نذیر احمد علائی*
قرآن کریم کے بے شمار علوم میں سے ایک علم نظم و مناسبت کا بھی ہے جس کی بنیاد قرآن مجید کی ترتیب کے توقیفی ہونے پر ہے، اس کے بارے میں جدید و قدیم لٹریچر میں بہت سے نظریات ملتے ہیں۔
باہم ملانا، ترتیب دینا،منسلک کرنا۔۱
کسی ایک آیت میں یا جملہ آیات یا سورتوں کا باہمی ربط سبب نظم قرآن یا مناسبت قرآن کہلاتا ہے۔۲
ایک جماعت نے اس علم کے محض عقلی ہونے کی بنیاد پر اس سے ذرہ برابر بھی اعتنا نہ کیا۔ دوسرا گروہ قرآن میں نظم و مناسبت کو اہمیت تو دیتا ہے، لیکن ہر جگہ تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی اسے لازمی قرار دیتا ہے۔ تیسرا مکتبۂ فکر وہ ہے جو کل قرآن کو منظم و مربوط تسلیم کر تا ہے۔ بنیادی طور پر نظم کے دو اقسام ہیں: ایک وحدۃالموضوع، یعنی موضوع اور مرکزی نقطۂ نظر کی وحدت اوردوسری قسم مناسبت۔ اس کی دیگر انواع الفاظ کاالفاظ سے ربط،اجزاے آیات کا نظم، آیات اور سورتوں کی مناسبت وغیرہ ہیں۔ پورے قرآن میں وحدت موضوع کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کا ایک ہی عنوان ہو اور اس کے تحت تمام سورتوں اور آیات کو لایا گیا ہو۔ ابن عربی القاضی لکھتے ہیں: ’إرتباط آی القرآن بعضھا ببعض حتّی تکون کالکلمۃ الواحدۃ‘، ۳ یعنی قرآن مجید کی آیات ایک دوسرے سے اس طرح مرتبط ہیں، گویا وہ ایک ہی کلمہ ہے۔ وحدت موضوع ہی میں دوسرا پہلو یہ ہے کہ سورہ ماسبق کے کسی ایک اہم پہلو کی وضاحت کے باب میں ہو، جیسے سورۂ حجرات، جو سورۂ فتح کی آخری آیت کی تفسیر ہے۔۴
اس کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں:
۱۔ نظم ظاہر،
۲۔ نظم غامض۔
دوسری آیت پہلی آیت کا بدل ہو جیسے ارشاد ہے: ’اِہْدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیْمَ، صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَ‘ (الفاتحہ۱: ۶۔۷)
آیات کے مابین ایسا ربط ہو جو نہ تو ظاہر ہو اور نہ ہی لفظوں سے کھل کر واضح ہو رہا ہو،بلکہ معنوی اور تعبیری طور پر حاصل ہو،آیات کا نظم غامض کہلاتا ہے، جیسے ارشاد ہے: ’یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًا وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْْرٌ ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ لَعَلَّہُمْ یَذَّکَّرُوْنَ‘ (الاعراف۷: ۲۶)۔ یہاں حقیقی لباس کے ساتھ لباس تقویٰ کا ذکر ہے۔
یعنی اسرائیلیات سے اجتناب ،روایات کی حقیقت سے واقفیت اور ان میں صحیح و ضعیف کا امتیاز اور تفاسیر میں موضوع روایات کس طرح راہ پاگئیں۔ان سب چیزوں کی معرفت ،ان کا سد باب ، گویااس حیثیت سے نظم کے تحت قرآن کی تفسیر کرنا ایک بہت ہی اہم اور مفید ذریعہ ہے۔ یہی نظم، تفسیر القرآن بالقرآن کا بھی ایک اہم جز ہے۔ مثلاً ارشاد باری ہے: ’وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِیٍّ اِلَّآ اِذَا تَمَنّآی اَلْقَی الشَّیْْطٰنُ فِیْٓ اُمْنِیَّتِہٖ فَیَنْسَخُ اللّٰہُ مَا یُلْقِی الشَّیْْطٰنُ ثُمَّ یُحْکِمُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ‘ (الحج۲۲: ۵۲)۔ مذکورہ آیت کے بارے میں بیش تر مفسرین نے اپنی تفاسیر میں قصۂ غرانیق کو منطبق کرنے کی کوشش کی ہے، یعنی بعض مفسرین نے اپنی تفاسیر میں اس چیز کو ذکر کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آیت ’وَمَنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْرٰی‘ (النجم۵۳: ۲۰) پڑھنے کے دوران شیطان نے ’تلک الغرانیق العلی و أن شفاعتھنّ لترجی‘ کے الفاظ شامل کر دیے،اس روایت کے مرسل طرق سے وارد ہونے کی وجہ سے علماے حدیث نے رد کر دیا، مگر جن علماے تفسیر نے آیات کے نظم و ربط اور موضوعی وحدت کا خیال رکھا، مثلاً برہا ن الدین عمر بقاعی نے اپنی تفسیر ’’نظم الدرر‘‘ میں اور ابو حیان نے ’’البحرالمحیط‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ آیت بالا میں ’اَلشَّیْْطٰنُ‘ سے النضر بن الحارث جیسے انسان نما شیطان مراد ہیں جو اپنی قوم اور بیرونی زائرین کو اسلام سے دور رکھنے کے لیے شکوک وشبہات میں ڈالتے تھے، کیونکہ مذکورہ آیت سے قبل یہ آیت آئی ہے، ارشاد ہے: ’وَالَّذِیْنَ سَعَوْا فِیْٓ اٰیٰتِنَا مُعٰجِزِیْنَ اُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ‘ (الحج۲۲: ۵۱) (جن لوگوں نے ہماری آیات کو شک وشبہ کا ذریعہ بنانے کی سعی کی وہی دوزخی ہیں)گویا ان انسان نما شیطان کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی تھی کہ لوگوں کے دلوں میں شکوک وشبہات ڈالیں اس سعی کو شیطان کی طرف اس لیے منسوب کیا گیا کہ انسانی شیاطین اسی کی جنس میں شمار ہوتے ہیں۔۵
مولانا شبیر احمد عثمانی مذکورہ آیت کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ جب کوئی نبی یا رسول کوئی بات بیان کرتا یا اللہ کی آیات پڑھ کرسناتا ہے تو شیطان اس بیان کی ہوئی بات یاآیت میں طرح طرح کے شکوک وشبہات ڈال دیتا ہے۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: ’حُرِّمَتْ عَلَیْْکُمُ الْمَیْْتَۃُ‘ (۱لمائدہ۵:۳) پڑھ کر سنائی توانسان نما شیطان نے شبہ ڈالا کہ دیکھواپنا ماراہوا تو حلال اور اللہ تعالیٰ کا مارا ہو ا حرام کہتے ہیں ۔۶
مزید انسان نما شیطان کی وضاحت اس آیت میں بالکل صاف نظر آتی ہے: ’وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُہُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا وَلَوْ شَآءَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوْہُ فَذَرْہُمْ وَمَا یَفْتَرُوْنَ‘ (الانعام۶: ۱۱۲)۔ مولانا امین احسن اصلاحی اس آیت کے سلسلے میں فرماتے ہیں کہ ’’ہر نبی کو اپنے اپنے زمانہ کے شیاطین جن وانس نے دکھ پہنچایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کے لیڈروں اور ان کے ہم نواؤں نے بہت دُکھ پہنچایا‘‘۔۷
مولانا شبیر احمدعثمانی فرماتے ہیں کہ’’ رؤساے مکہ ہی نہیں، بلکہ ہمیشہ کافروں کے سردارحیلے نکالتے رہے ہیں تاکہ عوام الناس پیغمبروں کے مطیع نہ ہو جائیں،جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے معجزہ دکھایا تو فرعون نے حیلہ نکالا کہ سحر کے زور سے سلطنت لیا چاہتا ہے‘‘، قرآن میں آیا ہے: ’وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا فِیْ کُلِّ قَرْیَۃٍ اَکٰبِرَ مُجْرِمِیْہَا لِیَمْکُرُوْا فِیْہَا وَمَا یَمْکُرُوْنَ اِلاَّ بِاَنْفُسِہِمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ‘ (الانعام۶: ۱۲۳) ۔۸
