر کو اتنا روشن نہیں کرتا جتنا صبح کو تاب ناک کرتا ہے۔ جوانی میں موت بھی نیند کے مانند معلوم ہوتی ہے۔ایک درخت جوانی ہی میں پھل دیتا ہے، بوڑھا ہو جائے تواس سے لکڑی کے سوا کچھ نہیں حاصل ہوتا۔ حضرت عمیرا بھی اس عمر کونہ پہنچے تھے جسے قرآن مجید نے ’بَلَغَ اَشُدَّہٗ‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اس ارشاد ربانی کا لفظی ترجمہ تو یہی ہے کہ ’’وہ سن بلوغت کو پہنچا‘‘، تاہم اس کے بعد ’وَاسْتَوٰٓی‘ ** (اور وہ سنبھلا) اور ’وَبَلَغَ اَرْبَعِینَ سَنَۃً‘ *** (وہ چالیس سال کی عمر کو پہنچا) کے عطف ہونے سے اشارہ ملتا ہے کہ اس سے مراد محض طبعی بلوغت (puberty) نہیں، بلکہ عقل کی پختگی اور فہم و دانش کا حاصل ہوجانا ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ تیس سال سے ذرا کم یا زیادہ کا نوجوان اچھی سوجھ بوجھ کا حامل ہو جاتا ہے۔سورۂ یوسف میں ارشاد ہوا: ’وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗٓ اٰتَیْْنٰہُ حُکْمًا وَّعِلْمًا‘ **** (اور جب یوسف جوان ہوئے تو ہم نے انھیں قوت فیصلہ اور علم و دانش عطا کیے)۔ اس فرمان میں سن وسال کا ذکر نہ ہونے سے معلوم ہوا کہ نبوت اور کار امامت کے لیے چالیس سال کی شرط ضروری نہیں۔

مدینہ میں بھی نوجوان ہی اسلام کی طرف لپکتے رہے۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بیس سالہ حضرت معاذ بن جبل کو معلم اور اکیس سالہ حضرت عتاب بن اسید کومکہ کا گورنر مقرر کیا۔ حضرت اسامہ بن زید ابھی اکیس سال کے نہ ہوئے تھے کہ آپ نے ان کو تین ہزار کی اس فوج کا سپہ سالار مقرر فرمایا جو آپ نے رومیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ترتیب دی تھی۔ حضرت سمرہ بن جندب روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: (جنگ میں ) مشرک بوڑھوں کو ختم کردو اور (بچوں اور) نوجوانوں کو زندہ رہنے دو (ابو داؤد، رقم ۲۶۷۰، ترمذی، رقم ۱۵۸۳)، یعنی جنگ کی صلاحیت، طاقت اور راے رکھنے والے لوگوں کو نشانہ بناؤ، خواہ وہ بوڑھے ہوں یا پختہ عمر کے جوان۔امام احمد بن حنبل کے صاحب زادے عبداﷲ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے اس فرمان نبوی کی شرح پوچھی تو انھوں نے کہا کہ بوڑھے کے اسلام لانے کی کوئی خاص توقع نہیں ہوتی، جبکہ نوجوان حق قبول کر لیتا ہے، گویا وہ اسلام کے زیادہ قریب ہوتا ہے( احمد، رقم ۲۰۰۲۱)۔

حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت عمروبن ام مکتوم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اوران دونوں نے اہل مدینہ کو قرآن پڑھانا شروع کیا ۔ان کے بعد حضرت بلال، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عماربن یاسر مدینہ پہنچے، پھر حضرت عمر نے بیس صحابہ کی معیت میں مدینہ کا سفر کیا (بخاری، رقم ۳۹۲۵)۔ اس روایت میں حضرت عمیر بن ابی وقاص کا ذکر نہیں آیا، تاہم وہ ہجرت میں اپنے بڑے بھائی حضرت سعد کے ساتھ شریک تھے۔دونوں نے اس گھر اور باغ میں سکونت اختیار کی جو ان کے مشرک بھائی عتبہ بن ابی وقاص نے قبیلۂ بنو عمرو بن عوف میں تعمیر کر رکھا تھا۔عتبہ جنگ بعاث سے قبل مکہ میں کسی کو قتل کرکے یثرب کو بھاگ گیا تھا،اس نے بنو عمرو میں پناہ لی ۔ابن اسحاق کی روایت مختلف ہے،وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسد کو پہلا مہاجرہونے کا شرف حاصل ہے۔ ان کے بعد حضرت عامر بن ربیعہ، ان کی اہلیہ حضرت لیلیٰ، حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ، حضرت عبداﷲ بن جحش،ان کی اہلیہ اور بھائی حضرت ابو احمد عبدبن جحش دار ہجرت پہنچے۔

