بسم اللہ الرحمن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
فَاِنْ کُنْتَ فِیْ شَکٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ فَسْئَلِ الَّذِیْنَ یَقْرَئُ وْنَ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکَ لَقَدْ جَآئَ کَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ{۹۴} وَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَتَکُوْنَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ{۹۵} اِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْہِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ{۹۶} وَلَوْ جَآئَ تْہُمْ کُلُّ اٰیَۃٍ حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ{۹۷} فَلَوْلَا کَانَتْ قَرْیَۃٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَھَآ اِیْمَانُھَآ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ لَمَّآ اٰمَنُوْا کَشَفْنَا عَنْھُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَمَتَّعْنٰہُمْ اِلٰی حِیْنٍ{۹۸}
وَلَوْ شَآئَ رَبُّکَ لَاٰمَنَ مَنْ فِی الْاَرْضِ کُلُّھُمْ جَمِیْعًا اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ{۹۹} وَمَا کَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تُؤْمِنَ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ وَیَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ{۱۰۰}
قُلِ انْظُرُوْا مَا ذَا فِی السَّمٰٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا تُغْنِی الْاٰیٰتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ{۱۰۱} فَھَلْ یَنْتَظِرُوْنَ اِلَّا مِثْلَ اَیَّامِ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِھِمْ قُلْ فَانْتَظِرُوْٓا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ{۱۰۲} ثُمَّ نُنَجِّیْ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کَذٰلِکَ حَقًّا عَلَیْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِیْنَ{۱۰۳}
قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْ دِیْنِیْ فَلَآ اَعْبُدُ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلٰکِنْ اَعْبُدُ اللّٰہَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ وَاُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ{۱۰۴} وَاَنْ اَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا وَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ{۱۰۵} وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنْفَعُکَ وَلَا یَضُرُّکَ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیْنَ{۱۰۶} وَاِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ھُوَ وَاِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِہٖ یُصِیْبُ بِہٖ مَنْ یَّشَآئُ مِْن عِبَادِہٖ وَھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ{۱۰۷}
قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ کُمُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنِ اھْتَدٰی فَاِنَّمَا یَھْتَدِیْ لِنَفْسِہٖ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْھَا وَمَآ اَنَا عَلَیْکُمْ بِوَکِیْلٍ{۱۰۸} وَاتَّبِعْ مَا یُوْحٰٓی اِلَیْکَ وَاصْبِرْ حَتّٰی یَحْکُمَ اللّٰہُ وَھُوَ خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَ{۱۰۹}