قرآن کریم میں موضوعی وحدت: سورتوں کا نظام ،تفسیر القرآن بالقرآن کا جزو لاینفک ہے، لیکن مطالعہ قرآن میں اس منہج کی معرفت کے لیے قرآن میں تدبر و تفکر بہت ضروری ہے اور یہ بغیر بہت گہرے سوچ بچار کے حاصل نہ ہو گا، اللہ تعالیٰ نے بغیر سوچے سمجھے قرآن پڑھنے والوں سے ناگواری کا اظہار کیا ہے، ارشاد ہے: ’اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا‘ (محمد۴۷: ۲۴)۔ دوسری جگہ آیا کہ جو لوگ دل،کان،آنکھ ہونے کے باوجودان سے کام نہیں لیتے، یعنی دل سے آیات اللہ میں غور نہیں کرتے ہیں نہ قدرت کی نشانیوں کا بغورمطالعہ کرتے ہیں، ان لوگوں کاحال چوپائے سے بھی بدتر ہے، کیونکہ جانور مالک کے بُلانے پر چلا آتا ہے، مگر کچھ لوگ کبھی مالک حقیقی کی آواز پر کان نہیں دھرتے،جیساکہ اللہ کا ارشاد ہے: ’وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ لَہُمْ قُلُوْبٌ لاَّ یَفْقَہُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اٰذَانٌ لاَّ یَسْمَعُوْنَ بِہَا اُولٰٓءِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ‘ (الاعراف۷: ۱۷۹)۔ غور و فکر کر نے والوں کے لیے قرآن کریم کے معانی و مفاہیم اور عجائب ولطائف ختم نہیں ہوتے ہیں اور نہ بار بار دھرانے،پڑھنے سے پرانا ہوتا ہے، ارشاد ربانی ہے: ’وَیَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ شَہِیْدًا عَلَیْْہِمْ مِّنْ اَنْفُسِہِمْ وَجِءْنَا بِکَ شَہِیْدًا عَلٰی ہٰؤُلَآءِ وَنَزَّلْنَا عَلَیْْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْْءٍ وَّہُدًی وَّرَحْمَۃً وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ‘ (النحل۱۶: ۸۹)۔ مذکورہ آیت کی تفسیرمیں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’قد بیّن لنا فی ھذا القرآن کل علم و کل شء‘ (اس قرآن میں ہمارے لیے تمام معلومات اور تمام اشیا بیان کر دی گئی ہیں)۔ ۹
قرآن کی یہ حقیقت بھی اسی بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے، ارشادہے: ’وَلَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ یَمُدُّہٗ مِنْم بَعْدِہٖ سَبْعَۃُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ‘ (لقمان ۳۱: ۲۷)۔
غور وفکر کے نتیجہ میں قرآن کے عجائب ولطائف نہ ختم ہونے کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے: ’قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیْ وَلَوْ جِءْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا‘ (الکہف ۱۸: ۱۰۹)۔ اس طرح مطالعہ قرآن کے دوران پوری سورہ پرمجموعی نظر نہایت ضروری ہے، اس لیے کہ ایک مفسر کا یہ حق بنتا ہے کہ سورہ کے مختلف اجزا کے درمیان موضوعی رشتوں پر اس وقت تک غور نہ کرے،جب تک کہ سورہ کے تمام اجزا کو شمار اور اس کے مقاصد کا تعین کر کے پوری سورہ پرپوری طرح سے غوروفکرنہ کرے ۔۱۰
مذکورہ بالا آیات سے مترشح ہوا کہ کسی بھی سورہ کے تفہیم النظم کے لیے پوری سورہ پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔
جیسے کسی مسئلہ کے سمجھنے کے لیے اس کے تمام اجزا پر تدبر وتفکرکرنا لازمی ہو تا ہے۔۱۱
آغاز کی طرف واپسی کے اصول میں مولا نا فراہی نے لکھا ہے کہ’’میں نے اللہ کی کلام کی ترتیب میں دیکھا کہ کلام ایک بات سے دوسری بات کی طرف لوٹتا ہے، ان میں ہر بات مقصود ہونے کی مستحق ہوتی ہے۔۱۲ چند مثالیں:
۱۔ ابتدا ارشاد باری ہے: ’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآءَ تُلْقُوْنَ اِلَیْْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ کَفَرُوْا بِمَا جَآءَ کُمْ مِّنَ الْحَقِّ یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِیَّاکُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ رَبِّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِہَادًا فِیْ سَبِیْلِیْ وَابْتِغَآءَ مَرْضَاتِیْ تُسِرُّوْنَ اِلَیْْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَاَنَا اَعْلَمُ بِمَآ اَخْفَیْْتُمْ وَمَآ اَعْلَنْتُمْ وَمَنْ یَّفْعَلْہُ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ‘ (الممتحنہ۶۰ :۱)۔
انتہا ارشاد ربانی ہے: ’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْْہِمْ قَدْ یَءِسُوْا مِنَ الْاٰخِرَۃِ کَمَا یَءِسَ الْکُفَّارُ مِنْ اَصْحٰبِ الْقُبُوْرِ‘ (الممتحنہ۶۰: ۱۳)۔
۲۔ ابتدا ارشاد باری ہے: ’سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ‘ (الحشر ۵۹: ۱)۔
انتہا ارشاد ربانی ہے: ’ہُوَ اللّٰہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی یُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ‘ (الحشر۵۹: ۲۴)۔
۳۔ ابتدا ارشاد ربانی ہے: ’قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ‘ (المومنون۲۳: ۱)۔
انتہا ارشاد باری ہے: ’وَقُلْ رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْْرُ الرّٰحِمِیْنَ‘ (المومنون۲۳: ۱۱۸)۔
۴۔ ابتدا ارشاد سبحانی ہے: ’قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ‘ (الاخلاص ۱۱۲: ۱ )۔
انتہا ارشاد ربانی ہے: ’وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ‘ (الاخلاص ۱۱۲: ۴)۔
قرآنی آیات کے درمیان ارتباط ومناسبت کے اعتراف کا مطلب یہ ہے کہ مختلف ،متنوع اغراض ومقاصد کے باوجود ہرسورہ ایک عام مقصد کے تحت متعین موضوعی وحدت سے مربوط ہوتی ہے،آیات قرآنی کی ترتیب کے باب میں تو اتفاق ہے کہ وہ توقیفی ہے اور سورتوں کے باب میں بھی یہی راجح ہے کہ وہ بھی توقیفی ہے،اس لحاظ سے متقدمین و متاخرین مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تفسیر القرآن بالقرآن سب سے زیادہ معتبر اور صحیح ترین طریقۂ تفسیر ہے، کیونکہ قرآن شریف میں جو بات ایک جگہ مجمل بیان ہوئی ہے، دوسری جگہ اس کی توضیح اللہ نے خود ہی کر دی، اور جو بات ایک جگہ مختصر بیان ہوئی ہے، دوسری جگہ اس کی تفصیل پیش کر دی ہے۔۱۳
اس سلسلے میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ‘ (الزمر ۳۹: ۲۳) مذکورہ آیت میں ’مُتَشَابِہًا‘ کے معنی،قرآن کے بعض حصے بعض سے مشابہ اور مثانی کے معنی ہیں کہ اس کے موضوعات کو باربار دہرایا گیا ہے،اس یہ بات نکلتی ہے کہ کل قرآن میں موضوعی وحدت ہے۔
حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے ایک سو چار کتب اتاریں ،ان کے علوم چار کتابوں توریت، انجیل،زبوراور فرقان میں جمع کیے، سمو دیے، پھر ان چاروں کتب کے علوم فرقان حمید میں یکجا کیے، پھر علوم القرآن کو مفصل سورتوں میں جمع کیا، پھر مفصل سورتوں کے علوم سورۃ الفاتحہ میں سمو دیے۔ اب جس نے اس سورہ ’’الحمد‘‘ کا علم حاصل کر لیا، گویا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ تمام کتب کے علوم حاصل کر لیے، اور جس نے اس سورہ کی تلاوت کی ،اس نے گویا توریت، انجیل، زبور و فرقان، سب کی تلاوت کی۔۱۴