مدینہ آمد کے بعد آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عمیر بن ابی وقاص اور انصار کے حضرت عمرو بن معاذ کے درمیان مواخات قائم فرمائی۔

حضرت عمیربن ابی وقاص نے جنگ بدرمیں حصہ لیا تو ان کی عمرسولہ برس تھی۔ ہفتہ ۱۲ ؍ رمضان ۲ھ کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سوا تین سو جاں نثار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مدینہ سے نکلے ۔شہر سے ایک میل باہرابوعنبہ یا ابو عتبہ کے کنویں پر پہنچ کر آپ نے پانی نوش فرمایا اوراپنے اصحاب کو بھی سیر ہونے کو کہا۔پھر فوج کا معائنہ فرماکر ان کم عمر بچوں کو واپس جانے کا حکم دیا جو شوق شہادت میں ساتھ آگئے تھے۔اس موقع پر حضرت عمیر چھپتے پھر رہے تھے۔ ان کے بڑے بھائی حضرت سعد بن ابی وقاص نے پوچھا: کیا ماجرا ہے؟ کہا: اندیشہ ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم مجھے دیکھ لیں گے اور کم سنی کی وجہ سے لوٹا دیں گے۔میں تو جنگ میں حصہ لینا چاہتا ہوں،ہو سکتا ہے ،اﷲ مجھے شہادت ہی سے سرفراز کر دے۔آخر کار وہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوئے تو آپ نے لوٹ جانے کو کہا۔ حضرت عمیر رونے لگ گئے تو آپ نے اجازت مرحمت فرما دی۔ حضرت سعد نے کم سن حضرت عمیر کے گلے میں تلوار حمائل کی جو ان کے قد سے بڑی معلوم ہوتی تھی۔ اب سپاہ اسلامی کا عدد تین سو پانچ (۳۰۵) ہو چکا تھا، ان میں چوہتر(یا چھیتر) مہاجرین اور بقیہ انصار تھے۔ان آٹھ اصحاب کو شامل کر کے، جنھیں کسی عذرکی بنا پر مدینہ میں رہنے کی اجازت دی گئی تھی ،تین سو تیرہ (۳۱۳) کا عدد پورا ہو جاتا تھا۔

حضرت عمیر کی آرزو پوری ہوئی اوران کا شمار ان چودہ اصحاب رسول میں ہوا جو غزوۂ فرقان میں شہادت سے سرفراز ہوئے۔ان میں سے چھ مہاجر اور آٹھ انصاری تھے۔ حضرت عمیر کو عاص بن سعید نے شہید کیا اورعاص کو حضرت سعد بن ابی وقاص نے انجام تک پہنچایا ۔ ابن حجر کہتے ہیں کہ عمرو بن عبد ود نے ان کی جان لی اورخود وہ جنگ خندق میں حضرت علی کے ہاتھوں جہنم رسید ہوا۔ حضرت عمیر کی شہادت کی کوئی تفصیل بیان ہوئی نہ مقتولین مکہ میں سے کسی کے بارے میں یہ بتایا گیاہے کہ اسے حضرت عمیر نے جہنم رسید کیا ۔خیال ہے کہ حضرت عمیر بن ابی وقاص لڑتے لڑتے کسی مشرک کے تیر و تلوار کا نشانہ بن گئے۔

حضرت سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ ایک بار رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس ایک پیالے میں کھانا لایا گیا۔ آپ نے کھایا تو کچھ بچ گیا، پھر فرمایا: اہل جنت میں سے ایک شخص اس کشادہ راستے سے آئے گا اور یہ بچا ہوا کھانا کھا لے گا۔ حضرت سعد کہتے ہیں کہ میں اپنے بھائی حضرت عمیر بن ابی وقاص کو وضو کرتا چھوڑ کر آیا تھا۔ میں نے سوچا کہ وہی آئیں گے، لیکن حضرت عبداﷲ بن سلام آئے اور وہ کھانا کھا لیا( احمد، رقم ۱۴۵۸، مستدرک حاکم، رقم ۵۷۵۹)۔

حضرت عمیر بن ابی وقاص کو قرآن مجید سے بہت شغف تھا۔ وہ نازل ہونے والی آیات کی تلاوت بڑی خوبی سے کرتے تھے۔ ابتداے اسلام ہی میں شہادت پا جانے کی وجہ سے حضرت عمیر سے کوئی روایت مروی نہیں۔

مطالعۂ مزید: السیرۃ النبویۃ(ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، البدایۃ والنہایۃ (ابن کثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، Youth is Strength (Ashur Shamis)۔

_____

* التوبہ۹: ۱۰۰۔

** القصص ۲۸: ۱۴۔

*** الاحقاف ۴۶: ۱۵۔

**** یوسف ۱۲: ۲۲۔

________

B