سو، (اے پیغمبر)، تمھیں اگر اُس چیز کے بارے میں کوئی شک ہو جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے۱۱۱؎ تو (اہل کتاب کے ) اُن (صالحین) سے پوچھ لو جو تم سے پہلے خدا کی کتاب پڑھ رہے ہیں۱۱۲؎۔ اِس میں شبہ نہیں کہ تمھارے پروردگار کی طرف سے تمھارے پاس حق ہی آیا ہے، لہٰذا ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ بنو اور نہ اُن لوگوں میں شامل ہو جنھوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا ہے کہ تم بھی نامرادوں میں سے ہو جاؤ۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرے پروردگار کی بات جن لوگوں پر پوری ہو چکی ہے۱۱۳؎، اُن کے سامنے خواہ ساری نشانیاں آجائیں، وہ ایمان نہیں لائیں گے، جب تک کہ دردناک عذاب نہ دیکھ لیں۔ سو ایسا کیوں نہ ہوا کہ قوم یونس کے سوا کوئی اور بستی بھی ایمان لاتی، پھر اُس کا ایمان اُسے نفع دیتا۱۱۴؎۔ جب اُس بستی کے لوگ ایمان لے آئے تو ہم نے دنیا کی زندگی میں رسوائی کا عذاب اُن سے ٹال دیا تھا اور ایک مدت کے لیے اُن کو رہنے بسنے کا موقع دیا تھا۔۹۴-۹۸
اگر تمھارا پروردگار چاہتا تو زمین پر جتنے لوگ ہیں، سب ایمان لے آتے۔ پھر کیا لوگوں کو مجبور کرو گے کہ وہ مومن ہو جائیں۱۱۵؎؟ (اچھی طرح سمجھ لو کہ) اللہ کی اجازت کے بغیر کسی شخص کے لیے ممکن نہیں کہ وہ (پیغمبر پر) ایمان لائے۔ (یہ اجازت اُنھی کو ملتی ہے جو عقل سے کام لیں) اور جو عقل سے کام نہیں لیتے، اُن پر وہ گمراہی کی نجاست ڈال دیتا ہے۔۹۹-۱۰۰
(یہ نشانی مانگتے ہیں )۔ اِن سے کہو، زمین اور آسمانوں میں کیا کچھ ہے، اُسے دیکھو۔ حقیقت یہ ہے کہ نشانیاں اور تنبیہات اُن لوگوں کو کچھ فائدہ نہیںپہنچاتیں جو ایمان لانا نہیں چاہتے۱۱۶؎۔ سو کیا یہ اُسی طرح کے کسی دن کا انتظار کر رہے ہیں، جس طرح کے دن اِن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو پیش آئے تھے؟ کہو، پھر انتظار کرو، میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔ (اِنھیں بتا دو کہ) پھر (جب وہ دن آجاتا ہے تو) ہم اپنے رسولوں کو بچا لیتے ہیں اور( اُن کو بھی) جو اُن پر ایمان لائے ہوں۔ اِسی طرح ہمارا ذمہ ہے، ہم اُن کو بچا لیں گے جو ایمان لے آئے ہیں۱۱۷؎۔۱۰۱-۱۰۳
(اے پیغمبر)، کہہ دو کہ لوگو، میرے دین کے بارے میں اگر (اب بھی) شک میں ہو تو (سن لو کہ) تم اللہ کے سوا جن کو پوجتے ہو، میں اُنھیں نہیں پوجتا، بلکہ اُس اللہ کو پوجتا ہوں جو تمھیں موت دیتا ہے (کہ جواب دہی کے لیے اُس کے سامنے حاضر ہو جاؤ)۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ایمان لانے والوں میں سے ہوں اور (حکم دیا گیا ہے) کہ اپنا رخ یک سوئی کے ساتھ سیدھا اِسی دین کی طرف کر لو اور ہرگز مشرکوں میں سے نہ ہو۔ اور (یہ بھی کہ) اللہ کے سوا اُن کو نہ پکارو جو نہ تم کو نفع پہنچا سکتے ہیں، نہ نقصان۔ پھر اگر یہی کرو گے تو یقینا ظالموں میں سے ہو گے۔ اگر اللہ تمھیں کسی تکلیف میں پکڑ لے تو اُس کے سوا کوئی نہیں جو اُس کو دور کر سکے اور اگر تمھارے لیے کوئی بھلائی چاہے تو اُس کے فضل کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے، اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ بخشنے والا، بڑا رحم فرمانے والا ہے۔ ۱۰۴-۱۰۷
اِن سے کہو کہ لوگو، تمھارے پروردگار کی طرف سے تمھارے پاس حق آگیا ہے۔ اب جو ہدایت قبول کرے گا، وہ اپنے ہی لیے کرے گا اور جو بھٹکے گا، اُس کا وبال بھی اُسی پر آئے گا اور میں تمھارے اوپر کوئی ذمہ دار نہیں ہوں۱۱۸؎۔ (اے پیغمبر)، تم اُس کی پیروی کرو جو تم پر وحی کی جاتی ہے اور صبر کرو، یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کر دے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۱۱۹؎۔۱۰۸-۱۰۹
۱۱۱؎ یہ خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، مگر بات درحقیقت اُنھی لوگوں کو سنانی مقصود ہے جو آپ کی دعوت میں شک کر رہے تھے۔ مدعا یہ ہے کہ جو کچھ نازل کیا گیا ہے، وہ ایسا واضح حق ہے کہ کسی سلیم الطبع شخص کو اُس کے بارے میں کوئی تردد لاحق نہیں ہونا چاہیے۔
۱۱۲؎ اصل میں فعل ’یَقْرَئُ وْنَ‘استعمال ہوا ہے۔ یہ اپنے حقیقی مفہوم میں ہے، یعنی جو کتاب کو پڑھنے کا حق ادا کر رہے ہیں۔ اہل کتاب میں اِسی طرح کے لوگ تھے جن سے تائید و تصدیق کی توقع کی جا سکتی تھی۔
۱۱۳؎ یعنی یہ بات کہ جو لوگ حق کے سچے طالب نہیں ہوتے اور اپنے دلوں پر ضداور ہٹ دھرمی کے قفل چڑھا لیتے ہیں، اُنھیں کبھی ایمان کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔ ہدایت و ضلالت کے باب میں یہ سنت الہٰی اِس سے پہلے کئی جگہ بیان ہو چکی ہے۔