علامہ حمید الدین فراہی نے بھی لکھا ہیں کہ’’سورۂ حمد‘‘ جو ایک دیباچہ کی طرح جامع ہے اور اس میں قرآن کریم کی تمام باتوں کی کلید محفوظ ہے۔۱۵ ارشاد باری ہے: ’اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ‘ (الزمر ۳۹: ۲۳)۔ مذکورہ آیت کے تحت مشابہ اور مثانی کی چند مثالیں۔
ارشاد ہے: ’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ، اِیَّاکَ نَعْبُدُ، وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ، اِہْدِنَا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ، صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ المَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَ‘ (الفاتحہ۱: ۱۔ ۷)۔ مذکورہ سورہ میں توحید کی تینوں اقسام اور جزا وسزا اور رسالت کا ثبوت موجود ہے، جیسے ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ سے توحید اسما وصفات اور’’ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ سے توحید ربوبیت ماخوذ ہو تی ہے۔ ’’مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ سے انصاف پر مبنی جزا وسزا ماخوذ ہے اور ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ سے توحید الوہیت ماخوذ ہے، اور ’’اِہْدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِیْمَ‘‘ سے رسالت کا ثبوت ملتا ہے، کیونکہ یہ راستہ ہم کو رسول ہی نے بتایا ہے۔۱۶
بعض سورتوں پر، جن میں ان کے موضوعات دہرائے گئے، معلوم ہوتا ہے کہ اسلوب وطریق سیاق کے اختلاف کے باوجود معنی و مفہوم میں یکسانیت ہے،بالفاظ دیگر ان سورتوں میں موضوعی وحدت کا اصول حاصل ہوتا ہے،مثال کے طور پرمشرکین سے اظہار براء ت کر تے ہوئے سورۂ توبہ اور سورۂ ممتحنہ، دونوں ایک ہی مفہوم سے شروع ہو رہی ہیں، ارشاد باری ہے: ’بَرَآءَ ۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی الَّذِیْنَ عٰہَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ‘ (التوبہ۹: ۱)۔ ’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآءَ تُلْقُوْنَ اِلَیْْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ کَفَرُوْا بِمَا جَآءَ کُمْ مِّنَ الْحَقِّ یُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَاِیَّاکُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ رَبِّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِہَادًا فِیْ سَبِیْلِیْ وَابْتِغَآءَ مَرْضَاتِیْ تُسِرُّوْنَ اِلَیْْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَاَنَا اَعْلَمُ بِمَآ اَخْفَیْْتُمْ وَمَآ اَعْلَنْتُمْ وَمَنْ یَّفْعَلْہُ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ‘ (الممتحنہ۶۰: ۱)۔
مذکورہ دونوں سورتوں کا خلاصہ اس سورہ: ’قُلْ یٰٓاَیُّہَا الْکٰفِرُوْنَ، لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ، وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ، وَلَآ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ، وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ، لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ‘ (الکافرون ۱۰۹: ۱۔۶) میں سمیٹ لیا گیا ہے۔
ارشاد باری ہے: ’اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ، اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ‘ (العصر ۱۰۳: ۲۔۳)۔ مذکورہ آیت نمبر۳ میں انسان کے چار اوصاف کا تذکرہ کیا گیا، یعنی ایمان باللہ، عمل صالح ،حق کی تلقین اور صبر کی تلقین۔ ان اوصاف کا بیان طویل ترین سورتوں میں ملتاہے، جیسے سورۂ بقرہ و آل عمران جو اسلام و ایمان کی تفصیلات پر مشتمل ہیں اور سورۂ بقرہ میں مفصل شریعی احکام بھی مذکور ہیں،یہ سب باتیں ’اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ‘ میں مذکور ہیں، اور سورۂ نساء میں رشتہ داروں کے حقوق کی تشریح اورعدل و انصاف کے ساتھ ان حقوق کی ادائیگی کا حکم ہے، ان سب کی تفصیلات مجمل طور پریوں ہے: ’تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ‘، اور سورۂ مائدہ میں معاملات کی حلت وحرمت کی تفصیلات ہیں، یعنی حلال کی پابندی اور حرام سے پرہیز اور حلال معاملات کو حسب معاملہ پورا کر نے سے متعلق احکام،ان سب کا خلاصہ ’تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ‘ میں بیان کیا گیا، کیونکہ حلال کی فکر اور حرام سے اجتناب صبر کا طالب ہے۔۱۷
جب تک انسان روے زمین پر موجود ہے اور قرآن کے ماننے والے موجود رہیں گے، وہ قرآن کریم کے نئے نئے مطالب ومعانی پر غورو فکر کر تے رہیں گے، جس سے علم تفسیر کے نئے نئے مناہج ومسالک سامنے آتے رہیں گے۔ اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ،تفسیر القرآن کے کئی رجحانات میں سے ایک نیا رجحان تفسیرموضوعی بھی سامنے آیا ہے،یہ طرز تفسیر نہ صرف نیا ہے، بلکہ یہ اصطلاح چودھویں صدی ہجری کی پیداوار ہے اور اس اصول پر لکھی ہوئی تفاسیرکی تعداد بہت کم ہے۔ اس طرح قرآن کریم پر تدبروتفکر کے نتیجہ میں نئے نئے اسالیب کا سامنے آنا جس کا اشارہ اس روایت میں محفوظ ہے: ’’قال ابن مسعود: من أراد علم الأولین والآخرین فلیثوّر‘‘( حضرت ابن مسعودنے فرمایا: جوشخص اولین و آخرین کے علم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہو، وہ مباحثہ کرے)۔۱۸
________
* ریسرچ اسکالر، شعبۂ دینیات،مسلم یونیورسٹی علیگڑھ، انڈیا۔
۱ القاموس الوحید ،وحید الزماں قاسمی کیرانوی۱۶۶۹۔
۲ مباحث فی العلوم القرآن ،منا ع القطان۹۷۔
۳ سراج المریدین، ا بن ا لعربی،القاضی : بحوالہ ،البرہان فی علوم القرآن ،بدر الدین زرکشی ۱/ ۳۷۔
۴ تدبر قرآن، مولاناامین احسن اصلاحی، ۱؍ن۔ و ایضا، ۷/ ۴۷۹۔
۵ البحر المحیط ،ابو حیان ۶/ ۳۵۲، نظم الدرر...، بقاعی۱۳/ ۶۷۔
۶ تفسیر عثمانی، مولانا شبیر احمد عثمانی ۴۵۰۔
۷ تدبر قرآن ، مولاناامین احسن اصلاحی ۳/ ۱۴۲۔۱۴۳۔
۸ تفسیر عثمانی، مولانا شبیر احمد عثمانی۱۹۱۔
۹ تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر۲/ ۵۸۲۔
۱۰ البناء العظیم۱۹۹۔
۱۱ الموافقات فی اصول الشریعہ، الشاطبی ۳/ ۴۱۳۔
۱۲ دلائل النظام ، علامہ حمید الدین فراہی۵۵۔
۱۳ مقدمۃ فی اصول التفسیر ،ابن تیمیہ ۱/ ۳۹۔ دلائل النظام،علامہ فراہی۱۷۔
۱۴ التفسیر الکبیر ،امام رازی۷/ ۱۲۲۔ تناسق الدررفی تناسب السور، السیوطی۶۔
۱۵ دلائل النظام ،علامہ فراہی۵۵۔
۱۶ تیسیر اللطیف المنان فی خلاصۃ تفسیر القرآن، السعدی ۱۲۔
۱۷ امعان النظر فی نظام الآی من السور، محمد عنایت اللہ سبحانی۳۱۵۔
۱۸ بحوالہ،البر ہان فی علوم القرآن، بدر الدین زرکشی۲/ ۱۵۴۔
____________