۱۱۴؎ یہ قریش کے لیے ترغیب و ترہیب ہے کہ اب بھی موقع ہے، تم چاہو تو قوم یونس کی طرح تم بھی خدا کے پیغمبر پر ایمان لا کر اپنے آپ کو اُس عذاب سے بچا سکتے ہو جو اتمام حجت کے بعد اب تمھارے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے، اگر غور کیجیے تو اِس میں تسلی کا یہ مضمون بھی پیدا ہو گیا ہے کہ تمھاری قوم کے لوگ اگر نہیںمان رہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تم سے پہلے جتنے رسول آئے ہیں، اُن کی قوم کے لوگ بھی عذاب الہٰی کو آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد ہی مان لینے کے لیے تیار ہوئے تھے۔ یونس علیہ السلام کی قوم کے سوا اِس معاملے میں کوئی استثنا نہیں ہے۔ یہی ایک قوم تھی جس کے لوگ عذاب کی گھڑی ظاہر ہونے سے پہلے پہلے متنبہ ہو گئے تھے۔ چنانچہ اللہ نے اُنھیں ایمان کی توفیق بخشی اور وہ عذاب سے محفوظ رہے۔
یونس علیہ السلام وہی پیغمبر ہیں جن کا نام بائیبل میں یوناہ آیا ہے۔ اِن کا زمانہ ۸۶۰ اور ۷۸۴ قبل مسیح کے درمیان بتایا جاتا ہے۔ یہ اشور (اسیریا) والوں کی ہدایت کے لیے عراق میں مبعوث ہوئے تھے۔ نینویٰ کا مشہور شہر اِنھی اشور والوں کا دارالسلطنت تھا اور اُس زمانے میں تقریباً۶۰ کلومیٹر کے دور میں پھیلا ہوا تھا۔ اِن کی قوم کے ایمان کا واقعہ بائیبل کے صحیفہ یوناہ میں اِس طرح بیان ہوا ہے:
’’۔۔۔تب یوناہ خداوند کے کلام کے مطابق اُٹھ کر نینویٰ کو گیا اور نینویٰ بہت بڑا شہر تھا۔ اُس کی مسافت تین دن کی راہ تھی۔ اور یوناہ شہر میں داخل ہوا اور ایک دن کی راہ چلا۔ اُس نے منادی کی اور کہا: چالیس روز کے بعد نینویٰ برباد کیا جائے گا۔ تب نینویٰ کے باشندوں نے خدا پر ایمان لا کر روزہ کی منادی کی اور ادنیٰ و اعلیٰ ، سب نے ٹاٹ اوڑھا۔ اور یہ خبر نینویٰ کے بادشاہ کو پہنچی اور وہ اپنے تخت پر سے اٹھا اور بادشاہی لباس کو اتار ڈالا اور ٹاٹ اوڑھ کر راکھ پر بیٹھ گیا۔ اور بادشاہ اور اُس کے ارکان دولت کے فرمان سے نینویٰ میں یہ اعلان کیا گیا اور اِس بات کی منادی ہوئی کہ کوئی انسان یاحیوان، گلہ یا رمہ کچھ نہ چکھے اور نہ کھائے پیے۔ لیکن انسان اور حیوان ٹاٹ سے ملبس ہوں اور خدا کے حضور گریہ و زاری کریں، بلکہ ہر شخص اپنی بری روش اور اپنے ہاتھ کے ظلم سے باز آئے۔ شاید خدا رحم کرے اور اپنا ارادہ بدلے اور اپنے قہر شدید سے باز آئے اور ہم ہلاک نہ ہوں۔ جب خدا نے اُن کی یہ حالت دیکھی کہ وہ اپنی اپنی بری روش سے باز آئے تو وہ اُس عذاب سے جو اُس نے اُن پر نازل کرنے کو کہا تھا، باز آیا اور اُسے نازل نہ کیا ۔‘‘(۳: ۳-۱۰)
۱۱۵؎ مطلب یہ ہے کہ جب خدا نے اِس معاملے میں جبر کو پسند نہیں کیا تو تمھیںبھی پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ خدا اگر یہی چاہتا کہ زمین میں سب مومن و فرماں بردار ہی ہوں تو شجر و حجر کی طرح انسانوں کو بھی اِس طرح پیدا کردیتا کہ وہ ہمیشہ اُس کے حکم کے پابند رہتے۔ مگر اُس نے ایسا نہیں چاہا۔ انسانوں کے معاملے میں اُس کی اسکیم یہ ہے کہ وہ آزادی اور اختیار کے ساتھ ایمان یا کفرمیں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔ جنت کی ابدی نعمتیں اِسی ایمان کا صلہ ہیں۔ تمھارا فرض وہی ہے جو تم نے پورا کر دیا ہے۔ خدا نے تم پر یہ ذمہ داری عائد نہیں کی ہے کہ لوگوں کو زبردستی راہ راست پر لے آؤ۔
۱۱۶؎ اصل میں فعل ’یُؤْمِنُوْنَ‘آیا ہے۔ آیت کے اسلوب سے واضح ہے کہ یہ یہاں ارادۂ فعل کے معنی میں ہے۔
۱۱۷؎ اور تمھارے معاملے میں وہی کریں گے جو پیغمبر کی طرف سے اتمام حجت کے بعد منکرین حق کے معاملے میں کرتے آئے ہیں۔
۱۱۸؎ یہ اعلان براء ت ہے جو اتمام حجت کے بعد اور عذاب سے پہلے ہر پیغمبر کی طرف سے کیا جاتا ہے۔
۱۱۹؎ یہ اُسی فیصلے کا حوالہ ہے جس کا ذکر آیت ۴۷ اور اُس کے بعد آیت ۱۰۳ میں ہوا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــ